(Last Updated On: )
شاخِ دیوار پر، پھول کھلتے نہیں، پھل اُبھرتے تو ہیں
رات کی آنکھ میں، خواب جلتے نہیں، خواب مرتے تو ہیں
جانے اس موڑ پر کس نے رکھا یہ پتھر چمکتا ہوا
لوگ پہچا نے نہیں طنز کو ہاں ٹھہرتے تو ہیں
کس کو معلوم ہے کیسے پگھلے گا یہ سرد آہن بدن
گرمی ٔہوش سے حیطۂ جسم کو گرم کرتے تو ہیں
کالی زنجیر میں آگ جلنے لگی، سُرخ ہونے لگی
خود سے باہر نکلنے کی خواہش کر و غم سنورتے تو ہیں
درد کو ڈوب جانے دو کچھ دیر میں غرق ہو جائے گا
آسماں جب سمندر میں گرتے ہیں، دو پل بکھرتے تو ہیں
٭٭٭