(Last Updated On: )
غلام مُرتضیٰ راہی(فتح پور،یو پی)
شکل صحرا کی ہمیشہ جانی پہچانی رہے
میرے آگے،پیچھے،دائیں،بائیں ویرانی رہے
میں ہوں خطرے کی علامت یہ کبھی ظاہر نہ ہو
اے ندی! سر سے مِرے اونچا ترا پانی رہے
آگے آگے میں ترا پرچم لیے چلتا رہوں
ارضِ دل پر میری قائم تیری سلطانی رہے
اب تجاوُز بن گیا معمول، ورنہ مدتوں
اپنی اپنی حد میں شہری اور بیابانی رہے
نیزہ و شمشیر و خنجر کی اگر افراط ہے
خون کی میری رگوں میں بھی فراوانی رہے
روشنی کو ہو مِری،ایسا کوئی ماخذ عطا
ذرۂ ناچیز میں دن رات تابانی رہے
ساری سمتیں آکے جس مرکز پہ ہو جاتی ہیں ایک
خم اُسی جانب ہمیشہ میری پیشانی رہے
میری کشتی کو ڈبو کر چین سے بیٹھے نہ تُو
اے مِرے دریا!ہمیشہ تجھ میں طغیانی رہے
یہ اصول ایسا ہے راہیؔ،درگزر جس سے نہیں
ہم ہیں کثرت سے تو لازم ہے کہ ارزانی رہے