فلکیات میں مورخ اب آ کر ابن الہیثم کی خدمات کی اصل اہمیت جان رہے ہیں۔ پہلے صرف یہی کہا جاتا تھا کہ انہوں نے بطلیموس کے کام کو چیلنج کیا تھا۔ لیکن ان کا کام بطلیموس کے زمین کی مرکزیت کے آئیڈیا کو چیلنج کرنے کا نہیں تھا۔ بلکہ ان کے ریاضی کے ماڈل چیلنج کرنے کا تھا۔ وہ مورخین جو ذرا گہرائی میں دیکھتے ہیں، وہ ابن الہیثم کے کام سے چھپے ہیرے دیکھ رہے ہیں۔
ابن الہیثم نے فلکیات پر پچیس مقالے لکھے ہیں۔ اس میں کاسمولوجی، فلکیاتی مشاہدات اور ریاضی اور اطلاقی تکنیک کا کام ہے۔ قبلے کی سمت معلوم کرنے اور سورج گھڑی کا کام ہے۔ لیکن سب سے اہم کام فلکیاتی تھیوری کا ہے۔ یہاں پر ہمیں روایتی کام پر تنقید ملتی ہے۔ بطلیموس کی غلطیوں کی نشاندہی اور اصلاح ملتی ہے۔ اور اپنی زندگی کی آخری دہائی انہوں نے اسی کام میں لگائی۔
جس طرح الرازی نے روایتی طب کو چیلنج کیا تھا اور جالینوس کے کام میں غلطیاں اور کمزوریاں نکالی تھیں، ویسا ہی الہیثم نے بطلیموس کے ساتھ کیا۔ یہ دونوں نابغے “شک” کے ہتھیار سے مسلح تھے۔ اور یہ سائنس کے لئے انتہائی اہم ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کسی نے ان شکوک پر تنقید کی تو ابن الہیثم کا جواب تھا، “شیخ جو بیان دے رہے ہیں، اس سے ایسا لگتا ہے کہ وہ کسی چیز کو صرف اس لئے مان لیتے ہیں کہ وہ بطلیموس نے کہی۔ ہم انبیا کی بات پر تو ایمان لاتے ہیں کہ وہ خدا کی بات ہے۔ لیکن ریاضی ایمان کے سہارے نہیں کی جاتی۔ ایک متجسس اور ایک ماہر ایسے نہیں بنا جاتا۔ میں نے اس بات کو نوٹ کیا ہے کہ شیخ کو دکھ پہنچا ہے کہ بطلیموس کی نفی کیوں کی گئی۔ اور انہیں اس سے رنج ہوا ہے۔ بطلیموس غلطیوں سے ماورا ہستی نہیں۔ اور ان کے کام میں کئی غلطیاں موجود ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کی نشاندہی کروں تو میں ایسا کرنے میں خوشی محسوس کروں گا”۔
اور اس کے بعد ابن الہیثم اپنی فکری توپوں کے منہ کھول دیتے ہیں اور بطلیموس کے اہم ترین کاموں کی فہرست کو ایک ایک کر کے نشانے پر رکھ لیتے ہں۔
یہ “الشکوک البطلیموس” ہے اور ایک یادگار کام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابن الہیثم کے طریقے کے ساتھ ہر کوئی متفق نہیں تھا۔ مثال کے طور پر اندلس کے مشہور ماہرِ فلکیات ابن باجہ (جو ابن الہیثم سے ایک صدی بعد آئے) کا کہنا تھا کہ ابن الہیثم ماہر سائنسدان نہیں تھے اور بطلیموس کے کام کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔
کسی کے بھی کام میں غلطی تلاش کرنا آسان کام ہے۔ نئے علم کی تخلیق کرنا بہت مشکل۔ لیکن ابن الہیثم کا فلکیات کا کام کسی بھی معیار سے زبردست ہے۔ “سات سیاروں کی حرکت کے ماڈل” کا کام تین کتابوں پر مشتمل ہے اور یہ فلکیات کو بطلیموس کے کام سے بہت آگے لے جاتا ہے۔
ابن الہیثم کے ماڈل زمین کے مرکزیت کے ہی تھے۔ لیکن انہوں نے آپٹکس کی طرح فلکیات میں بھی ریاضی داخل کر دی تھی۔ ان کی خواہش مشاہدے کو خالص جیومٹری تک لے جانے کی تھی۔ اور ان کا دھیان اس کے میکانزم اور وجہ کی طرف نہیں تھا۔ یہ زمین کے فریم آف ریفرنس سے سیاریاتی ڈائنامکس کی تھیوری تھی۔ اس کے لئے انہوں نے نیا تصور متعارف کروایا جو کہ “درکار وقت” کا تھا۔ یعنی ایک سیارے کو آسمان پر قوس پر حرکت کرتے ہوئے کتنا وقت لگتا ہے۔ وقت کو انہوں نے محض ریاضی کا پیرامیٹر لیا ہے۔ (کوئی بھی جدید تھیورٹیکل فزسسٹ ایسا ہی کرے گا)۔ ان کی تھیوری میں وقت خالصتاً جیومیٹری کی مقدار تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...