’’کچھ بھی نہیں……صرف اتنا باور کرانا چاہتی ہوں کہ میں اسوہ ہوں، کوئی قیدی یا بے جان وجود نہیں ہوں۔ یہ زندگی میری ہے، اسے اپنی مرضی سے گزاروں گی۔ کسی کی خاطر خود کو بدل نہیں سکتی۔ آپ کو گوارا ہے تو ٹھیک ورنہ……‘‘ اس ورنہ کے آگے کیا تھا وہ یہ بھی سمجھ گیا تھا۔ دل تو چاہا کہ خوب سنادے مگر دل کسی کام کا نہیں رہا تھاجو اسے دیکھتے ہی ہر بات بھول جاتا تھا۔ اگر کچھ یاد رہتا تھا تو وہ ’’اسوہ‘‘ کا نام ہوتا تھا ۔
’’اور ہاں سالک صاحب…..میں اپنی ذات میں کسی کی مداخلت برداشت نہیں کرتی ۔ آپ پاس چوائس ہے۔ میں کبھی آپ کی مجبوری نہیں بنوں گی اور یہی خواہش میری بھی ہے کہ آپ بھی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے۔‘‘
وہ دروازے کے پاس رک کر کہتے اپنی بات کر کے کمرے سے نکل گئی تھی۔ سالک کی ذات زلزلوں کی زد میں چھوڑے ۔ وہ جانتا تھا اسوہ رویوں نے اسے محسوس کروا دیا تھاکہ نکاح کے لفظ ایک کے دل میں ایک جیسے جذبات پیدا کرنے کا سبب نہیں بنتے۔ وہ جانتا تھا کہ وہ اسے نا پسند کرتی ہے۔ اس کے طنزیہ رویے، کاٹ دار جملے اسے یہ باور کروانے کو کافی تھے مگر اس حد تک وہ اس کی ذات کی نفی کر جائے گی اسے امید نہیں تھی۔ اسوہ کے متعلق دل میں جو چند خوش فہمیاں برقرار تھیں اس گفتگو کے بعد وہ بھی اپنی موت آپ مر گئی تھیں۔ اس کے متعلق نا پسندیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔
سالک نے چچا جان سے بات کی اور انہیں اسوہ کے لاہور جا کر پڑھنے پر راضی کر لیا تھا۔ وہ شوہر تھا اسے کوئی اعتراض نہیں تھا تو بھلا وہ کیا کہتے ۔ اس کا ایڈمیشن سالک نے خود کروایا تھا ۔ ہاسٹل میں رہنے کا بھی بندوبست ہو گیا تو وہ اپنے کام کو نمٹانے میں لگ گیا۔ اسوہ لاہور چلی گئی تو وہ بھی نیو یارک آ گیا۔
سب ہی اکثر بیشتر فون کرتے رہتے تھے سوائے اسوہ کے، اسوہ کے نام کا درد اب اسے مستقل لاحق رہنے لگا تھا۔ گھر والوں سے خاص طور پر بی بی جان سے اس کی خیریت کی اطلاع ملتی رہتی تھی۔
وقت گزرنے لگا تھا ۔ اسی بھاگ دوڑ میں تین سال گزر گئے۔ پہلے سال چھٹیوں میں وہ ایک ماہ کے لئے پاکستان گیا تھا پھر دوبارہ نہیں گیا تھا ۔ اس دفعہ چھٹیاں ہوئیں تو وہ بغیر اطلاع کے پاکستان پہنچ گیا۔ اسوہ نے گریجویشن کے بعد ایک دفعہ پھر اپنی من مانی کر کے یونیورسٹی میں ایڈمیشن لے لیا تھا۔ وہ حویلی پہنچا تو سب ہی خوش ہوئے۔ اسوہ لاہور میں ہی تھی، پنجاب یونیورسٹی میں ہی پڑھتی تھی۔ گھر والوں نے اسے فون کر کے اس کی آمد کی اطلاع دے دی تھی مگر وہ سخت دل کٹھور لڑکی نہیں آئی تھی۔ ڈرائیور لینے گیا تو اس نے آنے سے انکار کر دیا اور اسے واپس بھیج دیا۔ سالک کو دکھ تو بہت ہوا مگر برداشت کر گیا۔ چچا جان کو لاہور کچھ کام تھا۔ منڈی میں فصلیں بھجوائی تھیں، باغات کی فصل بھی بھیجنی تھی۔ وہ جا رہے تھے اس نے انہیں منع کر دیا اور خود چلا آیا۔ سارا کام نمٹانے کے بعد وہ ایک ہوٹل میں بیٹھا چائے پی رہا تھا جب فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک خوش شکل وڈیسنٹ سے لڑکے کے ساتھ ایک اور لڑکی کی موجودگی میں اسوہ داخل ہوئی تھی۔ چادر ابھی بھی اس نے اوڑھی ہوئی تھی مگر وہ مسلسل کسی بات پر مسکرا رہی تھی۔ وہ تینوں چلتے ہوئے اس کے عقب میں رکھی ٹیبل پر آ بیٹھے تھے۔
’’اسوہ ، دیکھ لو……یہ عالی کسی دن ضرور مجھ سے پٹے گا۔‘‘ وہ دم سادھے سانس روکے بیٹھا ہوا تھا جب دوسری لڑکی کی آواز سنائی دی تھی۔ اسوہ نے اسے بالکل نہیں دیکھا تھا۔ کیونکہ اس کی کرسی کی پشت سالک کی پشت کی طرف تھی۔
’’عالی! مت تنگ کرو نا اسے…….‘‘ یہ اسوہ کی آواز تھی جو وہ لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔
’’مادام ! ہم آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہے……آپ کے لئے ہمارے دل میں جو محبت ہے یہ محترمہ اس سے جیلسی فیل کر رہی ہیں۔‘‘ یہ اس لڑکے کی آواز تھی جواباً اسوہ کی ہنسی سنائی دی تھی۔
’’تم بھی بس نا۔‘‘
’’کیوں؟ محترمہ کہکشاں صاحبہ! غلط کہہ رہا ہوں میں کیا میں محبت نہیں کرتا اسوہ سے، کر سکتی ہو تم مجھے چیلنج ۔‘ ‘ وہ دوسری لڑکی سے مخاطب تھا۔ سالک کے لئے برداشت مشکل ہو رہی تھی۔
اسے لگ رہا تھا کہ اگر اس لڑکے نے مزید کچھ اور بکواس کی تو وہ اس کا گریبان پکڑ لے گا۔ مگر وہ بڑی مشکل سے خود پر کنٹرول کر رہا تھا۔
’’ہاں ……ہاں میں سمجھتی ہوں تمہیں بھی ، اور تمہاری اس مادام کو بھی۔ دیکھ لینا تم دونوں ، کیدو کا کردار ادا نہ کیا تو کہنا…….بڑے آئے محبت کرنے والے دو آفاقی دل۔‘‘ وہ لڑکی لڑ رہی تھی۔
’’ہا ہا ہا ……‘‘ لڑکے کے قہقہے بے اختیار تھے جن میں اسوہ کو ہنسی بھی صاف سنائی دی تھی۔
’’ہاں کرتے ہیں ہم محبت ……اسوہ وہ گانا کیا ہے، ہاں یاد آیا……. اگر دو دل مل جاتے تو بگڑتا کیا زمانے کا …….اگر دو دل …….‘‘ سالک کے لئے اب یہ سب برداشت کرنا ممکن نہیں تھا مگر اس وقت سوچنے سمجھنے کی ساری صلاحیتیں مفقود ہوتی جا رہی تھیں۔ کھڑے ہو کر اس نے اپنا رخ اس ٹیبل کی طرف کیا تھا۔
’’ویٹر……‘‘ ویٹر جو اس ٹیبل پر کھانا سرو کر رہا تھا جب اس نے پکار لیا تھا ۔ اس کی آواز تھی یا یوں ہی اسوہ نے پلٹ کر اسے دیکھا تھا ۔ وہ آنکھوں میں نفرت ہی نفرت لئے دیکھ رہا تھا۔ نظریں گھور رہی تھیں۔ ویٹر فوراً اس کی طرف آیا تھا۔
’’یہ بل اٹھا لینا ۔‘‘ ویٹر کو کہہ کر ایک آخری حقارت بھری نظر اسوہ پر ڈال کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا باہر نکل گیا تھا اسوہ جو صورتحال سمجھ بھی نہیں سکی تھی اسی رخ بیٹھی رہ گئی۔
’’ہیلو…..مادام ……تمہیں کیا ہو گیا ……کوئی سانپ سونگھ گیا ہے یا کوئی جن ون دیکھ لیا ہے ۔ میرا خیال ہے جن ہی دیکھ لیا ہے۔ پلیز اسوہ ڈیئر سسٹر ! مجھے بھی تو جن دکھائو ۔ رئیلی میں نے پہلے کبھی جن نہیں دیکھا۔‘‘ وہ سیدھی ہو گئی تھی۔ مسلسل ذہنی روبہکی ہوئی تھی۔ جبکہ عالی مسلسل بکواس کر رہا تھا۔
’’یہ یہاں کیا کر رہے تھے۔ ‘‘ وہ ایک ہی سمت سوچ رہی تھی۔ اگر دیکھ ہی لیا تھا تو مل بھی لیتے۔ مگر خیر…..مجھے کیا؟ میں کونسا انہیں پسند ہوں اوپر سے اس قدر آزادانہ ماحول میں عالی اور کہکشاں کے ساتھ دیکھ کر جل بھن ہی گئے ہوں گے۔‘‘ وہ بہت منفی ہو کر سوچ رہی تھی۔
X X X
کل سے لے کر بابا جانی کے کئی فون آ چکے تھے کہ وہ کب آ رہی ہے۔ ڈرائیور انہوں نے کل ہی بھیج دیا تھا۔ اس کی اہم اسائنمنٹ تھی اگر فکر نہ ہوتی تو فوراً چلی جاتی اور اسائنمنٹ جن پروفیسر صاحب کی تھی وہ تو بے عزتی کرنے میں ماہر تھے۔ وہ صرف اسائنمنٹ جمع کروانے کو رکی ہوئی تھی۔ پروفیسر صاحب کا چوتھا پیریڈ تھا اسائنمنٹ جمع کروا کے وہ فوراً گاڑی میں آ بیٹھی تھی۔ ویسے تو ایک گاڑی بمعہ ڈرائیور ہر وقت اس کے ساتھ ہوتی تھی مگر جب کبھی گائوں سے اسپیشل بلاوا آ تا تھا تو گاڑی بھی اسپیشل ہی آتی تھی۔
گائوں پہنچی تو بی بی جان اور امی جان سب ہی خوش ہوئے البتہ بابا سرد سے انداز میں ملے تھے۔ سالک کہیں دکھائی نہ دیا۔ سارا دن سکون سے گزرا تھا مگر رات بابا جان نے اسے جو حکم سنایا وہ ساکت سی رہ گئی۔
’’اب تم لاہور نہیںجائو گی۔ میں نے تمہاری رخصتی کی تاریخ فکس کر دی ہے۔ سالک بہت کم چھٹیوں پر آیا ہے۔ اسے واپس بھی جانا ہے۔ میں اب اس ذمے داری سے سبکدوش ہونا چاہتا ہوں۔‘‘ کھانے کی ٹیبل پر سب ہی تھے سالک بھی تھا۔ بڑے سرد سے انداز میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس انکشاف پر بھی اس نے سر نہیں اٹھایا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہ پہلے سے باخبر جبکہ چچی جان اور بی بی جان دونوں حیران ہوئی تھیں۔
’’مگر بابا جانی! میرا لاسٹ ائیر ہے۔ میں کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ ایک ہفتے بعد میرے سمسٹرز ٹیسٹ ہونے والے ہیں۔‘‘ سالک اب بھی چپ تھا جیسے چپ شاہ کا روزہ رکھا ہو۔ بی بی بھی کچھ الجھ گئی تھیں۔ نہ کوئی مشورہ نہ کوئی صلاح ایک دم یہ فیصلہ اوپر سے سالک کی خاموشی۔
’’بس……بہت کر لی پڑھائی تم نے۔ منتہیٰ کو میں نے فون کر دیا ہے وہ کل پہنچ جائے گی۔ آپ سب خواتین ملکر شادی کی تیاری آسانی سے کر لیجئے گا۔‘‘ اب ان کا اشارہ راضیہ اور بی بی جان کی طرف تھا۔
’’مگر اتنی جلدی……ابھی سالک ماشا اللہ پڑھ رہا ہے۔ اسوہ بھی الجھی ہوئی ہے۔ بعد میں سہولت سے کام ہو جائے گا۔‘‘ بی بی جان نے کہا تھا۔
’’نہیں بھابی بیگم ! جب سہولت سے کام ہو گا……یہ لڑکی ہماری عزت کو بٹہ لگا چکی ہو گی۔ میں کچھ نہیں دیکھوںگا۔ بہت کر لی اس نے اپنی من مانی اب صرف رخصتی ہو گی۔‘‘
’’مگر ……بابا جانی…….‘‘ بابا جان نے کچھ بھی نہ کہتے ہوئے اسے بیچ چوراہے پر لاکھڑا کر دیا تھا۔اور سالک ، اس کی نظریں بے اختیار اس پر اٹھ گئیں ۔ چند دن پہلے اسے جو نظریں دکھائی دی تھیں اب بھی وہی نظریں تھیں وہ تب سمجھ نہیں سکی تھی مگر اب سالک کی آنکھوں میں واضح لکھا شک اسے اپنی موت آپ مار گیا تھا۔
’’نہیں ……بابا جانی نہیں …..‘‘ وہ اپنی بے گناہی میں کچھ بھی نہیں کہہ سکی تھی۔ انتہائی بے اعتباری سے سب کو دیکھے گی۔ کیسے یقین کر لے، یہ جو اتنے پیارے رشتے تھے، جن کے بارے میں اسے یقین تھا کہ وہ اس پر انگلی نہیں اٹھا سکیں گے وہ اس کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے اور یہ شک کی مار اتنی اذیت ناک تھی کہ اپنے اپنا جسم نیل و نہل ہوتا محسوس ہوا۔ دل تو چاہا کہ چیخ چیخ کر کہے وہ سب غلط ہیں۔ ان کی سوچیں غلط ہیں، وہ بالکل بے گناہ ہے۔ وہ شخص جسے اس کے ساتھ منسوب کیا جا رہا ہے وہ تو اسے بھائیوں کی طرح عزیز ہے۔ مگر وہ ایک لفظ بھی زبان سے نہ نکال سکی۔ صرف نفی میں سر ہلاتی بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی تھی۔
احتجاج ، جھگڑا بھوک اپنا ہر حربہ اس نے استعمال کر دیکھا تھا مگر بابا جان کا فیصلہ نہیں بدلا تھا۔ وہ یوں بے موت نہیں مرنا چاہتی تھی۔ جھولی تو اس کی پہلے ہی خالی تھی ، کاسہ دل میں ایک پھوٹی کوڑی بھی نہ تھی مگر وہ جسمانی طور پر بھی خالی ہونے کو تیار نہیں تھی۔ خاص طور پر سالک کے نام پر تو کبھی بھی نہیں۔ سالک کے نام سے اسے ایک نفرت سی محسوس ہونے لگتی تھی کجا کہ ساری زندگی۔
’’بی بی جان ! آپ بابا جانی کو سمجھائیں…..میں مر جائوں گی۔ یوںنہیں کریں۔‘‘ اس دن بی بی جان اس کے کمرے میں آئیں تو وہ ان کے پائوں پڑ گئی۔ بی بی جان ایک دم تڑپ اٹھی تھیں۔ یہ نازوں پلی لڑکی انہیں بہت عزیز تھی اس کا یوں تڑپنا ، رونا دیکھا نہیں جا رہا تھا۔ ایک دم اسے اٹھا کر سینے سے لگایا۔
’’اللہ نہ کرے ، مریں تمہارے دشمن ۔ صرف شادی ہی تو ہو رہی ہے تمہاری ۔‘‘ انہوں نے اس کے لمبے سیاہ بکھرے بال کانوں کے پیچھے اڑ سے ہوئے تھے۔
’’بی بی جان نہیں ……میں مر جائوں گی ۔ سچی میں مر جائوں گی۔ میں نے جیسے تیسے اس نکاح کو قبول کر لیا تھا مگر یہ شادی …….بی بی جان! مجھے صرف پڑھنا ہے۔‘‘
’’ادھر بیٹھو ……یہ پانی پیو۔‘‘ انہوں نے اسے بستر پر بٹھایا تھا۔ پانی پلایا تو اسوہ کو کچھ سکون ملا۔‘‘ وہ لڑکا کون تھا؟‘‘ بی بی جان نے پوچھا تھا ۔ وہ ساکت رہ گئی۔
’’بی بی جان آپ بھی ۔‘‘ وہ یقین کرنے کو تیار نہ تھی، بی بی جان نظریں پھیر گئیں۔
’’کیوں بتائوں کون تھا وہ لڑکا؟ کوئی بھی ہو …..مگر آپ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں۔ آپ اسے جو بھی معنی پہنائیں مجھے غرض نہیں۔‘‘ وہ ایک دم طیش میں آ کر کہتی گئی تھی۔ اس وقت اپنا کوئی ہوش نہیں رہا تھا۔
’’جائیں ……آپ یہاں سے ……مجھے پیدا کرنے والے، مجھے نہ سمجھ سکے، آپ تو پھر اس شخص کی ماں ہیں جس نے مجھے دیکھا تھا ایک غیر مرد کے ساتھ۔ جائیں یہاں سے پلیز چلی جائیں میری نظروں کے سامنے سے……ورنہ میں کچھ کر بیٹھوں گی۔‘‘ وہ اپنے ہوش و حواس کھونے لگی تھی۔ ایک دم چیختے ہوئے کہہ رہی تھی۔ بی بی جان ڈر گئیں۔ فوراً باہر نکل گئیں۔
وہ سالک سے ایک دفعہ ملنا چاہتی تھی۔ اس سے اپنا قصور پوچھنا چاہتی تھی۔ پوچھنا چاہتی تھی کہ اگر اس حد تک نفرت کرتا تھا تو درمیان میں یہ تعلق نہ بناتا۔ نجانے کہاں ہوتا تھا، کسی کو کچھ علم بھی نہیں تھا۔ وہ رات دیر تک انتظار کرتی رہی آخر کار وہ گھر آ ہی گیا ۔ وہ کمرے سے باہر نکل آئی ، وہ اوپر جا رہا تھا۔ کچھ دیر کھڑی رہی پھر سوچ کر آگے قدم بڑھائے ۔ دروازہ کھلا ہوا تھا وہ اندر داخل ہو گئی ۔ وہ صوفے پر بیٹھا پانی پی رہا تھا۔ اسے دیکھ کر ٹھٹکا۔
’’تم اس وقت……‘‘ رات کے دو بج رہے تھے۔ اور وہ اس کے کمرے میں بلا جھجک آ گئی تھی۔
اب کی دفعہ اسے اس کی یہ حرکت ہمیشہ سے زیادہ بری لگی۔
’’ہاں میں …….میں کوئی وضاحت پیش کرنے نہیں آئی اور نہ ہی تم سے کوئی بھیگ مانگنے آئی ہوں۔ بس اپنا حق مانگتی ہوں ۔ مجھے طلاق چاہئے ۔ صرف اور صرف طلاق……‘‘
’’چٹاخ …..‘ اس سے پہلے کہ اس کا لفظ مکمل ہوتا سالک کا ہاتھ اس کے رخسار پر اپنے نشان چھوڑ گیا تھا۔ وہ نازوں پلی لڑکی تھی۔ ذرا سے درد پر ساری رات بے چین رہتی تھی۔ اب سسک اٹھی۔
’’بکواس نہیں کرو۔ میں نے ہمیشہ تمہاری بد تمیزیوں کو نظر انداز کیا ہے۔ تمہاری ہر بکواس کو چپ ہو کے سنا ہے۔ اب نہیں۔‘‘ وہ پہلی دفعہ اپنے غصے کا اظہار کر رہا تھا۔ وہ رخسار پر ہاتھ رکھے اسے دیکھے گئی۔ نہ ہی کوئی آنسو بہا اور نہ ہی درد جاگا ۔ بس ایک سسکی خارج ہوئی تھی پھر لب دانتوں تلے دبا لئے تھے۔ اتنی سختی سے کہ خون نکلنے لگا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...