شام میں وہ تینوں پارک میں موجود تھے اس نے یہ بات ثنا اور اس سے ڈسکس کی تو وہ بولا
” تمہارے مسبینڈ کا کہیں تم سے دل تو نہیں بھر گیا” اور ہنسا
” وہ ایسے نہیں ہیں ”
” سب ایسے ہی ہوتے ہیں اور ویسے بھی ان کے سرکل میں بہت سی خوبصورت گرلز ہوں گی آخر کو اتنا بڑا بزنس مین ہے ” اس نے روشانے کے دل میں شک کا بیج بونا شروع کر دیا تھا
” جو تمہیں دن میں سو بار یاد کرتا تھا اس نے تمہیں اتنے دن نہ پوچھا
” کوئی سولڈ ریزن تو ہو گا نا یار”
” نہیں ایسی بات نہیں ہو سکتی مجھے لگتا ہے کہ انہیں اس جھوٹ کا پتا چل گہا ہے” روشانے سوچ کے بولی
” یار انہیں کیسے پتا لے گا جب تک ہم نہ بتائیں ” ثنا نے کہا تو روشانے نے سر ہلایا اور سوچ میں پڑ گئی وہ اس کو دیکھتا ہوا دل ہی دل میں اپنی کامیابی پہ خوش ہو رہا تھا
اب ایسا اکثر ہونے لگا اور روشانے کو بھی یقین ہونے لگا کہ وہ اب کہیں اور انٹرسٹڈ ہے روشانے نے دوبارہ وجدان کو فون نہ کیا روشانے اس کی خاموشی کو کچھ اور رنگ دینے لگی تھی۔
وہ اپنا بولا گیا جھوٹ بھول چکی تھی اور جھوٹ کو بھلانے میں سب سے بڑا ہاتھ اس لڑکے کا تھا۔
***********
اس نے کافی ساری پکس کھینچی تھیں روشانے اور اپنی اور کچھ ایڈیٹنگ کردی تھی بس اب اسے صحیح وقت کا انتظار تھا۔
************
” سب ٹھیک تو ہے نا بیٹا وجدان اور تم میں” وہ گھر آئی تو ماما نے پوچھا
” کیوں کیا ہوا ماما ”
” کیونکہ اس نے اتنے دن سے وہ آیا نہیں ہے ایک ماہ ہو گیا ہے اسے تمہاری فون پہ بات تو ہوتی ہے نا اس سے تو پوچھنا ”
” ماما ان کے پاس میرے لیے ٹائم نہیں ہے اب ان کی اپنی مصروفیات ہیں مجھے کیوں پوچھیں گے” وہ تلخی سے بولی تو ماما چونکی
” ایسے نہیں بولتے بیٹا وہ بزی ہو گا تم خود فون کر لینا اسے” وہ اب انہیں کیا بتاتی بس جی کر کے اپنے کمرے میں آگئی اور کمرہ بند کر کے وہی بیٹھ گئی آنسو ٹوٹ ٹوٹ کے اس کی گود میں گرنے لگے
” تم دھوکے باز ہو وجدان میں نے تو پوری سچائی کے ساتھ یہ رشتہ جوڑا تھا پر تم نے۔۔۔۔۔۔” اور رو دی۔
**********
وہ لیٹا ہوا تھا اس کے اندر کا حبس بڑھنے لگا تو وہ اٹھ کے بالکنی پہ آگیا کہ پھر سے اس نمبر سے کال آئی اس نے کال ریسیو کی
” وجدان ”
” کیوں فون کیا ہے ”
” بس اتنا بتانے کے لیے کہ کچھ تصویریں بھیج رہا ہوں تمہیں تمہارے آفس ایڈریس پہ اہم ہیں دیکھ لینا اور ہاں پلیز روشانے کو مجھے دے دو واپس وہ جیسی بھی ہے میں گزارہ کر لوں گا تم۔۔۔۔۔”
” یو جسٹ شٹ یور ماؤتھ دفع ہو جاؤ آئندہ مجھے فون کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور رہی روشانے تو اسے میں خود دیکھ لوں گا” اس نے غصے میں کہہ کر موبائل دیوار پہ دے مارا۔
**********
وہ آفس روم میں پہنچا ٹیبل پہ ایک پیکٹ پڑا تھا اس نے وہ پیکٹ اٹھایا
” نبیل میرے آفس میں آؤ” اس نے نبیل کو فون کر کے بلایا وہ فوراً آیا
” جی سر”
” یہ پیکٹ یہاں کس نے رکھا ہے ”
” سر ایک بچہ آیا تھا وہ یہ دے کر گیا ہے آپ کا نام لکھا تھا تو میں نے یہاں رکھ دیا”
” اوکے تم جا سکتے ہو” اس کے جانے کے بعد وہ پیکٹ کی طرف متوجہ ہوا دھڑکتے دل کے ساتھ وہ کھولا اس میں کچھ تصاویر تھیں ایک کے بعد ایک وہ دیکھتا گیا اور غصہ اس کی آنکھوں میں بھرنے لگا دکھ،تکلیف،غصہ، کیا نہیں تھا اس کی آنکھوں میں اذیت سی اذیت تھی اسے گزرے ہوئے وہ دن یاد آئے جب روشانے اس کے ساتھ تھی اس ہنسی اس کی مسکراہٹ سب ایک ڈھونگ لگ رہا تھا اسے اس نے وہ ساری تصویریں پھینک دیں اور وہیں زمین پہ بیٹھ گیا
” روشانے کیوں کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا میں نے تم سے پاکیزہ محبت کی تھی ایک پاکیزہ بندھن باندھا تھا تمہارے ساتھ پھر کیوں۔۔۔۔۔ کیوں روشانے” اس نے ہاتھوں میں اپنا سر رکھ دیا آنکھوں کے گوشے گیلے ہونے لگے تھے
” میں اتنا بے بس ہو گیا ہوں روشانے کہ اتنا سب ہونے کے باوجود بھی میں تم سے نفرت نہیں کر پارہا کیونکہ تمہاری محبت میری رگوں میں خون کی طرح گردش کرتی ہے”
” کاش روشانے تم ایسی نہ ہوتی تم بس میری روشانے ہوتیں صرف میری”
وہ یوں ہی بیٹھا تھا کہ اس کا موبائل بجا وہی نمبر تھا اس نے کال ریسیو کی۔
” اب کیا رہتا ہے جو تم مجھے دکھانا چاہتے ہو بتاؤ اب اور بھی کچھ ہے جو تم مجھے دکھانا چاہتے ہو ”
” ابھی تو نہیں پر بہت جلد امید ہے عہ پرسل مل گیا ہوگا اللٰہ حافظ” کہہ کے اس نے فون رکھ دیا وہ کتنی ہی دیر یوں ہی بیٹھا رہا۔
***********
روشانے اب بہت گم سم رہنے لگی تھی ماما بابا کو اس کی فکر لگی رہتی تھی دو تین بار انہوں نے وجدان سے بات کرنے کی کوشش کی مگر وہ کچھ نہ بولا دوسری طرف وجدان کے پیرنٹس بھی فکرمند تھے
انہی دنوں ایک دن ثنا کا فون آیا
” ہیلو روشانے۔۔۔ آج رالف (وہی لڑکا جو باہر سے آیا تھا) کی برتھ ڈے ہے تو اس نے ہمیں اپنے ہوٹل میں بلایا ہے جہاں وہ ٹہرا ہے ”
” میں نہیں جا رہی ”
” اوہ کم آن یار آجاؤ نہ وہ ویسے بھی کل پرسوں چلا جائے گا” بہت منتوں کے بعد وہ مانی۔
” اوکے بٹ اسے کوئی اور جگہ نہیں ملی سلیبریٹ کربے کی آکورڈ لگتا ہے”
” کیا آکورڈ لگتا ہے بس چلیں گے ہم ” کہہ کے اس نے فون رکھ دیا۔ رالف روشانے کے مائنڈ کو اپنے مطابق سیٹ کر چکا تھا وہ کافی حد تک وجدان سے متنفر تھی۔
اگلے دن وہ رالف کی طرف جا رہی تھیں دوسری طرف رالف نے وجدان کو فون کر کے اسے اپنے ہوٹل بلایا اسے جلد سے جلد سب وائنڈ اپ کرنا تھا اسے یہ تو پتا چل گیا تھا کہ وجدان اسے طلاق نہیں دے گا اور نہ روشانے اس سے الگ ہو گی اپنی ہار اسے برداشت نہ تھی اس لیے اس نے طے کیا کہ وہ اگر اس کی نہیں ہو گی تو کسی کی نہیں ہوگی۔
***********
جینی کسی کام سے روشنی کے کمرے میں آئی تو دیکھا روشانے اپنی الماری پھیلائے بیٹھی تھی اور ایک ایک چیز کو سیٹ کر کے رکھ رہی تھی
” کیا ہو رہا ہے سویٹی” جینی نے کہا تو روشانے مسکرائی
” یار اپنا سامان سیٹ کر رہی ہوں ”
” میں ہیلپ کرواؤں ”
نہیں تھینک یو تم بیٹھو ” اس نے بیڈ پہ سے کاغذات سائڈ میں کیے اور اسے بیٹھنے کو جگہ دی
” کیا سوچا تم نے پاکستان جانے کے بارے میں ”
روشانے کا کام کرتا ہاتھ رکا ” کیا سوچنا ہے کچھ نہیں ”
” روشنی ایسے زندگی کیسے گزرے گی تم نکاح شدہ ہو بجائے اپنے مسئلے کو سلجھانے کے اسے طول دے رہی ہو ”
” جینی پلیز۔۔۔۔۔ ” وہ اس کے پاس پڑے کاغذات اٹھانے لگی تو بے دھیانی میں اس ہاتھ سے کچھ کاغذات گرے جینی نے بیٹھے بیٹھے وہ کاغذ اٹھائے اور دیکھنے لگی وہ اس کا برتھ سارٹیفیکیٹ تھا وہ دیکھ کے شاکڈ رہ گئی
“روشانے آفندی” روشانے ایک دم پلٹی
” تمہارا نام روشانے آفندی ہے؟؟؟ پر تم نے تو کہا تھا کہ تمہارا نام روشنی ہے” وہ شاکڈ تھی۔
روشانے اور ثنا رالف کے ہوٹل پہنچیں جہاں وہ ٹہرا ہوا تھا رالف نے دروازہ کھولا اور وہ اندر داخل ہوئیں۔
” ہیپی برتھ ڈے رالف ” دونوں نے اسے وش کیا تو ہنسا
” تھینک یو اینڈ تھینکس اگین یہاں آنے کے لیے”
” اٹس اوکے یہ تو فرض تھا ہمارا کیونکہ تم دوست ہو ہمارے” ثنا خوشدلی سے بولی
” آؤ بیٹھو نا ”
نہیں ہم چلتے ہیں اب چلو ثنا” روشانے تھوڑا گھبرا بھی رہی تھی وہ یوں کسی کے ہوٹل روم میں نہیں آئی تھی
” یہ کیا بات ہوئی ایسے کیسے جا سکتی ہو تم لوگ میں نہیں جانے دوں گا” رالف نے انہیں روکا تو وہ بیٹھ گئیں
” آؤ کیک کاٹتے ہیں ” ثنا بولی تو رالف بولا
” اوہ ہو یار میں کیک لانا تو بھول ہی گیا رکو لاتا ہوں میں یہاں پاس میں ایک شاپ ہے”
” نہیں تمہارا کیک میں لاؤں گی” ثنا بولی اور اٹھ کر جانے لگی
” پر ۔۔۔تم کیوں ”
” کیونکہ ہم دوست ہیں ” اور جانے لگی رالف خوش تھا سب اس کے پلان کے مطابق ہو رہا تھا
” میں بھی چلتی ہوں تمہارے ساتھ” روشانے گھبرا رہی تھی
” ارے یہیں پاس میں شاپ ہے میں آتی ہوں تم بیٹھو ” اس روشانے کو بٹھایا اور خود چلی گئی دروازہ رالف نے جان بوجھ کے کھلا چھوڑ دیا
” یو اوکے” رالف نے پوچھا
” ہممم۔۔۔ ”
” کافی” اس نے کافی کا مگ آگے بڑھایا اور جیسے ہی وہ پکڑنے لگی کافی کا کپ روشانے کے ہاتھ پہ گر گیا یہ سب اتنی جلدی ہوا کہ روشانے سمجھ ہی نہیں پائی رالف اٹھ کے اس کے پاس آیا اور اس کا ہاتھ پکڑا ٹھیک اسی وقت وجدان وہاں پہنچا اور یہ سب دیکھ کے اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا وہ آگے بڑھا اور دھکا دے کر رالف لو دور کیا اور روشانے کو کھینچ کے تھپڑ مارا
” تو یہ ہے تمہاری نئی مصروفیات ” وہ روشانے سے بولا
” وجدان ”
” چپ۔۔۔۔ جو سننا تھا سن لیا جو دیکھنا تھا دیکھ چکا ہوں اور ابھی بھی تم میں اتنی ہمت ہے کہ تم میرے سامنے یوں کھڑی ہو ویسے اس سے پہلے اور کتنوں کے ہوٹل میں یوں جا چکی ہو تم ”
رالف آگے بڑھا ” یوں مسٹر زبان سنبھال کے بات کریں ”
” تم چپ رہو میں اپنی بیوی سے بات کررہا ہوں ” وجدان نے اسے باور کروایا
” اور تم۔۔۔ روشانے کیا سمجھا تھا میں تمہیں اور کیا نکلیں تم ” روشانے سکتے کے عالم میں سن کھڑی تھی کیا وجدان بھی اس کے لیے ایسا کہہ سکتا تھا؟؟؟ کیا اس کا وجدان اس پہ شک کر سکتا تھا؟؟؟
” تم فریب ہو تمہاری محبت فریب ہے تمہاری ہر بات فریب ہے نہیں پتا تھا کہ میری بیوی بھی بد کردار عورتوں میں شامل ہے جسے میں نے بہت چاہا تھا جو میری زندگی تھی”
“بس۔۔۔ وجدان بس دھوکا میں نے دیا یا تم نے فریب میں ہوں یا تم وجدان حیدر میں نے نہیں تم نے مجھے دھوکا دیا اسے بھلا دیا جس سے تم نے نکاح کیا تھا اب مجھ سے پیچھا چھڑوانے کے لیے مجھ پہ الزام لگا رہے ہو” روشانے چیخ کر بولی ” دھوکے باز میں نہیں تم ہو وجدان تم”
وجدان تلخی سے ہنسا ” افسوس روشانے تم میری محبت کبھی سمجھ ہی نہیں پائیں ”
” ہونہہ محبت” کہہ کر روشانے نے منہ پھیر لیا آنسو تواتر سے اس کی زانکھوں سے گر رہے تھے وجدان نے اسے بازؤوں سے تھاما اور اس کی آنکھوں میں دیکھا
” پتا ہے اب میں تم سے کتنی نفرت کرتا ہوں نفرت کرتا ہوں میں تم سے روشانے ” روشانے کے آنسو ایک بار پھر بہنے لگے اس نے وجدان کی آنکھوں میں بے یقینی سے دیکھا۔
” اون ہوں ۔۔۔ اب ان کا اثر نہیں ہو گا مجھ پہ۔۔۔ تمہیں پتا ہے جب تم مجھے پہلی بار ملی تھیں تب ان آنکھوں سے محبت ہوئی تھی مجھے اور اب جب تم مجھ سے جدا ہو رہی ہو تو اب ان آنکھوں سے نفرت محسوس ہو رہی ہے ”
اس نے ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا
” چلی جاؤ ایسے سنسان جزیرے پہ جہاں تمہارے علاوہ کوئی نہ ہو جہاں وجدان حیدر نہ ہو جہاں سے روشانے وجدان حیدر مجھے کبھی یاد نہ آئے چلی جاؤ دور چلی جاؤ مجھ سے بہت دور ” اور کہتے ساتھ وہ رکا نہیں روشانے وہیں بیٹھتی چلی گئی اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی اتنے میں ثنا آئی تو روشانے کو روتا پایا
” رالف کیا ہوا ہے یہاں اور وجدان بھائی اتنی غصے میں کیوں نکلے ہیں یہاں سے روشانے روشانے کیا ہوا ہے رو کیوں رہی ہو”
” سب ختم ہو گیا ثنا سب ” وہ روتے روتے بولی
” رالف تم ٹھیک کہتے تھے مجھے چھوڑنا اس کے لیے آسان بات ہے ”
” میں ان کی نظروں میں میں ایک بدکردار لڑکی ہوں مجھے چھوڑنے کے لیے اتنا رکیک الزام لگایا انہوں نے مجھ پر کبھی معاف نہیں کروں گی میں کبھی نہیں” اور اس کے بعد وہ اتنا روئی کے اسے سنبھلنا مشکل ہو گیا۔
********
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...