وہ بہت تیزی سے گاڑی چلاتے ہوۓ گھر آیا تھا کیونکہ چاچو گھر پر نہیں تھے اور شہرذاد گھر پر اکیلی تھی۔ وہ طوفانی باریشوں سے ڈرتی تھی اور اسے بس اسی کی فکر تھی۔ اسی لۓ وہ اتنی بارش کے باوجود فل اسپیڈ میں گاڑی چلا رہا تھا حلانکہ یہ اسکے لۓ خطرناک بھی ہوسکتا تھا لیکن وہ صیح سلامت گھر پہنچ گیا۔ گاڑی پورچ میں چھوڑ کر وہ گھر میں داخل ہوا۔ پورا گھر اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ غالباً بجلی گٸ ہوٸ تھی اور کسی نے جنریٹر بھی آن نہیں کیا تھا۔ اس نے جیب سے موباٸل نکالا تاکہ ٹارچ آن کرسکے لیکن۔۔۔۔۔موباٸل کی بیٹری ختم ہو چکی تھی۔
”اوہ شٹ۔۔۔۔۔“اس نے غصے سے موباٸل جیب میں ڈالا اور اندھیرے میں ہی سنبھل سنبھل کر قدم اٹھاتے ہوۓ لاٶنج تک آیا
”شہی۔۔۔۔۔شہی تم کہاں ہو۔۔۔۔شہی“ اس نے شہرذاد کو آواز دی لیکن بادلوں کی خوفناک گرج میں اسکی آواز کہیں گم ہو جاتی تھی۔ لاٶنج کے ایک ساٸیڈ کی دیوار شیشے کی تھی جس سے لان کا خوبصورت منظر دکھاٸ دیتا تھا لیکن اس وقت باہر کا منظر خوفناک لگ رہا تھا۔
”شہی۔۔۔۔۔پلیز مجھے بتاٶ تم کہاں ہو“ باہر جب بھی بجلی کڑکتی اندر لاٶنج کا منظر ایک لمحے کے لۓ روشن ہو جاتا۔ اور اس وقت تو اور بھی زیادہ خوفناک لگنے لگتا
”کوٸ جنریٹر چلاٶ یار۔۔۔۔۔شہی جواب دو مجھے تم کہاں ہو“ وہ چیخا کہ اگر آس پاس کوٸ ملازم ہو تو وہ اسکی آواز سن کر جرنیٹر آن کردے مگر کوٸ ہوتا تب ناں
بجلی دوبارہ کڑکی پورے لاٶنج ایک لمحے کو گلابی روشنی میں نہا گیا۔ اس ایک لمحے میں شہریار نے دیکھا کہ اوپر جاتی سیڑھیوں کے برابر میں ایک وجود گھٹری کی صورت میں دیوار سے چپکا بیٹھا تھا۔ شہریار ایک لمحے کی بھی تاخیر کۓ بغیر اس تک پہنچا۔ اندھیرے میں وہ اسے صیح سے دیکھ نہیں پارہا تھا۔ بارش کا شور اور اس پر سے بار بار چمکتی بجلی نے ماحول کو ہیبت ناک بنادیا تھا۔ اس بار بجلی کافی زور سے چمکی اور اسکی روشنی میں وہ شہریار کو واضح نظر آٸ۔ وہ دونوں گھٹنوں کو اپنے بازوٶں کے گھیرے میں لۓ ان پر اپنا چہرہ چھپاۓ بیٹھی تھی۔وہ اسکے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھا
”شہی تم ٹھیک ہو“ اس نے شہرذاد کا کندھا ہلایا تو وہ چیخ اٹھی اور خوفزدہ نظروں سے اسے دیکھنے لگی
”شہی میں ہوں شہریار “ شہریار نے اسکا گال تھپتھپایا، بجلی پھر چمکی اور دونوں کی روشن کرگٸ۔ آسمان پر جیسے دھماکہ ہوا تھا۔ بادل گرجنے کی آواز پر ایک بار پھر شہرذاد چیخی۔ اور دونوں ہاتھ کان پر رکھ لۓ
”پلیز ہوش کرو شہی کچھ بھی نہیں ہوا ہے“ وہ اے جھنجھوڑتے ہوۓ بولا تو وہ روتے ہوۓ اسکے گلے لگ گٸ۔
”ہمیں چھوڑ کہ مت جاۓ گی شیری۔۔۔۔۔ہم سے غلطی ہو گٸ ،پلیز۔۔۔۔۔ہمیں اکیلے مت چھوڑی گا“ پتہ نہیں وہ کیا کیا بولے جارہی تھی، کسی ملازم کو ہوش آگیا تھا جس نے جرنیٹر آن کردیا تھا۔ لاٶنج روشن ہو گیا۔ شہرذاد ابھی تک رورہی تھی
”کہیں نہیں جارہا میں۔۔۔چلو اٹھو اور اپنے کمرے میں چلو“
”ہمیں چھوڑ کر مت جاٸیگا۔۔۔۔۔ورنہ ہم۔۔۔۔۔مر جاۓ گے۔۔۔۔۔۔پلیز“ اسکو سنبھالنا مشکل ہو رہا تھا
”میں تمہارے ساتھ ہی ہوں شہی پلیز تم اٹھو تو۔۔۔۔۔“ بڑی مشکلوں سے وہ وہاں سے اٹھنے پر راضی ہوٸ تھی۔ شہریار اسے لے کر اسکے گمرے میں چلا گیا
———-*————-*————-*
گھر آتے ہی اس نے پہلے گاڑی پارک کی پھر اندر کی طرف جانے کے لۓ قدم بڑھا دیۓ۔ پارکنگ سے گھر کی طرف آتے آتے ہی وہ پورا بھیگ چکا تھا لیکن اسے پرواہ نہیں تھی۔ اسکا موڈ سخت آف تھا وہ گیلے کپڑوں کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا تو اسے لاٶنج میں ہی عابد محمد نظر آۓ، اسکا موڈ مزید خراب ہوگیا۔ وہ اسے دیکھتے ہی بھاگے بھاگے اس تک آۓ
”آگۓ بیٹا؟ میں کب سے تمہیں فون کررہا تھا۔۔۔۔۔اور یہ کیا تم تو پورے بھیگ چکے ہو۔ ٹھرو میں تولیہ لاتا ہوں“ وہ مڑ کر جانے لگے جب علی کی گرج دار آواز نے انکے قدم روک لۓ
”بند کریں یہ ڈرامہ۔ یہ دکھاوے کی محبت میرے سامنے مت کیا کریں۔ نفرت ہے مجھے آپ کے اس ڈھونگ سے“ نفرت بھرے اس لہجے پر انکی آنکھیں نم ہوگٸیں
”میں۔۔۔۔سچ کہہ رہا ہوں مجھے تمہارے فکر ہورہی تھی، بس اسی لۓ۔۔۔۔“
”بس کردیں۔۔۔۔۔آپ کو میری کتنی فکر ہے میں اچھی طرح جانتا ہوں“ زہر خند لہجے میں علی نے کہا
”یہ فکر آپ کو تب کیوں نہیں ہوتی تھی جب آپ کٸ کٸ وقت تک میرا کھانا بند کردیتے ھے۔ یہ فکر آپ کو تب کیوں نہیں ہوتی تھی جب آپ ایک آٹھ سال کے بچے کو بیلٹ سے مارتے تھے؟ یہ فکر آپکو تب کیوں نہیں ہوٸ جب میں ہسپتال میں پڑا مر رہا تھا؟ کیوں؟“ اسکے سوالوں کے جواب عابد صاحب کے پاس نہ تھے، وہ سر جھکاۓ روتے رہیں۔ علی غصے سے وہاں سے چلا گیا۔
———–*————–*———–*
تیز برستی بارش میں ٹریفک بھی شدید جام ہوگیا تھا۔ وہ ساحل سمندر کی سامنے والی سڑک پر تھی۔ ایک جانب قطار میں گھر بنے تھے تو دوسری جانب سمندر تھا۔ نہ جانے کیا وجہ تھی جو ٹریفک اتنا جام تھا۔ لیکن ماہین کو ان سب باتوں سے فرق نہیں پڑتا تھا اسے اس وقت صرف حنان یاد آرہا تھا۔ کیسے آفس میں ماہین کو دیکھتے ہی اس نے منہ پھیر لیا تھا۔ صیح کیا تھا اس نے، وہ اسی کی حقدار تھی۔
اس نے باٸیں طرف دیکھا جہاں ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور اس پر طوفانی برش دکھاٸ دیتی تھی۔ ذہن میں ایک پرانی یاد تازہ ہوٸ تھی۔
شام کا وقت تھا وہ اور حنان اسی سمندر کے پاس گاڑی روکے کھڑے تھے۔ موسم بہت اچھا تھا، ماہین کو آٸس کریم کھانے کا دل کیا تو وہ فوراً سے اسکے اور اپنے لۓ آٸسکریم لے آیا۔ اب دونوں آٸسکریم کھا رہے تھے۔ حنان تو بونٹ سے ٹیک لگاۓ کھڑا تھا جب کہ ماہین بونٹ پر چڑھی بیٹھی تھی۔
”حنان تم نے کونسا فلیور لیا ہے؟“ اس نے پوچھا
”چاکلیٹ“
”اچھا! میرا تو اسٹرابیری ہے۔ ذرا اپنی آٸسکریم ٹیسٹ کرانا“
”واٹ؟“ حنان اچھل پڑا
”کیا ہو گیا میں نے کونسا تمہارا گردا مانگ لیا ہے؟“۔
”تم پہلے ہی دو اسکوپ کھا رہی ہو اس پر سے میری پر بھی نیت لگا کر بیٹھی ہو“
”میں پورا تھوڑی مانگ رہی ہوں، بس ایک باٸیٹ لونگی“
”جاکے ایک اور اسکوپ لے لو چاکلیٹ فلیور کا“
”مجھے اگر چاکلیٹ پسند ہوتی تو میں اسٹرابیری کیوں لیتی۔ تم سے تو بس ٹیسٹ کرنے کے لۓ مانگ رہی ہو“
”کوٸ ٹیسٹ ویسٹ نہیں کرارہا میں تمہیں، خبردار جو میری آٸسکریم پر نظر بھی رکھی“ وہ دونوں ایک آٸسکریم کے لۓ بچوں کی طرح لڑ رہے تھے، ماہین منہ بسور کر بیٹھ گٸ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی جب وہ چہکی
”ارے۔۔۔۔شہریار تم“ اس نے حنان کے کندھوں کے پیچھے دیکھ کر کہا تو وہ بھی جلدی سے پیچھے مڑا اور اسی وقت ماہین نے اسکے کپ میں چمچ ڈالا اور آٸسکریم نکال کر اتنے منہ میں ڈلا لی
”کہاں ہیں شیری؟“ حنان نے آگے پیچھے دیکھتے ہوۓ اس سے پوچھا
”ہممم۔۔۔۔۔یمی۔۔۔۔میں ایسے ہی چاکلیٹ فلیور سے چڑتی تھیں یہ تو اتنا مزے کا ہے واٶ۔۔۔۔“ وہ مزے سے بولی تو حنان نے حیرت سے اتنے کپ میں جھانکا جس میں سے آدھی سے زیادہ آٸسکریم غاٸب تھی
”یہ۔۔۔۔۔تم نے میری آٸسکریم کھالی“ وہ صدمے سے بولا
”کھاٸ نہیں بس ٹیسٹ کی ہے“ چڑانے والے انداز میں جواب آیا
”یہ تم نے ٹیسٹ کی ہے؟ آدھے سے بھی زیادہ کپ کہا گٸ ہو تم“
”جب میں نے شرافت سے مانگا تھا تب ہی دے دیتے تو تھوڑا کم لیتی، لیکن تم نے مجھے انکار کیا نہ، یہ اسکی سزا ہے“ ماہین نے شان بےنیازی سے کہا
”اچھا ناں۔۔۔۔۔اب رو تو مت، قسم سے بچوں والی حرکتیں کرتے ہو تم“ ماہین نے منہ بسور کر کھڑے حنان کو دیکھ کر کہا
”تم بھی تو بچوں والی حرکتیں کرتی ہو“ حنان نے منہ بسور کر کہا تو ماہین نے زبان باہر نکال کر اسکا منہ چڑایا۔ اسکی شکل دیکھ کر حنان کی ہنسی چھوٹ گٸ، اور پھر وہ ہنستا ہی چلا گیا۔
ہنستے ہوۓ وہ کتنا اچھا لگتا تھا ناں۔۔۔۔۔اب کیسے اسکی آنکھوں میں سرد مہری اتر آٸ تھی۔ اب کچھ بھی نہیں بچا تھا، نہ حنان نہ ہی اسکی زندہ دل ہنسی، کچھ تھا تو برستی بارش اور ساحل سے سر پٹختی لہریں۔ ماضی کی یادوں سے پیچھا چھڑانے کی خاطر ماہین نے میوزک پلٸیر آندیم کردیا
دوستوں! شک دوستی کا دشمن ہے
اپنے دل میں اسے گھر بنانے نہ دو
کل تڑپنا پڑے یاد میں جن کی
روک لو روٹھ کر انکو جانے نہ دو
بعد میں پیار کے چاہے بھیجو ہزاروں سلام
وہ پھر نہیں آتے
میوزک پلیٸر سے بجتے گانے کی آواز اسکے دل کے زخم چھیڑ گٸ تھی۔ اس نے ہاتھ مار کر میوزک پلٸیر آف کردیا
———–*————*————-*
جب تک شہرذاد سو نہیں گٸ شہریار اسکے کمرے میں ہی بیٹھا رہا۔ جب اسے یقین ہوگیا کہ وہ سو گٸ ہے تب وہ اٹھ کر باہر آیا اور لیوینگ روم میں رکھے صوفے پر آکے بیٹھ گیا۔
”شہریار بیٹا! آپ کے لۓ کھانا لگادوں؟“ اسکے پرانے ملازم اشرف نے آکر اس سے پوچھا
”نہیں شرفو بابا۔ آپ ابھی تک جاگ رہیں ہے؟“ اس نے ان سے پوچھا
”بس بیٹا کیا کروں نیند تو ان آنکھوں سے کب کی دور ہوچکی ہے“ انہوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تو شہریار کو افسوس ہوا
”آپ میری فکر نہ کریں۔ جاکر آرام کیجۓ“ اس نے کہا تو وہ سر ہلاتے ہوۓ چلیں گۓ۔ شہریار نے وہیں بیٹھے بیٹھے سیگریٹ جلاٸ اور منہ سے لگاتے ہوۓ صوفے کی پشت سے ٹیک لگالی۔ آج سے چھ سال پہلے تک سب کچھ کتنا اچھا تھا ناں!!!۔۔۔۔۔۔۔لیکن پھر وہ حادثہ ہوا جس نے اس گھر کی خوشیاں ہی چھین لیں۔
ارتضٰی اور مصطفٰی دو بھاٸ تھے۔ دونوں کے دو بچے تھے۔ بڑے بھاٸ مصطفٰی کی ایک بڑی بیٹی شہوار اور بیٹا شہریار تھے۔ جب کے ارتضٰی کا بڑا بیٹا شہیر اور چھوٹی بیٹی شہرذاد تھے۔ مصطفٰی صاحب کی بیوی کا انتقال شہریار کے پیدا ہونے کے ایک ماہ بعد ہی ہوگیا تھا پھر ان کے دونوں بچوں کو ارتضٰی صاحب کی بیوی نے پالا تھا۔ گھر میں ایک وفادار ملازم تھا اشرف جو شروع سے ہی ان کے ساتھ تھا۔ اسکی ایک یتیم بھتیجی تھی سوہا جس کے لۓ اس نے اپنی ساری زندگی وقف کردی تھی حتٰی کہ شادی بھی نہیں کی تھی۔ وہ اپنی بھتیجی کو ڈاکٹر بنانا چاہتا تھا۔ سوہا بھی کافی ذہین تھی۔ اس لۓ ارتضٰی صاحب نے شھرذاد کے ساتھ ساتھ اسکا ایڈمیشن بھی کرادیا وہ شہرذاد سے ایک سال بڑی تھی اس لۓ اس سے ایک کلاس آگے داخل ہوٸ تھی۔ وہ ہر سال پوزیشن لیا کرتی تھی۔ انتہاٸ نرم مزاج اور ہر بات کو سر جھکا کر سننے والی لڑکی تھی وہ۔ دوسری طرف شہرذاد تھی گھر کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بچی، اسکے ناز نخرے تو ایسے اٹھاۓ جاتے تھے جیسے وہ کوٸ شہزادی ہو۔ پھر شہوار کی شادی ہو گٸ اور وہ انگلینڈ چلی گٸ۔
شہرذاد کو کوکنگ کا جنون تھا اکثر وہ سوہا کو بھی اپنے ساتھ کچن میں گھسیٹ لیتی پھر دونوں مل کر نت نٸ ڈشز تیار کرتیں۔ باوجود اسکے کے شہرذاد گھر بھر کی لاڈلی تھی لیکن وہ ضدی نہیں تھی۔ کیونکہ اسکو ضد کرنے کی ضرورت بھی نہیں تھی وہ جس چیز کو پسند کی نگاہ سے بھی دیکھ لیتی وہ چیز اسکے سامنے لا کر رکھ دی جاتی۔ وہ چھوٹی سی گڑیا شہریار کو بچپن سے ہی پسند تھی۔ پھر جب وہ اٹھارہ سال کی ہوٸ تو گھر کے بڑوں نے اسکی اور شہریار کی مرضی سے ان دونوں کا نکاح کردیا۔ ارتضٰی صاحب، انکی بیگم اور انکا بیٹا شہیر تو اس رشتے سے بہت ہی زیادہ خوش تھے کیونکہ ایک شہریار ہی تھا جو انکی شہرذاد کے ناز و نخرے ویسے ہی اٹھا سکتا تھا جیسے وہ لوگ اٹھاتے تھے۔ سب ہی بہت خوش تھے کہ پھر ایک دن اشرف بھاگتا ہوا ان کے پاس آیا
”صاحب۔۔۔۔۔صاحب وہ۔۔۔۔۔سوہا بیٹی“ وہ ہانپ بھی رہا تھا اور رو بھی رہا تھا۔
”کیا ہوا شرفو؟ رو کیوں رہے ہو؟ سوہا کہاں ہے؟“ اسکی حالت دیکھ کر وہ لوگ بھی پریشان ہوگۓ۔
”صاحب جی، سوہا ابھی تک گھر نھیں آٸ۔ میں جاکے انکی جامعہ میں بھی دیکھ آیا ہوں لیکن اسکا کچھ پتہ نہیں ہے“
”تم فکر نہ کرو ہم اسے مل کے ڈھونڈتے ہیں“ ارتضٰی صاحب نے اسے تسلی دی۔ سوہا میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کر رہی تھی۔ پھر ان لوگوں سے جہاں جہاں ہوسکا اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملی۔ اسطرح تین دن بیت گۓ پولیس بھی سوہا کو نہ ڈھونڈ پاٸ۔ اس دن سوہا کو کھوۓ ہوۓ چوتھی رات تھی، جب پولیس والوں نے ارتضٰی صاحب کو ایک انجان چگہ پر آنے کے لۓ کہا مصطفٰی صاحب تو دو دن پہلے ہی ملک چھوڑ کر چلیں گۓ تھی اس لۓ وہ اشرف کو اپنے ساتھ لے کر مطلوبہ جگہ پہنچے۔ پولیس کو سوہا کی لاش جھاڑیوں سے ملی تھی۔ لیکن جس چیز نے ارتضٰی صاحب کے حواس معطل کر دیۓ تھے وہ تھی شہیر کی لاش۔ جس جگہ سوہا کی لاش ملی تھی اسی جگہ سے تھوڑی دور ایک گاڑی کھڑی تھی۔ جو کہ جل چکی تھی اس میں سے شہیر کی جلی ہوٸ لاش پڑی تھی حالانکہ وہ اپنے کسی دوست کے گھر گیا تھا۔ گھر واپس آکے جب ارتضٰی صاحب نے یہ بات اپنی بیوی کو بتاٸ تو وہ صدمے سے بیہوش ہو گٸ، اپنے بیٹے کی موت کا غم وہ زیادہ دیر برداشت نہ کر پاٸ۔ پھرچند گھنٹوں میں ہی وہ دنیا سے کوچ کر گٸ۔ اس دن ارتضٰی صاحب کے گھر سےتین لاشیں اٹھی تھی۔ اس واقعہ کا شہرذاد کے دماغ پر بہت بڑا اثر پڑا تھا۔ وہ راتوں کو سوتی نہیں تھی اور اگر سو جاتی تو نیند سے چلاتے ہوۓ اٹھتی۔ اندھیرے سے اسے ڈر لگنے لگا تھا۔ شروع شروع میں تو سب نے سوچا کہ چند مہینوں میں وہ ٹھیک ہوجاۓگی، لیکن اسکی بیماری بڑھتی چلی گٸ اور اس نے کٸ مرتبہ خودکشی کی کوشش بھی کی۔ سوہا کی موت کیسے ہوٸ؟، شہیر وہاں کیسے پہنچا؟، اور کھڑی گاڑی میں آگ کس طرح لگی؟ یہ معمہ پولیس حل نہ کر سکی اور چند ماہ بعد کیس بند کردیا گیا
شہریار ماضی سے واپس حال میں لوٹا۔ ایش ٹرے میں چار سگریٹ کی راکھ پڑیں تھیں۔ وہ چین اسموکر نہیں تھا لیکن کبھی کبھی ٹینشن میں زیادہ پی لیتا تھا۔ ابھی علی یہاں ہوتا تو اسکے ہاتھ سے پورا پیکٹ چھین کر ڈسٹ بین میں پھینک دیتا۔ علی کا خیال آتے ہی اس نے اسے کال ملاٸ مگر فون آف آرہا تھا۔ وہ ناراض تھا شاید۔
——–*—————*————-*
وہ اپنے کمرے میں آکر صوفے پر ہی آڑھا ترچھا لیٹ گیا۔ اسکے کپڑے ابھی تک گیلے ہورہے تھے پر اس نے انہیں بدلنے تک کی زحمت نہ کی۔ ہر کوٸ اسکے باپ سے ہمدردی کرنے بیٹھ جاتا تھا حتٰی کے اسکے دوست بھی۔ سب اسی کو غلط سمجھتے تھے حلانکہ ہمدردی کے قابل تو وہ تھا۔ بچپن کی یادیں فلم کی طرح دماغ میں چل رہیں تھیں
علی کے والد عابد محمد ایک قباٸیلی زمیندار کے بیٹے تھے۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھے۔ گھر والوں کی خواہش تھی کہ وہ ڈاکٹر بنے اس لۓ انہیں پڑھنے کے لۓ شہر بھیج دیا۔ سب ہی ان سے بہت پیار کرتے تھے۔ ڈاکٹر بننے کے بعد انہوں نے اسلام آباد کے اسپتال میں جاب شروع کردی۔ وہاں انکو اپنی ایک ڈاکٹر کولیگ سے محبت ہوگٸ۔ ان کو یقین تھا کہ انکے گھر والے انہیں منع نہیں کرینگے۔ مگر یہ انکی غلط فہمی تھی جب انہوں نے اپنےگھر والوں کو ڈاکٹر شاہینہ کے بارے میں بتایا تو نہ صرف انہوں نے سختی سے انکار کیا بلکہ عابد صاحب نے انہیں راضی کرنے کی کوشش کی تو انکے والد نے بغیر انکی اجازت کے اپنے ہی قبیلے کی ایک لڑکی سے انکا رشتہ تہیہ کردیا۔
ڈاکٹر عابد اس وقت تو خاموش ہوگۓ۔ مگر شہر جاتے ہی انہوں نے شاہینہ سے کورٹ میریج کرلی۔ جب یہ بات انکے گھر والوں کو معلوم ہوٸ تو انکے والد نے انکو اپنی جاٸیداد اور ولدیت دونوں سے عاق کردیا۔ اور ان سے قطع تعلق کرلیا۔ ڈاکٹر عابد نے یہ سوچا کہ ماں باپ ہیں آخر کب تک ناراض رہیں گے؟ اور وہ انہیں منانے ایک نہیں کٸ بار گۓ لیکن ہر بار انہیں ناکامی کا سامنے کرنا پڑتا۔ انکے ماں باپ ان سے ملنے سے ہی انکار کردیتے تھے۔ پھر ایک دن انہیں خبر ملی کے انکی والدہ کا انتقال ہوگیا ہے، وہ بھاگے بھاگے گاٶں پہنچے مگر انکے والد نے انہیں انکی ماں کے جنازے میں شریک بھی نہیں ہونے دیا۔
وہ گھر آکر بہت روۓ، انکی بیوی انہیں تسلی دیتی رہیں۔ اس دن انہوں نے سوچ لیا کہ اب انکا اس دنیا میں شاہینہ اور علی کے علاوہ کوٸ نہیں ہے مگر وہ غلط تھے۔ ابھی انہوں نے ماں باپ سے نافرمانی کی سزا کاٹنی تھی۔ وہ اپنی جس بیوی سے بے انتہا محبت کرتے تھے وہ صرف انکی دولت کی پجاری تھی۔ ڈاکٹر شاہینہ نے دو گھروں میں سے ایک گھر اپنے نام کروالیا تھا۔ اسکے بعد انہیں اپنے اسپتال کا مالک بھا گیا۔
ڈاکر عابد کو آۓ دن ہسپتال کے لوگوں سے اپنی بیوی اور مالک کے افٸیرز کی خبر سننے کو ملنےلگی۔ پہلے انہوں نے اسے پیار سمجھایا، پھر سختی سے اور پھر دن بہ دن انکے جھگڑے بڑھنے لگے۔ ان سب میں بچارا علی نظرانداز ہونے لگا- پھر ایک دن ڈاکٹر شاہینہ گھر چھوڑ کر چلی گٸ۔ عابد انہیں منا کر واپس لانے کے لۓ انکے گھر گۓ تو انہوں نے آنے سے انکار کردیا اور یہ کہہ کر طلاق کا مطالبہ کردیا کہ
”میں تمہارے جیسے کنزرویٹو انسان کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ جو میرے دوسروں سے ملنے جلنے پر بھی پابندیاں عاٸد کرے“
ڈاکٹر عابد نے انہیں بہت سمجھانے کی کوشش کی پر وہ نہ مانی اوربات کورٹ تک جا پہنچی۔ مجبوراً انہیں اسے طلاق دینی ہی پڑی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...