چاچا جی…چاچا جی…!آواز کچھ مانوس معلوم ہوتی تھی۔میں نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو ٹھٹھک کر رہ گیا۔ سامنے الطاف کا لڑکا مختار کھڑا تھا۔
’’کیا ہے …؟‘‘ میں نے رکھائی سے پوچھا۔
’’ابا بلاتے ہیں …‘‘ وہ سہم کر بولا۔
’’تجھ سے غلطی ہوئی ہے ، کسی اور کے لیے کہا ہو گا۔‘‘
’’نہیں جی!انھوں نے آپ ہی کے لیے کہا تھا، کہتے تھے کہ افضل کے ابا کو بلا لاؤ۔‘‘
مجھے سخت حیرت ہوئی، گھڑی میں رات کے گیارہ بج رہے تھے اتنی رات گئے میرے ایک دشمن کو مجھ سے کیا کام آ پڑا تھا جس سے برسوں سے میری بول چال بند تھی جو غالباً اپنی زندگی کی آخری گھڑیاں گن رہا تھا، میں شش و پنج کے عالم میں کھڑا مختار کو تک رہا تھا۔ کوئی گیارہ بارہ برس کی عمر ہو گی۔ متین چہرہ، جھکی جھکی آنکھیں …مگر نہیں …کیا وہ حقیقتاً الطاف کا لڑکا تھا۔ وہ تو بلاشبہ میرا عکس تھا۔ وہی ناک نقشہ، وہی گھنگریالے بال اور سانولا رنگ۔
’’اچھا تو جا…‘‘ میں نے ٹالنے کو کہا، میں کچھ دیر بعد آؤں گا۔
وہ الٹے پاؤں لوٹ گیا تو میں اندر آ کر بستر پر گر پڑا…جاؤں یا نہ جاؤں …؟ میں کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا ایک شکی المزاج دوست کے دشمن بن جانے کے بعد اس سے کوئی تعلق رکھنا دانش مندی نہیں تھی۔
گرما کی چھٹیاں تھیں ساجدہ اور بچے گاؤں گئے ہوئے تھے گھر میں سناٹا تھا۔ میں نے پڑے پڑے تپائی پرسے پیکٹ اٹھا کر ایک سگریٹ جلایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دھوئیں کے مرغولے یادوں کے کارواں بن گئے۔
مجھے تیرہ برس قبل کا وہ دن یاد آ رہا تھا جب الطاف سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ سٹی مارکیٹ جاتے ہوئے بس کنڈکٹر سے اس کی تکرار ہو گئی اس کے پاس سو کا نوٹ تھا۔ کنڈکٹر کے پاس ریزگاری نہیں تھی۔ میں اس کے پہلو میں ہی بیٹھا تھا۔ جیب سے ڈیڑھ روپیہ نکال کر کنڈکٹر کو دے دیا تو اس نے شکر گذار نگاہوں سے مجھے دیکھا پھر باتیں چھڑ گئیں۔ اس نے بتایا ’’میں حیدرآباد کا ہوں گلبرگہ میں ایک دفتر میں کام کر رہا تھا کہ دو ماہ ہوئے میرا تبادلہ یہاں ہو گیا۔ میں ایک معقول مکان کے لیے پریشان ہوں اور ایک کمرہ کرائے پر لے کر رہ رہا ہوں۔‘‘ اس نے مزید بتایا کہ ’’مکان مل جائے تو اپنی بیوی کولے آؤں۔‘‘
نیکی کے لیے ہر کوئی تیار ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس میں اس کا کچھ جاتا آتا نہ ہو۔میرے مکان کی بغل میں ایک چھوٹا سا مکان خالی پڑا تھامیں نے اسے وہ مکان دلانے کا وعدہ کیا پھر ایک ہفتے بعد دونوں اپنے مختصر سے سامان کے ساتھ مکان میں آ گئے۔ اس کی بیوی نسیم کو دیکھ کر مجھے اس پر رشک آیا وہ بلاشبہ سینکٹروں میں ایک اور حیدرآبادی حسن کا نفیس نمونہ تھی۔ لیکن یہ جان کر مجھے دکھ ہوا کہ قدرت کی طرف سے اتنا سب کچھ پانے کے باوجود وہ اپنی ازدواجی زندگی کی حقیقی مسرتوں سے محروم ہیں۔ شادی کو دس برس گذر جانے کے باوجود اس کی بیوی کی گود خالی ہی تھی اولاد سے محرومی کا احساس دونوں کے درمیان خلیج میں بدل گیا تھا جو اکثر الطاف کی باتوں سے جھلکتی تھی۔ ایک بار تو اس نے نسیم کو طلاق تک دینے کی سوچ لی تھی پھر ارادہ عقد ثانی کے منصوبے میں بدل گیا تھا۔ نسیم ظاہری حسن کے ساتھ ساتھ باطنی حسن سے بھی مالامال تھی۔ سادگی پسند، نرم گو اور خوش اخلاق۔ اپنے شوہر کی طرح جلد گھل مل جانے والی۔ وہ جلد ہی ہم لوگوں سے اس طرح مانوس ہو گئے جیسے پرانی جان پہچان ہو۔ لیکن نسیم کی ساری خصوصیات شوہر کی روح کے زخموں کا مرہم نہ بن سکیں۔ چنانچہ ایک دن الطاف نے مجھے بتایا ’’میں دوسری شادی کی سوچ رہا ہوں مجھے یقین ہو گیا ہے کہ نسیم کبھی ماں نہیں بن سکے گی۔‘‘
’’لیکن قدرت کی اس نا انصافی کا بدلہ بے گناہ بیوی سے نہیں لیا جا سکتا۔‘‘ مجھے نسیم پر ترس آیا۔ ’’یہ سراسر زیادتی ہو گی۔‘‘
’’یہ ظلم یا زیادتی کی باتوں کا وقت نہیں۔‘‘ اس نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔ ’’مجھے ہر حال میں ایک بچہ چاہئے جو میرے خاندان کا چراغ جلائے رکھ سکے۔میں اس کے لیے سب کچھ کر گذرنے کو تیار ہوں۔‘‘
لیکن الطاف کو کچھ کر گذرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ خدا کی شان کچھ ہی عرصے بعد ایک رات نسیم کی طبیعت بگڑی۔ لیڈی ڈاکٹر نے معائنے کے بعد یہ خوش خبری سنائی کہ اس کا اب تیسرا مہینہ شروع ہو رہا ہے۔‘‘
قدرت کی اس غیر متوقع فیاضی پر جہاں نسیم کی آنکھوں سے شکر کے دریا بہہ نکلے وہاں الطاف کی دنیا ہی بدل گئی اسے اب بات بات پر خدا یاد آنے لگا تھا۔ وہ سب کچھ بھول کر نسیم کی دیکھ بھال میں لگ گیا۔ جوں جوں نئے مہمان کی آمد کے دن قریب آ رہے تھے توں توں اس کے جوش و خروش میں اضافہ ہوتا گیا۔ اتفاق سے انہی دنوں ساجدہ بھی امید سے تھی اور یہ بھی اتفاق تھا کہ گھرکے قریب ہی ایک اسپتال میں نسیم اور ساجدہ کو با الترتیب چار دن کے وقفے سے داخل کیا گیا۔
جس رات زچگیاں ہوئیں اتفاق سے ہم میں سے کوئی بھی اپنی بیویوں کے پاس موجود نہ تھا۔ الیکشن قریب تھے اس لیے میں کمشنر کے ساتھ دورے پرتھا۔ چلتے وقت میں الطاف سے ساجدہ کا بھی خیال رکھنے کو کہہ گیا تھا۔ دونوں زچگیاں آدھی رات کو چند گھنٹوں کے وقفے سے ہوئیں جبکہ غیر ذمہ دار ڈاکٹر نے دوسرے دن کا وقت دیا تھا چنانچہ الطاف صبح آنے کے ارادے سے رات نو بجے ہی اسپتال سے گھر لوٹ آیا تھا صبح جب وہ اسپتال پہنچا تو پتہ چلا کہ جہاں اس کے حصے میں پھول آئے ہیں وہاں میرے حصے میں کانٹے ہی کانٹے آئے ہیں۔ نسیم نے آپریشن کے ذریعے اپنے پہلے اور آخری بچے کو جنم دیا تھا جب کہ ساجدہ کے ایک خوبصورت مگر مردہ بچہ پیدا ہوا تھا۔ شام ہوتے ہوتے میں بھی پہنچ گیا۔ اگرچہ یہ میری تیسری اولاد نرینہ مگر مجھے ایسا ہی لگا جیسے یہ میری پہلی اولاد ہو۔غم و اندوہ سے ہم دونوں کا برا حال تھا۔ میں الطاف کو مبارک باد تک نہ دے سکا چند دن بعد جب حالات کچھ سنبھلے توہم دونوں ان کے گھر گئے۔ مبارک باد دی ساجدہ نے جوں ہی نسیم کے ہاتھوں سے اس کے بچے کو لیا میری طرف دیکھتے ہوئے اس کے منہ سے بے اختیار نکلا ’’ارے یہ تو بالکل آپ پرگیا ہے۔‘‘
فوراً ہی میں نے محسوس کیا کہ ان دونوں کے چہرے بجھ سے گئے ہیں۔ چند لمحوں بعد الطاف اٹھا اور جھک کر بچے کو بغور دیکھتے رہنے کے بعد ایک کھسیانی سی ہنسی ہنس کر بولا ’’ہاں !تھوڑا بہت …‘‘ پھر فوراً ہی ماحول پر کڑوی کسیلی خموشی چھا گئی۔
ساجدہ نے غلط نہیں کہا تھا، بچے کے نقوش اور رنگ بڑی حد تک مجھ سے ملتے تھے جبکہ اس کے اور اس کے ماں باپ کے درمیان کوئی بات مشترک نہ تھی وہ دونوں ہی گورے چٹے اور خوبصورت تھے اس کے برعکس ہم دونوں سانولے تھے۔ پھر ہم جلد ہی سنبھل گئے اور ادھر ادھر کی باتوں کے بعد لوٹ آئے۔
اس دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ الطاف کے رویے میں ایک طرح کا روکھاپن ابھر آیا ہے پھر آگے چل کر یہ روکھاپن ہمارے درمیان ایک دراڑ میں بدل گیا۔ دونوں کا ہمارے ہاں آنا جانا بند ہو گیا۔
ایک عرصہ گذر گیا۔ ایک رات میں دیر گئے تنہا گھر لوٹ رہا تھا کہ ایک سنسان موڑ پر مجھے الطاف نظر آیا۔ جو ایک درخت کے نیچے کھڑا سگریٹ پھونک رہا تھا۔سگریٹ پھینک کر اس نے آواز دی ’’ٹھہرو…!‘‘
میں قریب پہنچ کر رکا تو اس نے نفرت و حقارت سے پر لہجے میں کہا ’’مجھے تم سے ہر گز ایسی امید نہ تھی میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ تم دوستی کا حق اس طرح ادا کرو گے۔‘‘
’’میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا!‘‘ میں نے متعجب ہو کر کہا ’’آخر تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘
’’تم مجھے بے وقوف بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے …‘‘ وہ غرایا ’’نسیم کے پیٹ سے جنم لینے والا بچہ میرا ہرگزنہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر کس کاہے …؟‘‘
’’تمہارا اور صرف تمہارا…تم اپنی بیوی کا وہ جملہ یاد کرو جب اس نے بچے کو دیکھتے ہی کہا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’ارے بچہ بالکل آپ پر گیا ہے۔‘‘ اس سے پہلے میرا خیال اس طرف نہیں گیا تھا۔ تم نے اپنے دوست کی پیٹھ پر چھرا گھونپ کر اچھا نہیں کیا۔ یہ سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے کے برابر ہے۔ بچہ نسیم سے تمہارے نا جائز تعلقات کا نتیجہ ہے۔‘‘
وہ ایک بجلی تھی جو مجھ پر گری تھی۔میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ ’’ہوش میں آؤ…‘‘ میں نے دانت پیس کر کہا ’’شک سے تمہاری عقل پر پتھر پڑ گئے ہیں۔ آخر تم کس ثبوت کی بنیاد پر مجھ پر یہ الزام لگا رہے ہو؟بس یہی ناکہ بچے کی شکل مجھ سے ملتی ہے ؟‘‘
’’ہاں !ایک ثبوت تو تمہاری بیوی کا وہ جملہ ہے۔ دوسری نسیم یہاں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد حاملہ ہوئی تھی۔ جبکہ وہ دس برس سے اس گھڑی کو ترس رہی تھی۔ اس کے ماں بننے کے آثار معدوم ہو چکے تھے۔ تیسرے اس کا حسن کسی کی نیت بگاڑنے کو کافی ہے اور پھر وہ سادہ مزاج اور بھولی ہے۔ اس کا کسی کے جھانسے میں آ جانا ناممکن نہیں اور تم …!ایک شریف بدمعاش! تم نے نیک شریف اور خانہ دار عورت کو بہکا کر اچھا نہیں کیا…‘‘ وہ سانپ کی طرح پھنکارا ’’میں بھلوں کے لیے بھلا مگر بروں کے لیے بہت برا ہی ثابت ہو سکتا ہوں۔ لہٰذا میں تمہیں معاف نہیں کروں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہاری سزا کیا ہو سکتی ہے۔ میں تم سے انتقام ضرور لوں گا۔‘‘
یہ سن کر مجھ میں ضبط کی تاب نہ رہی اس کے دل میں شک کا جو بیج بویا گیا تھا اس سے پھوٹی ہوئی شاخوں نے اس کے سارے وجود کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا۔ میں نے بھنا کر اس کے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا تھا پھر ہم دست گریباں ہو گئے۔ وہ غصے میں دیوانہ ہو رہا تھا موقع پاکر مجھے زمیں پر گرا دیا اور دونوں ہاتھوں سے گلا گھونٹنے لگا۔ اس وقت کہیں قریب ہی کسی کار کی ہیڈ لائٹس دکھائی نہ دے جاتیں تو میرے مر مٹنے میں کوئی کسر باقی نہ رہتی وہ مجھے چھوڑ کر اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ کچھ دیر بعد میرے حواس بجا ہوئے تو اٹھا اور خاموشی سے گھر چلا آیا۔ مگر میں نے اس بات کا کسی سے ذکر نہیں کیا اور نہ ہی کوئی انتقامی کاروائی کی۔ میں جانتا تھا کہ شک نے اسے اندھا کر دیا ہے اور شک کا علاج آج تک دریافت نہیں ہو سکا ہے۔ جب اسے حقیقت کا علم ہو گا تو وہ میرے پیروں پر آ گرے گا۔ اس واقعہ کے چند دن بعد اس نے گھر بدل دیا اور کچھ فاصلے پر ایک دوسری گلی میں گھر لے کر رہنے لگا۔ کبھی کبھی ہمارا آمنا سامنا ہوتا تھا مگر اب ہم ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ اسے گھر بدلے دو برس ہی ہوئے تھے کہ ایک دن نسیم دودھ گرم کرنے کے دوران اسٹو پھٹ جانے سے جل کر اسپتال میں علاج کے دوران چل بسی۔ تب بھی میں اس کے گھر تعزیت کے لیے نہیں گیا۔
اس بات کو کوئی دس برس گذر گئے ابھی چند ماہ قبل ساجدہ نے بتایا تھا کہ الطاف بیمار رہنے لگا ہے ایک بوڑھی عورت اس کی دیکھ بھال کر رہی ہے۔ میں پھر بھی اسے دیکھنے نہیں گیا۔ ایک نادان اور شکی المزاج آدمی سے اچھے سلوک کی امید خوش فہمی کے سوا کچھ نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن آج…! واقعی عجب بات ہوئی تھی برسوں بعد میرے دشمن نے مجھے یاد کیا تھا آخر سخت کشمکش کے بعد میں نے ضمیر انسانیت کی بنیاد پر اس کے گھر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ کچھ دیر بعد میں اس کے گھر میں داخل ہوا وہ ایک تنگ اور بوسیدہ کمرہ تھا بے ترتیب کتابیں اور صفائی کو ترستی ہوئی چیزیں …ایک گوشے میں پلنگ بچھا تھا جس پر الطاف آنکھیں بند کئے ہڈیوں کے بنجر کی شکل میں پڑا تھامیں پہلی نظر میں اسے پہچان نہ سکا ایک طرف اس کا لڑکا مختار چٹائی پر پڑے پڑے سو گیا تھا۔ آہٹ پاکر الطاف نے آنکھیں کھول دیں اور ہاتھ کے اشارے سے قریب پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور نحیف آواز میں بولا ’’میں تمہارا ہی منتظر تھا، تمہیں یقیناً حیرت ہو گی کہ اتنی رات گئے مجھے تم سے کیا کام ہو سکتا ہے ؟‘‘
میرا دل دھڑکنے لگا۔ آخر وہ کیا کہنا چاہتا تھا۔ ’’کیسے ہو…؟‘‘ میں اتنا ہی کہہ سکا۔
’’جیسا بھی ہوں تمہارے سامنے ہوں۔ یوں کہو کہ چند گھنٹے یا چند دن کا مہمان ہوں۔
’’فکر نہ کرو جلد اچھے ہو جاؤ گے۔‘‘ مجھے اور کچھ نہ سوجھا تو رسمی جملے دہرا دئے۔ ’’سب مریض ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔‘‘
’’سب فضول ہے۔ مجھے یقین ہو چکا ہے کہ میں اب مزید عرصہ زندہ نہ رہ سکوں گا۔ میرا سینہ اس وقت رازوں کا مدفن ہو رہا ہے اور پھٹ پڑنے کو بیتاب ہے۔ اب جبکہ میرا وقت قریب ہے میں تمہیں ساری باتیں بتا دینا چاہتا ہوں۔ اگر میں ایسا نہ کروں تو میری بے قرار روح ہمیشہ بھٹکتی رہے گی۔ذرا تپائی پرسے پانی کا گلاس اٹھا دو…‘‘ پانی پی کراس نے پھر کہا،صادق میرے دوست! ساری باتیں سن چکنے کے بعد وعدہ کرو کہ مجھے معاف کر دو گے۔
میرا دل دھڑکنے لگا ’’اگر اس کا تعلق اس دن میری جان لینے کے معاملے سے ہے تو یقین کرو کہ میں کبھی کا تمہیں معاف کر چکا۔ ہم دونوں کے سوا کوئی تیسرا اس بات سے واقف نہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے …‘‘ اس نے آہ بھرکے کہا ’’مگر مجھے کچھ اور بھی کہنا ہے۔ میں صرف تم پریہ راز افشاں کر رہا ہوں کہ نسیم اتفاقاً نہیں جلی تھی۔ میں نے کیروسین ڈال کر اسے جلایا تھا۔‘‘ میں چونک پڑا اور حیرت سے اس کے منہ کو تکنے لگا۔
’’چونکو نہیں …تمہاری بیوی نے مختار کو دیکھ کر کہا تھا کہ ’’ارے بچہ بالکل آپ پرگیا ہے۔یہ ایک جملہ نہیں تھا خنجر کی کاٹ تھی جس نے میرا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا پھر شک کے زہر نے مجھے مار دیا۔مجھے یقین ہو گیا کہ بچہ میرا نہیں تمہارے اور نسیم کے نا جائز تعلقات کا پھل ہے۔پھر میری نیند حرام ہو گئی۔ تم میری نظر میں آستین کے سانپ تھے۔ دراصل نسیم ایک غریب خاندان کی تھی۔ میں نے شادی کر کے اسے بھرپور محبت دی۔ مگر اس کی اس بے وفائی سے میرا دل ٹوٹ گیا۔ میں تم دونوں سے انتقام لینا چاہتا تھا۔ اس دن تم پر حملہ اس کی ایک کڑی تھی۔ دوسری طرف جب بھی میں مختار کو دیکھتا تو مختار کے روپ میں تم میرا منہ چڑاتے نظر آتے۔ آخر ایک دن ایک جھگڑے کے دوران مشتعل ہو کر میں نے نسیم کو جلا کر لوگوں کو اسٹو پھٹنے کی من گھڑت کہانی سنائی تھی مگر موت کی دہلیز پر کھڑی ہوئی اس وفا کی دیوی نے میرا دفاع کرتے ہوئے پولیس کو وہی بیان دیا جو میں نے دیا تھا مگر پھر بھی میرے اندر کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی جب اسے یقین ہو گیا کہ وہ بچ نہیں سکے گی تو موت سے چند منٹ پہلے اس نے بچے کا راز مجھ پر ظاہر کر دیا۔ اس نے اپنی اکھڑی ہوئی سانسوں کے درمیان بتایا کہ ’’دراصل ساجدہ کا نہیں میرا بچہ مرا تھا۔ میں نے تمہارے سخت رد عمل کے خوف سے کہ کہیں تم دوسری شادی نہ کر لو ایک زبردست حماقت کر ڈالی۔ میں نے اپنی چار سونے کی چوڑیاں نرس کو رشوت میں دے کر اپنے مردہ بچے کوکسی کے زندہ بچے سے بدل لیا۔ یہ سب کچھ راتوں رات ہو گیا، مگر مجھے دوسرے دن معلوم ہوا کہ نرس نے جو بچہ مجھے لا دیا وہ ساجدہ کا تھا یعنی مردہ بچہ ساجدہ کے حوالے کیا گیا تھا۔
اتنا کہہ کر الطاف چند لمحوں کے لیے رکا اور ایک آہ بھر کر بولا ’’نسیم نے اپنے اس عمل سے بظاہر خود کو محفوظ سمجھ لیا تھا حالانکہ ایک مصیبت سے بچنے کے لیے اس نے ایک زبردست حماقت کر ڈالی تھی جس کے انجام سے وہ لاعلم تھی…یہ لڑکا مختار…!‘‘ اس نے ہاتھ کے اشارے سے سوئے ہوئے بچے کی طرف اشارہ کیا‘‘ دراصل میرا نہیں تمہارا بچہ ہے۔‘‘
میں سکتے کے عالم میں بیٹھا اپنے دل کی دھڑکنیں سن رہا تھا میرا سارا جسم پسینے میں ڈوبتا جا رہا تھا۔
’’میرے دوست!‘‘ الطاف کی آواز مجھے کہیں دور سے آتی ہوئی لگی جس میں پچھتاوے کا کرب تھا ’’یقیناً میں تمہارا گنہ گار ہوں اور اپنی بیوی کا بھی…لیکن اس نے مرنے سے پہلے مجھے معاف کر دیا تھا اب تم بھی میرے مرنے سے پہلے مجھے معاف کر دو۔‘‘ پھر وہ بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ میں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ میرا منہ جیسے سل گیا تھا۔
’’میرے دوست!‘‘ اس نے دوسرے ہاتھ سے میرا بازو تھپتھپایا ’’معلوم نہیں موت کا فرشتہ کب مجھے لینے آ جائے میں نے اسی لیے تمہیں بلوایا تھا۔میں مر جاؤں تو میرے آخری سفر کا انتظام کرنے کے بعد مختار کو اپنے ساتھ گھر لے جانا وہ تمہاری امانت ہے جسے لوٹا رہا ہوں تیرہ برس بعد ہی سہی۔ خدا حافظ۔‘‘
میں اٹھا اور بوجھل قدموں سے گھر چلا آیا۔ ساری رات کروٹیں بدلتے کٹی صبح کو دودھ والا دودھ لایا تو گمبھیر لہجے میں بولا ’’بھائی صاحب!آپ کے دوست الطاف صاحب جو عرصے سے بیمار تھے۔ رات اللہ کو پیارے ہو گئے۔‘‘
٭٭٭