میں نے پوچھا ہے کہ سپنا روبی کیسے بنی؟
میں نے اپنا سوال دہرایا
تم کون ہو اور مجھے کیسے جانتے ہو؟
روبی شدید پریشان ہو گئی
میرا نام انسپکٹر ثمران ہے اور تمھارا کیس میرے پاس ہے میں تمھیں تلاش کر رہا ہوں
میں نے مختصر جواب دیا اور ساتھ میں اپنا کارڈ بھی دکھا دیا
وہ کچھ دیر خاموشی سے خلا میں خالی خالی نظروں سے گھورتی رہی
جیسے بولنے کے لیے الفاظ تلاش کر رہی ہو
میرے بابا ایک سرکاری کالج میں پروفیسر تھے
اور ایک رات ہمارے گھر وہ بولتے چپ ہو گئی
ہمارے گھر ایک لمبی گاڑی آئی
وہ کوئی شہر کا بہت بڑا رئیس تھا
اور میرے بابا سے اپنے نالائق اور آوارہ بیٹے کو پاس کرنے کا کہہ رہا تھا
با با نے نہ صرف اس کام سے صاف انکار کر دیا
بلکہ اسے زلیل کر کے گھر سے نکال دیا
اور اس کے بیٹے کو فیل کر دیا
اور پھر اس رئیس کے آ وارہ بیٹے نے اپنی بے عزتی کا بدلہ لینے کے لیے مجھے ایک شام جب میں اکیڈمی جا رہی تھی اغوا کر لیا
پہلے کسی فلیٹ میں ایک ماہ مجھے قید رکھا
پہلے خود جی بھر کے ریپ کیا
جتنا ہو سکتا تھا مجھ پہ تشدد کر کے اپنا غصہ نکالتا رہا
پھر اپنے فارم ہاوس پہ لے گیا اور دوستوں کو بھی دعوت دی کہ اس کام میں اس کا ساتھ دیں
اور میں تین ماہ وہاں قید ان شیطانوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہی
پھر ایک دن اس کے باپ کو پتہ چل گیا کہ اس کے بیٹے نے کسی لڑکی کو اغوا کر کے فارم ہاؤس پہ رکھا ہے
اسے ڈر ہوا کہ کہیں اس کا بیٹا پولیس کے ہتھے نہ چڑھ جائے
اس لیے اس نے مجھے وہاں سے نکال کے ایک کوٹھے پہ بیچ دیا
اور یوں میں سپنا سے روبی بن گئی
اور تب سے اب تک میں سپنا سے روبی بن کے مسلسل ہر روز بک رہی ہوں
روبی نے چند مختصر لائنوں میں بات ختم کی
اس لڑکے کا اور اس کے باپ کا نام ؟
میں نے اس سے پھر سوال پوچھا
میں نہیں لینا چاہتی اور نہ ہی کبھی لوں گی میں اس اذیت ناک چیپٹر کو اوپن کرنا چاہتی ہوں جس نے میری روح کو چھلنی چھلنی کر دیا
تو پھر گہنگار کو سزا کیسے ملے گی؟
میں نے اگلا سوال پوچھا
مل تو رہی ہے گہنگار کو سزا
میں ہو ں نہ گہنگار مجھے مل رہی ہے سزا
روبی بری طرح سسکی
گھر واپس جانا چاہو گی؟
میں نے بات بدلی
نہیں میں جن رسوائیوں اور ذلتوں کے جس گڑھے میں گر چکی ہوں وہاں سے نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے
یہ ذلت اور رسوائیاں تمام عمر میرا پیچھا کریں گی
اور مجھے بار بار گھسیٹ کر انھیں راہوں میں لے آئیں گی اب یہی میرا نصیب ہے مجھے یہاں سے کہیں نہیں جانا
روبی نے ہارے ہوئے جواری کی طرح کہا
میں کچھ دیر خاموش ہو گیا
ان لڑکیوں کی جب کوٹھے پہ ٹریننگ کی جاتی ہے تو ان کی پوری برین واشنگ کی جاتی ہے کہ
اب تم سماج کا سب سے گندا گھناؤنا اور برا روپ ہو اگر تم یہاں سے بھاگ بھی گئی تو بھی تم جیسی لڑکیوں کو کوئی شریف آدمی نہیں اپنائے گا
اور اکثر ان کی بات سو فیصد نہیں تو پچاس فیصد سچ بھی ثابت ہو تی ہے کیونکہ اکثر ان کے گھر والے ہی ان کو قبول نہیں کرتے اور وہ تمام عمر یہیں پڑی سڑتی رہتی ہیں
دیکھو سپنا زندگی بار بار چانس نہیں دیتی دلدل سے نکلنے کے لیے
اگر تمھیں تمھاری قسمت تمھیں موقع دے رہی ہے
تو تم بھی اپنی قسمت کا ہاتھ پکڑ کے
اپنے آپ کو ایک موقع اور دو
نئی زندگی شروع کرو اگر تمھیں یہ ڈر ہے کوئی تمھیں نہیں اپنائے گا کوئی تمھارا ساتھ نہیں دے گا تو خود کو اتنی بہادر بناؤ کہ تنہا زندگی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تمام عمر جی سکو
اور ویسے بھی تمھیں کیا پتہ کہ ہو سکتا ہے یہاں سے جانے کے بعد اس گناہ بھری زندگی کو چھوڑنے پر اللہ تعالی نے تمھارے بارے میں کتنا اچھا فیصلہ کر رکھا ہو
تم غائب کا علم تو نہیں جانتی کہ تمھارے ساتھ صرف برا ہی ہو گا؟
دوسری صورت میں بھی دنیا میں کتنی خواتین ہیں جو شادی نہیں کرتیں یا جن کے شوہر اکثر حادثات میں ان سے بچھڑ جاتے ہیں
لیکن وہ جینا نہیں چھوڑتی اکیلی تمام عمر سب کا مقابلہ کرتی ہیں لیکن بہادروں کی طرح زندہ رہتی ہیں
ڈر ڈر کے نہیں! نہ یوں سسکتے ہوئے !
میں نے اپنی طرف سے سپنا کو سمجھا نے کی پوری کوشش کی
یہ میرا نمبر ہے اچھی طرح سوچ لو جب تم اس گندگی سے نکلنے کے لیے خود کو تیار کر لو تو مجھے کال کر دینا میں تمھیں یہاں سے آ کر لے جاؤں گا
اور اس کے بعد میں اس کو وہیں چھوڑ کے واپس آگیا
_____________________
دوسرے دن میں پروفیسر سبحان سپنا کے فادر کا ایڈریس معلوم کر کے ان کے پاس گیا
مجھے یہ جان کر بہت دکھ ہوا کہ سپنا ان کی اکلوتی بیٹی ہے بیگم کی وفات ہو چکی ہے اور وہ اکیلے تنہا زندگی کی گاڑی کھینچ رہے تھے
اس لیے میں نے پروفیسر سبحان کو اب کسی اندھیرے میں نہ رکھنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ بھی سچائی کو قبول کر سکیں
کافی دیر وہ صدمے کی کیفیت میں بیٹھے رہے
پھر بولے تمھارے پاس میری بیٹی کا نمبر ہے تو میری اس سے بات کرواؤ
میں نے سپنا کا نمبر پہ میسیج کیا کہ
مجھے کال کرے
چند لمحے بعد اس کی کال آ گئی
میں نے پروفیسر سبحان کو موبائل پکڑا دیا
ہہہہیلو سپنا!
” بیٹی میں تمھارا ابو ”
پروفیسر سبحان کی آواز لڑکھڑا رہی تھی میں نے ان کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے انھیں تسلی دی
باپ کی آواز سنی کے سپنا بے شدید بے چین ہو گئی
اور ہچکیاں لے کے رونے لگی
شدید صدمے سے اس کے حلق سے آواز نہیں نکل رہی تھی
بیٹی پلیز گھر آ جاؤ تم نے کیسے سوچ لیا کہ ہم تمھیں قبول نہیں کریں گے
بیٹا تم میری جان ہو میری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کا قرار ہو
اور تم نے خود ہی کیسے سوچ کے فیصلہ بھی کر لیا کہ تم یوں سسکتی رہو گی اور ہم چین سے رہ لیں گے
بیٹا جو کچھ تمھارے ساتھ ہوا
یہ ایک حادثہ ہے
ایک بھیانک حادثہ
اور حادثات کو بھلا دیا جاتا ہے ان کو خود پہ حاوی کر کے اپنی زندگی برباد نہیں کرتے میرے بچے
پر بابا لوگ کیا کہیں گے میرے بارے میں
مائک سے سپنا کی مدھم سی آواز ابھری
لوگ جہنم میں جائیں مجھے اپنی بیٹی سے عزیز کچھ نہیں میں نے انسپکٹر سے کہہ دیا ہے تم ابھی اس کے ساتھ واپس آ جاؤ گھر
میں ہر قدم پہ جب تک مجھ میں ہمت ہے اپنی بیٹی کے سر پہ سائباں بن کے کھڑا رہوں گا
میں نے پروفیسر سبحان سے موبائل لے کر کال کاٹ دی
وہ ابھی شدید صدمے میں تھے
سپنا نے واپسی کا گرین سگنل دیا تو
میں نے گھر پہنچ کر سپنا کو واپس لانے کی تیاری مکمل کر لی
اور اس سلسلے میں سر ربانی کو اطلاع بھی کر دی وہ بھی میرے پلان سے متفق تھے
رات دس بجے روبی بائی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کسی آ وارہ نو دولتیے کے مکان پہ ناچنے کے لیے پہنچ چکی تھی ہر شے تیار تھی بس اب پلان کو عملی جامہ پہنانا تھا
جونہی رات کے دو بجے اور محفل اپنے عروج پہ پہنچی ٹھیک ہمارے بندوں نے اس مکان پہ میڈیا کی ٹیم کے ہمراہ چھاپہ مارا جس میں نشیلی بائی سمیت بہت سے معززین بھی پولیس کے ہتھے چڑھ گئے
سب کچھ ہمارے پلان کے مطابق ہو رہا تھا اب لاسٹ سٹیپ سپنا کو ان کے چنگل سے یوں آزاد کروانا تھا کہ ان لوگوں کو شک بھی نہ ہو اور اس لڑکی کی جان بھی ان کے چنگل سے ہمیشہ کیلئے چھوٹ جائے
اس کے لیے
ہم نے نشیلی بائی کوٹھے کی بوڑھی طوائفہ کو میڈیا کوریج سے ڈرا کر
اس بات پہ قائل کر لیا گیا تھا کہ اگر وہ اس بدنامی سے بچنا چاہتی ہے اور یہ چاہتی ہے کہ میڈیا میں
کوئی بات نہ پھیلے تو
اس کے بدلے میں یہ لڑکی ہمارے حوالے کر دو
نشیلی بائی اس ساری کاروائی سے نہایت حواس باختہ ہو چکی تھی اور
اس کام کے لیے فوراً تیار ہو گئی
ہم نے اس سے ان کے حساب سے کاغذی کارروائی مکمل کروائی اور
لڑکی یعنی سپنا کو میرے حوالے کرنے کو کہا
جو کہ وہ ہمارے سپرد کر گئی
اور میں نے حوالدار ارشد کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ سپنا کو بحفاظت اس کے گھر چھوڑ آئے
کیونکہ اس ساری کاروائی میں میں بہت تھک چکا تھا اور اب تو کام بھی ہو چکا تھا اس لیے گھر جا کر آرام کرنے کا ارادہ تھا
پونے تین بجے جب میں گھر پہنچا ابھی بستر پہ لیٹنے کا سوچ رہا تھا کہ حوالدار ارشد کی کال آ گئی
سر وہ وہ ایک کالے رنگ کی کار میں کچھ لوگ سپنا کو اٹھا کے لے گئے وہ شدید پریشان تھا
میں نے فوراً کمبل چھوڑا اور فل سپیڈ سے گاڑی دوڑاتا اس کی بتائی لوکیشن پہ پہنچا
شہر میں جگہ جگہ ناکے لگا دئیے گئے تھے میں اپنی جیتی ہوئی بازی کسی قیمت پہ ہارنا نہیں چاہتا تھا
یہ بازاری لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں
اندر سے کچھ باہر سے کچھ
اور مجھے تو پہلے ہی شک تھا کہ یہ لوگ سپنا کو اتنی آسانی سے چھوڑنے والے نہیں
مگر یہ بھی شاید ہم پولیس والوں کی ضد سے واقف نہیں ہوتے
ٹھیک ایک گھنٹے بعد اغوا کاروں کی گاڑی ٹریس ہو چکی تھی گاڑی سیالکوٹ کی طرف جا رہی تھی
میں نے اپنے بھروسے کے چند بندے ساتھ لیے اور
ان کی گاڑی کا پیچھا شروع کر دیا
گاڑی تھوڑی سی تگ ودو کے بعد ایک ویران سی سڑک پہ روک لی گئی
اور بہت جلد ہم نے سپنا کو بحفاظت اس گاڑی سے نکال لیا
گاڑی میں بیٹھے چاروں بندوں میں سے ایک کی شکل مجھے کچھ جانی پہچانی سی لگ رہی تھی
خیر اس وقت اتنا غور نہ کیا کیونکہ فی الحال سپنا کا بحفاظت اس کے گھر پہنچنا زیادہ اہم تھا
تمام کاروائی ختم کر کے میں پھر شام کو تھانے پہنچا اور اس کیس کو ختم کرنے کے لیے فائل مکمل کر رہا تھا جب صبح گاڑی میں سے سپنا کو اغوا کرنے والے لوگوں کے نام پہ نظر پڑی
اعجاز خٹک ۔۔۔۔۔
دماغ نے فوراً ماضی کی پوری فلم آنکھوں کے سامنے چلا دی
اوہ تو یہ ہیں محترم اعجاز خٹک صاحب جن کے عشق میں مبتلا ہو کے ہانی رندھاوا اپنا سب کچھ چھوڑ کے آ چکی تھی
اور یہ محترم طوائفوں کے کہنے پہ لڑکیاں اغوا کرتا پھر رہا ہے
بہت افسوس ہوا ہانی مجھے تمھارا انتخاب دیکھ کے
چلو سیانے کہتے ہیں کہ
محبت اندھی ہوتی ہے
ہانی کے معاملے میں تو مجھے یہ اندھی کے ساتھ ساتھ بہری اور گونگی بھی لگ رہی تھی
میں نے پتہ نہیں کیوں اس رئیس زادے اعجاز خٹک کو اپنے آفس بلا بھیجا
شاید دل کے کسی کونے میں یہ چور بھی چھپا بیٹھا تھا کہ اس سے ہانی کی خیریت ہی معلوم ہو جائے
پہلے تو اس نے روایتی امیروں جیسی اکڑ دکھائی
اور کسی بھی قسم کے تعاون یا بات چیت سے صاف انکار کر دیا کیونکہ
ہمارا کیس اتنا مظبوط نہیں تھا اور اسے کسی بھی وقت عدالت سے ضمانت ملنے والی تھی
پھر میں نے نہایت حکمت سے کام لیتے ہوئے
اعجاز کو اپنا ہانی کے حوالے سے تعارف کروایا
اور بڑے پیار سے ہانی کی خیریت دریافت کی
اس کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا
کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ انسپکٹر رندھاوا ثمران
ہانی کو میں کیوں گھر سے بھگا کر لے جاؤ ں گا
یا اس سے شادی کروں گا
میرے اور اس کے درمیان تو ایسا کوئی تعلق ہی نہیں تھا
بس کالج کے دنوں میں میری ایک کزن تھی سمیرا جو اس کی کلاس فیلو تھی اس کی وجہ سے ہانی کے ساتھ تھوڑی سلام دعا یا ایک آدھ بار گپ شپ ہوئی تھی
اعجاز نے میری پوری بات سن کر نہایت حیرانگی سے مجھے جواب دیا
یا تو یہ بندہ مجھے بیوقوف سمجھ رہا تھا یا خود کو بہت چالاک
جو اپنی طرف سے کوئی بھی سٹوری گھڑ لے گا اور میں اس کی بات پہ آنکھ بند کرکے یقین کر لوں گا
دیکھو اعجاز میں تم سے کوئی مذاق نہیں کر رہا
ایک جیتی جاگتی لڑکی کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو کہ تمھارے ساتھ اپنی شادی کی رات گھر سے بھاگ کر جا چکی ہے
اور تم مجھے پتہ نہیں کیا کہانی بنا کے بتا رہے ہو
سیدھی طرح بتاتے ہو ہانی کے بارے میں یا میں
اپنا طریقہ استعمال کروں
میں نے غصے سے گرج کر کہا
دیکھیں انسپکٹر رندھاوا آپ جہاں سے مرضی میری تفتیش کروا لیں میرے گاؤں گھر خاندان دوستوں جس سے مرضی پوچھ لیں
میرا سر ربانی کی بیٹی ہانی سے کوئی لینا دینا نہیں
اور نہ ہی میں نے اس سے شادی کی ہے
اعجاز نے بڑے اعتماد سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے جواب دیا
میں لاجواب ہو چکا تھا میرے پاس اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت نہیں تھا
اس لیے میں خاموش ہو کر گھر آ گیا
لیکن مجھے اس قسم کے انسان پہ ایک رتی برابر بھی اعتبار نہیں تھا اس لیے میں نے اس کی مکمل چھان بین کروانی ضروری سمجھی
ایسا نہ ہو کہ اس نے ہانی کے ساتھ کچھ غلط کیا ہو اور اب اپنے آپ کو بچانے کے لیے جھوٹ بول رہا ہو
___________
سارا دن بہت مصروف رہا اس لیے بستر پر لیٹتے ہی پلکیں خود بخود بند ہونے لگیں
مگر ابھی سونا نہیں تھا ابھی مجھے ہانی کا کیس حل کرنا تھا
اس لیے جیب سے ایک سگریٹ نکال کے سلگایا
اور لمبے لمبے کش لینے لگا
دھواں اوپر کی سمت اٹھ رہا تھا
میں دھویں کی طرف دیکھ رہا تھا کہ اچانک ہانی کی آواز آئی
سگریٹ بزدل پیتے ہیں
اور بہادر پتا ہے کیا پیتے ہیں؟
اس نے خوابناک نظروں سے میری طرف دیکھ کر کہا
کیا؟
میں نے حیرانگی سے پوچھا
دوسروں کا خون
اس نے شرارت سے میرے چہرے پہ اپنے لمبے ناخن گاڑتے ہوئے کہا
اور اگر میں نہ ہٹوں تو؟
میں نے اس کی نظروں میں جھانکتے ہوئے کہا
تو ٹھیک ہے میں تم سے دور چلی جاؤں گی
اس نے سادگی سے جواب دیا
ہانی میں سب چھوڑ دوں گا یہ دیکھو میں نے سگریٹ پھینک دی مگر تم مجھ سے دور نہ جانا
اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ہانی دیوار میں کہیں غائب ہو گئی
یک دم میری آنکھ کھل گئی میرا جسم پسینے میں شرابور تھا
افف میرے خدا یہ خواب تھا
یک دم ایک عجیب خیال نے مجھے اندر تک ہلا دیا
اگر ہانی خواب بن چکی ہوئی تو پھر تم کیا کرو گے اگر اس دنیا میں اس کا وجود نہ ہوا تو؟
اس خیال کے آتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میرے بدن سے کسی نے روح کھینچ لی ہو
نہیں نہیں ہانی ٹھیک ہو گی بالکل ٹھیک میں خود اسے تلاش کروں گا
میں نے اپنے آپ کو تسلی دی اور دوبارہ بستر پہ لیٹ کے سونے کی کوشش کرنے لگا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...