دعا۔۔۔۔!! دروازہ کھولو۔۔۔۔!!
زیان اندر آیا تو اسے کہیں بھی دعا نظر نہ آٸی۔
آنکھیں موندتے اپنا غصہ کنٹرول کرتے وہ اس روم کی جانب بڑھا۔ جو لاکڈ تھا۔ اور اسے پکارا۔ لیکن کوٸی جواب نہ آیا۔
دعا۔۔۔۔!! اوپن دا ڈور۔۔۔۔!!
زیان نے لب بھینچتےہوٸے کہا۔
ایسا پہلی بار ہوا تھا۔ کہ وہ یوں روٹھ کے دروازہ بندکر گٸ تھی۔
میں آخری بار کہہ رہا ہوں۔۔ دروازہ کھولو۔۔۔۔ !!ورنہ۔۔۔۔
زیان نے دھمکی دی ۔ لیکن جواب ندارد۔
زیان کو فکر ہوٸی۔
فوراً دوسرے روم میں گیا۔ اور کبرڈ سے کیز نکال باہر آیا۔
اس کے سامنے عفان کا چہرہ لہرایا۔ اسکا دل دھڑکنے لگا۔
وہ اب مزیدکسی کو۔نہیں کھو سکتا تھا۔
کیز سے دروازہ کھولتے اس کے ہاتھ لرزے اور دروازہ کھلا۔
وہ فوراً اندر داخل ہوا۔۔
ادھر ادھر نظریں دوڑاٸیں۔ تو وہ سامنے بیڈ کے پاس بیٹھی آنسو بہاتی نظر آٸی۔ اس کا دھیان یان پے نہ تھا۔
اسے صحیح سلامت دیکھ زیان نے گہرا سانس لیتے آنکھیں اک لمحے کے لیے موندیں۔
اور اگلے پل غصے سے اسکی طرف بڑھا۔ اور بازو سے پکڑ کے کھڑا کیا۔ وہ جو مزے سے رونے کا شغل۔فرما رہی تھیں۔ زان کو کھینچ کے کھڑا کرنے پے بری طرح چونکی۔
تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے کیا۔۔۔؟؟ کتنی دیر سے کہہ رہا ہوں۔۔ دروازہ کھولو۔۔۔ سناٸی نہیں دیا کیا۔۔۔؟؟
جارحانہ تیور دیکھتے دعاکے خاموش آنسو بہے۔ اپنی بازو چھڑانی چاہی۔ لیکن پکڑ اور سخت ہوگٸ۔
آٸیندہ اگر اسطرح کیا
than i swear..
میں کیا کروں گا۔۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔
Dammmmmm
زیان نے اسے چھوڑا۔ اور ساٸیڈ پے ہوتا بالوں میں ہاتھ پھیرتا اپنا غصہ کنٹرول کرنے لگا۔
دعا کواسکی حالت ٹھیک نہ لگی۔
شاید زیادہ ہوگیا۔
مجھے زیان کے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔۔۔ !
دعا کو فوراً اپنی غلطی کا احساس ہوا۔
اور دھیرے سے چلتی اس کے پاس آٸی۔ اسکی بازو سے پکڑنا چاہا لیکن زیان نے جھٹکے سے اپنی ازو چھڑاٸی۔
آنسو پھر سے بہنے کو تیار تھے۔
دعانے پھر سے بازو سے پکڑا۔ زیان نے پھر سے اسکا ہاتھ جھٹکا۔ لیکن اب کی بار نرمی تھی۔ لیکن اسکی طرف دیکھا بھی نہ۔۔
وہ بچپن سے ایسی ہی تھی۔ اپنی غلطی ہوتی تو آ کے اسا بازو پکڑتی۔ اور کھینچتی۔منہ سے کبھی نہیں بولتی تھی۔
خاوش بہتے آنسوٶں سے ایک بار پھر زیان کا بازو پکڑا۔ اب کی بار وہ جھٹک نہ سکا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتے اسکے سامنے آٸی۔ زان اسے دکھنے سے باز ہی تھا۔ وہ جانتا تھا اسکے آنسو اسے کمزور کر دیں گے۔ اور وہ پھر سے دوبارہ ایسا کرے گی۔
لیکن ابھی نہ سمجھایا اور ایکشن لیا۔تو اسے پتہ تھا۔ ساری زندگی وہ ایسے ہی کرے گی۔ دروازہ بند کر کے بیٹھ جاۓ گی۔ جو زیان تو بھی بھی افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔
سو۔۔۔ررررری۔۔۔۔!! بالآخر روتے ہوٸے بولی۔ یہی اک لمحہ زیان کو پگھلا گیا۔ اسے دیکھتے پیار سے آنسو صاف کیے۔ اور اپنے سینے سے لگایا۔
دنیا۔۔۔۔!! آٸیندہ ایسا بھول کے بھی مت کرنا۔۔۔!! زین ک لہجہ بھی نم ہوا۔
کبھی نہیں۔۔۔کروں گی۔۔۔!! لیکن آپ بھی وعدہ کریں۔۔ مجھے کبھی بھی ڈانٹیں گے نہیں۔۔۔
سر اٹھا کے بچوں کی طرح کہتی وہ زیان کو اپنے دل کے بہت قریب لگی۔
نہیں ڈانٹو گا۔۔۔ !! زین نے اسے کھینچ کے واپس سینے سے لگایا۔ تو وہ مسکرا دی۔
آپ۔۔ پروفیسر ہو۔۔۔ یہ بات آپ نے کیوں چھپاٸی۔۔۔؟
اب کی بار بہت آرام اور نارمل انداز سے پوچھا۔
ادھر دیکھو میری طرف۔۔۔!! زیان نے اسکا چہرہ اپنی طرف کیا۔
یہ بات۔۔۔!! گھر میں کسی کو پتہ نہیں چلنی چاہیے۔۔۔!!
زیان اب کے سنجیدگی سے بولا۔
لیکن ۔۔۔کیوں۔۔۔؟؟ وہ الجھی۔
وقت آنے پے بتا دوں گا۔۔۔ بس یہ جان لو۔۔۔ یہ ہمارا سیکرٹ ہے۔۔۔
Between husbad and wife.
زیان نے اسے اعتماد میں لیا۔
او کے۔۔۔۔! دا نے اثبات میں سر ہلایا۔
اور یونی میں۔۔ یہ نہیں پتہ چلنا چاہیے کہ ہم ہسبینڈ واٸف ہیں۔
کیوں کیوں۔۔ کیوں۔۔۔؟؟
وہ جو دوبارہ اسکے سینے پے سر رکھنے لگی تھی۔ اسکی بات پے فوراً سر اٹھاتے جارحانہ تیور لیے بولی۔
یہ بھی سیکرٹ ہے۔۔۔!!
کان میں سرگوشی کی۔
دعا اسے نظروں کے ذریعے جانچنے لگی۔
کہیں۔۔۔ آپ۔۔۔۔ کوٸی۔۔۔ ایجنٹ۔۔۔۔؟؟
شششششییییییی!!
یہ راز وطن کی امانت ہوتے ہیں۔۔ دعا۔۔۔ امید کرتا ہوں۔۔ مزید کچھ نہیں پوچھو گی۔۔۔؟؟
زیان نے اسے قریب کرتے کان میں سرگوشی کی۔
زیان کا لہجہ بتا رہا تھا۔ وہ پکا محبِ وطن ہے۔
دعا کی آنکھیں پھر سے جھلملا اٹھیں۔
اسے اپنے شوہر پے بہت فخر ہوا۔
اب اسے یاد آیا۔ کیوں۔۔ جب بھی زیان اس سے ملتا تو چہرہ ڈھانپنے والی کیپ پہنتا۔۔
وہ ایک دوبار پوچھ چکی تھی لیکن وہ ٹال گیا تھا۔
یہاں تک کہ آج نہ ہی اس نے اسے یونی چھوڑا۔ اور نہ ہی اسے یونی لینے آیا۔۔۔
البتہ ڈراٸیور اور گاڑی بھیج دی۔ اور اس بات پے بھی دعا کو زیادہ غصہ آیا ہوا تھا۔
اور آج خود سے شرمندگی ہوٸی جو اپنے شوہر کو غلط سمجھا۔
آٸسکریم کھانے چلیں۔۔۔؟؟ زیان نے اسکا دھیان بٹایا۔
ورنہ وہ جانتا تھا۔ وہ اس بات کے زیرِ اثر رہے گی۔
آپ۔۔۔ لے کے جاٸیں گے۔۔۔؟؟
دعا نے حیرت سے پوچھا۔
زیان نے گھڑی پے ٹاٸم دیکھا۔ رات کے آٹھ بج رہے تھے۔
اپنا مخصوص ماسک پہنا۔ اور اسے لیے باہر گیراج میں آیا۔ اور اپنی ہیوی باٸیک نکالی۔
زیاااااا۔۔۔۔ن۔۔۔!! میں اس پے کیسے بیٹھوں ۔۔؟؟
مجھے ڈر لگتا ہے۔۔۔!!
دعاگھبراٸی۔
ایسے ہی ڈر لگتا ہے۔۔۔
زیان شاہ کی بیوی ہو۔۔۔۔!! چلو۔۔ بیٹھو۔
زیان نے خود ہیلمٹ پہنا اور اسے بھی دیا۔
مجھے۔۔ آٸسکریم۔۔ نہیں ۔۔کھانی۔۔۔۔!! دعا ابھی بھی گھبرا رہی تھی۔
ایک گڈ نیوز ہے۔۔۔!!زیان نے مسکراتے ہوٸے کہا
کیا۔۔۔؟؟ آپ۔۔پاپا بننے والے ہیں۔۔؟؟ دعا کی جلدی میں زبان پھسلی۔ تو زیان کے چہرے پے ایک مسکراہٹ رقصاں کرنے لگی۔
بیوی اگر موقع فراہم کرے گی تو وہ بھی بن جاٸیں گے۔
زیان کی معنی خیز بات پے دعا بلش کرنے لگی۔ اور خاموشی سے ہیلمٹ پہنتی اسکی باٸیک پے بیٹھی۔
دنیا۔۔۔۔!! کس کے پکڑو۔۔۔۔۔ !!
زیان نے مسکراہٹ ضبط کرتے کہا۔ اور باٸیک اسٹارٹ کی۔ گیراج سے باہر نکالتے باٸیک ہواٶں سے باتیں کرنی لگی۔
جتنی دیر وہ باٸیک پے رہے دعا نے سانس روکی رکھی۔ ایک آٸسکرییم شاپ کی بیک ساٸیڈ پے اس نے باٸیک روکی۔ اور اس بت بنی دعا کو دیکھا۔
ہوش میں آجاٶ۔۔۔ دنیا۔۔۔!!
اسکی آنکھو ں کے آگے چٹکی بجاتا وہ آٸسکریم لینے شاپ پے گیا۔اور دو منٹ میں ہی واپس لوٹ آیا۔
آپ گڈ نیوز کا بتا رہے تھے۔
آٸسکریم کا باٸٹ لیتے بولی۔
ہمممممم۔۔۔۔ زیان پھر مسکرا دیا۔
مماکا فون آیا تھا۔اس جمعہ کو۔۔ عین بھابھی اور فارس بھاٸی کی شادی ہے۔۔
واٹ۔۔۔۔؟؟ کیا۔۔ واقعی۔۔۔؟؟
دعا اونچی آواز میں بولی۔
آہیستہ یار۔۔۔۔!! زیان نے کان پے ہاتھ مارا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔میں ۔۔۔۔ مطلب۔۔۔ آپی کی رخصتی۔۔۔۔؟؟
دعا سے خوشی سے بولے ہی نہیں جا رہا تھا۔
جی۔۔۔ جی۔۔۔ وہی کہا۔۔ میں نے۔۔۔!!
اوہ جمعہ تو دو دن بعد ہے۔۔۔۔!! اور ہم یہاں۔۔۔ !!
ہم کب جاٸیں گے۔۔۔؟؟ دعا کو جانے کی جلدی ہوٸی۔
مسز دعا۔۔۔ زیان۔۔۔!! آپ کو آۓ ابھی۔۔ دن ہی کیا ہوٸے ہیں۔۔ کہ آپ واپس جانے کی بات کر رہی ہیں۔۔!! زیان نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
زیان شاہ۔۔۔!! کوٸی بات نہیں۔۔۔ پروفیسر۔۔ جان پہچان والابندہ ہے۔۔۔۔کچھ نہ کچھ ہوجاۓ گا۔۔
آنکھ ونک کرتے دعا نے مسکراتے ہوٸے کہا۔ تو زیان بھی کھل کے مسکرایا۔
آج رخصتی تھی۔ اور ابرار بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپ رہا تھا۔
وہ مزید باپ پے بھروسہ نہیں کر سکتا تھا اب۔
تم سب کو پتہ ہے ناں۔۔ کیا کرنا ہے۔۔۔!!
ابرار باپ کو بتاٸے بنا اب اپنی ہی پلاننگ کر رہا تھا۔
اسکا ارادہ اب کی بار۔۔ عین کو ہی غاٸب کر دینا تھا۔
اور اس کے پیچھے اسکا شیطانی دماغ بہت بڑی اسکیم بنا کے بیٹھا تھا۔
yes sir….!!
سب نے یک زبان ہو کے کہا۔
مجھے وہ یہاں چاہیے ایک گھنٹے کے اندر اندر ۔۔۔ اب جاٶ او کام پے لگو۔
کہتے ہی ابرار نے فون کان سے لگایا۔ دوسری طرف فاریہ تھی۔ جو اسکا ساتھ دے رہی تھی۔
ہاں۔۔ بھاٸی۔۔۔!! کام ہو گیا ہے۔۔۔؟
دھیرے سے پوچھا۔
ہاں۔۔۔ !! تم بتاٶ وہاں کیا سچویشن ہے۔۔۔؟؟
دلہن بالکل تیار ہے۔ اور گاڑی کا ویٹ ہو رہا ہے۔۔۔ !!
فاریہ بول بال کے زبردستی عین کو اپنے ساتھ اپنی دوست کے گھر لاٸی تھی۔ جس نے پارلر کا کورس کیا ہوا تھا۔
خود بھی وہیں تیار ہوٸی اور عین کو بھی وہیں تیار کروایا۔
وہ جو دل تھامے دلہن بنی بیٹھی تھی۔ فارس شاہ کے ڈر سے اسکا آدھا خون سوکھ گیا تھا۔
اسے یہ خبر ہی نہ ہوٸی کہ اسکی بہن۔۔۔ اسکی کزن اس کے لیے کون سا گھڑا کھود رہی ہے۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم زیان اور دعا ایک ساتھ گھر داخل ہوٸے۔
بہت کوشش کے باوجود بھی انہیں چھٹی نہ ملی۔۔
اور اب بھی وہ صرف دو دن کی leave پے ہی آسکے تھے۔
وَعَلَيْكُم السَّلَام ! شکر۔۔ ہے اللہ کا پہنچ گٸے۔۔۔چلو۔۔۔ آجاٶ۔۔ جلدی۔۔۔ سے اورتیار ہوجاٶ۔
ماریہ شاہ نے انہیں دیکھتے فوراً کہا۔
تیاربعد میں پہلے آپی سے ملنا ہے۔۔۔ کہاں ہیں۔۔ وہ۔۔۔؟؟ دعانے چہکتے ہوٸے کہا۔
زیان مسکراتے ہوٸے الماس بیگم سے ملنے ان کے روم کی طرف بڑھا۔
وہ۔۔۔ وہ تو۔۔۔ پارلر۔۔ گٸ ہے۔۔۔!! آتی ہوگی۔۔۔ تم تیار ہوجاٶ۔
ماریہ شاہ کا لہجہ جہاں لڑکھڑایا۔ وہیں انہی قدموں پے زیان بھی پلٹا۔
کس۔۔۔ کس کے ساتھ۔۔۔؟؟ دعا کو کچھ صحیح نہ لگا۔ عین آج تک کبھی پارلر نہیں گٸ تھی۔ وہ اکیلے بھی کبھی گھر سے باہر نہیں نکلی۔ تو آج ۔۔ گٸ۔۔۔ وہ بھی پارلر۔۔۔!!
وہ۔۔۔ ہے ناں۔۔ محلے میں۔۔۔ ہی۔۔۔ فاریہ۔۔ کی دوست کا۔۔ وہی لے کے۔۔۔۔!!
مما کونسے محلے میں۔۔۔؟؟ اور ۔۔۔ آپ نے کیسے جانے دیا۔۔آپی کو اسکے ساتھ۔۔۔۔؟؟ آپ کو۔۔۔!!
دعانے فوراً بات کاٹی۔ اسے فاریہ سے ہمیشہ نیگٹیو واٸبز آٸیں تھیں۔ دعا اور زیان کو یہ فیملی شروع سے ہی پسند نہیں تھی۔
کچھ نہیں ہوتا بیٹا۔۔۔!! وہ بھی بیٹی۔۔ ہے اس گھر کی۔۔۔ ہم اعتبار نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔۔۔؟؟ماریہ شاہ نے پیار سے سمجھایا۔
آپ۔۔۔ فون کریں۔۔ اور ۔۔ایڈریس لیں۔۔۔
دعا نے فون ماریہ شاہ کو دیتے عجلت سے کہا۔
ارے بیٹا۔۔۔ آنے والی ہوں۔۔۔
چچی جان۔۔۔!! آپ۔۔ فون ملاٸیں اور پوچھیں کہاں ہیں وہ۔۔۔؟ ہم جاتے ہیں لینے ابھی۔
زیان نے بھی دعا کی ساٸیڈ لیتے سنجدگی سے کہا۔
تو ماریہ شاہ اثبات میں سر ہلاتیں کال ملانے لگیں۔
کال جا رہی تھی۔ لیکن کوٸی اٹھانہیں رہا تھا۔
ایک بار دو بار۔۔۔ تین بار۔۔ کال جار ہی تھی لیکن کوٸی بھی اٹھا نہیں رہا تھا۔
مما۔۔۔ آپ کو نہیں۔۔ بھیجنا چاہیے تھا۔۔۔
دعا کالہجہ بھی نم ہوا۔ اور دل بھی بہت زور سے دھڑکنے لگا۔
ماریہ شاہ منہ پے ہاتھ رکھے اپنے آنسو ضبط کرنے لگیں۔
پلیز۔۔ پریشان نہ ہوں۔۔ چچی جان۔۔۔!! یہ بتاٸیں انہیں گٸے ہوٸے کتنی دیر ہوٸی ہے۔۔۔؟؟
شاید۔۔۔ دو گھنٹے۔۔۔۔؟
ماریہ شاہ بمشکل زیان کی بات کا جواب دے پاٸیں۔
زیان نے فار س کو کال ملاٸی۔
اسکے نمبر پے بھی کال جا رہی تھی۔
لیکن وہ بھی نہیں اٹھا رہا تھا۔
میں بھاٸی کو دیکھتا ہوں۔۔زیان کہتے کال ملاتا اوپر گیا۔
مما اگر ۔۔۔ آپی ۔۔ کے ساتھ۔۔۔ کچھ۔۔ بھی۔۔ برا۔۔۔؟؟
اللہ کا واسطہ ہے۔۔۔ ایساکچھ مت کہو۔
بابا کہاں ہیں۔۔۔؟؟
دعا نے انے آنسو صاف کرتے فراز شاہ کا پوچھا۔
گھر میں کسی ۔۔۔ ک نہیں پتہ۔۔۔ عین کے فاریہ کے ساتھ جانے کا۔۔۔!!ایک اور بم پھوڑا۔
دعا نے حیرانی سے ماں کودیکھا۔
مما آپ۔۔ اتنی بڑ غلطی کیسے کر سکتی ہیں۔۔۔؟؟
فارس بھاٸی اپنے روم میں نہیں ہیں۔
زیان بھی وہاں پہنچا۔ اور پریشان تھا۔
اب کیا ہوگا۔۔۔؟؟ آپی۔۔۔۔ کو کچھ ہو۔۔ نہ۔۔۔جاٸے۔۔؟؟
دعا نے بمشکل۔خود پے قابو کیا ہوا تھا۔
دلاور شاہ اور فراز شاہ دونوں ایک ساتھ اندر داخل۔ہوٸے۔
دعا کی بات انہوں نے بھی سن لی۔
کیا ہوا۔۔ عین کو۔۔۔؟؟ فرز شاہ نے پوچھا تو تینوں کی نظریں بیک وقت ان پے اٹھیں۔
اور کتنی دیر ہے فاریہ۔۔۔؟ گھر کب آٸے گا۔۔۔؟؟ ہم تھک گٸے ہیں۔
عین جو گھونگھٹ نکالے فاریہ کے ساتھ گاڑی میں بیٹھی تھی۔ اکتا کے بولی۔
جبکہ فاریہ نے منہ بنایا۔ وہ مسلسل موباٸیل پے ابرار سے رابطے میں تھی۔ اور اس وقت وہ عین کو لیے ابرار کے بتاۓ گۓ ایڈریس پے لے کے جارہی تھی۔
اسی کے بھیجے ہوٸے ڈراٸیور کے ساتھ۔۔۔
جبکہ اپنی گاڑی کو وہ آدھے راستے سے واپس بھجوا چکی تھی۔ کیونکہ وہ راستے میں ہی خراب ہوگٸ تھی۔
اور خود عین کو لیے وہ ٹیکسی کروا کے اپنی دوست کے گھر پہنچی تھی۔
بس میری جان۔۔۔ پہنچ گٸے۔
گاڑی گیٹ کے اندر داخل ہوٸی۔
عین کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔
اس کے حواسوں پے بس فارس چھایا ہوا تھا۔ اور بار بار آنکھوں کے آگے اسکا غصیلہ چہرہ آرہا تھا۔
فاریہ اسے لیے اندر بڑھی۔ وہ بمشکل چل رہی تھی۔
اسے اتنا بڑا گھونگھٹ اوڑھایا ہوا تھا۔ کہ اسے راستہ بھی بمشکل ہی نظر آرہا تھا۔
فاریہ۔۔۔ پلیز۔۔ ہمیں ہمارے روم میں لے جاٶ۔۔۔!!
عین کی فرماٸش پے فاریہ طنزیہ ہنسی ہنسی۔
اہاں ہاں۔۔ کیوں نہیں۔۔۔؟؟ لیکن پہلے گھر کا دیدار تو کر لو۔۔۔۔!
کہتے ساتھ ہی فاریہ نے اسکا گھونگھٹ ہٹایا۔
لیکن گھونگھٹ ہٹاتے ہی تمام لاٸٹس آف ہو گٸیں۔
یہ۔۔۔یہ۔۔کیا ہوا۔۔۔؟؟ ف۔۔۔۔فففاریہ۔۔۔!!
مما۔۔۔۔۔۔ کوٸی ہے۔۔۔؟؟ عین کا دل کسی انہونی کے خیال سے لرزا۔
مممممااا۔۔۔۔۔!!عین نے آواز لگاٸی۔کہ سامنے ہی ایک شخص لاٸٹر آن کرتے اسکے پاس آیا۔ عین نے لاٸٹر کی روشنی میں بھی ایک لمحے میں اس کو پہچان لیا۔
ڈیول۔۔۔۔۔!!
ویلکم ویلکم۔۔۔۔ ٹو اوور ہوم۔۔۔ ہوم سویٹ ہوم۔۔۔!!
ابرار کے کہتے ہی ساری لاٸٹس آن ہوگٸیں۔
وہ بہت خوش تھا۔
عین نے اپنے داٸیں باٸیں دیکھا۔ وہ اسکا گھر نہیں۔۔۔ کو ٸی اور جگہ تھی۔
ابرار اسکے سجے سنورے روپ کو بہت ے باکی سے دیکھے جا رہا تھا۔
یہ۔۔۔ کون۔۔۔ سی ۔۔ جگہ۔۔۔؟؟ ہم یہاں۔۔۔کیسے۔۔۔؟؟
عین کو کچھ سمجھ نہ آیا۔
جانِ من۔۔۔ !! کیا قسمت پاٸی ہے تم نے۔۔۔
مہندی۔۔۔ عفان کے نام کی۔۔
نکاح فارس کے ساتھ۔۔
اور ۔۔۔۔
Golden night ….
میرے ساتھ۔
وہ بہت قریب آگیا تھا۔
عین ایک ایک قدم لیتی پیچھے ہوٸی۔
وہ ڈر رہی تھی اسکے انداز سے۔ لیکن وہ ہمت نہیں ہار سکتی تھی۔
آپ۔۔۔ ہمیں ۔۔ گھر چھوڑ۔۔۔ آٸیں۔۔۔ سب۔۔۔ انتظار۔۔۔
وہ خود کو خود حوصلہ دیتی بولی۔ تو ابرار کا دماغ گھوما۔
خبر دار ! جو۔۔۔۔ گھر کا نام بھی لیا تو۔۔۔!!
وہ زوردار آواز میں دھاڑا کہ عین سہم کے ایک اور قدم پیچھے لے گٸ۔
اب سے یہی تمہارا گھر ہے۔۔ اور تم۔۔ میری۔۔۔ صرف میری۔۔ابرار شاہ کی۔
ابرار ن بہت اونچی آواز میں کہا۔
عین کو وہ کوٸی ساٸیکو ہی لگا۔
اسنے اپنے اردگرد دیکھا۔ باہر جانے کا راستہ اسے نظر آگیا۔ اور وہ پیچھے مڑتی سر پٹ باہر دروازے کی طرف بھاگی۔
لیکن ابرار نے فوراً اسے جا لیا۔
اور اسکا رخ اپنی طرف کیا۔ وہ ڈر کے مارے کانپنے لگی۔
کہاں۔۔۔؟؟ جانِ من۔۔۔ اتنی بھی کیا جلدی ہے۔۔۔۔؟؟ آٶ۔۔ اندر چلو۔۔۔ !!تمہیں ہمارا بیڈ روم دکھاتا ہوں۔۔۔
ابرار اسے پکڑے زبردستی اندر کی طرف لے کے جانے لگا
چھوڑیں ۔۔۔چھوڑیں۔۔ہمارا ہاتھ۔۔۔ آپ۔۔۔۔ گندے ہیں۔۔۔ چھوڑیں۔۔۔ ہمیں۔۔!!عین نے بہت کوشش کی اپنا آپ چھڑانے کی ۔ اور اس دوارن اسکا کامدار دوپٹہ اسکے سر سے اتر کے زمین بوس ہوا۔
عین لرز ہی تو گٸ
لیکن وہ نازک اندام کہاں اس کے چنگل سے نکل پاتی۔۔۔؟؟ روتی اور چلاتی رہ گٸ۔وہ اسے لیے روم میں آیا۔
ایک لمحے کو عین کے رونگٹے کھڑے ہوگٸے۔
پورا روم ڈیکوریٹ تھا۔
ہر طرف پھول ہی پھول تھے۔
اور ان پھولوں میں عین بھی ایک پھول ہی لگ رہی تھی۔
آپپپپپ ۔۔۔ ہمیں۔۔۔ گھر۔۔۔!! پلیز۔۔۔۔ ہمیں۔۔ گھر جانا ہے۔۔۔!!
وہ بچوں کی طرح رو پڑی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آرہی تھی۔ کیسے ہینڈل کرے ۔۔۔؟؟
چپ۔۔۔۔ایک دم۔چپ۔۔۔۔!! اب یہی تمہارا گھر ہے۔۔۔ مجھ نہں آتی ایک بات۔۔۔؟؟
ابرار نے اسے گردن کے پیچھے سے پکڑا اسکے بالوں کا جوڑا کھلا۔
اسکا پورا جسم لرز رہا تھا۔
شدتِ دل سے اپنی موت کی دعا مانگی تھی اس نے۔
اب اگر۔۔۔ تم۔نے رونا بند نہیں کیا تو۔۔۔ بہت برا حال کروں گا۔
ابرار اسکے مسلسل رونے سے تنگ پڑ گیا تھا۔
کہتے ساتھ ہی اس نے عین کو بستر پے دھکا دیا۔ وہ اوندھے منہ بستر پے گری۔ لیکن فوراً سیدھی ہوتی پیچھے ہٹی۔
بارار اپنی شرٹ کے بٹن کھولتے مکارانہ ہنسی ہنسا۔ین کا بس نہیں چل ہا تھا وہ یاتو خود غاٸب ہو جاۓ یا ابرار کو کر دے۔
وہ زور دار قہقہہ لگاتا اسکی جانب بڑھا۔
میں نے پوچھا عین کہاں ہے۔۔۔؟؟ ماریہ؟؟
فراز شاہ کی آواز اونچی ہوٸی۔
ماریہ شاہ کا سر جھک گیا۔ زیان نے انہیں مختصر ساری بات بتا دی۔
جس سے انکو مزید غصہ آیا۔ الماس بیگم بھی شور سن کے باہر آچکی تھیں۔
دردانہ بیگمبھی سب سن چکی تھیں۔
اور پریشان حال کھڑی تھیں۔ وہ کافی دیر سے کبیر شاہ اور فاریہ کو کال کر رہی تھیں۔ لیکن کوٸی بھی فون نہیں اٹھا رہا تھا۔
حد ہوگٸ۔۔۔۔ ناں۔۔ مجھے یہاں ۔۔ ان کے ظلم سہنے کے لے چھوڑ گٸے ہیں۔۔؟؟ مجھے بھی لے جاتے۔۔۔ جہاں خود گۓ ہیں۔
زیرِ لب بڑبڑاتی وہ وہاں سے واک آٶٹ کر گٸیں۔
اللہ خیر کرے۔۔۔!! ماریہ اتنی بڑی لاپرواہی آپ کیسے کر سکتی ہیں۔۔۔؟؟
الامس بیگم نے ناراضگی سے کہا۔
ماریہ شاہ کے إسو بہتے چلے جارہے تھے۔
آج اپنی بیٹیی کو خود مصیبت میں ڈال دیا تھا۔
دردانہ آنٹی۔۔۔ وہ کہاں۔۔۔ ہیں۔۔۔؟؟ انہیں پتہ ہوگا۔
زیان نے فورا ً کہا۔ تو سب نے ہاں میں ہاں ملاٸی اور دردانہ کے روم کی جانب بڑھے۔لیکن انہوں نے اندر سے لاک لگایا ہوا تھا۔
دردانہ۔۔۔!!دروازہ کھولو۔۔۔۔!! الماس بیگم نے آواز دی۔ لیکن وہ ڈر کے بستر میں دبک کے بیٹھی تھیں۔
اور دروازے پے بالکل توجہ نہ دے رہی تھیں۔
۔
اف اس قدر مکمل اور معصوم حسن۔۔۔ آج تک نہیں دیکھا۔ آج فرصت سے دیکھوں گا۔۔۔۔ اپنی محبوبہ کو۔۔۔۔!!وہ بنا پیٸے ہی نشے کے سرور میں خود کو محسوس کر رہا تھا۔
خبر دار۔۔۔۔!! جو ایک قدم بھی آگے بڑھا یا۔۔ تو۔۔۔ ہم۔۔۔ آپ کو بتا رہے ہیں۔۔۔ مار ڈالیں گے آ پ کو۔۔۔ یا۔۔۔۔ خود کو۔۔۔!!
کھوکھلی دھمکی دی جس پے ابرار شاہ کھل کے ہنسا۔
اور عین اپنی بے بسی پے آنسو ہی بہاتی رہ گٸ۔
مما۔۔۔ مما۔۔۔ کہاں۔۔ ہو سب۔۔۔؟؟
ابھی وہ مزید دروازہ بجاتے کہ باہر سے آواز آٸی۔
یہ تو۔۔۔ فاریہ کی۔۔ آواز ہے۔
الماس بیگم کے کہنے پے سب نیچے بھاگے۔
آآآآ نٹی۔۔۔۔!! فاریہ روتی ہوٸی ماریہ شاہ کے پاس گٸ۔
آنٹی۔۔!!عین کو بچا لیں۔۔۔ پلیز۔۔ وہ روۓ جا رہی تھی۔ اسکے ماتھے سے خون بہہ رہا تھا۔
بکواس بند کرو۔ اور بتاٶ آپی کہاں ہیں۔۔۔؟؟
دعا کواسکے آنسو جھوٹ لگے۔
وہ۔۔۔وہ کچھ غنڈوں نے۔۔۔ ہم پر حملہ کر دیا۔۔۔! مجھے۔۔۔ زخمی کیا۔۔۔یہ دیکھیں۔۔۔ اپنے ماتھے کی طرف ہاتھ کرتی وہ سب کو دکھا رہی تھی۔
کون۔۔۔۔کون غنڈے۔۔۔۔؟؟ زیان کو اسکی باتوں پے غصہ آیا۔
نہیں جانتی ۔۔۔۔ لیکن وہ۔۔۔ عین کو لے گٸے۔۔۔
روتے ہوٸے بات مکمل کی۔
تو فراز شاہ ایک دم سے پاس پڑی کرسی پے گر سے گۓ۔