ھریرہ بیگم کو بھی مشاء کے ایکسیڈینٹ کا پتہ چل گیا تھا وہ بیشک اسے چھوڑ کے آئ تھی مگر وہ ماں تھی اپنی بیٹی کو کیسے اس حال میں دیکھ سکتی تھی وہ فورا سلطان صاحب کے ساتھ ہاسپٹل پہنچی جمال صاحب عشاء بیگم بھی صبح ہی آگۓ تھے احمد تو کل سے یہاں تھا عشاء بیگم اور جمال صاحب نے ھریرہ بیگم سے کوئ بات کرنا ضروی نہیں سمجھا تھوڑی دیر میں ڈاکٹر باہر آۓ پیشنٹ کو ہوش آگیا ہے مگر ایک ایک کر کے آپ لوگ مل لیں مگر کوئ ٹینشن والی بات مت کیجیے گا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال صاحب سب سے پہلے اندر گۓ مشاء جمال صاحب سے گلے لگ کر بلا وجہ ہی رو رہی تھی بابا میں نے آپکو بہت تنگ کیا ہے نہ مشاء نے جمال صاحب کے گلے لگے لگے ہی کہا ہاں تنگ تو بہت کیا ہے مگر اب جلدی سے ٹھیک ہو کر گھر چلو پھر ہماری باری ہے تنگ کرنے کی جمال صاحب نے اسکے ماتھے پہ بوسہ دیا اور باہر چلے گۓ عشاء بیگم بھی مل کے چلی گئ تھی احمد اندر جانے سے پہلے جمال صاحب کے پاس گیا انکل کیا میں اندر جاؤں نہیں تم صرف اس شرط پہ اندر جاسکتے ہو اگر تم مجھے بابا بولو گے احمد نے سر اٹھا کے جمال صاحب کو دیکھا اور پھر انکے گلے لگ گیا دیکھو بیٹا وہ جذباتی ہے اور نہ جانے کیا فیصلہ کرے مگر تم ہوش میں فیصلہ کرنا اب اندر جاؤ اور اسے مناؤ جی بابا کہتا وہ اندر چلا گیا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال مجھے آپ سے ایک بات کرنی ہے ھریرہ بیگم نے جمال صاحب کو آواز دے کر کہا جو ڈاکٹر کے پاس آرہے تھے جمال صاحب نے ھریرہ بیگم کی بات سن کر بھی ان سنی کردی جمال ھریرہ بیگم نے انکاہاتھ پکڑ کے انہیں کہا کیا بات کرنی ہے جلدی بولیے جمال میں اپنی غلطی کی معافی مانگنا چاہتی ہو کونسی غلی جمال صاحب نے اکھڑے ہوۓ لہجے میں کہا جمال ہم دوبارہ بھی تو ایک۔۔۔۔۔۔ ھریرہ بیگم کی بات مکمل بھی نہ ہوئ تھی کہ جمال صاحب نے غصے سے دھاڑے آپ کیا سمجھتی ہیں کہ آپ کو غلطی کی معافی مل کتی ہے نہیں بلکل نہیں تم (جمال احب نے پہلی بار انہیں تم کہا تھا) جیسی عورتوں کی وجہ سے پاکیزہ عورتوں پہ بھی مرد شک کرتے ہیں اور ہم اب ایک نہیں ہوسکتے کیونکہ آپ کو بہت جلد طلاق مل جاۓ گی جمال صاحب ھریرہ بیگم کو غصے میں بول کر فورا چلے گۓ مگر ھریرہ بیگم ہمت ہار چکی تھی اور ساتھ ہی ایک فیصلہ بھی کر چکی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭
کیا میں اندر آسکتا ہوں احمد دروازہ knock کرکے شرارت سے کہا مشاء نے کوئ جواب نہ دیا تو وہ فورا اندر آگیا مشاء مجھے معاف کردو یار میں ہو ہی پاگل انسان بنا سوچے سمجھے اتنا کچھ کہہ دیا اور تم پہ ہاتھ بھی اٹھایا آخری بات اسنے شرمندگی سے سر جھکا کر کہی اور مشاء کے جواب کا انتظار کرنے لگا مگر اسنے کوئ جواب نہ دیا وہ اس سے منہ موڑے لیٹی تھی یار مشاء پلز نہ احمد پلز باہر سے بابا کو بھیج دو اسنے منہ موڑے ہی کہا احمد فورا اٹھ کر باہر چلا گیا اس سے یہ بے رخی نہیں دیکھی جارہی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭
ڈاکٹر نے مشاء کو گھر لے جانے کی اجازت دے دی تھی جمال صاحب چاہتے تھے مشاء احمد کیساتھ اپنے سسرال جاۓ تاکہ انکے بیچ سب ٹھیک ہوجاۓ مگر مشاء کی ضد کی وجہ سے وہ اسے گھر لے آۓ وہ مکمل طریقے سے ٹھیک نہیں ہوئ تھی اسے گھر آۓ ہۓ ایک ہفتہ ہوچکا تھا مگر وہ چپ چپ تھی اور اسکے چہرے پہ عجیب سا دکھ عجیب سی پریشانی تھی جمال صاحب چونکہ ایک باپ تھے اسلیے پریشانی کو باخوبی سمجھ گۓ تھے اور مشاء اور احمد کو کسطرح ایک کرنا ہے سوچ چکے تھے کیونکہ محبت دونوں جگہ تھی اور دونوں ہی ایک دوسرے کو نہیں بتا تھے
__________
جمال صاحب کے بے حد اصرار پہ آج مشاء کمرے سے باہر نکلی تھی جمال صاحب کسی کام سے باہر گۓ تھے موسم کافی اچھا تھا کالے بادلوں کا آسمان پہ راج تھا بارش ہونے ہی والی تھی موسم سے لطف اندوز ہونے وہ باہر لان میں آ گئ تھی بکھرے کھلے ہوۓ بال سرخ آنکھیں میک اپ سے بے نیاز سفید چہرہ وہ ایسے حال میں خوبصورت لگ رہی تھی مگر اس بات کی اسے فکر نہیں تھی وہ ایسے ہی اکیلے لان میں ٹہل رہی تھی بارش کی کچھ بوندیں اسکے اوپر آ کر گری اسنے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا وہ بوندیں بارش کی صورت ختیار کر چکی تھی باش کو دیکھتے ہی وہ خوشی سے پاگل ہوگئ تھی ناجانے کب سے وہ اس بارش کا انتظار کر رہی تھی بارش اسے ھمیشہ سے ہی پسند تھی بارش اسکے سارے آنسوؤں کو چھپا دیتی تھی وہ پھر سےاپنے آنسوؤں کو جذب کرنا چاہ رہی تھی مگر آنسوؤں نے جذبات کو مات دے دی اور اسکے گالوں پہ بہنے لگے ارے لڑکی اہر کیا کر رہی ہو کم از کم میرے لیے ہی اپنا خیل رکھ لیا کرو مشاء کو یہ آواز احمد کی لگی وہ جیسے ہی پیچھے مڑی تو وہاں احمد ہی تھا ایک پل کیلیےاسے یقین نہ آیا وہ ابھی اسکی طرف تیزی سے بڑھنے ہی لگی تھی مگر ماضی کی حرکتیں یاد آنے پہ تیزی سے بھاگ کر اپنے کمرے میں چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سلطان میں یہ گھر چھوڑ کے جانا چاہتی ہوں ھریرہ بیگم نے میر سلطان صاحب کو کہا جو صوفے پہ بیٹھے اخبار پڑھنے میں مصروف تھے مگر ھریرہ بیگم کی بات پہ ایک دم کھڑے ہوگۓ مگر آپ ایسا کیوں بول رہی ہیں سلطان مجھ سے جمال کی بےرخی نہیں دیکھی جاتی انکی آنکھوں میں میرے لیے نفرت ہے مجھے اپنا عکس صاف نظر نہیں آتا میں یہاں سے دور جانا چاہتی ہوں وہ اب رو رہی تھی ھریرہ تسلی رکھو میں جمال سے بات کروںگا سلطان صاحب نے انہیں تسلی دی اور باہر چلے گۓ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء دروازہ کھولو یار دیکھو میں معافی مانگنے آیا ہوں بم سے احمد جو کب سے دروازے پہ کھڑا تھا مگر مشاء دروازہ نہیں کھول رہی مشاء بیٹا دروازہ کھولو جمال صاحب نے کہا جمال صاحب کی آواز پہ مشاء نے دروازہ کھولا مشاء احمد کو اندر بیٹھاؤ وہ تم سے بات کرنے آیا ہے ایسے نہیں کرتے بچے مگر بابا مشاء ضد نہیں بچے جلدی سے بات مان لو اوکے بابا کہتی وہ ساۂڈ ہوگئ اور احمد اندر چلا گیا مشاء آۂم سوری یار میں دل سے معافی مانگ رہا ہوں احمد ہوگیا یا ڈرامہ اور رہتا ہے یار مشاء میں تمہارے بغیر مر جاؤں گا ہاں تو بات کہتے کہتے وہ روکی مشاء یار سوری احمد نے اسے گلے لگاتے ہوۓ احمد تم نے مجھ پہ شک کیا اور مجھے تھپڑ مارا جبکہ میری غلطی نہیں تھی یار سوری پلز مشاء اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا مگر ویسے
_________
یار سوری پلز مشاء اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا مگر ویسے مجھے تمہاری قدر ہوگئ ہے قدر تو پہلی بھی تھی اب قدر اہمیت سب جان گیا ہوں اس نے مشاء کو قریب کرتے ہوۓ احمد ایک عورت سب کچھ برداشت کرسکتی ہے مگر شک کبھی نہیں مشاء نے احمد کے گلے لگتے ہوۓ کہا اچھا نہ سوری تم مجھے بھی مار لو یار میں سچ میں شرمندہ ہوں اسنے اپنا سر نیچے کرتے ہوۓ کہا ارے معافی تو صرف دو شرطوں پہ ملے گی مشاء نے اس سے الگ ہوکر اسکا سر اٹھا کے کہا ہاں بولو میں ضرور مانونگا احمد نے فورا کہا ہممم مشاء سوچنے لگ گئ ﷲ لڑکی جلدی بتاؤں یار احمد مشاء کو کہا جو 15 منٹ سے سوچے جارہی تھی ہمم تو پہلی شرط مجھے آۂسکریم کھلانے چلو مشاء دماغ خراب ہوگیا ہے دسمبر میں آۂسکریم حد ہوتی ہے میری جان کچھ اور بولو وہ پکا مگر یہ نہیں احمد نے اسے پیار سے سمجھایا نہیں مجھے نہیں پتہ بس اب مجھے جانا ہے اس نے نروٹھے پن سے کہا اور منہ پھیر لیا مشاء احمد نے اسکا نام لے کر اسکا چہرہ اپنی طرف کیا اوکے میری جان چلو تیار ہو چلتے ہیں اوکے احمد اور اسنے اسکے گال پہ بوسہ دیا اپنی اس حرکت پہ وہ خود بھی شرمندہ تھی سوری مشاء نے سر نیچے کرتے ہوۓ کہا ارے سوری کیوں مجھے اچھا لگا اور احمد نے اسکے گال پہ بوسہ دیا مشاء شرما کے تیار ہونے چلی گئ
٭٭٭٭٭٭٭
جمال مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے کیا ہم آج ہم مل سکتے ہیں سلطان صاحب نے جمال صاحب کو فون پہ کہا جو بات ہے یہی بول دو جمال میں یہاں نہیں کہہ سکتا بات تو سمجھو اچھا ٹھیک ہے مجھے ایڈریس sms کردو شکریہ جمال کہہ کر سلطان صاحب نے فون بند کردیا
٭٭٭٭٭٭٭
مشاء تیار ہوکر نیچے آئ جہاں احمد اسکا انتظار کر رہا تھا چلیں مسٹر احمد نے اسے دیکھا تو نظر ہٹانا بھول گیا ارے ایسے کیا دیکھ رہے ہو مجھے پتا ہے میں اچھی لگ رہی ہوں مشاء کی آواز پہ احمد چونکا مجھے لگ رہا ہے میری پرانی مشاء مجھے واپس مل گئ ہے ہاہاہاہا اچھا ویسے اچھے لگ رہے ہو اگر کسی لڑکی نے تمہیں دیکھا نہ تو دونوں کو نہیں چھوڑوں گی مشاء میرے پاس تم ہو میں کیوں دیکھوں گا کسی کو اور کوئ دیکھتا ہے تو دیکھتا رہے میں صرف اپنی جان کا ہوں اچھا چلو چلیں ہاں چلو ویسے اچھا تو کوئ اور بھی لگ رہا ہے براؤن کوٹ میں احمد نے مشاء کو دیکھ کر کہا بلیک کورٹ میں کوئ حسین لگ رہا ہے اسوقت مشاء بات پہ احمد ایک دم ہنسا روڈ پہ چلنے والے لوگ سب انہیں ہی دیکھ رہے تھے وہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے قدم سے قدم ملاتے دنیا سے بےخبر باتیں کرتے ہوۓ چل رہے تھے تبھی مشاء ایک دم روکی اور ایک دم چیخی احمد۔۔۔
________
احمد وہ دیکھو سامنے آۂسکریم احمد نے سامنے آۂسکریم کا ٹھیلا دیکھا اور ساتھ ہی مسکرایا دیکھو مشاء ابھی نہیں اس مہینے میں نہیں مگر مجھے چاہیے مشاء نے ضد کرتے ہوۓ کہا سوری میرے نزدیک محترمہ کی ضد سے ذیادہ انکی اہمیت کی اہمیت احمد نے پیار سے کہا مگر مشاء اس سے منہ موڑ کے چلنے لگی احمد اسے دیکھ کے مسکرایا اور دل میں خدا کا شکر ادا کرنے لگا اسنے اسے ایک نیک،سچا اور محبت کرنے والی ہمسفر دی تھی آج اسکی زندگی اسے بہت حسین لگ رہی تھی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال میں آج آپ سے معافی مانگنے آئ ہوں جمال جو میں نے کیا وہ غلط تھا مگر خدا گواہ ہے میں نے ھمیشہ آپ کو مجازی خدا مانا اور خود کو آپکی امانت مانا ھریرہ بیگم سلطان صاحب کے ساتھ جمال صاحب کے آفس معافی مانگنے آئ تھیں جمال صاحب سفید شلوار قمیض اور گرم شال اپنے گرد لپیٹے ہوۓ اپنی کرسی پہ کوئ فاۂل دیکھنے م کیونکہ جو وہ کرنے جارہی تھی وہ ایک بڑا گناہ تھا اور وہ گناہ کے اوپر گناہ کرنے سے پہلے ایک گناہ معافی چاہتی تھیں جمال میں نے آپ سے محبت میں دغا نہیں کی تھی بسسس بہک گئ تھی میں آپکی زندگی سے اورر اسس دنیاا سے ھمیشہ کیلیے جارہی ہوں مجھے معاف کردیجیے گا ھریرہ بیگم کی بات سن کر جمال صاحب نے کوئ reaction نہیں دیا مگر انکی بات سے وہ پریشان ہوگۓ تھے تھوڑی دیر ھریرہ بیگم جمال صاحب کے جواب کا انتظار کرتی رہی مگر کوئ جواب نہ پا کر وہ چلی گئ جمال ھریرہ نے کبھی کوئ غلط حرکت نہیں کی آج وہ خود کو ختم کرنے جارہی ہے ہوسکے تو اسے روک لو جمال وہ تم سے ہی محبت کرتی ہیں سلطان صاحب نے جمال صاحب کو کہا جمال تمہارہ گناہگار تو میں بھی ہوں پھر مجھے بھی زندہ رہنے کا کوئ حق نہیں سلطان صاحب ابھی مڑے ہیتھے کہ جمال صاحب نے انہیں روکا اور انکے گلے لگ گۓ ابھی اتنا بھی بےغیرت نہیں ہوا ہوں میں کہ تیری غلیوں پہ معاف نہ کروں دونوں دوست ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے بس شیطان نے بہکا دیا تھا مگر آج انہوں نے شیطان کو مات دے کر دوستی کو جیتایا تھا دونوں آنسوؤں کے ذریعے شکوے کر رہے تھے جمال جا کر ھریرہ کو روک لو وہ تم سے بہت محبت کرتی ہیں سلطان صاحب نے جمال صاحب سے الگ ہوتے ہوۓ کہا اور جمال صاحب آنکھوں میں محبت لے کر ھریرہ بیگم کے پیچھے گۓ
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
مشاء مجھے تمہیں کچھ بتانا ہے احمد نے قریبی پارک میں بیٹھتے ہوۓ کہا ہاں بولو میں سن رہی ہوں مشاء پہلے ناراضگی تو ختم کرو ہاں بابا بولو مشاء نے اپنا مسکراتا چہرہ اسکی طرف کرتے ہوۓ مشاء ھادی کا murder ہوا تھا اور یہ بات تم جانتی ہو ھادی کا نام سن کر اسکے لبوں پہ پھیلی مسکراہٹ کی جگہ غم نے لے لی اور وہ صرف ہممممم ہی کہہ پائ اسکے دل میں ھادی کیلیے اب محبت نہیں تھی محبت اسے پہلے بھی نہیں تھی مگر ھادی کی ہر خوشی غم کو وہ اپنا ماتی تھی اور جس رشتے میں حلال رشتہ قاۂمہونے سے پہلے محبت ہو وہ رشتہ کامیاب نہیں ہوتا مشاء کہاں گم ہوگئی ہممم کہی نہیں تم ھادی کے بارے میں کیا بتا رہے تھے مشاء ھادی کا murder زوبی نے کیا ہے اور وہ اب اریسٹ ہوچکا ہے یہ بات سنتے ہی اسے چکر آگۓ تھے مشاء تم ٹھیک ہو احمد نے اسے کاندھوں سے پکڑ کر خود کے قریب کیا اور پانی کی بوتل خرید کر اسے پانی پلایا پانی پلانے کے بعد احمد نے مشاء کا سر اپنے کندھے پہ رکھ دیا مگر یہ بات۔۔۔۔۔۔ ھاشر نے مجھے بتائی مشاء کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی احمد نے کہا ھاشر کا نام سن کر مشاء نے ایک دم اپنا سر اٹھایا ھاشر بھائی انہیں یہ سب کیسے پتہ پھر احمد نے اسے سب بتایا کہ کیسے زوبی نے اسکا رشتہ بھیجا ھاشر بھی اسے پسند کرتا تھا سب کچھ اسنے مشاء کو بتا دیا مگر اس میں ھاشر کا کوئی قصور نہیں ہے مشاء وہ تمہیں جاۂز اور شرعی طریقے سے حاصل کرنا چاہتا تھا ساری بات سننے کے بید مشاء کو سمجھ آیا کہ آبیر کیوں ایک دم بدلی تھی وہ اسکا سامنا نہیں کرپارہی تھی احمد کیا آپ مجھے بیا سے ملوانے لے جاسکتے ہیں پلز احمد ہاں ضرور مگر ایک شرط پہ کیا مشاء نے احمد کو دیکھ کر کہا پہلے آۂسکریم کھاتے ہیں نہیں احمد مجھے بیا کے پاس جانا ہے پلز احمد خاموشی سے مشاء کیساتھ کار تک آیا اور گاڑی بیا کے گھر کی طرف روانہ کردی دروازہ بجنے کی آواز پہ عاۂشہ بیگم (آبیر کی ماما) نے دروازہ سلام دعا کے بعد مشاء آبیر کے کمرے کی طرف گئ جبکہ احمد ھاشر کے ساتھ باتوں میں لگ گیا آبیر کمرے میں لیٹی مشاء کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی ایک دم اسکے روم کا دروازہ بجا گھر میں تو کوئ knock نہیں کرتا یہ کون ہے آجاۂیں اور جب دیکھا تو بیا کو یقین نہ آیا کہ مشاء تھی تم کب سے knock کرکے آنے لگی knock تو اجنبی کرتے ہیں لگتا ہے احمد بھائی نے تمیز سکھا دی ہے آبیر نے شوخ ہوتے ہوۓ کہا اجنبی تو میں ہو ہی گئ ہوں مشاء نے روٹھے انداز میں کہا کیا بکواس ہے یہ مشاء آبیر نے غصہ کرتے ہوۓ کہا بکواس نہیں حقیقت ہے بیا ایک بار مجھے حقیقت بتا کر تو دیکھتی ھادی کے ساتھ جم ہونا تھا وہ اسکے نصیب میں لکھا تھا اور تم ھاشر بھائ کو اسکی سزا دے رہی ہو مشاء آۂم رۂیلی سوری مگر کال پہ بھائی کو بات کرتے سنا تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہوگئی مجھے معاف کردو معافی تو تم ھاشر بھائ سے مانگو ان سے تو مانگ لی اور انہوں نے معاف بھا کردیا مشاء اور وہ دونوں بھی سارے گلے شکوے بھلا کر ایک دوسرے کے گلے لگ گئی
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جمال صاحب نے صحیح موقع پہ آکر ھریرہ بیگم کو بچایا تھا ورنہ سامنے سے آنے والی گاڑی کے نیچے وہ ہوتی ھریرہ میں جانتا ہوں جو کچھ آپ نے کیا وہ غلط تھا مگر آپکو غلطی کا احساس ہوگیا یہ کافی ہے میرے لیے ہم اب بھی پہلے جیسے ہی ہیں جمال صاحب نے ھریرہ بیگم کو اپنے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا بسسس مشاء کا موڈ ٹھیک ہوجاۓ پھر گھر چلتے ہیں ہمارے گھر نہیں ایسا نہیں ہوسکتا دروازے پہ کھڑی مشاء نے کہا یہ یہاں سے نہیں جاسکتی سب کے چہروں پہ ایک دم مایوسی چھا گئی کیونکہ ماما میرے ساتھ رہیں گی اور مشاء بھاگ کر ھریرہ بیگم کے گلے لگ گئی مجھے معاف کردیں ماما میں نے بہت غلط کیا ارے کوئ بات نہیں غلطیاں بچوں سے ہوتی ہے اور ماں باپ انہیں باپ کردیتے ہیں بیٹا ارے مجھ معصوم کو بھی کوئی پوچھ لیں احمد نے سب کو روتے دیکھ کے کہا ہاہاہاہا سب ایک ساتھ ہنسے ارے میرے بیٹے آؤ جمال صاحب نے احمد کو گلے لگایا اور پھر مشاء کو احمد کے ساتھ کھڑا کیا ladies and gentle men آج چونکہ سب ایک ہوچکیں ہیں میں مشاء کو ایک گفٹ دینا چاہتا ہوں اسنے جیب سے ring نکال کے اسے پہنائی اور سب نے تالیاں بجائی وہ سب زندگی کی حسین راہ پہ تھے بے شک ﷲ بہت رحم کرنے والا ہے
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...