گہری سانس خارج کر کے انہوں نے اپنے سامنے کھڑے اس وجود کو دیکھا تھا ۔۔
جو عام انسانی نظروں سے پوشیدہ تھا ۔۔
جو خبر وہ لایا تھا وہ انہیں ٹھٹھکا گئی تھی ۔۔
شمعون کے اپنے قبیلے کے ہی کچھ لوگوں نے مل شمعون کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ۔۔
ساتھ ہی ایک بہت بڑے جادوگر کو بھی ملا کیا تھا ۔۔
وہ شنکر جادوگر تھا ۔۔
کالے جادو کی دنیا کے سب سے بآثر جادوگروں میں سے ایک ۔۔
شنکر اتنی طاقتیں حاصل کر چکا تھا کہ اب اسے انسان کہنا عجیب لگتا تھا ۔۔
وہ بہت سی حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک بن چکا تھا ۔۔
کہا جاتا ہے اس نے شیطان کی راہ میں پہلی قربانی اپنے ہی بھائی کی چڑھائی تھی ۔۔
اس کی اصل رہائش گاہ بھارت کے کسی ویرانے میں تھی ۔۔
تاہم وہ اپنے مطلب کے لیئے ملکوں ملکوں جادو کے زور پر گھومتا تھا ۔۔
اور اب اسے جنون سا ہو چکا تھا دنیا کے ہر قسم کے جنات بلائوں چڑیلوں ڈائنوں کے گروہ میں سے ایک ایک کو اپنی غلامی میں لینے کا ۔۔
سو بلیوں اور انسانوں کی شکل میں ڈھل جانے والی اس عجیب و غریب مخلوق کے مختصر سے قبیلے کی اطلاع ملتے ہی وہ پاکستان چلا آیا تھا ۔۔
یہاں اس کی توجہ شمعون نے کھینچ لی تھی ۔۔
ایک ایسی بلا ۔۔
جس کا باپ آدم زاد تھا ۔۔
ماں بلا تھی ۔۔
اور وہ اپنے قبیلے کا سردار بھی بن چکا تھا ۔۔
یہ شنکر کی خوش قسمتی تھی کہ قبیلے کے کچھ نوجوان شمعون کی سرداری سے ناخوش رہتے تھے ۔۔
اور خیموں سمیت آٹھ دس بلائوں نے شنکر کا ساتھ بخوشی دینے کی حامی بھرلی تھی ۔۔
اب ان کا کھیل آخری مراحل میں داخل ہو چکا تھا ۔۔
شنکر کچھ دیر کے عمل سے شمعون کو قابو کر کے اپنے ساتھ لے جاتا ۔۔
اور خیموں کو سرداری مل جاتی ۔۔
خیموں کو سرداری ملتی تو وہ اپنا ساتھ دینے والوں کو انسانی دنیا میں بے دھڑک بے وجہ تباہی مچانے کی اجازت دے دیتا ۔۔
یعنی جو ہونے کا امکان تھا ۔۔
اس میں صرف اور صرف نقصان تھا ۔۔
ان کے سرخ و سفید چہرے پر لہراتے تفکر کے سائے دیکھ کر وہ اندیکھا وجود بے ساختہ پوچھ بیٹھا ۔۔
“کیا اب کچھ بہت غلط ہونے کا امکان ہے پیر صاحب ۔۔؟”
“اللہ سب کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے قمر ۔۔
ہمیں کچھ کرنا ہوگا ۔۔
شمعون کے دیگر قبیلے والے تنہا ہوتے تو سب اتنا مشکل نہیں تھا ۔۔
یہ مخلوق آدم خور ضرور ہے ۔۔
لیکن بہت طاقتور نہیں ۔۔
مگر وہ شنکر جادوگر ۔۔
وہ بہت زیادہ خطرناک ہے ۔۔
بہت سی تباہ کاریوں کا ذمہ دار ہے ۔۔
اس سے نبٹنا آسان نہیں ۔۔
فلحال تو جلد از جلد تیمور صاحب کو بلوائو ۔۔
حویلی کے دیگر افراد میں اس تمام صورتحال میں وہی معقول نظر آتے ہیں ۔۔”
“جی پیر صاحب ۔۔”
ایک خوبصورت مردانہ آواز گونجی ۔۔
ار پھر دروازے پر لگا سفید پردہ ذرا سا ہلا ۔۔
گویا قمر چلا گیا تھا ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اللہ ھو اکبر ۔۔
اللہ ھو اکبر ۔۔”
اذان کی آواز پر شہلا نے چونک کر گیلری کی طرف دیکھا ۔۔
وہ سوچوں مں گھری زمین پر سکڑی بیٹھی تھی ۔۔
اور بیڈ سے ٹیک لگا رکھی تھی ۔۔
اسے اندازہ ہی نہیں ہوا کہ کتنی دیر گزر چکی تھی ۔۔
چونکہ موسم سرد ہو چکا تھا سو آسمان نے اب بھی سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی ۔۔
وہ وضو کرنے کے خیال سے اٹھی اور ایک لمبی انگڑائی لی ۔۔
ایک ہی پوزیشن میں بیٹھے رہنے کی وجہ سے جسم اکڑ رہا تھا ۔۔
ابھی شہلا نے ہاتھوں کو جھٹکنا شروع ہی کیا تھا جب کچھ آوازوں پر گیلری کی طرف دوڑ پڑی ۔۔
تیمور آفندی گاڑی میں بیٹھ رہے تھے ۔۔
حویلی کے دیگر مرد حضرات بھی وہاں موجود تھے ۔۔
اچانک حمزہ بھی وہاں چلا آیا ۔۔
اور تیمور آفندی کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ گیا ۔۔
وجدان نے گیٹ کھولا اور گاڑی باہر نکل گئی ۔۔
“اس وقت تیمور انکل کہاں جا رہے ہیں ۔۔
کچھ گڑ بڑ لگتی ہے ۔۔
یا اللہ ۔۔
سب خیر رکھیئے گا ۔۔
مزید کوئی نقصان اٹھانے کا ۔۔
کسی کو کھونے کا ۔۔
حوصلہ نہیں ہے ۔۔”
دو آنسو شہلا کی آنکھوں سے نکلے اور دوپٹے میں جذب ہوگئے ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فجر کی نماز مسجد میں ادا کر کے وہ لوگ پیر صاحب کے آستانے پر جا پہنچے ۔۔
جہاں وہ بے صبری سے ان کا انتظار کر رہے تھے ۔۔
کسی کتاب میں سے بغور کچھ پڑھتے ہوئے انہوں نے تیمور آفندی او حمزہ کو بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔۔
وہ دونوں پریشانی سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے زمین پر بچھی چٹائی پر بیٹھ گئے ۔۔
اب پیر صاحب کی نظریں کتاب کے کھلے اوراق پر جمی تھیں اور تیمور آفندی اور حمزہ کی ان کے چہرے پر ۔۔
ان کا چہرہ سپاٹ تھا لیکن لب دھیرے دھیرے ہل رہے تھے ۔۔
شائد وہ کچھ پڑھ رہے تھے ۔۔
بالآخر پندرہ منٹ کا صبر آزما وقت ختم ہوا اور پیر صاحب نے کتاب بند کر کے دراز میں رکھ دی ۔۔
پھر اپنی پرسوچ روشن نظریں ان دونوں کے الجھن بھرے چہروں پر ٹکا دیں ۔۔
“کیا چاہتے ہو تیمور ۔۔؟
شمعون نے جان چھڑانا چاہتے ہو ۔۔
یا اسے سزا دینا چاہتے ہو ۔۔
کہ وہ تکلیف میں رہے ۔۔؟”
ان کا مخاطب تیمور آفندی تھے لیکن جواب جھٹ سے حمزہ کی طرف سے آیا تھا ۔۔
“دونو ۔۔
دونو صورتیں ممکن ہوں تو کیا ہی بات ہے پیر صاحب ۔۔
اس نے ہمیں اتنی تکلیف دی ہے ۔۔
اسے بھی تکلیف ہونی چاہیے ۔۔
پل پل ہونی چاہیے ۔۔
اور ہم دوبارہ اسے اپنے آس پاس نہیں دیکھنا چاہتے ۔۔
ہمیشہ کے لیئے جان چھڑوائیں اس سے ۔۔
احسان ہوگا آپ کا ہم غم کے ماروں پر ۔۔”
حمزہ کا جوش اس وقت ٹھنڈا پڑ گیا جب پیر صاحب کی پیشانی پر ایک گہرا بل پڑ گیا ۔۔
“میں تیمور سے مخاطب ہوں ۔۔
جذباتی لڑکے ۔۔
تم بیچ میں مت بولو ۔۔”
“معذرت پیر صاحب ۔۔
کیوں ناں بولوں میں بیچ میں ۔۔؟
مجھے پورا حق ہے ۔۔
اس بلا نے میرا نقصان کیا ہے ۔۔
باقی حویلی کا کیا ہے ۔۔
یہ تو رہ رہے تھے مزے میں ۔۔
انہوں نے تو اپنے کسی پیارے کو نہیں کھویا ۔۔
انہیں کیا احساس ہوگا ۔۔
میں ان کے ساتھ یہاں آیا بھی اس لیئے ہوں کہ کہیں یہ آپ کو منع نہ کردیں اسے نقصان پہنچانے سے ۔۔
بہت عزیز ہے وہ انہیں ۔۔”
“میں اسے یا کسی کو بھی بلا ضرورت نقصان پہنچاتا ہی نہیں ۔۔
نقصان پہنچانا میرا کام نہیں ہے ۔۔
میں بھلائی کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔۔
اگر معاملہ بات سے حل ہوجائے تو بات ہی کیا ہے ۔۔”
پیر صاحب اب کے بار نرمی سے گویا ہوئے ۔۔
“لیکن اس نے ہمارا جو جانی نقصان کیا ہے ۔۔”
حمزہ جھبجلا کر بولا ۔۔
“بیٹے ۔۔
ساری کائنات کو بنانے والے نے ۔۔
اسے ایسا ہی بنایا ہے ۔۔
یہ بات ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرو ۔۔
ہر مخلسق کی ایک فطرت ہوتی ہے ۔۔
اور مخلوق اپنی فطرت سے مجبور ہوتی ہے ۔۔
خیر ۔۔
میرے پاس تم سے بحث کا وقت نہیں ۔۔
وقت بہت کم ہے ۔۔
تیمور تم میری بات غور سے سنو اور حمزہ ۔۔!
تم بلکل چپ رہو ۔۔”
پھر تمام صورتحال جان لینے کے بعد تیمور آفندی تو پریشان ہو اٹھے تھے جبکہ حمزہ فوراً پرجوش ہو کر بولا ۔۔
“تو اس میں برا کیا ہے ۔۔؟
لیجائے وہ جادوگر شمعون کو اپنے ساتھ ۔۔
اس سے جان ہی تو ہم چھڑوانا چاہتے ہیں ۔۔”
“ایک بات واضع بتائو مجھے ۔۔
تم شمعون سے جان چھڑوانا چاہتے ہو یا اس آدم خور مخلوق سے ۔۔؟”
حمزہ پیر صاحب کے اس سوال پر چپ سا ہوگیا ۔۔
اسے چپ دیکھ کر پیر صاحب مزید بولے ۔۔
“یہ مخلوق عام جنوں کے مقابلے میں تعداد میں بہت کم ہے ۔۔
تین سے چار سو کی تعداد میں ہونگے ۔۔
شمعون سے جان چھڑوا لو گے ۔۔
تب بھی یہ خون خرابہ نہیں رکے گا ۔۔
بلکہ حالات اور خراب ہو جائیں گے ۔۔
کیونکہ خیمو اور اس کے دیگر ساتھی شمعون کے خلاف ہیں ۔۔
اور شمعون کا تعلق حویلی سے ہے ۔۔
شمعون کے اس پجاری کے غلامی میں جاتے کے ساتھ ہی وہ لوگ حویلی پر بہت خوفناک حملہ کر سکتے ہیں ۔۔
سمجھے ۔۔؟
اب تم لوگ یہیں بیٹھو ۔۔
میں شاکوپا سے بات کرنے جا رہا ہوں ۔۔”
“کیا شاکوپا ۔۔؟”
“یہ شاکوپا کون ہے ۔۔؟”
حمزہ اور تیمور آفندی نے ایک ساتھ پوچھا ۔۔
“وہ اسی قبیلے کا ایک بزرگ ہے ۔۔”
پیر صاحب کی اطلاع پر دونوں چچا بھتیجہ نے ہونق سی شکل بنا کر ایک دوسرے کو دیکھا ۔۔
نہ جانے کیا ہونے والا تھا ۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمعون کا گوشت گل رہا تھا ۔۔
اذیت سے وہ مسلسل غرا رہا تھا ۔۔
اس کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں ۔۔
جیسے بلے کے روپ میں ہوجاتی تھیں ۔۔
اس کے دانے ناخن اور کان بھی بلے
جیزے ہو چکے تھے ۔۔
لیکن جسمانی طور پر اور ناک نقش اب بھی انسانوں جیسے ہی تھے۔۔
جبکہ خیموں اور اس کے دیگر ساتھی سنجیدہ چہروں کے ساتھ شنکر جادوگر کی کاروائی کا جائزہ لے رہے تھے ۔۔
وہ کیا کیا کر رہا تھا ان کی سمجھ سے باہر تھا ۔۔
قریب ہی ایک تھال میں تازہ خون پڑا تھا جبکہ ایک مردہ انسانی وجود دیوار کے ساتھ پڑا تھا ۔۔
یہ خون اس ہی قسمت کے مارے کا تھا جسے شنکر جادوگر کے حکم پر خیمو کہیں سے اٹھا لایا تھا ۔۔
شنکر جادوگر نہ جانے کون سی بولی بول رہا تھا ۔۔
خون کا رنگ سیاہ ہونے لگا تھا ۔۔
اور دیکھتے ہی دیکھتے سرخ خون سیاہ سیال میں بدل گیا تھا ۔۔
“یہ خون اسے پلا دو ۔۔”
شنکر جادوگر نے آنکھیں بند کیئے کیئے شمعون کی طرف اشارہ کیا ۔۔
خیموں تیزی سے تھال اٹھا کر اس کی طرف بڑھا ۔۔
لیکن اچانک ہی خون اپنے اصل رنگ میں لوٹ گیا ۔۔
خیموں نے الجھ کر شنکر کی طرف دیکھا ۔۔
“جیسے پوچھ رہا ہو ۔۔
“کیا اب بھی پلادوں ۔۔؟”
جبکہ شنکر کی آنکھیں اب بھی بند تھیں ۔۔
لیکن اس کا سیاہ کریہہ چہرہ اچانک پسینے سے تر ہوگیا تھا ۔۔
تھوڑی دیر بعد اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔
اس کا چہرہ غصے میں اور خوفناک لگ رہا تھا ۔۔
“جنگ کی تیاری کرو ۔۔
تمہارے قبیلے کے کچھ لوگ یہاں آتے ہی ہونگے اس کی مدد کو ۔۔
میں ذرا اس عامل دیوا کا کریاکرم کروں ۔۔
مجھ سے ٹکراتا ہے ۔۔
شنکر جادوگر سے ۔۔
ہنہہ ۔۔!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...