(Last Updated On: )
شاعرو پڑھتے رہو کاٹے کٹے نہ جب بھی رات
فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات
سینیئر علمائے دیں کی جانتے ہو تم غذا
قورماتن، اَنڈیاتن، مرغیاتن، مچھلیات
اب گویّوں کے عوض گانے لگی ہیں گائکہ
ٹھمریاتن، دادراتن، مالکوسن، غزلیات
صدرِ جلسہ کو چکن، میرے لئے رکھّا گیا
کھچڑیاتن، مِرچیاتن، چٹنیاتن، دال بھات
سرجنوں کو اِن کی معلومات ہونی چاہیے
پھونک پھاکن، گنڈیاتن، دھونیاتن، عملیات
اے جملواؔ اِنڈیا میں ہے غریبوں کے لئے
گھونسیاتن، گالیاتن، انٹھیاتن، واردات
۲
تمہارے رخ پہ چمکتا جو نُور آج بھی ہے
ہمارے واسطے وہ مِثلِ طُور آج بھی ہے
امیر جس کا لہو چوس کر بنا زر دار
وہی غریب مشقّت میں چُور آج بھی ہے
سب اس کے چاہنے والوں نے تھام لی لاٹھی
جنابِ شیخ کی دختر تو حُور آج بھی ہے
وہ لڑکی جس نے کہ مونچھوں کو نیچی کروائی
اسی پہ باپ کو دیکھو غرور آج بھی ہے
تمہارے چہرے کی جھُرّی سے ہم کو کیا لینا
تمہاری آنکھ میں کیف و سرور آج بھی ہے
یہ کس نے کہہ دیا مَیرِج ہوئی اور ساتھ میں ہیں
جملواؔ بنتِ مُجاور سے دور آج بھی ہے
(جوشاندہ۔ ۱۹۹۴)