شاعر: سید شکیل دسنوی
سید شکیل دسنوی قبولیتِ عام کے شاعر ہیں، ان کا مجموعہ بنیادی طور پر غزلوں کا مجموعہ ہے۔ شکیل صاحب نے اردو شاعری کے روایتی موضوعات کو نئے لہجے میں کم تجرباتی طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے اور اس طرح وہ حسن و عشق، خواب و تعبیر، سمندر و سفینہ، رہ گزر اور سفر ہجر و وصال کی داستانوں کو ایک بار اور اردو کے قاری اور سامع کے سامنے لے آتے ہیں۔ انھوں نے سہل، عام فہم زبان منتخب کی ہے، ان کی زبان مستعملہ روزمرہ سے قریب تر ہے اور اس طرح ان کی گفتگو عوام سے ہے۔
اس کتاب کو ممتاز فلمی شخصیات کی آرا سے آراستہ کیا گیا ہے جن میں مجروح سلطان پوری کا اپنی ادا میں لکھا ہوا فکر انگیز پیراگراف ’’گلزار اور نوشاد صاحب کی ہمت افزا تحریریں بھی ہیں، یوسف ناظم صاحب کا پیش لفظ بھی خوب ہے۔ مخمور سعیدی، مظفر حنفی، کرامت علی کرامت نے ان کے کلام کا جائزہ لیا ہے۔ شکیل صاحب کی غزلوں میں ایک زندگی سے پیار کرنے والا شاعر سامنے آتا ہے جو رہِ حیات میں بھی اور رہ گزر وفا میں بھی جہدِ مسلسل کرتا ہوا ملتا ہے۔ ان کے اشعار کی چند مثالیں پیش ہیں:
جب تو نہیں تو آتی رہی اور تیری یاد
ہالہ بچھڑ گیا تو رہا چاندنی کے ساتھ
نظر نشیلی، حسیں روپ، چھاؤں زلفوں کی
بنائے رکھتا ہے یادوں کے سلسلے وہ بھی
جدھر بھی پھینکیے، مڑ کر، ادھر ہی آئے گا
لہو شناس ہے پتھر، ادھر ہی آئے گا
دل میں بسائے یادیں تیری
راہِ وفا سے تنہا گزرے
اور ایسے ہی بہت سے اشعار۔ یہ کتاب سید شکیل دسنوی کے چاہنے والوں کے لیے ایک تحفہ ہے۔ ناشر: ایڈشاٹ پبلیکشنز، B / ۱۰۴، استما مکان III-، نیا نگر، میرا روڈ، ایسٹ ممبئی۔
ضخامت: ۱۷۶ صفحات۔ قیمت: ۱۵۰ روپے۔ (مطبوعہ ’’سب رس‘‘ ۲۰۰۵ء)
٭٭٭
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...