سجاد ظہیر
شاعری کی دُنیاجذبات، تخیل، تشبیہ، تمثیل، استعارے، واہمے، اور خواب کی دُنیا ہے، یہاں الفاظ صرف اپنے معمولی، عملی، بیّن اور منطقی معنوں میں استعمال نہیں ہوتے، یہاں مناسبت الفاظ، توازن بحر، قافیہ، ردیف، اشاروں اور محاکات سے الفاظ اور جملوں میں نغمگی اور موسیقیت کی کیفیت پیدا ہوتی ہے، یہی سبب ہے کہ شعر ہمارے دل کی گہرائیوں میں اُتر کر ہمارے اُن جذبات کو جگاتا ہے، اور احساسات کے اُن تاروں کو چھیڑ دیتا ہے جن کے وجود کا ہم کو علم تک نہیں ہوتا ۔شعر ہم میں وہی محسوسات اور تاثرات پیدا کر دیتا ہے جو شاعر کے اپنے ہوتے ہیں، اس حد تک گویا شعر پڑھنے یا سننے والا خود شاعر کی طرح ہو جاتا ہے، شعری تجربہ ہر ایک انسان کو ہو سکتا ہے اور ہوتا ہے ۔ شاعر وہ ہے جو اس تجربہ کو اس طرح سے الفاظ کے سانچے میں ڈھالے، کہ ان الفاظ کو پڑھنے یا سننے اور سمجھنے والے بھی ویسا ہی جذباتی یا محسوساتی تجربہ کر سکیں جیسا کہ خود شاعر کو ہوا تھا۔
شعر کی یہ خصوصیت ، یعنی عقل و فہم اور عملی منطق کی سرحدوں سے ایک حد تک اس کی ماورائیت اس کے امکانات پیدا کرتی ہے کہ بعض لوگ اور بعض گروہ شاعری کو انسانوں کی خارجی زندگی اور اجتماعی حیات یعنی اس زندگی کی جد و جہد سے قطعی الگ اور علیٰحدہ سمجھیں جو انسان زندگی کے قیام و تسلسل اور مہذب ومتمدن ہونے کے لئے کرتے ہیں۔
یہ کوشش در اصل اُس فلسفیانہ اور مذہبی تخیل سے علیٰحدہ نہیں ہے جہاں خیال و تصور کو خارجی حقائق سے الگ کر کے ایک مستقل اور ما بعد الطبیعاتی حیثیت دی گئی ہے، اور جس کے نتیجے کے طور پر ایک ابدی روح اور تمام کائنات پر جاری و ساری الوہیت کا تصور بعض لوگوں کے نزدیک اصلِ حقیقت ہے۔
لیکن—- جیسے ما بعد الطبیعاتی عینیت کا یہ فلسفہ جو خیال، ادراک، احساس اور شعور کو خارجی یا مادی حقیقت سے بالکل الگ کرکے انہیں ایک مستقل حیثیت دیتا ہے غلط اور گمراہ کن ہے————– اور اس حقیقت پر پردہ ڈالتا ہے کہ
’’یہ مادی دُنیا ہے جو اس کے ذریعہ محسوس کی جا سکتی ہے اور جس میں ہم لوگ بھی شامل ہیں اکیلی حقیقت سے ہمارا ادراک اور فکر جو بظاہر احساس سے بہت ماورامعلوم ہوتے ہیں، در اصل ایک مادّی جسمانی آلے یعنی دماغ کی پیداوار ہیں، مادّہ ذہن کی پیداوار نہیں، بلکہ ذہن خود مادے کی اعلیٰ ترین پیداوار ہے۔‘‘ (انیگلس)
بالکل اُسی طرح شاعری کا یہ نظر یہ بھی بے بنیاد اور گمراہ کن ہے جو شاعری کو محض ماورائی یا ما بعد الطبیعاتی حیثیت دے کر ہماری معمولی انفرادی اور اجتماعی زندگی سے دور ایک ایسی موہوم باطنی سطح پر لے جانے کی سعی کرتا ہے جو اس نظریہ کے ماننے والوں کے نزدیک سچائی اور حسن سے زیادہ نزدیک ہے اور اس لئے اصلی اور حقیقی ہے۔ یہ نظریہ’’ شعر محض‘‘ کا نظریہ کہا جا سکتا ہے۔
یہ خوشی کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں شعر محض کے پرستارابھی تک بہت کم ہیں۔ لیکن جس طرح اور بہت سی باتوں میں ہمارا ملک پچھڑا ہوا ہے، ممکن ہے کہ شاعری کے معاملے میں بھی وہ نظرئیے اور تصورات جو فرانس میں تقریباَ سو برس پہلے انیسویں صدی کے وسط میں شروع ہوئے جنہوں نے ستّر اسّی برس میں گونا گوں شکلیں اختیار کیں۔ اور جو بیسویں صدی میں اس جنگ کے قبل ہی تقریباَ ختم ہو چکے ہیں۔ ہمارے یہاں کے بعض جدّت پسند خود پرستوں تک اب پہنچیں اور ان کے لئے تقریباَ الہامی انکشاف کی حیثیت اختیار کر لیں۔ کسی سچائی کی خبر اگر ہم تک دیر میں پہنچے اور ہم اس وجہ سے اُس سے دیر میں بہرہ مند ہوں، تو اس میں کوئی عیب نہیں۔ اس لئے مجھے اس پر اعتراض نہیں کہ شعرمحض کے نظریے ایک یا نصف صدی پُرانے نظریے ہیں۔ مجھے اعتراض اس پر ہے کہ وہ سکّے جو کھوٹے سمجھ کر ترک کر دئے گئے، انہیں بعض لوگ چمکدار کھرے سونے کا جتا کر ہم بیچارے مشرقیوں پر رعب ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعتراض اس پر ہے کہ جدید مغربی ادب کے عظیم الشان دھارے پر تو ان لوگوں کی نظر نہیں پڑتی لیکن وہ مغرب کے ان ادبی نالوں کے کنارے بیٹھ کر سر دُھنتے ہیں جن میں شاید عفونت تو باقی ہے لیکن ان کا پانی خشک ہو چکا ہے۔
شعر محض کے ابتدائی نظریے ہمیں فرانس میں ورلین اور ریمبوؔ کے یہاں ملتے ہیں۔ یہ دونوں شاعر فرانس کے اُس عہد میں پیدا ہوئے جب کہ انیسویں صدی کے ابتدائی دور کی ادبی روحانیت اور حقیقت نگاری کا زور کم ہونے لگا تھا۔ فرانسیسی سرمایہ دار طبقے نے انقلاب فرانس کی تمام جمہوری روایات کو ترک کر کے زرپرستی اور ملک گیری کی ہوس اختیار کر لی تھی۔ مزدور طبقہ ابھر رہا تھا لیکن ابھی تک اس نے مستقل اور آزادانہ حیثیت اختیار نہ کی تھی ۷۱۔۱۸۷۰ء میں ایک طرف فرانس کی شکست نے درمیانی طبقے میں سخت مایوسی کے آثار پیدا کئے۔ سائنس اور صنعت و حرفت کی ترقی سے دلوں میں جو ابھار پیدا ہوا تھا، وہ دبنے لگا تھا۔ لیکن دوسرے طرف وکٹر ہیوگو، ؔژولا موپاساںؔ، فلوؔ بیر کے قلم، حکمراں سرمایہ داروں کی بدمعاشی اور نچلے درمیانی طبقے کی بزدلی کا پردہ چاک کر رہے تھے اور ملک کی اخلاقی حالت کی سچی تصویر پیش کر کے ایک جمہوری ذہن اور معاشرتی انقلاب کا مطالبہ کر رہے تھے۔ یہ لوگ در اصل ایک نئے انقلابی طبقے کے عروج کا مطالبہ کر رہے تھے، جو حالانکہ پیرس کمیون میں شکست کھا چکا تھا لیکن جس نے جمہوریت پسندوں کے دلوں میں امید کے چراغ جلا دئے تھے۔
یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ورلینؔ (۱۸۹۶۔۱۸۴۴) اور ریمبوؔ جنہوں نے شعر محض کے سبب سے ابتدائی نظریے، یعنی اشاریت SYMBOLISMکی بنیاد رکھی وہ بودلئیر کی شاعری سے متاثر تھے۔ بودلئیر نے (۱۸۶۷۔۱۸۲۱) جسے خود تو اشاریت پسند نہیں کہا جا سکتا ، جس کی شاعری کی روح دل گرفتگی ، تھکاوٹ، خود کشی کی خواہش، بیماری، موت ،لاش ، ناامیدی اور ایک عام بیزاری سے بھر ی ہوئی ہے، سب سے پہلے اشاریت پسند شاعروں (ورلینؔ اور ریمبو) پر اثر ڈالا۔ اور بودلئیر رومانی درد انگیزی، غم پسندی، اور موت پرستی کو عجیب اور طرفہ ہولناک لیکن دلکش طریقوں سے اپنے اشعار میں پیش کرنے پر قادر تھا۔ اشاریت پسندوں کے نزدیک بودلئیر کا یہ انداز در اصل اس اندرونی کرب و الم کی نشانی تھا جو اس کی اپنی اور دنیا کی زندگی میں اُسے نظر آتا تھا، یہی درد اس کے نزدیک زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھی، بودلئیر کے اشعار میں پھانسی پر لٹکی ہوئی لاش، اس کی معشوقہ کے جسم میں رینگتے ہوئے کیڑے، اور اسی قسم کی دوسری چیزیں حقیقت کی جانب اشاروں کی حیثیت رکھتی تھیں۔ مثلاَ وہ ایک جگہ کہتا ہے:-
’’یہ دنیا سپاٹ اور چھوٹی آج
کل، پرسوں، ہر روز ہمارا عکس ہم کو دکھاتی ہے
بیزاری کے ریگستان میں ہولناکی کا ایک نخسلتان !
اشاریت پسندوں نے بودلئیرؔ سے بھی آگے ایک قدم بڑھایا ورلینؔ نے کہا کہ کلاسیکی یارومانی شاعری میں تخیل در اصل ذہنی تخیل ہے۔ اس نے کہا کہ تخئیل تو فی الحقیقت تمثیل و تشبیہ کے ذریعہ سے اس خیال کی ترجمانی ہے جو ہمار ی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ یا جو سمجھایا جا سکتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس قسم کی تخئیل شاعری کے لئے مضر ہے۔ اس لئے ورلینؔ نے کوشش کی کہ وہ اپنی شاعری میں ایسے تصوری عکس پیش کرے، جنہیں صرف وہ محسوس کرتا ہو۔اس قسم کے عکس روح کی ایک خاص کیفیت کا اظہار کرتے ہیں، یہ اظہار محض اتفاقیہ ہوتا ہے، جس کی منطق یا جس کے مطلب کو دریافت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ گویا اس کی شاعری بے مقصد احساسات کے خواب کی مانندہوئی، اگر بظاہر ان میں منطق نہ ہو تو نہ سہی۔ یہ دُھند لے ، بغیر سوچے ہوئے خاکے ، باطنی زندگی کے ترجمان ہیں اور وہی منطق ان کی بھی ہے جو کہ اس باطنی زندگی کی ہے۔
ریمبوؔ نے اس تصور کو اس کی منطقی حد تک پہنچانے کی کوشش کی۔ اس کے نزدیک زندگی کی تمام چیزیں جو بظاہر معلوم ہوتی ہیں، بیکار اور فضول ہیں، ’’میں نے تو واہمے کی دُنیا میں رہنے کی عادت ڈال لی ہے۔‘‘ اس کے نزدیک اصلی احساس ہمیں شاذو نادر اور اتفاقیہ طور پر ہی ہو سکتا ہے۔ جب ہم در یا کی لہروں میں ایک پتھر پھینک دیتے ہیں تو موجیں تھرّا اٹھتی ہیں، یہی تھر تھراہٹ اصلی احساس ہے۔ ہمارے اندر ایک پرستان ہے، جسے ہم سمجھ نہیں سکتے۔ لیکن ہم اسے محسوس کر سکتے ہیں، ایک اندرونی خواہش ہمیں اس کی جانب لے جاتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہم کوئی خواب دیکھتے ہوں، اگر ہم ظاہری دنیا کی تصویر کھینچنے کی کوشش کریں گے تو یہ ایک غلطی ہوگی، ایک جست لگا کر ہمیں اس دنیا سے نکل جانا چاہئے۔ اور اُس دوسری شاعری کی دنیا میں جا کر زندہ خواب دیکھنے چاہئیں۔ اس قسم کے تصور کے راستے پر چلتے چلتے ریمبوؔ بہت جلد اس منزل پر پہنچ گیا کہ اس نے کہا کہ مروّجہ الفاظ اور زبان خوابوں کی اس دنیا کا نقشہ نہیں کھینچ سکتے اس لئے اس نے زبان میں تبدیلی کرنے کی کوشش کی۔ ظاہر ہے کہ یہ کوشش ناکامیاب ہوئی۔ ریمبوؔ نے برسوں کے لئے شاعری ترک کر دی۔ اس کی زندگی نہایت ہیجانی اور نیم جنونی حالت میں گزری۔، اس نے بہت کم لکھا اور اس میں بھی اکثر ایسا ہے جو مشکل سے کسی کی سمجھ میں آ سکے۔
ورلینؔاور یمبوؔ کے بعد اشاریت پسندوں کا باقاعدہ ایک ادبی گروہ قائم ہو گیا۔ ان لوگوں نے روائتی شاعر ی پر سخت حملے کئے۔ ہنری در ئیے۔ جول لافورگ اور گستاف کان، اشاریت پسند گروہ کے خاص شاعروں میں سے ہیں۔ ورلینؔ اور ریمبوؔ کے یہاں جو چیزیں صاف نہ تھیں اب انہوں نے شاعری کے ایک باقاعدہ نظریہ کی شکل اختیار کر لی۔ ان کے نزدیک شاعری، شعور کا نہیں، ذہن یا سمجھ کا نہیں بلکہ احساسات کا اظہار ہے، لیکن ابھی تک شاعری کا اظہار ذہن یاسمجھ کے وسیلے سے ہی ہوتا آیا ہے۔ شاعر پر ایک جذبہ طاری ہوا، اس نے ایسی زبان میں اس کا اظہار کیاجسے پڑھنے یا سننے ولے کی فہم نے قبول کیا۔ یہی زبان، گویا سمجھ کے ذریعہ سے پڑھنے یا سننے والے کے جذبات کو متحرک کر کے اس پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اشاریت پسندوں نے کہا کہ اس عمل میں شاعری کی روح تباہ ہو جاتی ہے۔ اصلی شاعری کو احساس کے وسیلے سے ہی احساس پر اثر ڈالنا چاہئے۔ اس لئے شاعری میں اظہار خیال یا بیان نہ ہونا چاہئے۔ ان طریقوں کو ترک کر کے اُسے اشاروں اور نشانات سے کام لینا چاہئے۔ فصاحت اور بلاغت کے تمام وسیلوں کو ترک کردینا چاہئے۔ اُسے اشاروں کی مدد سے خواب دکھانا چاہئے۔ رموز، اشارے ابہام (نہ کہ تشبیہ، استعارے، تمثیل، جنہیں ہم اپنی سمجھ کی بنا پر استعمال کرتے ہیں) چھپے ہوئے مطالب، اصل شاعری کے وسائل ہیں۔ غیر ارادی طور پر جو عکوس اُبل پڑیں بغیر جانے ہوئے کہ کیوں ایسا ہوا، جو ترجمانی نہیں بلکہ احساسات کا اظہار کریں۔ اس طرح شاعرانہ تخئیل نمودار ہونی چاہئے۔ یہ شاعرانہ تخئیل اُس پھول کے مانند ہونی چاہئے جو کہ اس پیڑ کا اظہار تو کرتا ہے جس کا وہ پھول ہے، پھر بھی وہ اس پیڑ کے مشابہ نہیں ہوتا۔ اس طرح ظاہری اور بیّن مطالب سے دور ہو کر شاعری اپنے تاثر کے لحاظ سے موسیقی سے زیادہ قریب ہوتی گئی۔ چنانچہ ایک اشاریت پسند شاعر پال کلاویلؔ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’ہمیں شاعری کا مطلب دریافت کرنے کی کوشش نہ کرنی چاہئے۔‘‘ بلکہ اس کے موسیقانہ اشاروں کو محسوس کرنا چاہئے۔‘‘ ایک دوسرے مقام پر کلاویل نے کہا:-
’’ہمارے نزدیک زبان کی وقعت اظہار مطلب کے لئے کم اور نشان و اشارہ کے لئے زیادہ ہے۔ وہ بے فائدہ الفاظ جود ماغ کی سطح پر اُبھر آتے ہیں۔ قافیہ۔ ایک جملے کا بار بار دہرایا جانا۔ ایک طرح کی سنگیت ہے جو رفتہ رفتہ ہمارے شعور کو ایک مقام پر لا کر ٹھہرا دیتی ہے۔ چیزوں کا عکس ہمارے تخیل پر براہ راست پڑتا ہے۔ اور ہر طرف اپنی چمک پھیلا دیتا ہے۔‘‘
انھیں خیالات اور نظریوں کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد نظم وجود میں آئی۔ گستاف کان نے ورلینؔ، ریمبوؔ اور دیگر اشاریت پسندوں کے قدموں پر چل کر آخر میں روایتی شاعری کے تمام قواعد توڑ دیئے۔ قافیہ، وزن، بحر، سب کچھ رکھا جا سکتا ہے، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی شعر کے لئے ضروری نہیں ہے، کانؔ کے نزدیک شعر کے لئے صرف ایک قانون ہے، اندرونی موسیقیت کا، اور یہ موسیقیت ہر شاعر کے وجدان پر منحصر ہے۔
اشاریت پسندوں کے گروہ سے کسی قدر علیٰحدہ ہو کر استیفانؔ ملارمے نے شعر محض کو ایک نئے طریقے سے پیش کرنے کی کوشش کی۔ ملارمےؔ اشاریت پسندوں سے اس امرمیں متفق تھا کہ شاعری انسان کے لئے اسی قدر ضروری ہے جتنی کہ نظم۔ ہر انسان میں منطقی عقل ہوتی ہے، جس سے نثر پیدا ہو تی ہے۔ اس منطقی عقل سے بالکل مختلف اس میں جذبات بھی ہوتے ہیں جن کی ترجمانی وہ الفاظ نہیں کر سکتے جو نثر میں مستعمل ہوتے ہیں۔ اس لئے شاعری میں عقلی اظہار یا بیان نہیں بلکہ اشاریت کی ضرورت ہے۔ ملارؔمے، اشاریت پسندوں کی طرح یہ بھی کہتا تھا کہ اشاریت اس کا مطالبہ کرتی ہے کہ الفاظ کو موسیقیاَ اظہار کے لئے ، ان کے مطالب سے آزاد ہو کر استعمال کرنا ضروری ہے لیکن اس منزل تک اشاریت پسندوں کا ساتھ دینے کے بعد ملارمےؔ کی راہ ان سے الگ ہو جاتی ہے۔ ملارمےؔ کا عقیدہ تھا کہ اس دنیا سے جہاں انسان کھاتے پیتے، سوتے، بحثیں کرتے، کتابیں لکھتے اور زندہ رہتے ہیں۔ ایک دوسری دنیا بھی ہے جو اس دنیا سے بالکل مختلف ہے۔ یہ تصوّراتِ محض کی دنیا ہے۔ اشاریت پسند واہمے اور محسوسات کی ایک ایسی دنیا کے قائل تھے جو دھندلی اور ہیجانی تھی اور جو الفاظ کے احاطہ میں نہیں آ سکتی تھی۔ اس کے بر خلاف ملارمےؔ ظاہری دنیا اور ظاہری زندگی کے علاوہ تصوّرِ محض کی صاف و شفاف ماورائی، دنیا کا قائل تھا۔
اشاریت پسندوں کی تخئیل اگر دھندلی تھی، ان کے واہمے پر اگر جنون کا دھواں چھایا ہوا تھا تو ملارمےؔ کی اندرونی واہمہ کی دنیا آئینہ کی طرح بے داغ تھی۔ خیال محض کی اس ماورائی دنیا کا اظہار شاعری کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔ لیکن اس دنیا تک کیسے پہونچا جائے ؟ اس کے لئے ضروری ہے کہ ظاہری اور بین حوادث اور واقعات سے ’’شاعر در گزر کرے‘ ‘’’ بیچاری ظاہری زندگی‘‘ کو ترک کر کے خود کو اندرونی تصور کے کیف میں ڈبونے کی کوشش کرے۔ ان تصوری واہموں اور تصوری وجدان کو اپنے اوپر طاری ہونے دے، خود کو ان تک کھینچ جانے دے۔ بالکل اس طرح جیسے کہ ایک ہلکا سا یہ رباب کے متحرک تاروں پر دھیرے دھیرے پھسلے اور آخر میں رباب کے تاروں سے نکلتے ہوئے نغموں کی لہروں پر بہنے لگے ار پھر ان میں مد غم ہو جائے۔
ملارمےؔ کا تصور محض کا نظریہ ا فلاطون اور ہیگل کی تصوریات سے ماخوذ معلوم ہوتا ہے۔ لیکن بحیثیت شاعر کے ملارمے کے سامنے اب یہ سوال اٹھا کہ اس تصور مطلق کا اظہار کس زبان میں کیا جائے ؟ معمولی زبان کی روایات سے شعرمحض کے ماورائی تصورات کی ترجمانی کس طرح ہو سکتی تھی ؟ الفاظ کے مطلب تو عملی زندگی کی ضروریات کا اظہار کرتے ہیں وہ بھلا خیال محض کی فضا میں کس طرح پرواز کر سکتے ہیں؟ مطلق تصورات کے لیے
کو ن سی زبان استعمال کی جائے؟ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے ملارمےؔ نے سنگیت کی طرف رجوع کیا۔ جس طرح مختلف نغموں کی ہم آہنگی میں ترجیحی سُر ہوتے ہیں۔ اور یہ سُر پورے آہنگ میں کبھی پہلے اور کبھی بعد کو ادا کئے جاتے ہیں، کبھی ایک سُر ختم ہو تو دوسرا پیدا ہوتا ہے، کبھی ایک دھیما پڑ جا تا ہے اور دوسرا اُبھر آتا ہے، اور اُن سب کے اجزا سے مل کر ہم آہنگ سنگیت مکمل شکل میں پیدا ہوتی ہے، اسی طرح شاعر کے وجدان سے ایک شعری ترجیعی سُر یا کئی سُر پیدا ہوتے ہیں۔ مکمل نظم اس کی مکمل روحانی کیفیت کی ترجمانی کرے گی۔ مثلاََ اس جد و جہد کی ترجمانی شاعری کی آزاد فضا میں پرواز کی کوشش کرتی ہے اور زندگی کی ظاہری حقیقت اُسے اُڑنے سے روکتی ہے۔ اب نظم میں الفاظ اور جملے ہم آہنگ سُر وں کی طرح ابھریں گے، دبیں گے، اور پھر اُبھریں گے۔ وہ معمولی منطق کے پابند نہ ہوں گے، اس لئے کہ وہ ہم آہنگ سنگیت کے اصول کے مطابق مرتب کئے جائیں گے۔ ایک جملہ یا لفظ کسی اندرونی اہم آہنگی کے اظہار کی خاطر بظاہر بے جوڑ اور غیر منطقی طور سے استعمال کیا جا سکے گا۔ اس وجہ سے ملارمےؔ کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے مطلب کو سمجھنے کے لئے جملوں کی ترتیب بدل دی جائے تو ساری نظم کا موسیقیانہ ربط غائب ہو جاتا ہے۔
ملارمےؔ نے الفاظ میں نئی خصوصیتیں پیدا کرنے کی کوشش کی۔ اُس نے یہ تو نہیں کیا کہ الفاظ کو ان کے لغوی معنوں سے بالکل مبرّا کر دے، لیکن الفاظ کی صوتیت اور آہنگ پر، ان کی اشاراتی کیفیت پر توجہ کر کے، ملارمےؔ نے یہ ضرور کیا کہ لفظوں کو ان کے معمولی مطلب کے علاوہ نئی کیفیت سے بھر دیا اور الفاظ کی ان اشاراتی کیفیات کے اجتماع سے پوری نظم کا وجود ہوا۔
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملارمےؔ کی شاعری رفتہ رفتہ بہت زیادہ مبہم اور غیر واضح ہو گئی، ملارمےؔ کو اس کا علم تھا لیکن اس نے کہا کہ شاعر کو سمجھنے کے لئے خود شاعر ہونا ضروری ہے، شاعری سے اثر پذیر ہونا کافی نہیں، سننے یا پڑھنے والے کو اس کی تخلیق بھی کرنی چاہئے ایسی صورت میں اس کا امکان ہے کہ پڑھنے والے اور شاعر کی تخلیق یکساں نہ ہو۔ اس لئے کہ یکساں ہونے کے لئے شعر کا ذہنی طور سے سمجھنا ضروری ہوگا۔ اور ایسا کرنا ممکن نہیں، اس لئے پڑھنے والا خود اپنے ’’شعر‘‘ کی تخلیق کرے گا۔ ایسی صورت میں نظم کی حیثیت ایک اجتماعی مرکزکی سی ہوئی جو ہمیں تصورِ محض کی آفاقی فضا میں پرواز کرنے میں مددگار ہو۔
ملارمےؔ کی شاعری اور اس کے تصورات نے جن لوگوں پر اثر ڈالا ان میں سب سے زیادہ اہم شخصیت پال والیری کی ہے۔ ( ۱۹۴۵۔۱۹۷۱) والیری نے شعر محض کے تصور کو ایک نئے انداز سے پیش کیا۔ والیریؔ احساسات، جذبات، وجدان، واہمہ اور شعری خواب سب کا سختی سے منکر تھا۔ اس نے شاعری کی بنیاد تصور محض پر رکھنے کی کوشش کی۔ ایسا تصور جس میں جذبات و محسوسات کی ’’آلایش‘‘ مطلق نہ ہو جو کسی دوسرے ذہن کی پیداوار نہ ہو، اور جسے دنیا کی کسی چیز سے کوئی تعلق نہ ہو ! دے کارتؔ کے مشہور مقولے ’’میں سوچتا ہوں، اس لئے میں ہوں‘‘، کے صرف پہلے حصہ کا والیریؔ اقرار کرتا تھا۔ دوسرے حصّے میں زندگی کا اقرار ہے اس لئے والیریؔ کو یہ قبول نہ تھا۔ چنانچہ والیریؔ نے ایک مرتبہ لکھا کہ : ’’ میں سوچتا ہوں اس سے کیا مطلب ؟ زیادہ سے زیادہ ایک ناقابلِ بیان حالت کی ترجمانی ‘‘ اس نے یہ بھی لکھا:-
’’جب ایک سوچنے والا اپنے وجود کا اقرار کرتا ہے تب اگر یہ ممکن ہوتا کہ اس لمحہ جو کچھ وہ سوچتا ہے اُسے قطعی طور سے معلوم کیا جا سکتا ( بجائے اس کے کہ اس کی فلسفیانہ تاویل کی جائے ) تو ہم کو کیا معلوم ہوگا‘‘
والیریؔ نے کوشش کی کہ اپنی شاعری اور فکر کی تعمیر کسی گرفت میں نہ آ سکنے والے تصور سے کرے۔ وہ اپنے تصّور کو حرکت میں لاتا ہے جس کی وجہ سے بعض خاکے وجود میں آتے ہیں، وہ ان خاکوں کو دیکھتا ہے، لیکن ان کی ترجمانی نہیں کر سکتا ۔ یہی ناقابل بیان تصوری خاکے، ایک ناقابل بیان انبساط پیدا کرتے ہیں۔ اصلی فنی مسرت یہی ہے ۔ اگر کہیں ایسا ہو کہ اس عمل کے دوران میں اس کے ذہن میں جوش اور قلب میں حرارت پیدا ہو جائے، اور وہ زندگی کی شاہرا ہوں سے گزرنے لگے تو پھر والیری فوراَ اُس کیفیت کوغلط سمجھ کر اسے مسترد کرنے کی کوشش کرتا تھا، وہ دوبارہ خیال محض کی ریا ضیانہ اور الجبرائی دُنیا میں واپس آنا اپنے فن کے لئے ضروری سمجھتا تھا۔ اُس کا قول تھا کہ:-
’’میں تمام اُن خیالات اور جذبات کو صرف بیزاری کی نظر سے دیکھ سکتا ہوں جو آدمی میں اُس کے آلام یا خوف کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں یا حرکت میں آتے ہیں۔‘‘
والیریؔ یونانی دیومالا کی اُس تنہا ، ہستی نرگس کی طرح تھا جس نے اپنے عکس کو ایک حوض میں دیکھا اور اسی پر عاشق ہو گیا۔ والیریؔ اپنے اس عمل میں یہ بھی گوارا نہیں کرنا چاہتا تھا کہ آسمان پر اُڑتے ہوئے بادلوں اورکناروں پرلگے ہوئے پھول کے درختوں کے عکس کی طرف توجہ کرے، وہ صرف اپنے خیالات کے عکس پر نظر جمانا پسند کرتا تھا، اُسے انسانیت یا نبی نوع انسان سے قطعی کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ غم ہو یا خوشی، انسانی جذبات کے ہر ایک مظاہرے کو مسترد کر کے خیال مطلق اور تصور محض بن جانا چاہتا تھا۔ رونے اور ہنسنے کے بارے میں ایک جگہ اُس نے لکھا :-
’’خوشی اور رنج کے اظہار کی یہ مشینیں کتنی عجیب ہیں، خیال کو برداشت کرنے کے لئے بے چارگی کے آلے !‘‘
اب اس کے بعد یہی باقی رہ جاتا ہے کہ خیال محض کا یہ پرستار صرف اپنے شعور کی دنیا میں اپنے کو بند کرلے، کسی قسم کے جذبے یا اپنی خودی سے باہر کی دُنیا سے اس شعور کو ملوث نہ ہونے دے، کسی بھی راستے سے خارجی دُنیا اور خارجی زندگی کو اپنے خیالوں کے اس بلوریں محل میں داخل نہ ہونے دے، کیسا عجیب و غریب نصب العین ہے، یہ جہاں خیال کائنات اور اس کے ہر ایک مظاہر سے مطلق بے تعلق ہو کر وجود میں آتا ہے۔ والیری نے اپنی ایک نظم میں کہا ہے :-
’’ وہاں اوپر نصف النہار ، بے حرکت نصف النہار،؍خود ی کا تصور کرتا ہے، اور خودی پر ہی محمول ہے۔‘‘
والیری انسانوں کے احساسات و جذبات کا منکر اس لئے ہوا کہ وہ خودی کے جوہر تک پہنچے، خودی کو معلوم کرے، لیکن آخر میں اُسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور اس نے اعتراف کیا:
’’اگر ایک موقع ایسا آئے کہ ذہن مکمل طور سے حاوی ہو جائے تو دوسرے ہی لمحے میں ہم فنا ہو جائیں گے۔‘‘
تو گویا تصور محض کی کامیابی ہمیں فنا یعنی نفیٔ محض کی منزل پر پہنچا دیتی ہے۔ والیریؔ نے تقریباَ اس کا اعتراف کیا، لیکن اُسے خود آزادی میں لذت محسوس ہونے لگی تھی۔ اس نے ایک مقام پر لکھا:
’’مجھ پر رنجیدگی کی روح طاری رہتی ہے ۔ جسے کبھی اس کا یقین نہیں ہوتا کہ جو کچھ اس نے سمجھا ہے وہ سمجھا بھی ہے یا نہیں —– میں صاف اور مبہم میں مشکل سے فرق کر سکتا ہوں۔ میں تمام الفاظ کو شک کی نظر سے دیکھتا ہوں، کیونکہ ذرا سی فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ الفاظ پر بھروسہ کرنا مہمل بات ہے۔‘‘
ملارمےؔ نے الفاظ کی معنوی بندش سے نکلنے کے لئے موسیقیت پر بھروسہ کیا تھا، والیری نے بھی موسیقیت کی پناہ لی، اس نے کہا:’’شاعری کے لئے یہ باعث فخر ہے کہ اسے نثر پر ترجیح دی جائے اس لئے کہ اُسے موسیقی پر قربان کر دیا جائے۔‘‘
والیریؔ اپنے شعور کے تہ خانوں میں سے گزرتے ہوئے الفاظ کی گرفت کرتا ہے، وہ انہیں لطیف تمثیلوں، عکوس، اور تشبیہات کے سانچوں میں ڈھال کر اچھوتے جملوں اور مخصوص اوزان میں پیش کرتا ہے۔ الفاظ کا معنوی لوچ ایک فلسفی اور مفکّر کے لئے مشکلیں پیدا کرتا ہے۔ لیکن شاعر خیال کو الفاظ کے ابتدائی خاکے میں محسوس کرنے کے بعد، اُسے تشبیہوں ، صوتی اور معنوی آواز ،بازگشت ، تلازم، توازن ،ا ور ترنم سے مملو کر کے جب شعر کی تشکیل کرتا ہے، تو ذہن کے دھندلکے میں پیدا ہونے والے خیالات کی آہٹ زیادہ اچھی طرح سنائی دینے لگتی ہے۔ شاعری والیریؔ کے لئے اس کے لفظوں میں ’’جنت زبان‘‘ ہے جذبات و محسوسات ، اور تخئیل کی جنت نہیں جو ہمارے دل و دماغ میں گہرائی، وسعت اور ہمہ گیری پیدا کرے، بلکہ زبان سے بنا ہوا ایک ایسا جوہر جو صرف شاعری کی مخصوص ذہنی کیفیت کے اظہار کے لئے نکالاگیا ہو، اور جو صرف اسی کو طمانیت بخشتا ہو، اسے کسی دوسرے شخص سے کوئی مطلب نہیں۔ شاعری خودی کی خودی سے گفتگو ہے، اس لئے کسی شخص کے لئے اس کے معنی دریافت کرنے کی کوشش کرنا فضول ہے۔ شعر محض کے کوئی ’’معنے‘‘ نہیں ہوتے۔ لفظی توازن ، حسین جملے، تشبیہوں کی پچی کاری، اصوات، ان سب کے امتزاج سے والیریؔ اپنے نغموں کی تخلیق کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا ’’لوگ جسے صوت کہتے ہیں، وہی میرے لئے معنی ہیں۔‘‘
والیریؔ کی شاعری کا زمانہ ۱۸۔۱۹۱۴ء کی جنگ عظیم اور اس کے فوراَ بعد کا زمانہ ہے، تقریباَ اُسی زمانے میں فرانس، یورپ اور امریکہ کے ملکوں میں آرٹ اور شاعری کی وہ تحریک بھی جاری ہوئی جسے شروع میں دادااور بعد کو ماورائیت (Sunrelism) کی تحریک کا نام دیا گیا۔والیریؔ اگر تصور محض اور شعور محض کے خاکوں میں رنگ بھرکے شاعری کرتا تھا، تو ماورائیوں نے تحت الشعور کی اندھیری طوفانی اور غیر منطقی دنیا میں شاعری کے سرچشموں کی جستجوشروع کی۔
دادا تحریک کے رہنماؤں نے جن میں آندرے بَرتوں اور لُوئی آراگوں خاص طور پر قابل ذکر ہیں کہا کہ ان کا مقصد آرٹسٹ کو مکمل آزادی دینا ہے۔ تمام قواعد اور فارمولوں سے آزادی ‘‘ وہ مروجہ آرٹ ہو، مصوری ہو، موسیقی ہو،یا شاعری سب کو مٹا دینا چاہتے ہیں۔ انھوں نے مروّجہ اخلاق، سماج، مذہب غرض کہ ہر چیز کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا۔ ان کی نظموں اور ان کے آرٹ کی خصوصیت بے ربطی، عام ادبی مذاق کا استہزا، مستقل ہیجان اور مہملیت تھی۔ حالانکہ ماورائیت کے ناخداؤں نے ریمبو کے تخئیل شعری سے خود کو علیٰحدہ کرنے کی کوشش کی لیکن بنیادی طور پر وہ اُس سے قریب تھے اور ریمبو کا یہ مقولہ کہ ’’بالآخر میں نے اپنے ذہنی انتشار کو قابلِ تقدس پایا ‘‘ ان پر بھی صادق آتا تھا۔ ماورائیے فرائڈ کے تحت الشعوری نظریوں سے متاثر تھے۔ وہ عقل اور شعور کی جگہ نیم بیداری کے عالم میں تحت الشعور کے اتھاہ سمندر میں غوطہ زنی کر کے، بالکل غیر ارادی اور غیر شعوری طور سے شعری تخئیل کا شکار کرتے تھے۔ وہ والیریؔ کے شعورِ محض سے آگے نکل کر تحت الشعور کے اندھے غار میں اُفتاں و خیزاں گھومنے لگے۔
ماورائیوں کے گروہ کے کئی ممتاز افراد نے اس تاریک نفی پرستی سے علیٰحدگی اختیار کی۔ لُوئیؔ آراگوں اور پالؔ ایلور ان میں سب سے ممتاز ہیں۔ آراگوںؔ نے ماورائیوں کے بارے میں لکھا ہے : –
’’وہ ایک طرح سے مغالطے کے سمندر میں کود پڑے۔ اور اس کا خطرہ ہے کہ ماورائیت دھوکے کے سمندر کی طرح انھیں بیچ دھارے میں بہا لے جائے جہاں جنون کی آدم خور مچھلیاں تیرتی رہتی ہیں۔‘‘
یہ ہے نہایت مختصر سا خاکہ شعر محض کے اُن مختلف نظریوں کا جو فرانس میں انیسویں صدی کے وسط کے بعد شروع ہوئے اور تاریخی اعتبار سے اپنی جنم بھومی میں موجودہ جنگ کے شروع ہونے کے پہلے پہلے متردک ہو کر اپنی اہمیت کھو بیٹھے۔
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ شاعری اور آرٹ کے یہ نظریے کن حالات میں وجود میں آئے، دراصل انیسویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی کے شروع میں یورپ کا سرمایہ دارانہ سماج ایسے مقام پر پہونچ گیا تھا جب کہ سرمایہ داری، بین الاقوامی سامراج یا امپریلزم کی شکل اختیار کر رہی تھی۔ جنگ، کمزور ملکوں کی لوٹ کھسوٹ، بینکی سرمایہ کا بے پناہ اقتدار، جمہوریت کے تمام ان دعووں کو کھوکھلا ثابت کر رہا تھا جو اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے شروع میں انقلاب فرانس کے بعد سارے یورپ میں پھیلائے گئے تھے۔ عوام الناس کے ووٹ سے چنی ہوئی پارلیمنٹیں، رائے عامہ کو بیدار کرنے والے اخبارات، سیاسی پارٹیاں، تعلیمی اور مذہبی ادارے، یہاں تک کہ فلسفی، شاعر، ادیب اور آرٹسٹ سب کے سب کسی نہ کسی طرح سرمایہ داروں کی زرگری کے آلہ کار بن گئے تھے۔
سائنس کے انکشافات اور میکانکی ترقی سے انسانیت کے مادّی بہبود کی جو امیدیں وابستہ تھیں، وہ غلط ثابت ہو رہی تھیں، اس لئے کہ اُن سے بھی سرمایہ داروں کی دولت بڑھانے اور کمزور اقوام کی آزادی سلب کرنے کا کام لیا جاتا تھا۔ اِ ن حالات میں لازمی تھا کہ ایسے فلسفیانہ نظریے وجود میں آئیں، جن میں انسانیت سے مایوسی ، زندگی کی حقیقتوں سے (جو اکثر تلخ تھیں)گریز، کسی نامعلوم اور ہوائی مادرائی حقیقت میں پناہ گزینی، کوٹ کوٹ کر بھری ہو۔ بالکل اس طرح جیسے از منۂ وسطی کی قاتلانہ سفاکیوں، اور حکمراں طبیعتوں کی بے تکی چیرہ دستیوں نے رہبانیت پیدا کی، اسی طرح بے روح کٹھور، بے درد اور بے حس سرمایہ داری نے درمیانی طبقے کی بعض حساس اور مغرور طبیعتوں کو ایک طرف سرمایہ دارانہ سماج کے روایتی تصوّرات اخلاق اور معاشرتی اصول کی جانب سے بیزاری اوردوسری طرف خود پرستی نراجیت، نفی پسندی، انکاریت، یا اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ما بعد الطبیعات میں یقین اور ماورائیت کے جذبات پیدا کئے۔ سرمایہ دار حکمراں طبقے اور ان کے نمائندوں نے درمیانی طبقے کے ان ’’ذہنی اور جذباتی باغیوں‘‘ کو پہلے تو پریشان ہو کر اور شک کی نظر سے دیکھا، اس لئے کہ انھیں ان لوگوں کا انکار اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا، لیکن جب انھیں معلوم ہو گیا، کہ یہ انکارنی الحقیقت اُن پر اور اُن کے قائم کئے ہوئے نظام پر کوئی چوٹ نہیں لگاتا۔ بلکہ انکاریوں کو اُن کے خود ساختہ واہمے کے سر اب میں لے جا کر بیکار بنا دیتا ہے، تو انھوں نے ایک حد تک درمیانی طبقے کے ان افراد کی سر پرستی اختیار کر کے اپنے کو جدّت پسند اور ترقی نواز ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جوں جوں سرمایہ داروں اور ان کے نمک خواروں ، اور ان جدید فن کاروں میں میل ملاپ بڑھاتوں توں ان کا فن زندگی اور اس کی حقیقتوں سے اورزیا دہ دور ، اس کا انکار کا پہلو کمزور اور ماورائیت کی بے حقیقت اور بے بنیاد خیالی دنیا میں فرار کا پہلو مضبوط ہوتا گیا۔
حقیقت یہ ہے کہ نچلے درمیانی طبقے کے یہ پڑھے لکھے افراد ایک معاشرتی اور معاشی اور رومانی برزخ میں گرفتار تھے۔ وہ سرمایہ داری کے جہنّم سے علیٰحدہ اپنی دنیا بنانے کی تمنّا ضرور کرتے تھے۔ لیکن ابھی تک ان میں اتنی فکری، علمی، اور اخلاقی جرأت پیدا نہیں ہو سکی تھی کہ وہ اس زمانہ میں جب کہ مزدور طبقہ کمزور اور غیر منظّم تھا، انسانی مستقبل کو اس طبقے کی جدو جہد سے وابستہ کر سکیں، ان میں یہ شعور پیدا نہیں ہوا تھا کہ وہ طاقتور سرمایہ داروں اور مظلوم و محروم مزدور طبقے کی مضبوطی کا اندازہ کرپائیں، اسے مزدور انقلاب اور مقصد کے لئے محنت کشوں کی جدو جہد کو سارے سماجی ارتقا کی کنجی سمجھیں۔اب اگر سماجی پس منظر میں شعر محض کے مختلف نظریوں کی خصوصیت کو دیکھیں تو ہمیں، انھیں سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
فکری، اعتبار سے اشاریت پسندوں سے لے کر والیریؔ تک قنوطیت، یاس پسندی، تنہائی کا شدید احساس، اس شاعری کی ایک نمایاں خصوصیت ہے،ظاہر ہے کہ ایک ایسے سماج میں جس میں زیادہ تر انسان بے حدو انتہا مصیبت اور مظلومی کی زندگی بسر کرتے ہوں، جس میں انصاف نام کو نہ ہو۔ جس میں بھلائی کو پے در پے شکست اور برائی کو فتح ہوتی ہے۔ جس میں عشق کا نام غم پڑ جائے۔ اور محبت اکثر رنج سے بدل جائے، ایسے سماج میں درد انسانی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی، فن کاروں کے کارناموں سے ضرور جھلکے گا اور اسے جھلکنا بھی چاہئے۔ چنانچہ گوئٹے نے کہا ہے :
’’قدرت نے ہماری قسمت میں آنسو دئیے ہیں، درد کی کراہ، جب وہ انسان کی برداشت سے باہر ہو جاتا ہے، مجھے اُس نے سب سے زیادہ نغمہ اورگفتار ودیعت کی ہے، تاکہ میں اپنے آلام کی ساری گہرائیوں کا اظہار کر سکوں، اور جب انسان کی زبان شدّت کرب سے بند ہو جاتی ہے،مجھے خدا کی طرف سے ایک ایسا عطیہ ملا ہے جس کے ذریعہ سے میں اپنے درد کا اظہار کر سکتا ہوں۔‘‘
مولانا رومؔ نے اسی جذبے کا اظہار ان اشعار میں کیا ہے :-
بشنواز نئے چوں حکایت می کند در جدائی ہاشکایت می کند
سینہ خواہم شرح شرح از فراق تا بگویم شرح دردِ اشتیاق
از نیستاں چوں مرا ببریدہ اند دزنفیرم مرد و زن نادیدہ اند
اور کیٹس کہتا ہے:
’’جب مجھے اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ میں نہ رہ جاؤں گا، میرا قلم میرے بھرے دماغ سے خوشہ چینی نہ کر سکے گا، اور کتابوں میں لفظ جمع نہ ہو سکیں گے، جیسے بھری فصل میں کھلیان لگائے جاتے ہیں جب میں رات کے تاروں بھرے چہرے پر گہری محبتوں کی بڑی بڑی ابرآلود نشانیاں دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ اتفاق کے جادو بھرے ہاتھوں سے ان کا نقش نہ کھینچ سکوں گا۔‘‘۔۔۔۔۔’’اور جب میں ، اے گھڑی بھر باقی رہنے والے حُسن محسوس کرتا ہوں کہ میں اب تجھ کو اور نہ دیکھ سکوں گا، اور بے سمجھی بوجھی محبت کے طلسمی اثرات سے لطف اندوز نہ ہو سکوں گا، تب اس وسیع دنیا کے کنارے پر میں اکیلا کھڑا ہوتا ہوں اور خیالات میں غرق ہو جاتا ہوں۔ یہاں تک کہ محبت اور شہرت نیستی کی گہرائیوں میں ڈوب جاتی ہیں۔‘‘
اور میرؔ تقی نے کہا ہے:
اُلٹی ہو گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا دیکھا اس بیماریٔ دل نے آخر کام تمام کیا
ظاہر ہے کہ وہ درد انگیزی، وہ کرب، وہ حُزن جو ان اشعار میں ہے اس میں گہری انسانیت ہے، ان اشعار میں غم کی شدت ہم کوانسانوں سے دور نہیں لے جاتی بلکہ ہمارے دلوں میں گداز پیدا کر کے ہمارے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ اس لئے ایسا غم اور اس قسم کی مایوسی کا اظہار جس کی بازگشت ہمارے دل میں ہو، جو اسے اس طرح پگھلائے کہ ہم بہتر انسان بنیں۔ شاعری کے بہترین منصب کو ادا کرتی ہے۔ ارسطوؔ نے کہا ہے کہ ٹریجڈی کا اثر’ کتھارسس‘ ہے، یعنی اس سے تزکیہ نفس ہوتا ہے۔ اس قسم کی شاعری کو اسی زمرہ میں شامل سمجھنا چاہئے۔
لیکن ہمیں اس درد انگیزی اور اُس قنوطیت اور یاس پرستی میں فرق کرنا چاہئے جو شعر محض کے فن کاروں کے یہاں بھی نظر آتی ہے۔ قنو طیت ہمیں انسانیت سے دو ر لے جاتی ہے۔ انسانوں سے ہمدردی نہیں بلکہ ان سے تنفراور بیزاری کا جذبہ ہم میں پیدا کرتی ہے۔ قنوطیت انسان کی شکستوں کو لازمی اور ضروری سمجھ کر دلوں میں گداز نہیں بلکہ مردنی پیدا کرتی ہے۔ یاس پرستی، ٹوٹے ہوئے دلوں کو ہمدردی کے آنسوؤں سے جوڑتی نہیں‘ وہ ہمارے دلوں میں انسانیت کے سوتوں کو خشک کر کے انھیں خشک بنجر ریگستان بناتی ہے۔غالباَ شعر محض کہنے والوں کو اس کا احساس تھا، اسی وجہ سے وہ کبھی یہ کہتے ہوئے نہ تھکتے تھے کہ وہ شعر صرف اپنے لئے کہتے ہیں، چاہے یہ بیان کتنا ہی مہمل کیوں نہ ہو۔ اسی وجہ سے ان کی یہ بات عجیب نہیں معلوم ہوتی تھی کہ ان کی شاعری بہت مرتبہ جنون اور مہملیت اور بے معنی باطنیت کی سرحدوں میں داخل ہو کر بے فیض اور بے کار ہو جاتی تھی۔
شعر محض کی دوسری خصوصیت اس کا خارجی حقیقت سے انکار ہے۔ اشاریت پسندوں نے احساسات کے غیر شعوری و جدان کو شاعری کی اصل سمجھا، ملارمےؔ اور والیریؔ نے محض تصور پر اس کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی، اور ماورائیوں نے تحت الشعور کے سمندر سے شعر کے موتی نکالنا چاہے۔ ان سب کو ظاہری زندگی، بین جذبات و احساسات اور معمولی انسانوں کے معمولی باتوں میں شاعری کا مسالہ نظر نہیں آتا تھا۔ وہ اس تمام سلسلے سے بیزار تھے۔ وہ اپنے چاندی سونے کا محل اور موتی کے خیمے واہمہ کی اَن دیکھی اور اَن سلجھی دنیا میں بنانا چاہتے تھے، ایک اچھوتی، دلکش اور دل آویز دنیا جہاں ان کا اور ان کی تخئیل محض کا راج ہو، جہاں وہ آزاد ہوں ان پر کوئی دید نہ ہو اور وہ خوش ہوں۔ یہی ان کے لئے حُسن تھا، یہی صداقت ، اسی کی جستجو اور اسی کا اظہار اصلی اور واحد فنّی مسرت۔
اس کو شش کی ناکامی یقینی تھی۔ شعر محض والے الفاظ کی بندش سے نکلنے کی بار بار کوشش کرتے تھے۔ لیکن ایک شاعر کے لیے یہ کس طرح ممکن ہے ؟ اور اگر الفاظ استعمال کئے جائیں گے، تو پھر انسانی سماج اور اجتماعی معاشرت سے تعلق قائم ہونا لازمی ہے علمؔ اللسان ہم کو بتاتا ہے، کہ انسانی گفتگو اور زبان کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک با معنی آواز جو ہمارے مُنہ سے نکلتی ہے، قرنوں اور صدیوں کی معاشرتی زندگی اور اجتماعی تجربات کا نتیجہ ہے، زبان اور اس کا ایک ایک لفظ نطق اور گویائی (جن کے ذریعہ ہم خیالات ہوں یا جذبات دونوں کا اظہار کرتے ہیں) ہم پر کہیں سے نازل نہیں ہوئی ہے، بلکہ وہ مدت دراز کی عملی زندگی کا صوتی عکس ہے، اور رفتہ رفتہ اس کا ارتقا ہوا ہے، جب ہم بغیر الفاظ کی مدد کے سوچ تک نہیں سکتے۔ اور جب اپنے جذبات کے اظہار کے لئے بھی ہم کو لفظوں کی ضرورت ہے، تو ظاہر ہے کہ لفظوں اور منطق اور معنی کی بندش سے شاعری کو نکالنے کے معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ وہ یا تو موسیقی ہو جائے (الفاظ سے مبرّا) اور اس صورت میں شاعری نہ رہے یا پھر اس کے معنی غائب ہو جائیں۔ اور وہ شاعر کے حسِّ محض یا خیالِ محض کا اظہار کرے اور دوسرے کے لئے بیکار ہو ۔ کیونکہ وہ اندرونی کیفیت جس کا وہ اظہار کرے گی، صرف اسی صورت میں دوسروں کی سمجھ میں آ سکتی ہے اور ان پر اثر ڈال سکتی ہے جب کہ وہ ایسے ایسے لفظوں میں اور اس طریقہ سے شاعر کے جذبات کا اور خیال کا اظہار کرے کہ وہ شاعر اور شعر سُننے یا پڑھنے والوں کے دلوں کے درمیان پُل بن جائے اور دونوں کے جذبات کو ایک دوسرے سے ملا دے اور دل سے دل میں راہ پیدا کر دے۔اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعی زندگی سے شاعری کو الگ کر دینے کی کوشش ایسی ہی ہے جیسے ایک پودے کو زمین سے نکا ل کر زندہ اور ہرا بھرا رکھنے کی کوشش ۔ جب تک زندگی ، اس کی جدوجہد، اس کے ارتقاء سے شاعری وابستہ نہیں ہو گی، اس وقت تک، اس میں جان، اثر، تازگی اور تنّوع پیدا نہیں ہو سکتا۔ اور جب تک حیات کی جدوجہد میں شاعر ابھرتی ہوئی عوامی انقلابی قوّتوں کا شعور نہیں حاصل کرے گا۔ اور کائنات کا ایک تنو مند نظریہ نہ رکھے گا۔ اس کی شاعری اضمحلال و تنزل کی جانب مائل ہوگی۔
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ شعر محض کے ماننے والوں میں اشاریت، موسیقیت، واہمہ و تخئیل کی عملی منطق سے علیٰحدہ صورت گری، یا شعور کو ایسے الفاظ اور جملوں کی حسین تشکیل کے ذریعہ سے پیش کرنا جو اچھوتے ہوں، یہ سب کچھ اُن کی غلطی نہ تھی۔ بلکہ فرانسیسی شاعری میں ان کی اس قسم کی کاوشوں سے ٹیکنکل اعتبار سے کسی قدر اضافہ بھی ہوا۔ ان کا یہ کہنا بھی صحیح تھا کہ شاعری کو اس پھول کی طرح ہونا چاہئے جو درخت کا اظہار تو کرتا ہے لیکن پھر بھی درخت سے مختلف ہوتا ہے، ان کی غلطی یہ تھی کہ وہ درخت اور اس کے پھول دونوں کو حیات بخشنے والی زمین، فضا، ہوا اور دھوپ سے بے نیاز سمجھتے تھے، شاعر ی و جدان ، واہمہ اور خواب ضرور ہے، لیکن واہمہ، خواب، وجدان، خود بخود شاعری میں پیدا نہیں ہوتے، یا کوئی ما بعد الطبیعاتی یا ماو رائی طاقت شاعر کے ذہن پر ان کا نزول نہیں کرتی، خواب بھی حقیقت اور جدوجہد حیات سے پیدا ہوتے ہیں،اور حقیقت اور حیات پر اثر انداز ہوتے ہیں، اور انھیں بدلنے میں مدد دیتے ہیں۔شعر محض کے زوال کا سبب یہ نہیں کہ وہ خواب و واہمہ، نغمگی اور وجدان کی شاعری تھی، اس کا سبب یہ ہے کہ اس کے خواب جھوٹے تھے۔ وہ انسانیت کے نہیں بلکہ یا نجو ذد پرستی کے خواب تھے۔سچی شاعری بھی ہمیں خواب دکھاتی ہے۔ وہ واقعہ نگاری نہیں، بقول ارسطو :’’شاعر کا کام جو کچھ ہوا ہے اس کا بیان کرنا نہیں بلکہ ہونے والی چیز یا جسے ہونا چاہئے اس کا بیان کرنا ہے۔‘‘
جدید شاعری کو اگر ایک طرف مذہبی واہمہ پرستی سے بچنا ہے (جس کا نتیجہ تصور تھا) تو دوسری طرف تصوّرِ محض اورحِس محض کے واہمہ سے بچنا ہے، اس کی جڑیں عقل، فہم، علم،شعوراور تجربہ حیات کی ٹھوس سر زمین میں پیوست ہونی چاہئے۔ صرف اسی طرح سے موجودہ زمانہ میں اس کا ارتقا ممکن ہے۔ صرف اسی طرح ہم شاعری کے باغ میں ایسے پھول کِھلا سکیں گے، جو ہماری زندگی کوحسُن اور ہماری روح کو بالیدگی بخش سکیں۔
٭٭٭
’’نظریاتی میدان میں دنیا کا جمہوری اور اشتراکی انقلاب آج اس کا متقاضی ہے کہ ہم انسان کی اس نفسیاتی بیگانگی کو ختم کرنے کی کوشش کریں جو انسان کی اجتماعیت اجتماعی عمل اور عوامی انقلاب سے ذہنی اور روحانی طور پر دور کرتی ہے ۔جو انسان کو صرف ہلاکت ، مایوسی ، شکست اور موت کا پیغام دیتی ہے اور ان رحجانات کے بر خلاف جو ا ستحصا ل کرنے والے حکمراں طبقوں اور ان کے حواریوں کے ذریعے عوام میں بے دلی انتشار اور شکست خوردگی پھیلانے کے لئے منتشر کئے جاتے ہیں ان میں انسان کی عظمت، وقار، رفاقت اور یگانگت کے ایسے جذبات اور حوصلوں کو پیدا کریں جنکی انفرادیت اس طرح ابھرے کہ وہ من و تو کے فرق کو بھول کر انسانی شرافت کی بلند تر سطح پر پہنچ سکیں۔‘‘ (سجاد ظہیر)
’’ ترقی پسند تحریک کا اصل مقصد سماجی انجماد کو توڑ کر فرد کو صدیوں پرانے اور ظالم استحصالی نظام سے نجات دلانا تھاتاکہ وہ ایک آزاد اور باعزت شہری کی طرح بسر اوقات کر سکے۔یوں دیکھئے تو ترقی پسند تحریک بنیادی طور پر ایک اخلاقی تحریک بھی تھی۔مگر اس کا اخلاقی نظام کسی خاص مذہبی نظام کے حوالے سے نہیں بلکہ عمومی انسانی اقدار کے حوالے سے مرتب ہوا تھا۔اصولی طور پر اس تحریک کا تعلق سیاست اور معیشت ہی کے ساتھ قائم ہونا چاہئے تھا کیونکہ جس میدان میں یہ تحریک سرگرم رہنا چاہتی تھی وہ اس عقبی دیار سے خاصا دور تھا جہاں ہونے اور نہ ہونے کی کیفیت سدا مسلط رہتی ہے۔‘‘ ( ڈاکٹر وزیر آغا بحوالہ مضمون ’’بیسویں صدی کی ادبی تحریکیں‘‘)