کھانے میں سالار کی پسندیدہ چکن بریانی بنی ہوئی تھی ساتھ میں سلاد اور رائتہ بھی سب کی بھوک کو بڑھا رہا تھا. جبکہ دوسری طرف ٹھنڈی کوک بھی دیکھنے والوں کی پیاس بڑھا رہی تھی. تلی ہوئی مچھلی اور چکن روسٹ بھی دیکھنے والوں کی نظروں میں ستائش پیدا کر رہا تھا. حیا اور رانیہ نے ڈائیٹنگ کا لیبل لگاتے ہوۓ صرف بریانی ہی پلیٹ میں ڈالی. ابھی سب گرما گرم بریانی اور ٹھنڈی کوک کا مزا ہی لے رہے تھے کہ سلیم کے فون پر رضا کی کال آئی
” ہیلو ہاں رضا بولو ”
” ککککک…کیا…… تم فکر نہ کرو، میں ابھی آیا”
” کیا ہوا سب ٹھیک تو ہے نہ” آسیہ نے سوالیہ نظروں سے سلیم سے پوچھا
” شہریار کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، وہ ہسپتال میں ایڈمٹ ہے، رضا بہت پریشان ہے، بھابی کا رو رو کر برا حال ہے، ہمیں جانا ہوگا”
” شہریار کون ہے” سعدیہ بیگم نے رضیہ سے پوچھا
” سلیم کے دوست کا بیٹا”
” اللہ خیر کرے، ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے ہیں ” آفتاب صاحب نے کہا
” نہیں آپ ادھر ہی رہیں ، میں اور آسیہ چلتے ہیں”
” اللہ کرے منحوس بچے ہی نہ” رانیہ نے حیا کے کان میں کہا
” کیا ہوگیا ہے، رانیہ کسی نے سن لیا نہ، ہماری شامت آجائے گی”
” اچھا پھر ہم چلتے ہیں، آپ کھانا صحیح سے کھائیں گا”
” ہم بھی آپ کے ساتھ چلتے تو زیادہ بہتر رہتا ” فرقان صاحب نے کہا
” نہیں بھائی، اس کی ضرورت نہیں، ہم لیٹ ہو رہے ہیں، ہم چلتے ہیں اب، اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ”
” اللہ اس معصوم بچے کو زندگی دے” عالیہ بیگم نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا
” آپ کے منہ میں خاک… آپ اُسے معصوم کہہ رہی ہیں جسے شیطان کہنا، شیطان کی توحین ہے” رانیہ نے حیا کے کان میں کہا
” اگر تمھیں گالیاں سننے کا بہت شوق ہے تو سب کے سامنے بولو، جو بھی بولنا ہے، ایسے اگر میرے کان میں بولو گی تو اپنے ساتھ مجھے بھی مار کھلاؤ گی”
” اچھا اب کچھ نہیں کہتی ” رانیہ منہ میں ہاتھ رکھ کر ہنسنے لگی.
___________
ابھی زوہیب اور تابش دونوں وسیع لان میں بیٹھ کر شام کی چاۓ کے مزے ہی لے رہے تھے کہ زوہیب اچانک زور سے چلایا. اُس کے یوں چلانے پر تابش حیران ہی رہ گیا اور سوالیہ نظروں سے زوہیب کو دیکھنے لگا.
” او مائی گاڈ، میں تو بھول ہی گیا، مجھے تو حیا کے گھر جانا تھا”
” تو کیا ہوا، ابھی چلے جاؤ، ابھی تو صرف پانچ ہی ہوۓ ہیں ” تابش نے اُس کی مشکل آسان کرتے ہوئے کہا
” اچھا پھر میں چلتا ہوں”
” زوہیب، میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں ، مجھے ویسے بھی حیا کے گھر سے رانیہ کو پک کرنا ہے” تابش نے چیئر سے اٹھتے ہوئے کہا
“ہمممم چلتے ہیں، پہلے میں انکل آنٹی سے مل لوں”
” اچھا پھر اندر چلوں کیونکہ مام ڈیڈ ٹی وی لاونچ میں ہیں”
ٹی وی لاونچ میں سحرش بیگم ٹی وی دیکھ رہی تھی جبکہ ارشد صاحب لیپ ٹاپ پر جھکے ہوۓ تھے. زوہیب کو دیکھتے ساتھ ہی سحرش بیگم نے ٹی وی آف کر دی اور اُن دونوں کے پاس آگئی جبکہ ارشد صاحب نے اپنی جگہ سے اٹھنا تو دور کی بات، زوہیب کو دیکھنا بھی ضروری نہیں سمجھا.
” اوکے انکل آنٹی میں اب چلتا ہوں، بہت شکریہ آپ کا کہ آپ نے مجھے اپنے گھر بلایا اور زبردست کھانا کھلایا ” زوہیب نے ڈائنگ ٹیبل سے اٹھتے ہوئے کہا
” شکریہ کس بات کا بیٹا، یہ تو آپ کا اپنا گھر ہے، اب تو آپ پاکستان میں ہی ہوں نہ تو آتے رہنا” سحرش بیگم نے مسکراتے ہوۓ زوہیب کو الوعدہ کرتے ہوئے کہا
ابھی زوہیب، سحرش بیگم کی معصوم خواہش کا شکریہ ادا کرنے ہی والا تھا کہ ارشد صاحب نے لیپ ٹاپ سے نظریں اٹھائی اور سنجیدگی سے زوہیب کو دیکھا
” تو مسٹر اب تم یہ بتاؤ کہ یہاں بلانے کا کوئی فائدہ بھی ہوا، یا تمھارا شمار بھی ان مڈل کلاس فیملی میں ہوتا ہے جہاں یہ رواج ہوتا ہے کہ پہلے بہنوں کی شادی ہوگی پھر بھائیوں کی” ارشد صاحب نے لیپ ٹاپ پر انٹر پریس کرتے ہوئے کہا
اُن کی لہجے کی چبھن زوہیب آسانی سے محسوس کر سکتا تھا. زوہیب کو اُن کی بات قطعی پسند نہیں آئی تھی مگر رانیہ کا سوچ کر وہ کچھ بھی برا بھلا کہنے سے باز رہا. ورنہ ارشد صاحب کے لہجے میں اپنی لیے ناپسندیدگی وہ بآسانی محسوس کرسکتا تھا. اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ارشد صاحب صرف رانیہ کی وجہ سے اُس کو پسند کر رہے ہیں مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ وہ بھی تو صرف رانیہ کی ہی وجہ سے اُن کو برداشت کر رہا ہے.
” الحمداللہ، انکل میری ایک ہی بڑی بہن ہیں، اور ان کی شادی بھی ہوچکی ہے، جیسا کہ میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ میں بہت جلد ہی آپ کے گھر اپنی امی ابو کو بھیجوں گا، تو پلیز آپ بےفکر ہو جائیں ” زوہیب نے اپنے چہرے کے بگڑے ہوئے زاویہ کو درست کرتے ہوئے کہا
” ڈیٹس گریٹ، سی یو سون، ٹیک کئیر، باۓ” ارشد صاحب یہ کہہ کر لیپ ٹاپ لے کر اپنے روم میں چلے گے کیونکہ وہ پہلے ہی اپنی لاڈلی بیٹی رانیہ کی وجہ سے دو گھنٹے ضائع کر چکے تھے.
” اوکے آنٹی، پھر ملاقات ہوگی اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ بیٹا” صائمہ بیگم نے مسکراتے ہوئے زوہیب سے ہاتھ ملایا
” مام، میں بھی زوہیب کے ساتھ جارہا ہوں، ایک دو گھنٹے تک واپس آتا ہوں ”
” ٹھیک ہے، رانیہ کو تم پک کرو گے یا میں ڈرائیور بھیجو”
” نہیں میں خود پک کروں گا”
” اچھا ٹھیک ہے، اللہ حافظ ”
” اللہ حافظ”
**************************
“رضا” سلیم نے ویٹنگ روم میں داخل ہو کر روتے ہوئے رضا کو آواز دی
” اللہ کا شکر ہے کہ تم آگے، میں جانتا تھا کہ تم مجھے مشکل کی گھڑی میں اکیلا نہیں چھوڑو گے” رضا نے سلیم کے گلے لگتے ہوئے کہا
” آسیہ تم بیٹھ جاؤ” سلیم نے آسیہ کی طرف دیکھا جو کہ صبح سے کام کر رہی تھی اور اب یقیناً تھک بھی چکی ہوگی تو اس لیے سلیم نے اُس کا احساس کرتے ہوئے اُسے صوفے پر بیٹھنے کا کہا
” او سوری بھابی جی، شہریار کے ایکسیڈنٹ کی وجہ سے میں بہت بوکھلا گیا ہوں، مجھے یاد ہی نہیں رہا، آپ کو پوچھنا” رضا نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا
” کوئی بات نہیں بھائی، آپ یہ بتائیں کہ صائمہ بھابی کہاں ہیں، نظر نہیں آرہی”
” صائمہ نماز پڑھ رہی ہے، آپ بیٹھیں جائیں، وہ نماز پڑھ کر آتی ہی ہوگی” رضا نے اپنے آنکھوں میں آۓ ہوئے آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے کہا
” تم پریشان نہ ہو رضا، اللہ سب بہتر کرے گا، شہریار کا ایکسیڈنٹ ہوا کیسے؟ ”
” پولیس تو یہی کہہ رہی ہے کہ اُس کی گاڑی کی بریک فیل ہوگئی تھی”
” آپ پریشان نہ ہوۓ، اللہ سب بہتر کرے گا ” آسیہ نے کہا
ابھی رضا سلیم کو جواب دینے ہی والا تھا کہ آپریشن تھیٹر سے سینیئر سرجن اشتیاق نکلے. سرجن کو دیکھتے ہی سب سرجن کی طرف بھاگے
” ڈاکٹر، میرا بیٹا کیسا ہے”
“مجھے بہت دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ آپ کا بیٹا اب ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکے گا. باقی ہم ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے، بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے ان کی حالت بہت تشویشناک ہے اور وہ ابھی تک کومے میں ہے”
” یہ آپ کککک…. کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر ، میرا شہریار معزور نہیں ہوسکتا، وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے، آپ پلیز کچھ بھی کرکے اُسے بچا لیں ” رضا نے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا. ویٹنگ روم میں کھڑا کوئی شخص یقین نہیں کرسکتا تھا کہ جنرل رضا احمد جو کہ آرمی کی دنیا میں اصول پسند اور سخت مزاج مشہور تھے، آج اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے سرجن کے آگے ہاتھ جوڑ رہے تھے. سچ ہے لہ اولاد کی محبت انسان کو جھکنے پر مجبور کر دیتی ہے.
” یہ آپ کیا کر رہے ہیں، میرے آگے ہاتھ جوڑنے کی ضرورت نہیں ہے، یہ تو اللہ کے کام ہیں کہ کسی کو تو دیتا ہی نہیں اور کسی سے دے کر چھینتا ہے، پھر بھی ہم اُن کو بچانے کی پوری کوشش کریں گے، مگر میں آپ کو دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا، ان کے بچنے کے چانسسز بہت کم ہیں مگر یہ بات آپ ذہن نشین کر لیں کہ آپ کا بیٹا اب ساری زندگی کے لیے معزور ہوچکا ہے” سرجن اشتیاق نے پیشہ ورانہ انداز میں کہا اور باہر چلے گے.
سیلم کو ڈاکٹر کا یوں اچانک سے چلے جانا کچھ خاص پسند نہیں آیا. مگر یہ بھی تو سچ تھا کہ سرجن اشتیاق نے آج تک کسی مریض کے رشتے دار کو اتنا وقت نہیں دیا تھا مگر آج اُس کے سامنے جنرل رضا احمد کھڑے تھے. وہ اُن سے دشمنی مول لے کر اپنے لیے مشکلات نہیں کھڑی کرسکتے تھے مگر آخر کب تک وہ ان کی باتیں سنتے،اس لیے تنگ آکر ایک ہی بار میں، وہ ساری ضروری باتیں بتا کر چلے گے.
**************************
آج تو حیا کے گھر کا ماحول ہی بدلا ہوا تھا. یوں لگ رہا تھا کہ گھر میں جیسے کوئی ہے ہی نہیں. محل جیسے گھر میں اس قدر خاموش چھائی ہوئی تھی کہ اگر ایک پینسل بھی فرش پر گرتی تو ضرور آواز سنائی دیتی اور یہ سب عالیہ بیگم کی کوششوں کا نتیجہ تھا. ان نے ہی سب کو شہریار کے لے دعا کرنے پر لگایا تھا. حیا اور رانیہ نے اُن کو ٹالنے کی بھرپور کوشش کی مگر عالیہ بیگم کے آگے کس کا زور چلتا ہے جو کہ ان دونوں کا چل جاتا. اس لیے دونوں حجاب کے سٹائل میں ڈوپٹہ اوڑھے فاطمہ کے ساتھ بیٹھ کر تسبیح پڑھنے میں مصروف تھیں کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی، سب نے نظریں اٹھا کر ایک دوسرے کی طرف دیکھا.
” اس وقت دروازے پر کون آیا ہوگا ، جاؤ سالار دیکھ کر آؤ” آفتاب صاحب نے کہا
” تم دونوں، اس وقت یہاں کیوں آۓ ہو، خیریت ہے” سالار نے زوہیب اور تابش کو دیکھتے ہوئے کہا
” واہ کیا بات ہے سرکار کی، ایک تو ان کی بیوی کو دیکھنے کے لیے بندہ دوردراز سے آۓ، اور جب آۓ تو ساتھ میں طعنے بھی سنے سرکار کے”
” میں اپنی بہن رانیہ کو لینے آیا ہوں” تابش کو سالار کا یوں سوال کرنا کچھ خاص پسند نہیں آیا
” اچھا تو تم رانیہ کے بھائی ہو ، آؤ اندر چلو”
” السلام علیکم ” تابش اور زوہیب نے ٹی وی لاونچ میں داخل ہوتے ہوئے کہا
جتنے مزے میں زوہیب اور تابش ٹی وی لاونچ میں داخل ہوئے تھے، سامنے کی صورتحال دیکھ کر ڈر ہی گے، رانیہ جس نے اپنی ساری زندگی ڈوپٹہ بھی صحیح سے نہ رکھا ہو، آج حجاب اوڑھے بیٹھی تھی. زوہیب کے لیے یہ منظر کسی خواب سے کم نہ تھا. جبکہ تابش فاطمہ کو حیا کے گھر دیکھ کر کنفیوژ ہوگیا تھا مگر جلد ہی اس نے اپنے اعصاب پر قابو پالیا اور وہ سمجھ گیا کہ یہ ضرور سالار کی بہن ہوگی یا حیا کی دوست. اُس نے زوہیب سے فاطمہ کے بارے میں پوچھا مگر ساتھ میں وہ ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں وہ سالار کی بہن نہ ہو کیونکہ وہ سالار کو کچھ خاص پسند نہیں کرتا تھا.
” یہ فاطمہ ہے، سالار کی چھوٹی بہن” زوہیب نے تابش کے کان میں کہا
” ککککک….. کیا” زوہیب کی بات سن کر تابش کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا. وہ چاہ کر بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کر پا رہا تھا کہ فاطمہ سالار کی بہن ہے، سالار اُس کو شروع سے ہی پسند نہیں تھا جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ سالار زوہیب کا کزن ہے، اور تابش زوہیب اور اُس کی دوستی میں کسی تیسرے کو برداشت نہیں کرسکتا اور قسمت سے زوہیب اور سالار کی آج تک جتنی بھی لڑائیاں ہوئی تھیں وہ سالار کی ہی وجہ سے ہوئی تھی. تابش کو بالکل پسند نہیں تھا کہ زوہیب، اُس کے بجاۓ سالار کے ساتھ وقت گزارے.تابش، زوہیب کے سامنے تو سالار کی برائی نہیں کرسکتا تھا مگر دل ہی دل میں وہ سالار کو صحیح گالیاں دیتا تھا.
” وعلیکم السلام، بیٹا آپ کون ہیں” عالیہ بیگم نے سوالیہ نظروں سے تابش کو دیکھا
” امی یہ رانیہ کے بھائی ہیں” تابش کے کہنے سے پہلے ہی سالار نے عالیہ بیگم کو جواب دیا
” اچھا تو بیٹا اُدھر کیوں کھڑے ہو، ادھر آؤ ہمارے پاس بیٹھو” عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” امی سب ٹھیک تو ہے نہ، آپ سب ایسے کیوں بیٹھے ہوئے ہو” زوہیب نے سعدیہ بیگم سے ہوچھا
” وہ حیا کے بابا کے دوست کے بیٹا کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے، حیا کے ماما بابا بھی وہی ہسپتال ہی گے ہیں اور ہم اُس معصوم جوان بچے کے لیے دعا کر رہے ہیں”
” او اچھا تبھی میں سوچوں، آج سورج مغرب سے کیسے نکل آیا ” زوہیب نے رانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” فاطمہ جاؤ، بھائی کے لیے چاۓ لے کر آؤ” عالیہ بیگم نے تابش کے لیے چاۓ منگوانا چاہی
” نہیں فاطمہ تم بیٹھی رہو، میں سلیمہ آنٹی کو کہتی ہوں ” حیا نے اٹھتے ہوئے کہا
سلیمہ آنٹی کو چاۓ کا کہہ کر حیا ایک بار پھر رانیہ کے پاس آکر بیٹھ گئی.
” تو آپ ہیں میری ہونے والی بھابی ” زوہیب نے رانیہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی حیا کو کہا
” جی یہی ہے میری ہونے والی شریک حیات اور آپ کی کزن بھی” زوہیب کے سوال کا جواب سالار نے دیا
” مطلب ”
” مطلب یہ کہ حیا، رضیہ پھپھو کی بیٹی ہے” سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
” نہ کرو….. کیا سچ میں “زوہیب نے خوش ہوتے ہوئے کہا.
اگرچہ زوہیب نے کبھی رضیہ پھپھو کو دیکھا نہیں تھا مگر اُسے رضیہ پھپھو سے ملنے کا بہت شوق تھا کیونکہ سالار جو رضیہ پھپھو سے اتنی محبت کرتا تھا.
“ہاں سچ میں ” اب کی بار جواب فاطمہ نے دیا
” یار پھر یہ تو بہت اچھی بات ہے، دیکھو سالار میں تمھیں نہیں کہتا تھا کہ رضیہ پھپھو تمھیں ایک دن ضرور ملیں گی”زوہیب نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہمممم، میں اللہ کا جتنا بھی شکر ادا کروں، کم ہے” سالار نے بھی مسکراتے ہوئے کہا
ان کو باتیں کرتا دیکھ کر حیا، فاطمہ اور رانیہ، حیا کے کمرے میں چلے گے. ابھی وہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ سلیمہ آنٹی چاۓ اور دیگر لوازمات لے کر حاضر ہوئی. ویسے تو زوہیب اور تابش کو کچھ خاص بھوک نہیں تھی مگر چاۓ پینے سے کون انکار کر سکتا ہے
” بیٹا، رانیہ کا رشتہ آپ نے کہیں طے تو نہیں کیا ہوا؟ ” سعدیہ بیگم نے تابش سے پوچھا
” نہیں آنٹی، ابھی کہاں، ابھی تو رانیہ صرف انیس سال کی ہے، مگر ڈیڈ چاہتے ہیں کہ رانیہ کی منگنی ہو جائے” تابش نے چاۓ کی چسکیاں لیتے ہوئے جواب دیا
” تو کوئی رشتہ دیکھ رکھا ہے اُن نے یا نہیں”
” نہیں ابھی تک نہیں، مگر رانیہ کے رشتے آتے رہتے ہیں ”
” اچھا بیٹا” سعدیہ بیگم تابش کی باتیں سن کر گہری سوچ میں پڑ گئی.
**************************
سلیم، آپ نے بھائی بھابی کو کال کر کے بتایا شہریار کے بارے میں، آخر کو سدرہ کا منگیتر ہے” آسیہ نے سلیم سے پوچھا
” ہاں بتایا ہے، سدرہ کا تو رو رو کر برا حال ہے، اللہ اُس کو صبر دے،
راشد بھائی اور بھابی بھی بہت پریشان ہیں ” سلیم نے افسردہ ہوتے ہوئے کہا
” آپ نے بلڈ بینک سے خون کا تو پتا کر لیا نہ”
” ہاں، خون تو مل گیا ہے، بس اب اللہ کرے کہ شہریار کو ہوش آجائے”
” انشاءاللہ جلد ہی اٌسے ہوش آجاۓ گا”
**************************
” رضا، ڈاکٹر نے کیا کہا ہے، شہریار کی طبیعت اب کیسی ہے؟ ” صائمہ بیگم نے پوچھا جو کہ ابھی ہی نماز پڑھ کر آئی تھی
” کچھ نہیں ڈاکٹر نے کہا ہے کہ شہریار جلد ہی ٹھیک ہو جائے گا” رضا نے اپنی آنکھوں میں آۓ ہوۓ آنسوؤں کو چھپاتے کہا
” تو پھر تم رو کیوں رہے ہو، یہ تو بہت خوشی کی بات ہے، کیا تم نے مٹھائی منگوائی ہے؟ ”
” نہیں” رضا سے صرف اتنا ہی کہہ پایا
” تو منگواؤں نہ، کس کا انتظار کر رہے ہو، جلدی سے منگواؤں، اور ہاں تھوڑی زیادہ منگوانا، میں پورے ہسپتال میں بانٹوں گی”
ابھی رضا، صائمہ بیگم کو کچھ کہنے ہی والا ہوتا ہے کہ سلیم اور آسیہ اجاتے ہیں.
” السلام علیکم سیلم بھائی اور آسیہ، آپ کو پتا ہے کہ میرا شہریار ٹھیک ہوگیا ہے”
سیلم اور آسیہ اس افسانے کو حقیقت بھی مان لیتے اگر اُن نے رضا کو نظریں چراتے ہوئے نہ دیکھ لیا ہوتا.
” مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ میں تمھیں سچ کیسے بتاؤں صائمہ، مگر میں تم سے جھوٹ بول کر تمھیں دھوکے میں نہیں رکھنا چاہتا، ہمارا بیٹا شہریار اب ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا، دو گھنٹے سے وہ کومہ میں ہے. ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اگر اُسے رات تک ہوش نہ آیا تو وہ لانگ ٹرم کومے میں بھی جاسکتا ہے. میں ہار گیا صائمہ نہ میں اچھا بھائی بن سکا اور نہ اچھا باپ” اس سے زیادہ رضا صاحب سے بولا نہ گیا اور وہ ضبط کرنے کے باوجود رونے لگے.
” رضا تمممم مزاق کر رہے ہو نہ، دیکھو اگر تم مزاق کر رہے ہو تو تم ابھی ہی بتا دوں ورنہ بعد میں تمھیں معاف نہیں کروں گی، میں شہریار کی ماں ہوں، میں ایسا مزاق برداشت نہیں کر پاؤں گی”
” صائمہ میں مزاق نہیں کر رہا، میں سچ کہہ رہا ہوں، ہمارا اکلوتا بیٹا، شہریار آج معزور ہوگیا ” رضا نے روتے ہوئے کہا
مگر سامنے کھڑی صائمہ یہ سب برداشت نہ کر سکی اور بے ہوش ہوگئی. اس کو یوں بے ہوش ہوتا دیکھ کر سب ڈر گے. اور اُسے اٹھا کر صوفے پر لیٹایا. سلیم نے بھاگ کر ڈاکٹر کو بلایا.
**************************
” کہاں ہے حیا” سدرہ نے چیختے ہوۓ کہا
” آپ کون ہو بیٹا” عالیہ بیگم نے سدرہ سے پوچھا
” آپ سے مطلب، جو پوچھا ہے وہ بتائیں” سوجھی ہوئی آنکھوں والی سدرہ نے کہا
” یہ آپ کس لہجے میں میری امی سے بات کر رہی ہیں، کون ہے آپ اور کس نے آپ کو اندر آنے دیا” سالار نے غصے سے کہا
” یہ میرے چاچو کا گھر ہے، میرا جب دل چاہے گا، آؤ گی، آپ لوگ کون ہوتے ہیں مجھ سے پوچھنے والے، جو پوچھا ہے اُس کا جواب دو کہاں ہے وہ بےحیا جو میرے منگیتر کو کھا گئی، کدھر چھپ کر بیٹھی ہوئی ہے.. ” سدرہ نے چلاتے ہوئے کہا
” ہماری بیٹی کے بارے میں ہم ایک لفظ نہیں سنیں گے” آفتاب صاحب نے سدرہ کو انگلی دکھاتے ہوئے کہا
” بیٹی…. کیسی بیٹی” روتی ہوئی سدرہ لفظ “بیٹی” سن کر حیران رہ گئی
“حیا ہماری بہن کی بیٹی ہے، آپ کا کیا مسئلہ ہے، حیا کے ساتھ ” فرقان صاحب نے کہا
” سننا چاہتے ہیں تو سن لیجیے، بھانجی کے ماموں، آپ کی بھانجی میرے منگیتر کو کھا گئی ہے،وہ شروع دن سے ہی میرے منگیتر کو پسند کرتی تھی ہماری منگنی ہونے کے بعد بھی آپ کی بھانجی میرے منگیتر کے پیچھے پڑی رہی، اور جب میرے منگیتر نے آپ کی بھانجی کو انکار دیا تو اُس نے غصے میں آکر اُس کا ایکسیڈنٹ کروا دیا جس کی وجہ سے میرا منگتیر ہسپتال کے آپریشن تھیٹر میں پڑا موت سے لڑ رہا ہے، نہ صرف یہ بلکہ وہ اب ساری زندگی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گا”
” یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم” سدرہ کی باتیں سب کی سمجھ سے باہر تھی. تابش اور زوہیب دونوں کبھی سدرہ کی طرف دیکھتے تو کبھی سالار کے چہرے کی طرف دیکھتے جہاں ایک رنگ آرہا تھا تو ایک رنگ جارہا تھا. جب کہ حیا، رانیہ اور فاطمہ شور سن کر ٹی وی لاونچ میں آگئی. سدرہ حیا کو دیکھتے ساتھ ہی حیا کی طرف لپکی.
” کیوں کیا تم نے میرے ساتھ ایسا، اتنا ہی پسند تھا شہریار تمھیں، تو پہلے ہی مجھے بتا دیتی میں خود اُس کو تمھارے لیے چھوڑ دیتی مگر کم از کم اُس کی زندگی تو برباد نہ ہوتی، میں تو اب تمھیں نہیں چھوڑتی، میں تمھیں جان سے مار دوں گی ” سدرہ نے حیا کا گریبان پکڑتے ہوۓ کہا
___________
” میرا گریبان چھوڑو سدرہ، شہریار کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، وہ اُس کے اپنے ہی اعمال کا نتیجہ ہے، جہاں تک شہریار کو پسند کرنے کی بات ہے تو میرا اللہ مجھ سے اتنا بھی ناراض نہیں ہے کہ وہ میرے دل میں شہریار جیسے گناہگار شخص کے لیے ہمدردی پیدا کرے” حیا نے سدرہ کا ہاتھ خود سے دور کرتے ہوئے کہا
” ہاں اب تو تم یہی کہوں گی کہ شہریار ایسا ہے، ویسا ہے، تمھارا پول جو کھول دیا میں نے” سدرہ نے اپنی اونچی آواز کو برقرار رکھتے ہوئے کہا
” ہاہاہاہا پول وہ بھی میرا، پہلے تم اپنی خیر مناؤ کہ جب ماما گھر آئیگی تو تمھارے ساتھ جو بھی ہوگا، اُس کی ذمہ دار تم خود ہوگئی، اب تو تمھیں بچانے والا بھی کوئی نہیں بچا، ایک شہریار ہی تو تھا وہ بھی تمھارے مطابق آپریشن تھیٹر پر پڑا موت سے لڑ رہا ہے” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
حیا کی باتوں نے سدرہ کو نئی کشمکش میں مبتلا کر دیا. وہ تو یہاں پر حیا کو نیچہ دکھانے آئی تھی مگر حیا نے تو بازی ہی پلٹ دی. اب اُس کے پاس دو ہی راستے بچے تھے. ایک تو یہ کہ وہ یہاں سے بھاگ کر اپنی جان بچاۓ یا پھر آسیہ بیگم سے جوتے کھاۓ. اُسے پہلا راستہ زیادہ مناسب لگا.
” ابھی تو میں جارہی ہو حیا مگر جونہی شہریار کو ہوش آیا، میں پھر آؤں گی اور تمھیں، تمھارے انجام تک پہنچاؤں گی” سدرہ نے حیا کو انگلی دکھاتے ہوئے کہا
” یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون اپنے انجام کو پہنچتا ہے”
حیا کی بات سن کر سدرہ غصے سے اپنا بیگ اٹھاتی ہے اور گھر سے باہر نکل جاتی ہے.
” بھئی کوئی ہمیں بھی بتاۓ گا کہ آخر مسئلہ کیا ہے ” فرقان صاحب نے کہا جو اب شوروغل سے تنگ آچکے تھے.
” ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ کسی امتحان میں ناکام ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے الزام دوسروں پر ڈال دیتے ہیں. سدرہ بھی انھی لوگوں میں سے ایک ہے. سدرہ کے منگیتر نے نجانے کتنی لڑکیوں کی زندگی تباہ کی ہے، جن کی بدعاؤں کی وجہ سے وہ آج ہسپتال میں ہے. مگر سدرہ صرف اپنے آپ کو تسلی دینے کے لیے الزام دوسروں پر ڈال رہی ہے” حیا نے کہا
حیا کی بات سن کر تو رانیہ حیران ہی رہ گئی. حیا بھی کبھی اتنے اچھے الفاظ بولے گی ایسا اُس نے اپنی زندگی میں کبھی بھی نہیں سوچا تھا. یہ وقت ہی تو تھا جس نے حیا کو لوگوں سے مقابلہ کرنا سکھا دیا تھا. وقت دنیا کا بہترین استاد ہے. وقت ہمیں لوگوں کے اصلی چہرے دکھاتا ہے. گزرا ہوا وقت ہمیں آنے والے وقت کے بارے میں پہلے سے ہی خبردار کرتا ہے. اچھا وقت ہمیں خوشیاں دیتا ہے اور برا وقت ہمیں سبق سکھا کر جاتا ہے.
” مگر وہ تو ٹھیک ہے بیٹا، پر سدرہ تمھارا نام کیوں لے رہی ہے” سعدیہ بیگم نے حیا سے سوال پوچھا
” آنٹی سدرہ کی بچپن سے لے کر آج تک مجھ سے نہیں بنی. وہ ہمیشہ سے ہی مجھ سے دنیاوی چیزوں کی خاطر حسد کرتی آرہی ہے. وہ شہریار کے ذریعے مجھے بدنام کرنا چاہتی تھی مگر شاید وہ یہ بات بھول چکی تھی کہ انسان کی عزت اور شہرت اللہ کے ہاتھوں میں ہے. اللہ کے کرم کے سے میں اپنے ماں باپ کی عزت کی لاج رکھنے میں کامیاب ہوگئ اور مجھے بدنام کرنے کی کوشش کرنے والے آج آپریشن تھیٹر پر پڑے موت سے لڑ رہے ہیں ” حیا نے ایک گہری سانس اپنے اندر اترتے ہوئے کہا
ہمیں اپنی بیٹی پر یقین ہے، ہم آپ کے ساتھ ہیں، ہمیں پتا ہے کہ ہماری بیٹی ایسے کوئی کام نہیں کرۓ گی جس سے اُس کے گھر والوں کی عزت پر نام آۓ” عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
” تھینک یو آنٹی” حیا نے بھی مسکراتے ہوئے کہا
” آنٹی نہیں، امی بولو، آپ میرے لیے فاطمہ کی طرح ہو ”
” اوکے امی” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” اففففف، بس ختم کرو یہ خاندانی ڈرامہ، قسم سے میں تو بہت بور ہوچکا ہوں، چلو سب مل کر کوئی گیم کھیلتے ہیں” زوہیب نے کہا جو کہ اب حیا کی باتوں سے تنگ آچکا تھا
” شرم کریں آپ ، اُدھر شہریار آپریشن تھیٹر میں پڑا موت سے لڑ رہا ہے، اور ادھر آپ کو کھیلنے کی پڑی ہے” رانیہ نے زوہیب کو چڑاتے ہوئے کہا
” شہریار یہ، شہریار وہ، پیچھلے ایک گھنٹے سے میں یہ سب سن کر تھک چکا ہوں، اگر وہ بندہ نیک ہوتا تو شاید میں بھی اُس کے لیے دعا کر ہی لیتا، مگر حیا کی ساری بات سن کر تو مجھے یہی لگ رہا ہے کہ ہم اُس کے لیے دعا کرکے اپنا ہی قیمتی وقت ضائع کر رہے ہیں ”
” بری بات زوہیب ایسا نہیں کہتے، شہریار نے حیا کے ساتھ جو کچھ بھی کیا وہ اُس کا ظرف تھا، اگر ہم بھی اُس کے ساتھ یہی سب کریں گے تو ہم میں اور شہریار میں کیا فرق رہ جائے گا، اور جہاں تک نیک ہونے کی بات ہے تو یہ تو اللہ کے کام ہیں جس کو چاہے ہدایت دے، اگر تمھیں دی ہے تو تم تو اُس کے لیے دعا کرسکتے ہو ” سعدیہ بیگم نے آبدیدہ ہوتے ہوئے کہا
” اچھا” زوہیب نے ہار مان لی کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ چاہے جتنی بھی کوشش کر لے، سعدیہ بیگم سے نہیں جیت سکتا. اس لیے اُس نے چپ کرکے بات ماننے میں ہی اپنی عافیت سمجھی.
**************************