شعیب نے جب ارمان کے یہ الفاظ سنے اور اسکی حالت دیکھی تو اسکو اس پہ ترس آنے لگا اس نے گاڑی گھر کی طرف لے کر جانے کے بجائے دوسرے رخ پہ موڑ لی، ارمان اپنی سوچوں میں تھا اسکو کچھ خبر نا تھی وہ بس روبی کو سوچنے میں مگن تھا، شعیب نے اس سے کہا
ارمان اک دو جگہ اور ہیں ہم وہاں چل کر روبی کا پتہ کرلیتے ہیں”
ارمان جو اپنی سوچوں میں گم تھا اک دم چونک پڑا اور خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات میں کہنے لگا
“تم سچ کہہ رہے ہو شعیب۔۔۔ ہم روبی کو ڈھونڈلیں گے؟؟؟”
یار کوشش کرسکتے ہیں۔۔ شعیب نے کہا۔۔
پھر وہ گاڑی کو کافی دور اک جگہ لے آیا اور وہاں روک دی پھر دونوں نیچے اتر آئے اور اک گلی میں مڑ گئے پہلا ہی اک گھر تھا وہاں اندر چلے گئے ادھر معلوم کیا تو وہاں روبی نام کی کوئی لڑکی نہیں آئی تھی اسی طرح وہ دونوں اک جگہ اور گئے مگر وہاں بھی یہی جواب ملا وہ دونوں مایوس ہوکر واپس گاڑی کی طرف پلٹ گئے شعیب نے ارمان کی طرف دیکھا وہ بے انتہا دکھی تھا وہ اسکے پاس آیا اور اسکو کندھوں سے تھام کر بولا “یار مجھے نہیں پتہ یہ محبت کیا چیز ہوتی ہے کیسا احساس ہوتا ہے اس کا مگر مجھے اتنا تو معلوم ہوگیا کہ محبت ہر پتھر دل کو بھی موم کردیتی ہے، کسی کے جینے کی وجہ بن جاتی ہے اور اک تڑپ جگادیتی ہے، تم حوصلہ رکھو یار اگر وہ تمہارے نصیب میں ہوئی تو تمہیں ضرور ملے گی”
ارمان نے اسکی باتیں سن کر اپنی آنکھوں میں آئے آنسوؤں کو صاف کیا اور سر جھکا دیا شعیب نے اسکو گلے لگایا اور کہا میں بھی تمہارے لیے دعا کروں گا
پھر وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور گھر کی جانب چل پڑے
ارمان جب گھر میں داخل ہوا تو اسکی نظر ناہید بیگم پہ پڑی وہ لاؤنج میں رکھے صوفے پہ سورہی تھیں، اسکو حیرت ہوئی کہ مام یہاں کیوں سورہی ہیں، پھر وہ اوپر اپنے کمرے میں چلا آیا، اپنے جوتے اتارے اور بیڈ پہ لیٹ گیا مگر نیند اسکی آنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ یونہی کروٹیں بدلتا رہا ناجانے کس پہر اسکی آنکھ لگ گئی
*****
روشانے نے کالج کے باہر شاہ میر کے آدمی کو دیکھا تھا وہی بڑی بڑی مونچھوں والا، اس آدمی نے روشانے کو دیکھ کر اپنا فون نکالا اور کسی کو فون کرنے لگا، روشانے کو اس سے خوف آنے لگا مگر وہ ساتھ چلتی اپنی دوستوں پہ کچھ ظاہر نہیں ہونے دیناچاہتی تھی سو وہ انکے ساتھ چلتی رہی، اسکی دونوں دوستیں اک ہی گلی میں رہتی تھیں اور اسکا گھر ان سے آگے والی گلی میں تھا وہ دونوں اپنی گلی میں مڑ گئیں، روشانے چاہتی تھی کہ وہ جلد از جلد گھر پہنچ جائے مگر اس کو اس وقت وہ راستہ کسی پہاڑ کو سر کرنے کے برابر لگ رہا تھا،دوپہر کا وقت تھا گلی تقریبا اس وقت سنسان ہی ہوتی تھی کوئی دکان وغیرہ تو تھی نہیں وہاں بس گھر ہی بنے ہوئے تھے روشانے اپنی گلی میں مڑگئی اور تیز تیز چلنے لگی
اسکا گھر تھوڑا آگے تھا وہ اپنے گھر سے چند قدم کے فاصلے پہ تھی کہ اک گاڑی تیزی سے آئی اور اسکے پاس آکر رک گئی اس میں سے وہی آدمی نکلا اس سے پہلے کہ وہ کچھ شور مچاتی یا آواز دیتی اسنے اسکی ناک پہ رومال رکھ دیا اور وہ چند لمحے بعد بے ہوش ہوگئی اس آدمی نے اسکو گاڑی میں ڈالا اور گاڑی بھگا کر لے گیا
*****
صبح کے آٹھ بجے ناہید بیگم کی آنکھ کھلی انہیں یاد آیا کہ وہ ارمان کا انتظار کرتے کرتے یہاں صوفے پہ ہی سوگئیں تھیں وہ اٹھیں اور اوپر کی جانب چل پڑیں اور سوچ رہیں تھیں کہ پتہ نہیں ارمان آیا کہ نہیں انہوں نے اوپر آکر ارمان کے کمرے کی طرف دیکھا دروازہ بند تھا انہوں نے کھولا اور ارمان کو سوتا ہوا پایا تو انہیں کچھ اطمینان ہوا پھر وہ اپنے کمرے میں چلی آئیں مجتبی عالم بھی اٹھ چکے تھے انہوں نے ناہید کو دیکھتے ہوئے کہا
آگئے صاحبزادے ناجانے رات کے کس پہر آیا ہے۔۔۔۔ اور سنو اب اپنے بوتیک کا ٹائم کردو اور اسکو ٹائم دو میں یہاں سے شفٹنگ کا بھی سوچتا ہوں کچھ۔۔۔ ناہید نے سر ہاں میں ہلایا اور کہا آپ فریش ہوجائیں میں ناشتہ لگواتی ہوں۔۔۔
ملازمہ بھی آگئی تھی انہوں نے ملازمہ سے کہا ناشتہ لگاؤ ہم آرہے ہیں۔۔۔۔ اتنی دیر میں مجتبی بھی فریش ہوکر آگئے پھر وہ دونوں نیچے اتر کر ڈائینگ ائریا میں آگئے اور ناشتہ کرنے لگے۔۔۔۔ ناشتے کے بعد مجتبی تو چلے گئے اور ناہید بیگم کا بھی بوتیک سے فون آگیا دو آرڈر آئے تھے انہیں فوری جانا تھا سو وہ ناشتہ کرکے اور جلدی آنے کا سوچ کر بوتیک چلی گئیں۔۔۔۔۔
انکے جانے کے اک گھنٹہ بعد ارمان سو کر اٹھا اور فریش ہوکر نیچے چلا آیا حسب معمول اسکے پیرنٹس اپنے کاموں پہ جاچکے تھے اس نے ملازمہ سے ناشتہ کا کہا اور انتظار کرنے لگا، تھوڑی دیر بعد ملازمہ ناشتہ لے آئی اس نے ناشتہ کیا اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلا آیا۔۔۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آگے اسکو کیا کرنا ہے؟ پڑھائی بھی ادھوری تھی اسکی مگر اسکا دل کسی چیز میں نہیں لگ رہا تھا۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے اسکو روبی یاد آگئی اسکی انکھیں پھر نم ہونے لگیں پھر انکھوں سے آنسو جاری ہوگئے ناجانے کتنی ہی دیر وہ ایسے ہی بیٹھا اسکو یاد کرتا رہا وقت گزرنے کا احساس ہی نا ہوا، اسکو اپنے سر پہ کسی کا لمس محسوس ہوا اسنے چونک کر دیکھا تو اسکی ماں کھڑی تھی انہوں نے اسکو روتا ہوا دیکھا تو پوچھنے لگیں کیا ہوا ارمان کیوں رورہے ہو بیٹا اسنے انکی بات کا جواب دینے کے بجائے الٹا ان سے سوال پوچھ لیا
“خیریت آج آپ بوتیک سے جلدی واپس آگئیں؟
ہاں بیٹا اب میں اپنے بیٹے کے ساتھ وقت گزاروں گی” وہ سر جھکا کر کہنے لگیں جانتی تھیں کہ اتنے عرصے سے چھوڑا جانے والا محبت اور توجہ کا یہ خلاء اتنی جلدی پر نہیں ہوسکے گا۔۔۔۔
انکی بات پہ ارمان نے اک طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
اوووہ۔۔!! اسکی کوئی ضرورت نہیں مام مجھے تو اب عادت ہے ایسے رہنے کی۔۔۔۔ مجھے تو معلوم ہی نہیں کہ ماں باپ کی محبت کیا ہوتی ہے اور مجھے جس سے محبت ہوئی وہ بھی چلی گئی وہ بے ساختہ کہہ گیا۔۔۔۔ ناہید بیگم نے اسکے منہ سے یہ الفاظ سنے تو اک دم جیسے ہوش میں آئیں اور پوچھنے لگیں کہ کون کہاں چلی گئی؟
“مام۔۔۔ روبی چلی گئی یہاں سے مجھے چھوڑ کر پتہ نہیں کہاں۔۔۔۔۔ میں نے اسکو ڈھونڈا مگر وہ مجھے نہیں ملی۔۔۔ مام وہ کیوں چلی گئی یہ کہتے کہتے وہ رونے لگ گیا”وہ ان سے کہنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ وہ تو خوش ہونگی مگر ناجانے کیوں وہ ان سے کہہ گیا۔۔
ناہید بیگم نے جب یہ سنا تو انکو بہت سکون ملا کہ شکر ہے دیر آئد مگر درست آئد۔۔۔۔
انہوں نے اسکو پیار کیا اور اسکے پاس بیٹھ کر اسکا سر اپنی گود میں رکھ لیا اور اسکے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگیں۔۔
****
روشانے نے ہوش میں آنے پہ خود کو اک کمرے میں پایا وہ بیڈ پہ لیٹی ہوئی تھی اس نے اٹھنے کی کوشش کی تو اسکا سر چکرانے لگا وہ پھر سے لیٹ گئی۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب اس نے آنکھیں کھولیں تو اس نے اپنے اردگرد نظر دوڑائی اور یاد کرنے لگی کہ وہ کہاں ہیں یہ کس کا کمرہ ہے؟؟ آہستہ آہستہ اسکو سب یاد آنے لگا۔۔۔۔ وہ اک دم حواس باختہ سی ہوکر بند دروازے کی طرف بھاگی اور زور زور سے دروازہ پیٹنے لگی اسکے اس طرح شور مچانے پہ اسکو باہر سے دروازہ کا لاک کھولنے کی آواز آئی اور دروازہ کھلا تو وہی بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی اندر آیا اور کہا کہ لڑکی شور مت کرو اتنی دیر میں پیچھے سے شاہ میر آگیا وہ آدمی شاہ میر کو دیکھ کر چلا گیا۔۔۔ شاہ میر نے دروازہ بند کردیا اور اسکے پاس چلا آیا روشانے ڈر کے پیچھے ہٹی، شاہ میر نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا ڈرو نہیں میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا اور نا یہاں تمہیں کوئی کچھ کہے گا۔۔۔۔۔
تت۔۔۔ تم مجھے یہاں کیوں لائے ہو؟؟ روشانے نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا۔۔۔!! اور اس سے ہاتھ چھڑانے لگی۔۔۔۔
شاہ میر نے اسکا ہاتھ اور مضبوطی سے پکڑ لیا۔۔۔۔
بس تم سے نکاح کرنا ہے اور پھر تم میری ہوجاؤ گی روشانے شاہ میر۔۔۔۔ وااااؤ۔۔۔۔ اس کے بعد میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا باحفاظت۔۔۔ وہ بہت آرام سے کہہ رہا تھا۔۔۔۔ مگر روشانے ہکا بکا اسکی بات سنتی رہی پھر اک دم جیسے ہوش میں آتے ہوئے بولی
نن۔۔۔نہیں۔۔۔ نہیں پلیز ایسا مت کرنا پلیز یہ ظلم مت کرو۔۔۔۔ تم میرے ساتھ زبردستی نہیں کرسکتے۔۔۔۔
وہ ہنسنے لگا اور اسکا ہاتھ چھوڑ کر ہنستے ہنستے کہنے لگا۔۔۔ “مائے ڈئیر روشانے یہ تو میں کروں گا اور لازمی کروں گا”
وہ روتے ہوئے اسکے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہنے لگی” ایسا مت کرو میرے ماں باپ جیتے جی مرجائیں گے۔۔۔۔
نا۔۔۔۔نا۔۔۔نا۔۔ وہ کیا ہے نا جب میں تمہارے گھر آیا تھا اپنے ماں باپ کے ساتھ ہمارے رشتے کی بات کرنے تو تمہارے باپ نے میری بہت بےعزتی کی تھی اورمیں نے اسکو دھمکی بھی دی تھی۔۔ مگر اس نے میری دھمکی کا شاید کوئی اثر نہیں لیا۔۔۔۔ وہ مجھے بہت ہلکا لے رہا تھا تو بس میں تمہارے باپ کو دکھانا چاہتا ہوں کہ میں اپنی بےعزتی کا بدلہ لینا جانتا ہوں۔۔۔۔۔
بوا۔۔۔ بوا۔۔۔۔۔ وہ نکاح کا جوڑا اور جیولری جو رکھی ہوئی ہے وہ لے آئیں اور بیوٹیشن کو بھی فون کردیں جلدی سے میں اپنے دوست کو فون کروں کہ وہ مولوی کو لے آئے۔ ۔۔۔۔۔ وہ پلٹا اور اک بڑی عمر کی عورت کو آواز دیتے ہوئے کہنے لگا۔۔
وہ عورت اک لال رنگ کا خوبصورت سا جوڑا اور جیولری لے آئی شاہ میر باہر جاتے ہوئے اس عورت سے کہنے لگا اسکو جلد از جلد تیار کردیں اگر کچھ شور کرے تو مجھے بتادیجیے گا۔۔۔۔۔
پیچھے سے روشانے بولی میں انکار کردوں گی نکاح کے وقت۔۔۔۔ تم سمجھتے کیا ہو خود کو شاہ میر۔۔۔۔ تم کچھ نہیں کرسکتے سنا تم نے۔۔۔۔۔روشانے نے اپنی طرف سے اسکو دھمکی دی تھی اور شاہ میر اسکی دھمکی سن کر ہنسا اور واپس پلٹ آیا اور اسکے رخسار کو اپنی انگلی سے چھو کر کہنے لگا۔۔۔
تمہارے باپ کو دھمکی دی تھی تو تم یہاں ہو سوچ لو جو دھمکی تم مجھے دے رہی ہو اس میں تمہارے ماں باپ اور تمہارا اکلوتا بھائی ایسا نا ہو کہ کہیں کسی اور جہاں میں پہنچ جائیں۔۔۔
دوسری طرف نفیسہ بیگم روشانے کے انتظار میں ہلکان ہورہیں تھیں، وہ عموما دو بجے تک آجاتی تھی مگر اب تو تین بجنے والے تھے انکا دل بہت گھبرا رہا تھا وہ روشانے کے کمرے میں گئیں اور وہاں سے موبائل اٹھاکر سرمد آغا کا نمبر ملانے لگیں دوسری طرف دو بیلوں کے بعد فون اٹھا لیا گیا۔۔۔۔
ہیلو۔۔۔۔!
سرمد بات سنیں۔۔۔ روشانے۔۔۔۔ روشانے ابھی تک نہیں آئی کالج سے۔۔۔ انہوں نے گھبراتے ہوئے سرمد آغا کو بتایا۔۔۔
کیا کیوں نہیں آئی؟؟؟ وہ کہاِ ہے؟؟ سرمد آغا بھی گھبرا گئے۔۔۔
پتہ نہیں مجھے۔۔۔ آپ اسکے کالج جاکر معلوم کریں۔۔۔۔ پتہ نہیں میری بچی کہاں ہوگی آپ جلدی جائیں۔۔۔ نفیسہ نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔
سرمد آغا نے اچھا کہہ کر فون بند کردیا انکے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے انکو شاہ میر کی دھمکی یاد تھی اور اب انکو ایسا لگ رہا تھا کہ شاہ میر نے کہیں اپنی دھمکی پہ عمل نا کردیا ہو۔۔۔ اف روشانے پتہ نہیں میری بچی۔۔۔ اللّٰہ پاک خیر کرنا۔۔۔۔۔ وہ سوچتے ہوئے بائک نکالنے لگے اور فورا اسکے کالج پہنچے وہاں پہ صرف چوکیدار تھا اور چند اک ٹیچرز تھے انہوں نے دھڑکتے دل کے ساتھ چوکیدار سے پوچھا کہ کوئی اسٹوڈنٹ ہے اندر؟؟؟
نئ صاب اندر تو بس کچھ ٹیچر اے اور ام اے۔۔۔ سب جاچکے اے ام بی بس جانے والا اے۔۔۔ چوکیدار نے جواب دیا۔۔۔
سرمد آغا کو ایسا لگ رہا تھا سارے رستے بند ہوگئے ہیں وہ کیا کریں کہاں جائیں۔۔۔۔ اگر پولیس اسٹیشن جاتے ہیں تو بدنامی انکی ہوگی وہ کیا کہیں گے وہ تو شاہ میر کے بارے میں جانتے بھی نہیں کہ وہ کون ہے کس کا بیٹا ہے کہاں رہتا ہے۔۔۔۔ انہی سوچوں میں غلطاں وہ گھر کی طرف چل پڑے
گھر پہنچے تو نفیسہ انکی راہ ہی دیکھ رہی تھیں انکو دیکھ کر فورا چلی آئیں
کیا ہوا کہاں ہے روشانے؟؟؟؟ سرمد پلیز کچھ بولیں کہاں ہے میری بچی؟؟؟؟
سرمد آغا تھکے قدموں سے چلتے ہوئے آئے اور کرسی پہ بیٹھ گئے پھر کہنے لگے
نفیسہ کالج میں سے سب اسٹوڈنٹ جاچکے تھے کوئی نہیں تھا وہاں۔۔۔۔
آپ اسکی دوستوں کے گھر جاکر معلوم کریں یہاں پچھلی گلی میں جو رہتی ہیں۔۔۔ نفیسہ نے کہا
انکی بات سن کر سرمد کہنے لگے”نفیسہ ہماری بیٹی کہیں نہیں جاتی وہ سیدھی کالج سے گھر ہی آتی ہے وہ اتنی غیر ذمہ دار نہیں ہے کہ بنا بتائے کہیں بھی چلی جائے۔۔۔۔
آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں مگر میرا دل بہت ہول رہا ہے پلیز سرمد کچھ کریں۔۔۔۔ وہ اک دم روتے ہوئے بولیں۔۔۔۔
شاہ میر نے مجھے یہاں پہ دھمکی دی تھی نفیسہ۔۔۔۔ میں نے آپ کو بتایا نہیں تھا اور مجھے لگتا ہے وہ۔۔۔۔ اسی نے ہی کچھ کیا ہے۔۔۔ وہ تھکے تھکے لہجے میں بتانے لگے۔۔۔
نفیسہ بیگم اک دم سکتے کی کیفیت میں آگئیں پھر اک دم ٹوٹے ہوئے لفظوں میں کہنے لگیں۔۔۔ یہ۔۔۔ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ۔۔۔۔ اللّٰہ نہ کرے۔۔ اے۔۔۔ ایسا ہو۔۔۔۔
وہ وہاں سے اٹھیں اور وضو کرکے آئیں اور نفل پڑھ کے اسکی سلامتی کی دعا کرنے لگیں
****
روشانے شاہ میر کی دھمکی سن کر دھک سے رہ گئی اور کہنے لگی” تم کیا کروگے؟؟
شاہ میر نے کہا اگر تم نے نکاح سے انکار کیا تو تمہارے ماں باپ اور بھائی نہیں بچیں گے اب سوچ لو انکی زندگی بچانی ہے یا اپنی؟؟ ویسے پھر انکار کے بعد تو تم بھی نہیں بچو گی۔۔۔۔
روشانے اس وقت خود کو بہت بے بس محسوس کررہی تھی وہ روتے ہوئے اس سے فریاد کرنے لگی
پلیز ایسا مت کرو میرےماں باپ اور بھائی کو کچھ مت کہنا۔۔۔۔ مگر میں تم سے نکاح نہیں کرسکتی سمجھو پلیز یہ ظلم ہے ایسا مت کرو ”
ایسا ہے تو ایسا ہی صحیح ٹھیک ہے مت کرو نکاح۔۔۔۔۔
رام دین۔۔۔۔ رام دین۔۔۔۔
جی صاحب۔۔۔۔!!!
اس نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے اپنے اس آدمی کو بلایا جب وہ آگیا تو اس سے کہنے لگا۔۔۔
جہاں سے اس لڑکی کو اٹھایا ہے نا وہیں اسکا گھر ہے وہاں جاکر اسکے ماں باپ کو ختم کردو۔۔۔۔
جو حکم صاحب۔۔۔۔ وہ آدمی کہہ کر پلٹا۔۔۔
روشانے چلائی نہیں نہیں رک جاؤ پلیز میں تیار ہوں نکاح کے لیے مت جاؤ رک جاؤ پلیز روک لو شاہ میر اسکو۔۔۔
شاہ میر ہنسا اور کہا رام دین رہنے دو۔۔۔۔
بوا آپ جلدی تیار کروادیں اسکو مولوی صاحب بھی آنے والے ہیں وہ بوا سے کہتا ہوا وہاں سے باہر آگیا۔۔۔ بیوٹیشن بھی آگئی تھی۔۔۔
روشانے بت بنی بیٹھی تھی بوا نے اس سے کہا بی بی جلدی کپڑے بدلو پھر تیار کرنا ہے تمہیں۔۔۔ روشانے بے دلی سے اٹھی اور کپڑے بدل کے آگئی۔۔۔ اسکو اپنےماں باپ کی زندگی خود سے زیادہ پیاری تھی وہ کیا کرتی مجبور اور بےبس تھی بہت۔۔۔۔
بیوٹیشن نے اسکا میک اپ کردیا وہ تیار ہوکر بے حد حسین لگ رہی تھی۔۔۔
بوا نے جاکر شاہ میر سے کہا کہ وہ تیار ہے
شاہ میر نے بوا کی بات سن کر کہا “گڈ”
تھوڑی دیر بعد اسکا دوست مولوی کو لے آیا اور نکاح پڑھا دیا گیا۔۔۔۔۔
روشانے ناچاہتے ہوئے بھی سب کرنے پہ مجبور تھی۔۔۔
پھر سب کمرے سے چلے گئے تو وہ اس کمرے میں آیا روشانے بلکل ساکت بیٹھی ہوئی تھی وہ اس کے برابر میں جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا ہاائے ایسا لگتا ہے جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔۔۔۔ تم تو بہت حسین لگ رہی ہو۔۔۔۔ لوٹ لیا تم نے میرے دل کو۔۔۔۔۔ اب جیسا تم سے میں نے کہا تھا کہ نکاح کے بعد تمہیں تمہارے گھر چھوڑ آؤں گا چلو چھوڑ آؤں مگر بس بہت جلد لینے آؤں گا چلو اٹھو۔۔۔۔ اسنے اسکا ہاتھ پکڑ لیا
وہ وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے ساتھ چلنے لگی اب اسکے سوا کوئی چارہ نا تھا
شام کے پانچ بج گئے تھے،شاہ میر نے اسکو گاڑی میں بٹھایا اور خود ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھ گیا اور گاڑی اسٹارٹ کردی کچھ دیر بعد وہ روشانے کے گھر کے پاس پہنچ گیا گاڑی روکی اور روشانے کو اترنے کے لیے کہا وہ دروازہ کھول کر اترگئی اور گھر کی بیل بجادی۔۔
اسکے ماں باپ جو پریشان بیٹھے تھے بیل کی آواز سنتے ہی سرمد آغا نے دروازہ کھولا سامنے کھڑی روشانے پہ نظر پڑی وہ آگے بڑھ کے اس سے کچھ پوچھتے انکی نظر اسکے کپڑوں اور اسکے حلیے پہ پڑی وہ سمجھ نہیں پائے مگر سب سمجھ بھی گئے کیونکہ پیچھے سے شاہ میر نظر آگیا تھا۔۔۔۔
ھائے انکل۔۔۔۔۔ اوہ سوری سسر جی یہ لیجیے آپکی روشانے آپکے پاس آگئی ہے اور اب میری امانت ہے۔۔۔۔۔ اسکا بہت خیال رکھیے گا میں اک دو دن بعد اسکو لینے آؤں گا۔۔۔ جب تک میری بیوی کہیں جانی نہیں چاہیے۔۔۔۔ سمجھ رہے ہیں نا آپ۔۔۔۔۔ وہ شیطانی مسکراہٹ لیے ان سے کہہ رہا تھا پیچھے سے نفیسہ بھی آگئیں اس نے انکو دیکھ کے کہا سلام ساسوں ماں کیسی ہیں آپ؟؟ اندر نہیں بلائیں گے کیا؟ داماد پہلی دفعہ آیا ہے،چلیں خیر میں دوبارہ آؤں گا خیال رکھیے گا چلتا ہوں۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ پلٹ گیا اور گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا
سرمد آغا اور نفیسہ پہ تو قیامت ٹوٹ پڑی تھی روشانے سکتے کے عالم میں بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔۔۔ انہوں نے اس سے پوچھنے کی بہت کوشش کی مگر وہ چپ تھی پھر کافی دیر بعد جب اسکا سکتا ٹوٹا تو وہ رونے لگی اور روتے روتے بے حال ہوگئی اس نے سب بات بتائی اور معافی مانگنے لگی سرمد آغا اور نفیسہ سمجھ گئے تھے کہ انکی بیٹی اس شیطان کے آگے بے بس ہوگئی ہوگی وہ کیا کرسکتے تھے اب انکی تو دنیا ہی لٹ گئی تھی۔۔۔۔۔
ٹھیک دو دن بعد شاہ میر روشانے کو لینے آگیا روشانے روتی دھوتی ناچاہتے ہوئے بھی جانے پہ مجبور تھی وہ اپنے ماں باپ کو روتا دھوتا چھوڑ کر اسکے ساتھ چلی آئی اسکے ماں باپ نے جو کچھ اسکے لیے جوڑا تھا اسکو دے دیا۔۔۔۔۔ شاہ میر نے صاف کہہ دیا تھا کہ اب وہ یہاں سے جانے کے بعداپنے ماں باپ سے کوئی رابطہ نہیں رکھے گی ورنہ ذمہ دار خود ہوگی۔۔۔۔۔ روشانے اس سفاک انسان کو دیکھ کر رہ گئی مگر وہ کچھ نہیں کرسکتی تھی