(Last Updated On: )
مدیر : س۔ م۔ ساجد
ناشر: شاہ کار پبلی کیشنز، نور جہاں روڈ، محمد پور، ڈھاکہ، بنگلہ دیش۔
ضخامت: ۸۸ صفحاتقیمت: ۶ ٹاکہ
آرٹسٹ سید اقبال کے خوب صورت سرِ ورق، مدیر اور یاور امان کے خوش سلیقہ انتخاب، نوشاد نوری، احمد سعدی، احمد الیاس کی عمدہ مشاورت سے یہ پرچہ سحرِ بنگال جیسا دل فریب ہے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کو کوئی دس برس ہو رہے ہیں، یہ ملک ابھی اقتصادی، معاشرتی اورا دبی دوائر میں از سرِ نو مرتب ہو رہا ہے، جب شمشر و سناں کے دور سے یہ قوم طاؤس و رباب کی طرف آئے گی تو بلاشبہ فن اور ادب کے عظیم شہ پارے پیش کرے گی۔ زبان تو اک واسطہِ بیان ہے زبان اور بولی کی جنگ اور کشاکش چلتی رہے گی لیکن فن کار / شاعر اپنے احساسات کے لاوے کو نہیں دبا سکے گا اور اس طرح خوب صورت ادبی تاریخ اور کارنامے پیش منظر ہوں گے۔
ساجد صاحب نے اشارہ کیا ہے کہ اردو ابھی بنگلہ دیش میں سرکاری طور پر مقبول نہیں۔ لیکن یہاں یہ بھی ظاہر ہے کہ کئی ادیب و فن کار اس زبان میں فن تخلیق کر رہے ہیں اور ان کی شاعری عصری کرب، حسنِ اظہار اور ارتکاز سے مملو ہے۔ خود اس رسالہ میں ایسے اچھے مضامین، منظوم فن پارے اور افسانے شریک ہیں جس سے یقین ہوتا ہے کہ اس خطۂ ارضی میں بھی اردو پھل پھول رہی ہے، بادِ سموم کا رخ بدلے گا، بہار آئے گی تو بہت سے خوش رنگ پرندے چمچما اٹھیں گے۔
اچھے ادب سے دیدہ دل کو روشنی پہنچتی ہے، درد و کرب کا صحیح آئینہ پیش ہو تو سخن نور فشاں ہو جاتا ہے اس پرچہ کو پڑھ کر کچھ ایسی ہی خوشی محسوس ہوئی۔ اس رسالے میں خاصہ کی چیز ہیں اس کے مضامین خصوصاً ڈاکٹر کلیم سہسرامی کا مضمون ’’فرہنگ ابراہیمی‘‘ یہ کتاب ابراہیم قوام فاروقی کی ممتاز تخلیق ہے۔ یہ عالم جونپور سے بنگال منتقل ہو کر وہیں مقیم ہو گیا تھا۔ یہ کتاب غالباً ۸۷۲ ہجری میں لکھی گئی تھی۔ فاضل مضمون نگار نے اس کتاب کا متوازن تعارف اس پر کیے گئے کام اور مطابق کتابیات کا تذکرہ کیا ہے۔ نوشاد نوری نے برِ صغیر میں اردو کے ارتقا اور اس کی ترویج کا جائزہ لیا ہے اور رسم الخط پر بھی خیال آرائی کی ہے۔ مضمون محنت سے لکھا گیا ہے اور رسم الخط کی بحث کے دوران ماخذ کی طور پر استعمال ہو سکتا ہے۔
عطا الرحمن جمیل کی نظم بہت اثر انگیز ہے، ادیب سہیل، احمد الیاس، خلیل الرحمن اعظمی، صدف زید، احمد سعدی قابلِ ذکر ہیں۔ احمد سعدی کا یہ شعر خوب ہے:
یہی ہے شہرِ تمنا کی مختصر روداد
ہر ایک چہرہ پریشاں، ہر ایک دل ناشنا
احمد سعدی ترجمہ پر بھی قادر ہیں، شمس الرحمن کی نظم خوابیدگی، فضل شہاب الدین کی نظم ’’کریزی ہورس سیلون‘‘ اور اسد چودھری کی نظم ’’ناتمام خبر‘‘ کا انھوں نے کامیاب ترجمہ کیا ہے۔ یہ نظمیں خود معیاری ہیں۔ افسانوں میں احمد صفی نے ’’کلی کی خوش بو‘‘، غلام محمد نے ’’تین مسافر‘‘، زین العابدین نے ’’کچی سڑک‘‘ اور س۔ م۔ ساجد نے ’’کتے‘‘ میں اپنا فن پیش کیا ہے۔ ایوب جوہر کی ’’بے ربط کہانی‘‘ بھی خوب ہے۔
غزلوں میں کامل کلکتوی کلام نے صہبائے آبگینہ گداز کا لطف دیا۔ دوسری قابلِ ذکر غزلیں یاور امان، عبدالحمید ساقی، شمیم زمانوی، ماہر فریدی، احمد ندیم قاسمی، سرور بارہ بنکوی، قدوس صدا، اصغر راہی، عاطف بنارسی، عثمان غنی شاداں، مقبول نظر اور شمیم کاشفی کی ہیں۔
عمدہ طباعت اور کتابت بھی اس کتاب کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ اس پرچہ میں وہاں کی علمی، ادبی اور تہذیبی مصروفیات کا روز نامچہ بھی شریک ہو کہ ہم کو وہاں کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کی خبر مل سکے۔
٭٭٭