جسم کو کئی بار مشین سے تشبیہہ دی جاتی ہے لیکن یہ اس سے بہت بڑھ کر شے ہے۔ یہ چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے اور دہائیوں تک مسلسل کرتا ہے۔ اسے روک کر سروس کرنے کی ضرورت نہیں پڑتا اور (عام طور پر) سپئیر پارٹس درکار نہیں ہوتے۔ یہ پانی اور چند نامیاتی مادوں پر گزارا کرتا ہے۔ نرم اور دلکش ہے۔ حرکت کرتا ہے اور لچکدار ہے۔ خوشی خوشی اپنی افزائشِ نسل کرتا ہے۔ مذاق کرتا ہے، پیار محسوس کرتا ہے۔ غروبِ آفتاب کے وقت شفق کی سرخ لالی اور ہوا کے سرد جھونکے سے محظوظ ہوتا ہے۔ آپ کتنی مشینوں سے واقف ہیں جو ان میں سے کچھ بھی کر سکتی ہیں؟ بے شک، آپ ایک شاہکار ہیں۔ اور صرف آپ ہی نہیں، ایک چھپکلی بھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہم اپنے وجود کے معجزے کا جشن کیسے مناتے ہیں؟ کئی لوگ بہت سا کھا کر اور ورزش سے مکمل اجتناب کر کے۔ ذرا غور کریں کہ آپ اپنے حلق کے نیچے کتنی خوراک اتارتے ہیں؟ اور روشن سکرین کے سامنے ساکن حالت میں؟ لیکن کسی معجزاتے طریقے سے، ہمارا جسم اپنا خیال رکھ لیتا ہے۔ خوراک سے متفرق غذائیت اخذ کر لیتا ہے اور کسی نہ کسی طرح ہمارا نظامِ زندگی دہائیوں تک بلاتعطل جاری رکھتا ہے۔ بدترین لائف سٹائل سے بھی خودکشی کرتے ہوئے کئی دہائیاں لگیں گی۔
اور جب اس جسم کے ساتھ سب کچھ غلط کیا جائے، تب بھی یہ خود کو برقرار رکھ لیتا ہے۔ ہم خود اس کا تجربہ ہیں۔ ہر چھ میں سے پانچ سگریٹ نوشوں کو پھیپھڑے کا کینسر نہیں ہو گا۔ بہت سے لوگ جو ہارٹ اٹیک کے امیدوار ہیں، اس سے دور رہیں گے۔ اندازاً، ہر روز ایک سے پانچ کے درمیان خلیے کینسرزدہ ہو جائیں گے۔ لیکن امیون سسٹم انہیں پکڑ لے گا اور مار دے گا۔ ذرا سوچیں کہ سال میں ہزار مرتبہ سے زیادہ بار آپ کو ہمارے عہد کا موذی ترین مرض لاحق ہو گا اور ہر مرتبہ جسم اس سے محفوظ رہ لے گا۔ ہاں، ایسا ہے کہ کئی بار کینسر سنجیدہ ہو جائے گا اور مار دے گا۔ لیکن مجموعی طور پر ایسا ہونا انتہائی نایاب ہے۔ جسم کے زیادہ تر خلیات اربوں بار کاپی ہوتے ہیں اور کچھ بھی غلط نہیں ہوتا۔ کینسر اس سب میں ہونے والا بہت ہی نایاب ایونٹ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا جسم 37.2 ٹریلین خلیات کی کائنات ہے جو ہم آہنگی سے کام کرتے رہتے ہیں۔ ایک درد، پیٹ میں مروڑ، زخم یا دانہ ۔۔۔ یہ اس پرفیکشن میں کمزوری کا ہونے والا کبھی کبھار کا اعلان ہے۔ ہزاروں چیزیں ہمیں مار سکتی ہیں (عالمی ادارہ صحت کے مطابق آٹھ ہزار سے کچھ زیادہ)۔ لیکن ہم ان میں سب سے بچ جائیں گے، ماسوائے ایک کے۔
ہم خود میں کئی imperfecions دیکھ سکتے ہیں۔ جبڑا کچھ چھوٹا ہے۔ دردِ زہ بہت تکلیف دہ ہے۔ کمردرد عام ہے۔ ہمارے پاس زیادہ تر ایسے اعضاء ہیں جو خود کی مرمت نہیں کر پاتے۔ اگر ایک زیبرا فش اپنے دل کو نقصان پہنچا لے تو نیا ٹشو اگ آتا ہے۔ اگر آپ کے ساتھ ایسا ہو جائے گا تو یہ بری خبر ہے۔ تقریباً تمام جانور اپنی وٹامن سی خود پیدا کرتے ہیں لیکن ہم ایسا نہیں رک سکتے۔ ہم اس عمل کے تمام سٹیپ کر لیتے ہیں لیکن ناقابلِ فہم بات ہے کہ صرف آخری نہیں کر سکتے۔ جو صرف ایک انزائم پیدا کرنا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انسانی زندگی کا معجزہ یہ نہیں کہ ہم میں کمزوریاں نہیں بلکہ یہ کہ یہ اس قدر کم ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے جین قدیم ہیں۔ بہت قدیم۔ ایسے جانداروں کے بھی جو سمندر میں تیرتے تھے۔ بہت چھوٹے جانداروں کے جو زمین کو کھود کر رہتے تھے۔ آپ تین ارب سال کے عمل سے نکلنے والا معجزہ ہیں۔ بہت اچھا ہوتا کہ ہم سیدھا چل سکتے جس میں کمر اور گھٹنے متاچر نہ ہوتے۔ نگلتے وقت گلے میں کچھ نہ پھنستا۔ بچے پیدا کرنے میں اتنی تکلیف نہ ہوتی۔ لیکن ہم نے اپنا سفر تاریخ میں گرم اور اتھلے سمندر میں ناقابلِ ذکر خلیے سے کیا ہے۔
ہمارا ہر خلیہ اپنے جینوم میں، اور جسم اپنے ہر فنکشن میں اس تاریخ کے نشان رکھتا ہے۔
ہمارا وجود ہماری سوچ سے کہیں بڑھ کر ایک شاہکار ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...