شاہد ماہلی(دہلی)
نیم پلیٹ
نئے مکان کے ساتھ
آئی ایک نیم پلیٹ بھی
پیتل کی خوب چمکدار
جسے میرے بیٹے نے لگادیاتھا
دروازے پر
دفتر کی واپسی پر
میں ٹھٹھک گیا
حیرت زدہ دیکھتارہا
دیرتک نیم پلیٹ کو
پڑھتارہاایک ایک حرف
اچانک آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے
سارے حروف
عجیب عجیب شکلوں میں
کمپیوٹراسکرین کی طرح
بڑے ہوتے گئے بہت بڑے بڑے
چھاگئے آسمانوں پر
چمکتے ہوئے ستاروں کی طرح
پھر دھیرے دھیرے سیاہ دھبّوں میں بدلنے لگے
اوربکھرگئے ریزہ ریزہ ہوکر؍سارے حروف
میں دریر تک گھورتارہا نیم پلیٹ کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیٹرباکس
نئے مکان کے ساتھ
آیا ایک نیالیٹرباکس بھی
اور لگادیاگیا
ایک مناسب جگہ دیکھ کر
انتظاررہا
کئی دنوں تک ڈاک کا
خوشبو بھرے خطوط کا
دوستوں اور عزیزوں کی مبارک باد کا
ایڈیٹروں کی فرمائش کا
رسالوں کااخبارات کا
انعامات کا اعزازات کا
شدّت سے انتظاررہا
منی آرڈر کا ’چک کا‘ بینک ڈراف کا
اور میری کتابو ں کے نئے آرڈر کا
پھر ایک دن آیا ایک پیکٹ
پرانے مکان سے ری ڈائرکٹ ہوکر
کچھ میلے کچیلے بے کار خطوط
تُڑے مُڑے رسالے
اور دو چار ان چاہے اخبارات
کچھ پرانے قرض خواہوں کے تقاضے
اور نئے قرض خواہوں کے بِل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈسٹ بِن
نئے مکان کے ساتھ
آیا ایک نیاڈسٹ بِن بھی
اور رکھ دیاگیا دیوار کی آڑ میں
ڈال دئے گئے ڈھیرسارے کوڑے کچرے
بے مصرف چیزیں
بے مقصد خطوط
مدتوں کی ادھوری نظمیں، غزلیں، مضامین
خوش فہمیاں،لالچیں، حسرتیں
پھٹے پرانے کاغذات
کہ نہیں تھا اِن کاغذات میں کوئی کاغذ
جو بھر دے رگ رگ میں نیا نیا سانشہ
رکھ دے بیوی کی الماری میں ڈھیر سے
ملبوسات اور قیمتی زیورات
ریک میں ڈھیرساری کتابیں
میری میز کی دراز میں رکھی ہوئی
مُڑی تُڑی پاس بُک میں
بڑی بڑی رقمیں
اور بچّوں کے بیگ میں
ڈھیر ساری اُمنگیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک لمحہ
لمحہ
دل کے بہت پاس سے
گزراہوا صر ف ایک لمحہ
بہالے گیاہے
جانے کتنے خوابوں ؍خواہشوں
اور منصوبوں کو
بچا ہے؍ہڈیوں تک دھنساہواسنّاٹا
رُکتی ہوئی سانسیں؍ڈوبتی ہوئی نبض
اور سردہوتاہواجسم
پھر کوئی تیز ہواکاجھونکا
ڈھیرساری گڑبڑآوازیں
چیخ،ہنسی اور مسکراہٹ
گھر،دفتر،بیوی،بچّے
اور آئندہ بیس برسوں کامنصوبہ
بھاگتی ہوئی آڑی،ترچھی تصویریں
ایک کے بعد دوسرے بے ربط مناظر
اور پھر
ٹھہرگیاہے گزرے ہوئے لمحے کا سایہ
ڈراڈراسہما سہمادل
اور تھرتھرکانپتاہواجسم