(مطبوعہ ماہ نامہ ’’سب رس‘‘ حیدرآباد)
شاہد میرؔ کی غزل سرائی
گزشتہ تین چار دہائیوں میں نئی غزل کے تناظر میں جو نام ابھر کر آئے ہیں ان میں شاہد میر کا نام بھی روشن ہے۔ شاہد میرؔ ان غزل گو شاعروں میں سے ہیں جنھوں نے سراسر اظہار ذات کے لیے شعری وسیلہ کا استعمال کیا ہے۔ اشارت و علامت کے مقابل تشبیہات کا استعمال ان کے شعری رویہ کی شناخت ہے۔ فرد کے داخلی احساسات و تجربات کو واضح لب و لہجہ میں، مناسب لفظیات اور مانوس تراکیب سے آراستہ کر کے بے ساختگی کو ترجیح دے کر شاہد میرؔ نے بہت دلکش غزلیں اردو ادب میں اضافہ کی ہیں۔ غزل کے رواج عام کے باوجود، ردیف و قافیہ کی تکرار کے با وصف اس میں شک نہیں کہ آج بھی غزل کی صنف ہر دور میں تازہ دم شاعروں کی کھیپ پیش کر رہی ہے۔ مشاعرے ہوں، ادبی محافل ہوں کہ جرائد و رسائل، ان گنت غزلیں ستاروں کے جھرمٹ کی طرح آسمان سخن پر اپنے وجود کی دلیل کی طرح چمک رہی ہیں۔
کچھ شاعروں نے لمحاتی شہرت اور امتیاز کے لیے انوکھے پن، غیر مروجہ زبان اور چونکانے والی باتوں کی ذریعہ کچھ مدت کے لیے یا کسی ماحول کے لیے شاید کامیابی حاصل کی ہو لیکن شعر وہی دوام کو حاصل کرتا ہے جس میں روح فن زندہ ہو۔ شاہد میر اسی لیے اپنے ہم عصروں میں ایک مناسب اور خاص مقام کے حامل ہیں کہ نہ تو وہ بھیڑ چال کی اندھی پیروی میں لگے نہ ہی وہ شاعروں کی اس فہرست میں آئے جو صرف شہرت کی شائق تھی۔ انھوں نے بامعنی، معیاری اور خیر الامور اوسطہا، کے رویّہ کے مصداق شاعری کی۔
جب کویت کے ایک نمائندہ ادیب سعید روشن صاحب نے مجھے شاہد میر کی غزلیات میں سے چند دیں تو میں چند لمحے اس تصور میں رہا کہ پھر وہی غزلیں، وہی ردیف و قوافی۔
غزلوں کی بہتات سے اکثر مجھے یہ احساس ہوتا رہا ہے کہ وہی موضوعات کی تکرار، وہی چند بندھے ٹکے معاملے، وہی ردیف نبھانے کی تگ و دو، آخر اس روندی ہوئی زمین کا سفر کیوں نہیں رکتا۔ آخر کوئی نیا موڑ کیوں نہیں آتا۔ لیکن شاہد کی غزلیں پڑھیں تو ملال کی گرد دھل گئی اور تازہ تر موسم کا احساس پیدا ہوا۔ شاہد واقعی ایک اچھے شاعر ہیں۔
یہ شاعر جستجو کا شاعر ہے۔ صحرا میں امید کی تلاش کا شاعر ہے، ہجر میں وصل کے خواب دیکھنے والا شاعر ہے۔ مایوس نہیں پُر امید ہے لیکن ایک زخمی ہرن کی طرح، زخموں پر مرہم کا تمنائی ہے۔ اس کی شاعری کے موضوعات ہماری زندگی کے ہر راستے پر بکھرے پڑے ہیں۔ شاعر ان موضوعات کو گرد سے نکال کر الفاظ کے درمیان سنبھال کر پیش کرتا ہے ار اس طرح آپ کی توجہ ایک مانوس سی بات سے ایک ندرت بھرے شعر میں ہو جاتی ہے۔ آپ پہچان کے ایک نئے تجربہ سے گزرتے ہیں۔ شاہد کے چند ایسے اشعار پیش ہیں:
وہی سفاک ہواؤں کا ہدف بنتے ہیں
جن درختوں کا نکلتا ہوا قد ہوتا ہے
…
ہماری اپنی زباں اختیار میں کب ہے
کبھی الم، تو کبھی جوشِ بادہ بولتا ہے
…
کھارے پانی کے دامن میں
اک فصلِ شاداب سفینہ
…
شاہی احکامات ادھورے کیسے جائیں
پتھریلی دھرتی کو مخمل کہتے رہنا
…
شور برپا ہے سنائی نہیں دیتا کچھ بھی
شور بھی گویا نئے عصر کا سناٹا ہے
…
ہے ربط خاص ہمیں بھی دکھے ہوئے دل سے
بچھے جہاں صف ماتم شریک ہوتے ہیں
ایسے ہی بہت سے اشعار آپ کو احساس دلاتے رہیں گے کہ شاعر آپ کے بہت قریب ہی کہیں موجود ہے، وہ مناظر کی ایک پرتو تصویر کشی کر رہا ہے، وہ صرف اور صرف ناظر اور مصر ہے وہ کسی فلسفہ اور حکمت سے مسائل اور مصائب کا حل بتانا نہیں چاہتا۔ وہ تو آپ کو اپنے انداز میں وہی دکھا رہا جو آپ دیکھتے رہے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی آپ کو لگتا ہے کہ ردیف و قافیہ کے بہتے ہوئے دریا میں کوئی انوکھی بات بھی ابھر آتی ہے، ایسے اشعار کی تعداد کم ہے لیکن پھر بھی شاعرانہ فکر سے بہتے ہوئے دھارے سے بغاوت کر کے اپنی دلیل آپ بن جاتے ہیں۔ مثلاً:
دوست، دفتر، چائے خانے سب بچھڑتے جا رہے ہیں
رات سر پر آ گئی ہے اور مجھے گھر ڈھونڈنا ہے
…
دل کے انمول خزانے کی حفاظت کیجیے
پھر قریب آنے لگی سانپ کے پھن کی خوشبو
شاہدؔ کی شاعری سے یہ بھی مترشح ہوتا ہے کہ ادبی محفلوں اور دوست احباب کے جھرمٹ میں رہنے والے شاعر ہیں وہ اپنے احباب کے تجربات کو بھی بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں گرچہ ایسے اشعار میں فنی عنصر نسبتاً گم اور غیر متناسب ہے۔ مثلاً:
شکستہ دل جوانوں شاعروں کے دکھ سے واقف ہے
کھلی جو نصف شب تک چائے کی دوکان رکھتا ہے
شمار کیسے کروں خوش لباس ہنسوں کا
بدل کے بھیس نکلنے لگے ہیں زاغ اپنا
شاہد میرؔ کی غزلوں میں بحور کے انتخاب میں کوئی خاص اجتہاد نہیں ہے۔ تنوع بھی کم ہے۔ اسی طرح ان کی غزلوں کی طوالت پانچ اشعار سے آٹھ نو اشعار تک عموماً ہوتی ہے، ردیف و قافیہ نبھانے کے لیے بے وجہ اشعار خلق نہیں کیے گئے ہیں جتنے مناسب تھے اور بہ آسانی حیطہ تخلیق میں آئے اُتنے ہی شعر شریک غزل کیے گئے۔ عمق، دقت پسندی اور گہرے جذبات سے اجتناب برتا گیا ہے۔ سب دکھ واضح ہیں سب مضمون بین ہیں۔
شاہدؔ کی غزلوں کی لفظیات، سفر اور اس سے متعلق مضامین مثلاً راستہ، رہ گزر، مسافر، راہبر، دشت، سمندر، ندی وغیرہ اسی طرح چمن، وطن اور عام زندگی سے متعلق موضوعات پر مبنی ہیں۔ شاہدؔ کی شاعری ایک معزز شہری فن کار کا کلام ہے جو حدود سے تجاوز بھی نہیں کرتا، حقائق سے روگردانی بھی نہیں لیکن ایک درد مند ناظر کی طرح ناگوارہ پر تبصرہ کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔
میں شاہد میرؔ کی شاعری کو اُن کے ماحول اور اُن کے رویّہ کی نمائندہ شاعری سمجھتا ہوں اور اُن سے اسی طرح غزل گوئی کی خواہش کرتا ہوں، غزل کے شائقین کے لیے یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔
٭٭٭