شاہد ماہلی سے میرا شخصی سطح کا تعلق ۹۳۔۱۹۹۲ءمیں قائم ہوا،لیکن ان سے ادبی تعلق، شخصی تعلق سے لگ بھگ دس سال پہلے قائم ہو چکا تھا۔۸۰کی دہائی میں ”معیار“دہلی کے نئے دستخط ادبی پروجیکٹ کے پاکستان بھر میں چرچے تھے۔بڑے شہروں کے شاعر اور ادیب اس انتخاب کے منتظر تھے۔جب انتخاب پاکستان پہنچا تو اس پر ادبی گفتگو کا سلسلہ چل نکلا۔ہم جیسے چھوٹے شہروں کے رہنے والے ادیب معیار کے اعلیٰ معیار کا ذکر پڑھ پڑھ کر ہی مرعوب ہوئے جا رہے تھے۔انہیں دنوں مجھے اسلام آباد جانے کا موقعہ ملا۔وہاں رشید امجد سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہ بتا کر ششدر کر دیا کہ معیار کے افسانہ نمبر میں اور نئے دستخط والی کتاب میں میرا افسانہ ”اندھی روشنی“ شائع ہوا ہے۔میرے حیران و ششدر ہونے کی واضح وجہ تھی۔”اندھی روشنی“میرا سب سے پہلا افسانہ تھا۔اسے لکھنے کے بعد اپنے نام سے چھپوانے میں کچھ ہچکچاہٹ ہو رہی تھی۔بیگم کی اجازت لے کر اس افسانہ کو جدید ادب کے پہلے شمارہ اکتوبر ۱۹۷۸ء میں بیگم کے نام سے شائع کیا۔اس افسانہ کو بعض اہم ادیبوں نے پسند کیا تو خود پر کچھ اعتمادہونے لگا۔چنانچہ پھر یہ افسانہ اپنے نام سے معیار دہلی کو بھیج دیا۔بھیجنے کو افسانہ بھیج دیا تھا لیکن امید نہیں تھی کہ افسانہ نہ صرف معیار میں چھپ جائے گا بلکہ اس کے بہت ہی خاص نمبر میں شامل ہو جائے گا۔لیکن جب یہ سب کچھ کسی سفارش،کسی حوالے کے بغیر از خود ہو گیا توبس یہیں سے شاہد ماہلی کے ساتھ ایک غائبانہ نیازمندانہ تعلق بن گیا۔
۳۹۔۲۹۹۱ءمیں جب مجھے جرمنی آنے سے پہلے کچھ عرصہ دہلی میں گزارنا پڑاتو یہیں پر ڈاکٹر صادق اور دیویندر اسر کے ساتھ شاہد ماہلی سے ملنا جلنا ہوا۔سیدھے سادے بھلے مانس سے ۔اپنی لفظیات سے لہجے تک دھیمے مزاج کے آدمی۔یہی دھیما پن ان کی شاعری میں بھی موجود ہے۔لکھنے کی رفتار سے لے کر شاعری کی آواز تک،ایک خاص دھیما پن۔شاہد ماہلی کو دیکھیے تو لگتا ہے کوئی بہت ہی بھلا مانس،اپنے آپ سے باتیں کر رہا ہے،پر اسراریت کا ایک ہلکا سا ہالہ ان کی شخصیت کے ارد گرد بھی دکھائی دیتا ہے اور ان کے اندر سے پھوٹتا ہوا بھی محسوس ہوتا ہے۔ایسی پراسراریت جو خود کسی جستجو سے عبارت ہو۔
مری طرح یہ مہہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
جب تک شاہد ماہلی سے رابطہ بڑھتا،تب تک مجھے جرمنی آنا پڑ گیا،سو میں جرمنی پہنچ گیا۔یہاں آکر یہ تعلق نہ صرف قائم رہابلکہ مزید مستحکم ہوتا گیا۔ادارہ معیار دہلی نے میری چند کتابیں شائع کیں۔ان میں سوئے حجاز،میری محبتیں، افسانے اور ایٹمی جنگ شامل تھیں۔پھر میری گیارہ کتابوں کا مجموعہ”عمرلا حاصل کا حاصل“کا پہلا اور عوامی ایڈیشن بھی معیار پبلی کیشنز دہلی نے شائع کیا۔ایک ایسا ادارہ جسے میں چند برس پہلے تک ایک خواب کی طرح دیکھتا تھا،اس کے ذریعے میری کتابوں کا چھپنامیرے لیے کسی اعزاز سے کم نہ تھا۔ اس سارے عمل کے دوران کچھ مالیاتی امور تو درمیان میں آئے لیکن کہیں کوئی تاجرانہ رویہ نہیں تھا۔مجھے جو کتابیں مطلوب تھیں دوستانہ طور پر واجبی قیمت پر مجھے فراہم کر دی گئیں۔
مارچ ۲۰۰۰ء میں شاہد ماہلی جرمنی بھی تشریف لائے۔ان کی آمد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم نے دو صد سالہ جشنِ غالب منا لیا،ایک شایانِ شان تو نہیں لیکن مناسب سی تقریب برپا کر لی۔ ۲۰۰۳ءمیں جرمنی سے جدید ادب کا اجراءکیا تو ان کا تعاون شاملِ حال رہا۔ان کی غزلیں،نظمیں جدید ادب کی زینت بنتی رہیں۔اب ۲۰۱۲ء میں مجھے ہندوستان جانے کا موقعہ ملا،میرا سفر بنیادی طور پر کولکاتا کے لیے تھا۔واپسی پر دو دن کے لیے دہلی میں قیام تھا۔اس قیام کو شاہد ماہلی کی محبت نے اتنا آرام دہ اور پرشکوہ بنا دیا کہ اب بھی ان دو دنوں کی یاد کئی زمانوں کی طرح میرے اندر بسی ہوئی ہے۔میرے ساتھ جو تقریب ہوئی اس کی قدروقیمت اپنی جگہ،ان کے توسط سے جن احباب سے ملاقات ہوئی اور علمی وادبی مکالمہ میں اختلاف رائے کے ساتھ فکری کشادگی کا احساس ہوا،وہ بجائے خود ایک شاندارتجربہ ثابت ہوا۔
شاہد ماہلی کی شاعری پر بات کرتے ہوئے بیشتر ناقدین نے ان کی نظم کو ان کی غزل پر ترجیح دی ہے۔بے شک ان کی نظموں کی اپنی ایک اہمیت ہے اور ”نئے مکان کے لیے نظمیں“ کے تحت انہوں نے جو بدلتی ہوئی دنیا کا منظر دیکھا اور دکھایا ہے وہ بہت ہی خاص اہمیت کا حامل ہے۔تاہم میرا خیال ہے کہ ان کی غزل اتنی اہم ہے کہ ابھی اس کی طرف مزید توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ان کی غزلیہ شاعری سے سرسری گزر جانااس غزل کے ساتھ زیادتی ہو جائے گی۔میں نے کو شش کی ہے کہ جن اشعار کو عمومی طور ناقدین اور مضمون نگار حضرات نے اپنے مضامین میں پیش کیا ہے،انہیں دہرانے سے احتراز کروں۔تاہم اکا دکا اشعار شاید دہرائے بھی جائیں۔ان کی غزلوں کے اشعار کا یہ انتہائی مختصر سا انتخاب ان کی غزل کے تعارف کی ایک جھلکی ہے۔ان اشعار میں بعض سے میری ان باتوں کی توثیق بھی ہوتی ہے جن کا ذکر میں بعض حوالوں سے شروع میں کر چکا ہوں۔
حاشیے پر کچھ حقیقت کچھ فسانہ خواب کا
اک ادھورا سا ہے خاکہ زندگی کے باب کا
رنگ سب دھندلا گئے ہیں، سب لکیریں مٹ گئیں
عکس ہے بے پیرہن اس پیکر نایاب کا
وہ روشنی تھی، سائے بھی تحلیل ہوگئے
آئینہ گھر میں اپنی بھی صورت نہیں ملی
غم کی تہذیب، اذیّت کا قرینہ سیکھیں
آؤ اس شہر میں جینا ہے تو جینا سیکھیں
بام و دَر ٹوٹ گئے، بہہ گیا پانی کتنا
اور برباد کرے گی یہ جوانی کتنا
رنگ کُمھلا دیا، بالوں میں پرو دی چاندی
طول کھینچے گی ابھی اور کہانی کتنا
کس قدر بے کیف تھی، بے رس تھی اپنی داستاں
سب حقیقت ہی حقیقت تھی فسانہ کچھ نہ تھا
ایک لمحہ تھا جو ذہن و دل پہ آخر چھا گیا
گردشِ شام و سحر، وقت و زمانہ کچھ نہ تھا
سانسوں میں، رگ و پے میں سمایا ہے کوئی اور
ہے زیست کسی اور کی جیتا ہے کوئی اور
آنکھوں نے بسائی ہے کوئی اور ہی صورت
اس دل کے نہاں خانے میں ٹھہرا ہے کوئی اور
کسی ثواب کی مانند سب کی خواہش تھی
کسی گنہ کی طرح ہر کسی سے ڈرتا رہا
کسی نگاہ میں اِس دل کا احترام تو ہو
یہ سونی سونی سی مسجد ہے اِک امام تو ہو
ناکامیوں کی صبح نہ مایوسیوں کی شام
جلتا ہے مدّتوں سے مِرے دل کا ویت نام
نہیں ہے کچھ بھی خلاؤں کی وسعتوں کے سوا
زمیں سے تا بہ فلک اِک سراب ہے یارو
عجیب موڑ پہ آکر ٹھہر گئی ہے حیات
کوئی خیال نہ خواہش نہ خواب ہے یارو
محدود ہوئی جاتی ہے خوابوں کی زمیں اب
سنتے ہیں ستاروں سے بھی آگے ہے جہاں اور
بزمِ اغیار میں شاہد کے اڑے تھے پُرزے
کوئی چرچا نہ ہوا کوئی تماشا نہ ہوا
ان اشعار پر بات کرنا چاہوں تو ان کے مضامین سے لے کرانداز بیان تک ان کے ہاں کھلنے والے امکانات پر بہت سی باتیں کر سکتا ہوں لیکن یہاں میں صرف ان اشعار کو پیش کرکے شاہد ماہلی کی غزل کے ہلکے سے تعارف پر ہی اکتفا کروں گا۔ان کے سامنے میں آج بھی وہی ۱۹۸۰ءکے زمانے کا چھوٹے سے شہر کا شاعر ہوں،جسے انہوں نے کسی تعارف کے بغیر تخلیقی سطح پر عزت دی،ادبی طور پر سندِقبولیت عطاکی۔ہندوستان میں” معیار“ جیسے معیاری ادبی جریدہ کے ذریعے مجھے اولین شناخت دی۔ ذاتی تعلق قائم ہونے کے بعد مجھے اپنے قریب آنے کا موقعہ دیا اوراپنی شخصیت کے پر اسرار ہالے کو کسی حد تک قریب سے دیکھنے کا موقعہ دیا۔اپنی داخلی جستجو کو سمجھنے کی ایسی صورت دکھائی کہ ان کی پراسراریت کا ماجرا تومجھ پر نہ کھل سکا لیکن مجھے خود حیات و کائنات اور ذات والہٰیات تک اسراردر اسرار کی اپنی جستجو کے سفر میں ان کی پراسراریت سے بھی کچھ نہ کچھ روشنی ملی ہے ۔دھند میں لپٹی ہوئی روشنی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مطبوعہ کتاب”شاہد ماہلی عکس و جہتیں“مرتب :ڈاکٹر رضا حیدر۔دہلی