صبح چھے بجے کے الارم سے اُس کی آنکھ کھلی۔ اُس کا سر گھوم رہا تھا۔ اُسے رات والی کال یاد آئی تو بہت عجیب لگ رہا تھا۔ بلکہ شرمندگی ہونے لگی تھی۔ پچھتاوا، بوجھ، غصّہ اور بہت کچھ۔۔۔
وہ لیتی رہی۔ اٹھی نہیں. بس دیوار پر لگے ہوئے وال کلاک کو دیکھتی جا رہی تھی۔
اس کے ذہن میں بھی بوجھ تھا اور دل پر بھی۔
” عبیر تمہیں یونیورسٹی نہیں جانا؟ وقت نکلا جارہا ہے اٹھو۔” سعدیہ نے آ کر اسے جاگنا چاہا لیکن وہ تو جاگ رہی تھی۔
کل والی کال کے بعد اس کا دل یونیورسٹی جانے کا نہیں کر رہا تھا۔اسے لگ رہا تھا کہ وہ شہیر شیرازی سے نظریں نہی ملا پائے گی اب۔
” امی میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے میں آج یونیورسٹی نہیں جاؤں گی۔آرام کرنا چاہتی ہوں۔”
اس نے سعدیہ سے کہا۔
” چلو ٹھیک ہے میں تمہارا ناشتہ لے کر آتی ہوں یہاں پر۔” سعدیہ کہہ کر چلی گئی۔
ناشتہ کرنے کے بعد پھر اسے غنودگی ہونے لگی اور وہ سو گئی۔ اور دن چڑھے تک سوتی رہی۔
پھر جاگي۔ مگر دل میں وہی بوجھ۔۔۔ شرمندگی اور پچھتاوا۔
( کیوں کہ آخر میں نے ایسا۔۔۔کیوں میں بہکاوے میں آ گئی تھی۔کیا ہوگیا تھا مجھے۔۔۔ میں ایسی تو کبھی بھی نہیں تھی۔میں ایسی تو ہوں ہی نہیں۔پھر کیوں میں نے اپنی ذات کو ایک انسان کے آگے ہلکا کر دیا اس کی بات مان کر۔۔۔ نہیں نہیں اب میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔)
وہ دل ہی دل میں بولے جا رہی تھی اپنے آپ سے ہی۔
پھر اس کا سارا دن اسی پچھتاوے میں گزر گیا۔
ادھر سے شہیر اسے یونیورسٹی میں نہ دیکھ کر تھوڑا سا پریشان ہوا۔
لیکن اس نے اس سے میسج نہیں کیا یہ سوچ کر کہ دن کے وقت اس کا موبائل دوسروں کے ہاتھ میں ہو سکتا ہے۔اس نے سوچا رات کو کال کرکے پوچھ لے گا کہ کیوں نہیں آئی۔
اسے محسوس ہو رہا تھا کہ ساری یونیورسٹی میں صرف وہی تھی۔اور آج وہ نہیں تھی تو کچھ بھی نہیں تھا…
اس کے بغیر شہیر شیرازی کو تمام دنیا ویران لگ رہی تھی۔گھر واپس آ کر بھی وہ بے چین تھا۔
رات گیارہ بجے اس نے کال ملائی۔
سارا دن احساس ندامت میں گزارنے کے بعد پھر سے جب عبیر کے پاس شہیر شیرازی کی کال آنے لگی اس کا دل عجیب سا ہو رہا تھا۔
ابھی وہ ندامت سے نکلی بھی نہیں تھی کہ دوسری بار دعوت گناہ دیا جارہا تھا۔ایک طرف دل کہہ رہا تھا کہ اس کا نمبر ڈلیٹ کر دو اور کبھی یونیورسٹی نہ جاؤ۔ تو دوسری طرف پھر سے شیطان اس کے کانوں میں سرگوشیاں کر رہا تھا۔۔۔ کہ وہ تم سے سچی محبت کرتا ہے۔نکاح کرنا چاہتا ہے۔اٹھا لو اس کی کال۔اتنی محبت کرنے والا دوبارہ زندگی میں کبھی نہیں ملے گا تمہیں۔
بہت سوچنے کے بعد اس نے اپنا نمبر آف کر دیا۔
اور لائٹ آف کر کے سکون سے سونے کی کوشش کرنے لگی۔اندھیرے کمرے میں اس کی آنسو رواں تھے۔وہ ہلکی سی آواز میں اللہ سے معافیاں مانگے جا رہی تھی اپنے گناہ کی۔
کافی دیر تک روتے روتے اسے نیند آگئی۔وہ صبح اٹھی تو اس کہ دل سے کافی سارا بوجھ کر چکا تھا۔
ایک تو اس نے شہیر شیرازی کی کال نہیں اٹھائی تھی اس لیے۔۔۔دوسری طرف اس نے رو رو کے اپنے رب سے معافی بھی مانگی تھی۔
آج کی صبح وہ کافی مطمئن تھی اپنی ذات سے۔اس کا دل کر رہا تھا کہ یونیورسٹی نا جائے اور سب کچھ بھول جائے اور جیسے پہلے گھر میں قید تھی ویسے قید ہو جائے۔
اس نے یونیورسٹی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔اور اپنے اس فیصلے سے بے حد مطمئن تھی کہ اسی صبح حریم آ گئی۔ حریم نے اس کی ایک نہیں سنی اور زبردستی اسے یونیورسٹی لے گئی اپنے ساتھ۔۔۔ اس نے حریم کو شہیر شیرازی کے متعلق کچھ نہیں بتایا تھا۔۔۔ وہ اسے بتا کر اپنی ذات کو حلقہ نہیں کرنا چاہتی تھی۔یہ بات بھی اس نے ایک ناول سے سیکھی تھی۔
لیکن اس کے لیے سب سے بڑا مسئلہ اور شہیر شیرازی کی نظروں کا سامنا کرنا تھا۔
شہیر نے اسے کچھ نہیں کہا تھا بس شکایتی نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ ایک بار پھر سے اسے اپنی نظروں کے سامنے پا کر اس کے دل کی حالت پھر سے عجیب ہونے لگی تھی۔اس کے لیے اپنے جذبات و احساسات پر قابو پانا بہت مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
جب تک وہ اس کی نظروں کے سامنے نہیں تھا تب تک تو سب کچھ ٹھیک تھا۔لیکن جیسے ہی وہ اس کی نظروں کے سامنے آ گیا وہ پھر سے سوچ میں پڑ گئی تھی۔
جب ایک لڑکی کو معلوم ہو کہ سامنے والا شخص کی محبت میں مبتلا ہے۔اور ٹوٹ اسے چاہنے لگا ہے۔۔۔ لڑکی کے لیے اس محبت کو۔۔۔اور اس شخص کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔اور عبیر احسان پر سے مشکل میں پڑ گئی تھی۔۔۔ کل تک جو ندامت کے آنسو بہا کر مطمئن تھی۔ آج اس شخص کو سامنے دیکھ کر پھر سے بہکنے لگی تھی۔۔۔ کیوں کہ جس طرح کی شکوہ کناں نظروں سے وہ اسے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اس کے لئے ان نظروں کو نظر انداز کرنا بہت مشکل تھا۔
حریم نے اس کے اندر کافی تبدیلی محسوس کی تھی۔پر بارہا اس سے سوال بھی کرتی جا رہی تھی اس تبدیلی کے متعلق۔لیکن وہاں سے کچھ بھی بتانا نہیں چاہتی تھی اس لیے سوال گول کر گئی۔
گھر واپس آ کر کر ان ہی خیالات کا غلبہ پھر سے ہونے لگا تھا۔ایک بار پھر سے وہ غلط راہ کہ متعلق سوچنے لگی تھی۔ جب تک اس نے دیکھا نہیں تھا تب تک سب ٹھیک تھا اب دیکھنے کے بعد پھر سے شہیر شیرازی اس کی کی حواسوں پر سوار ہو گیا تھا۔
آج رات اس نے کال نہیں کی تو پھر سے وہ بے چینی سے پہلو بدلنے لگی کیونکہ لاشعوری طور پر عبیر اس کی کال کا انتظار تھا۔
نہ چاہتے ہوئے بھی رات گیارہ بجے سے عبیر انتظار شروع ہو گیا تھا کہ وہ کال کرے گا۔کال نہیں تو ایک پیغام تو ضرور بھیجیے گا۔لیکن آگے سے مکمل خاموشی ہونے کے باعث وہ بے چین ہو گئی تھی۔ کل رات جو اس سے بات کرنے پر پچھتا رہی تھی۔۔۔ آج رات اسی نظر انداز کرنے پر خود کو دل ہی دل میں کوس رہی تھی۔اسے نیند نہیں آئی وہ جاگتی رہی یہاں تک کہ بارہ بج گئے۔پھر ایک بج گیا۔۔۔ وہ پاگل ہو رہی تھی نہ جانے کیوں۔۔۔ ڈیڑھ بجے کے قریب اس کی کال آئی تو عبیر کے دھڑکنو کی رفتار میں تیزی آگئی۔
کون سے آنسو کیسی ندامت۔۔۔ سب بھول گیا تھا۔۔۔ اس نے فوراً سے کال اٹھائی۔
” اگر تمہیں میری باتوں پر یقین نہیں ہے تو ٹھیک ہے کل میرے ساتھ چلنا۔۔۔ میں تم سے کل ہی نکاح کر لوں گا۔تب تمہیں میرا یقین آجائے۔” شہیر شیرازی نے میں نے بات شروع کی ۔۔۔
وہ تھوڑی دیر خاموش رہی کچھ نہ بولی۔
” عبیر تم نے مجھے بہت دکھ پہنچایا ہے۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ محبت کی پہلی شرط اعتبار ہوتا ہے۔اور کل سے جو تمہارے رویہ ہے میرے ساتھ میں سمجھ گیا ہوں کہ تم مجھے کیا سمجھ رہی ہو۔ ” وہ اپنے جادوئی الفاظ کا ذخیرہ لٹانے لگا۔
” ایسی بات نہیں ہے میری طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔” وہ آرام سے بولی۔
” تو کیا میں تمہیں ٹھیک لگ رہا ہوں؟” وہ بولا۔
عبیر خاموش رہی۔
” محبت کی ہے میں نے تم سے لڑکی۔۔۔ محبت۔۔۔ تمہیں اپنانا چاہتا ہوں مگر تمہارے رویہ نے۔۔۔ تمہاری رویے نے مجھے بہت مایوس کیا ہے۔اگر تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں ہے تو ٹھیک ہے بات کو یہیں پر ختم کر دیتے ہیں۔” شہیر نے کہہ کر کال کاٹ دی تو عبیر پریشان ہوگی۔
وہ کافی دیر اس کی کال کا انتظار کرتی رہی۔جب اس کی کال نہیں آئی تو اس نے خود کال کی۔ شہیر میں اس کی کال کاٹ کے دوبارہ اسے کال ملائی۔
” آئی ایم ساری۔” عبیر نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔
جو لڑکی کل رات اپنے خدا سے معافی مانگے جا رہی تھی شہید شیرازی سے باتیں کرنے کی وجہ سے۔۔۔ آج رات پھر سے شیطان کے بہکاوے میں آکر اسی شخص سے واپسی مانگ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ نادم تھی۔
” یہ پہلی اور آخری بار ہے عبیر۔۔۔ آج کے بعد اگر ایسا ہوا تو سب ختم سمجھو۔” شہیر نے کہا۔
” آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔” وہ ہار مانتے ہوئے بولی۔
اس کے سرہانے جیسے ابلیس کھڑا اپنی فتح پر مسرور تھا۔۔۔ بنت حوا کو اُس نے آج پھر سے گناہ کی لذت چکھا کر بہکا دیا تھا۔۔۔
پھر کال طویل ہوتی چلی گئی۔۔۔
پھر روزانہ یہی کالی ہیں رات کا وقت۔۔۔ شہیر شیرازی کی محبت بھری باتیں۔۔۔ عبیر احسان جیسے پاگل ہوگئی تھی۔۔۔ جیسے کسی کو نشا ہو جائے ۔۔۔ اُسے بھی اس کال کا نشا ہوگیا تھا۔۔۔ جو رات گیارہ بجے آتی تھی اور تین سے چار گھنٹے چلتی رہتی تھی۔
_______________
صبح ساڑھے چھ بجے اس کی آنکھ کھلی۔
” مر گیا۔” وہ کہتا ہوا ایک جھٹکے سے اٹھا۔ جلدی سے منہ پر پانی کے چھینٹے مارے ۔۔۔باہر نہیں نکلا تھا کمرے میں ہی پانی کر جگ پڑا ہوا تھا۔
صبح کا وقت تھا اس لئے سردی تھی۔ورنہ دوپہر اچھی خاصی گرم ہو جایا کرتی تھی۔ اس نے جیکٹ پہننا۔اپنا بیگ اپنے بائیں کندھے پر ڈالا۔اور باہر نکلا۔
اپنے والد کو یہ تاثر دینا چاہتا تھا کہ وہ جانے کیلئے تیار ہے۔
” اچھا اماں چلتا ہوں۔” وہ سجاد حسین کی طرف دیکھے بغیر بولا۔ تاکہ اس کی ماں اسے چائے کا بولے۔
” چائے تو پیتے جاؤ۔” سکینہ نے کہا۔
” بس سٹاپ سے پی لوں گا۔دیر ہوگئی تو شامت آجائے گی۔” اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
” پی لو چائے اتنا بھی برا نہیں ہوں میں۔” سجاد حسین نے کہا۔
” مہربانی آپ کی۔۔۔ ” وہ بیٹھ کر چائے پینے لگا۔
جلدی سے چائے پی کر روانہ ہوا۔ شہر چھے دور تھا۔ابھی نکلا تو دوپہر میں ہی پہنچا۔۔۔ یونیورسٹی کا وقت تو گزر چکا تھا۔وہ ہاسٹل چلا آیا۔
” آج چاند کہاں سے نکل آیا؟” اس کے روم میٹ نے اسے دیکھتے ہوئے پرجوش انداز میں کہا۔
” تو اپنے کام سے کام رکھ۔” وہ بولا۔
” ویسے کہاں تھے اتنے دن؟” شرجیل نے پوچھا۔
” اللہ لوک کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔” وہ اپنے بیڈ پر دراز ہو تو وہ بولا۔
_______________
نکاح کے وعدے سے شروع ہونے والی ہے محبت دن بدن پروان چڑھتی گئی۔ تعبیر احسان کو معلوم بھی نہیں تھا کہ اس کی منزل واقعی نکاح ہے یا نہیں۔۔۔ وہ بس شیرازی کی اندھی تقلید کئے جا رہی تھی۔
شہیر شیرازی کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھا۔ وہ نکاح کا وعدہ تو کر بیٹھا تھا لیکن اسے وفا کیسے کرے وہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو گیا تھا۔
آج وہ کافی عرصے بعد اپنے گھر آیا تھا۔اس کا دل نہیں چاہ رہا تھا آنے کا لیکن اس کے والدین یہاں تھے۔
” جب مجھے تمھاری سب سے زیادہ ضرورت تھی تب تم مجھے تنہا ان حالات میں چھوڑ کر چلے گئے۔۔۔ جانتے بھی ہو کہ میں نے کیسے ان حالات کا اکیلے مقابلہ کیا ہے۔عالیہ بھی اپنے گھر میں تھی وہ بھی نہیں آئی اور تم بھی مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔” اس کی ماں سیرت بیگ نے کہا۔
” ڈیڈ کہاں ہیں؟” اس میں صوفے پر بیٹھتے ہوئے سوال کیا۔
” کہاں ہو گا تمہارا باپ۔۔۔ دوسری بیوی کے ہاتھوں ذلیل ہونے کے بعد اب یہ آگیا ہے واپس۔۔۔ ” سیرت بیگ نے کہا۔
” واہ۔۔ یہ تو اچھی بات ہوگی آپ کو خوش ہونا چاہیے۔” شہیر بولا۔
” میرے دل سے اتر گیا ہے یہ شخص۔” سیرت نے کہا۔
” مام۔۔۔ پلیز۔۔۔ اب جو ہوا سو ہوا اسے جانے دیں۔ ملازمہ سے کہے جائیں پلا دے مجھے۔” وہ بولا۔
” کیسے جانے دوں تمہیں اندازہ نہیں ہے بے وفائی کی کتنی تکلیف دیتی ہے۔” سیرت بیگم نے کہا۔
اتنے میں اُس کے والد وقاص شیرازی کمرے سے برآمد ہوئے۔
” کیوں زحمت اٹھائی تم نے گھر واپس آنے؟ رہ لیتے وہاں ہی ” وقاص شیرازی اسے دیکھتے ہوئے بولے۔
” ڈیڈ پلیز ۔۔۔ آپ دونوں سے ملنے آیا ہوں۔۔۔ ” وہ بیزاری سے بولا۔
” تم تو آخری بار کے گئے تھے کہ ہم دونوں مر گئے ہیں تمہارے لیے۔” وقاص شیرازی نے یاد دلایا اور اس کے سامنے صوفے پر بیٹھ گئے۔
” اگر یہی بات نہیں کرنی ہے تو چلا جاتا ہوں۔اسی لیے میں یہاں نہیں آتا۔” وہ اٹھ کھڑا ہوا۔
” بیٹھ جو تمہارے باپ کی تو عادت ہے زہر اگلنے کی۔۔۔ ” سیرت بیگم نے کہا تو وہ بیٹھ گیا۔
” میں نے تمہاری شادی کا فیصلہ کرلیا ہے اپنی بھانجی سے۔” سیرت بیگم نے اُس کے سر پر بم پھوڑتے ہوئے کہا۔
” نو۔۔ نو۔۔ نو ۔۔۔ مام پلیز۔۔۔ ” وہ پریشان ہوا۔
” بالکل بھی نہیں ہونے دوں گا میں اپنے بیٹے کی شادی تمہاری بھانجی کے ساتھ۔۔۔ تمھاری ساری نسل ایسے ہی بد تمیز اور زبان دراز ہے۔شہیر کی شادی میری بھتیجی ثانیہ کے ساتھ ہوگی۔” وقاص شیرازی نے کہا۔
پھر دونوں میاں بیوی میں طویل بحث چھڑ گئی تھی۔۔۔ شہیر سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ آپ نے یہاں آنے پر پچھتایا۔ جو بات کرنے آیا تھا اس کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ بات اس کی مانی جائیگی۔
” آپ دونوں جھگڑا ختم کریں۔۔۔ میں ان دونوں لڑکیوں میں سے کسی سے بھی شادی نہیں کروں گا۔میں نے لڑکی دیکھ لی ہے اپنے لیے۔ برائے مہربانی آپ میرا رشتہ اس کے گھر لے کر جائیں۔ ” شہیر نے سیزفائر کرواتے ہوئے کہا۔
وہ دونوں ایک دم سکتے میں آ گئے اس کی بات سن کر۔
” ایسا ہرگز نہیں ہو سکتا تمہیں میری بات ماننی ہوگی میں وعدہ کر چکی ہوں اپنی بہن سے۔” سیرت بیگم نے کہا۔
” میں اپنے بھائی کو زبان دے چکا ہوں۔ثانیہ پچھلے کئی سالوں سے تمہاری وجہ سے بیٹھی ہوئی ہے۔تم ایسا کیسے کر سکتے ہو شہیر میں اسے اپنی بہو مان چکا ہوں۔” وقاص احمد نے تقریبا چلاتے ہوئے کہا۔
” اگر میری بھانجی اس گھر کی بہو نہیں تو میں یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤنگی ہمیشہ کے لئے پھر رہنا تم لوگ جس کے ساتھ چاہے۔” سیرت بیگ نے کہا۔
شہیر شیرازی غصے سے وہاں سے چلا گیا۔۔۔
گھر واپس آ کر پریشان بیٹھ گیا۔ آج ایک کوشش کرنے گیا تھا عبیر کے لئے۔۔۔ مگر بے سود۔۔۔ پریشان تھا کہ اسے کیا جواب دے اور کب تک ٹالتا رہے۔ اُسے عبیر سے محبت تھی یاں نہیں ۔۔۔ وہ نہیں جانتا تھا۔۔۔ لیکن اُسے پانے کی ہوس ضرور تھی۔۔۔ اُن فون کالز نے اُسے پاگل بنا دیا تھا۔ اب وہ اس کے بغیر نہیں رہ پا رہا تھا۔ وہ جسے محبت کا نام دے رہا تھا وہ دراصل طلب تھی۔۔۔ ایک حسین لڑکی کو دیکھ کر اُسے پانے کی طلب۔۔۔ یہ طلب اُن کالز کا نتیجہ تھی۔ ناجائز طریقے سے عبیر احسان اُس کے پاس نہیں آ سکتی تھی ۔۔ اور جائز طریقہ اُس کے لیے مشکل تھا۔۔۔ وہ اُس کے ساتھ زندگی گزارنا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ وہ صرف اسے پانا چاہتا تھا۔۔۔ آگے کا اُس نے نہیں سوچا تھا۔۔۔ اب اُس کا ذہن پھٹنے لگا تھا۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...