میجر ارتضی کیسے اس مشکل کی گھڑی میں آرام سے بیٹھ سکتے تھے۔
” سر اس گمنام راستے پر آپ سے رات کے اس وقت سفر نہیں ہوگا۔ ” وہ انہیں کسی بھی طرح روکنا چاہ رہے تھے۔
” آرمی گمنام راستوں کو کھودنا اچھی طرح جانتی ہے۔ ”وہ تسمے باندھ کر کھڑے ہوگئے تھے۔
پندرہ منٹ بعد ان کے ساتھ دو اور شیردل جوان نائیک صوبیدار سلیم نواز اورحوالدار گلریز خان بھی چلنے کے لیے تیار ہوگئے۔
” ہم لوگ رسی کی مدد سے راستہ بناتے جائیں گے ۔ صبح آپ لوگ بھی ادھر سے نکلنے کی کوشش کرنا اور اسی راستے پر چلتے ہوئے پوسٹ تک پہنچ جانا۔ اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔آمین ۔ ” اس کے ساتھ ہی وہ سامان اپنے ساتھ باندھ کر قائد پوسٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔
طوفان کی شدت میں اضافہ ہوتے جارہا تھا۔ اس موسم میں سفر کرنا اپنی جان کو موت کے منہ میں دھکیلنے کے مترادف تھا۔ لیکن پاکستان آرمی کے یہ بیٹے ہر روز اپنی جانوں کوموت کے منہ میں دھکیلتے تھے۔
حوالدار گلریز خان اور نائیک صوبیدار سلیم نواز ابھی تازہ دم تھے کیونکہ وہ اسی پوسٹ پر موجود تھے۔ اپنی پارٹی میں سے صرف میجر ارتضی حدید ہی اس وقت جارہے تھے۔ اتنے لمبے سفر کے باوجود وہ آرام کی غرض سے رکے نہیں تھے۔ کیونکہ ان کے آرام سے زیادہ قائد پوسٹ میں مدد کے منتظر جوان ضروری تھے۔
برف اس وقت لوہے کے تیز اور نوکیلے ٹکروں کی طرح چہروں سے ٹکرا رہی تھی۔طوفان اتنا شدید تھا کہ اسی سے نوے فیصد کے قریب کسی بھی بڑے ایوالانچ کے آنے کے خدشات موجود تھے۔
لیکن یہ پراسرار بندے رات کے اس پراسرار پہر میں اللہ کا نام لیکر آگے بڑھتے ہی جارہے تھے۔
رات کے اس وقت کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ سوائے اڑتی ہوئی برف کے جو کہ چاند کی مدہم روشنی میں انہیں اپنے چہروں کی طرف آتے محسوس ہورہے تھے۔ وہ چہرے کے پاس آتے اور پوری شدت سے ٹکراتے۔
وہ بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے۔ اپنے بھائیوں کی محبت نے میجر ارتضی کو پھر تازہ دم کردیا تھا۔
ان کی محبت ان شیردلوں کو اپنی طرف کھینچتے چلی جارہی تھی۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ وہ کتنا سفر طے کر آئے ہیں اور ٹھیک سمت بھی جارہے ہیں یا نہیں؟ لیکن ایک اندازہ تھا بس ،جس کےتحت وہ چلتے جارہے تھے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
” صوبیدار صاحب اور کب تک پانی کے لیے ترسائیں گے آپ؟ ” میجر عامر کو اپنا حلق خشک ہوتےمحسوس ہوا تھا۔ وہ کب سے برف کے پگھلنے کا انتظار کررہے تھے۔
” میجر صاحب جب تک اسے پینے کا وقت نہیں آجاتا۔ ” ان کے جھری دار چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی۔
” اس کا مطلب ہے کہ کھانا کھانے کا وقت اس کے بھی بعد آئے گا۔ ” حوالدار شیر خان جو سفر کی تھکن کم کرنے کے لیے سیدھے لیٹے ہوئے تھے ، ان کی یہ باتیں سن کر اٹھ کر بیٹھ گئے۔
” جی بالکل حوالدار صاحب۔ لیکن آپ تب تک ہمارا دماغ کھا کر اپنی بھوک کو کم کرسکتے ہیں۔ ” سیکنڈ لیفٹیننٹ احمد کمال تاش کے پتے سیدھے کرتے ہوئے ایک نظر ان کی طرف دیکھ کر مسکرائے تھے۔
ان کی یونٹ میں سب سے زیادہ باتونی حوالدار شیر خان تھے۔جو مرضی مشکل آجائے وہ خاموش نہیں ہوتےتھے۔
” ایسا ہے جوان کہ بھوکے پیٹ مجھے کسی کا دماغ بھی اچھا نہیں لگتا۔ ” انہوں نے اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرا جس میں سے غرغوں کی آوازیں آتے محسوس ہورہی تھیں۔
” ہاہاہاہا چلیں شکر ہے ہمارا دماغ اب ہماری کھوپڑیوں میں محفوظ رہے گا۔ ” انہوں نے تاش کے پتے یکجا کرکے ہاتھ میں پکڑ لیے۔
ایگلو کے اندر کی زندگی ایسی ہی تھی۔ وقت گزاری کے لیے یہ جوان تاش یا لڈو کھیلا کرتے تھے۔
ڈیوٹی کے بعد بھی یہاں یہی گیمز کھیلی جاتی تھیں اور یہ لوگ اسی سے دل بہلاتے تھے۔
” یہ لیں میجر صاحب پانی۔ ” انہوں نے پانی کو ذرا ساٹھنڈا ہونے کے بعد پلاسٹک کے گلاس میں ڈال کر میجر عامر کو پیش کیا۔
” مہربانی جناب۔ ” مسکرا کر گلاس تھامتے ہوئے انہوں نے گلاس کو اپنے لبوں سے لگایا ابھی ایک گھونٹ بھی نہیں بھرا تھا کہ انہیں پہاڑ کی زمین ہلتے ہوئے محسوس ہوئی۔
‘ جوانوں کلمہ پڑھ لو۔ ” باہر سے کسی سپاہی کی آواز آئی تھی جو کہ ایک بڑے ایوالانچ کو ایگلو کی طرف حرکت کرتے دیکھ چکا تھا۔ اس کی رفتار ہی اتنی تھی کہ اس سپاہی کو بھی اندر داخل ہونے کا موقع نہ ملا اور نہ ہی کسی کو اس سے کچھ پوچھنے کو موقع ملا۔
ابھی کلمے کا ورد جاری ہی تھا کہ سیاچن پر بسائی گئی پوری کی پوری بستی برف کے بڑے ٹکڑے کے نیچے دب گئی۔ اور یوں وہ ہنستے چہرے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس برفیلی چادر کو اوڑھ کر سو گئے۔
میجر عامر نے تو جانے سے پہلے پانی کا ایک گھونٹ تک نہ بھرا۔
کتنے پیاسے تھے وہ۔ حلق میں کانٹے اگتے محسوس ہورہے تھے۔۔۔کاش موت تو اتنا تو انتظار کرلیتی۔
ابھی تو حولدار شیر خان نے بہت پیاری کھٹی میٹھی باتیں سنانی تھیں۔
کاش موت تو اتنا تو انتظار کرلیتی۔
ابھی تو سیکنڈ لیفٹننٹ احمد کمال نے کھیل کی ایک بازی لگانی تھی۔
کاش موت تو اتنا تو انتطارکرلیتی۔
ابھی تو باہر کھڑے سپاہی نے اپنے ساتھیوں کا چہرہ آخری بار دیکھنا تھا۔
کاش موت تو اتنا تو انتظار کرلیتی۔
ابھی تو ان کی تھکن بھی نہیں اتری تھی۔ابھی تو وہ ٹانگیں پھیلا کر بیٹھے بھی نہیں تھے۔
کاش موت تو اتنا تو انتظار کرلیتی۔
ابھی تو کلمے بھی پورے ادا نہیں ہوئے تھے۔۔۔
کاش موت تو اتنا تو انتظار کرلیتی۔
اس وقت دیکھ کر یہ کہا ہی نہیں جاسکتا تھا کہ اب سے کچھ دیر پہلے یہاں ہنستے مسکراتے چہرے چٹکلے سنا رہے تھے۔ خوش گپیوں میں مصروف ہوکر اپنی تھکن کو ختم کررہے تھے۔
وہاں تو اس پوسٹ کا نام و نشان تک مٹ چکا تھا۔
صرف برف کا ایک بڑا ٹکڑا تھا اور اس کے نیچے دم توڑتے پاک آرمی کے بیٹے ۔
چاند سلامی دینے کے لیے پوری آب و تاب سے چمکا تھا۔
زمین سے لیکر جنت تک جانے والے راستے ان بیٹوں کے لیے سجائے جانے لگے۔
جنت والے رشک کرنے لگے۔۔۔
روحیں پرواز بھرنے لگیں۔
کاش کوئی اس وقت اس برف کے اندر جھانک سکتا۔۔۔۔
دیکھ سکتا کہ کیسے خواب دیکھتی آنکھیں برف کے نیچے بند ہوئی تھیں۔۔۔۔
کیسے دھڑکتے ہوئے دل پل بھر میں دھڑکنا بھول گئے تھے۔۔۔
رگوں میں گردش کرتا خون کیسے برف نے ٹھنڈا کیا تھا۔
جوان جسم کیسے برف کا مجسمہ بنے تھے۔۔۔۔۔
کیسے کسی بیٹے ، بھائی، باپ یا شوہر کی روح نے اس کے جسم کا ساتھ چھوڑا تھا۔۔۔۔
برف اتنا ظالم تو اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے۔ان بیٹوں کو اپنی آغوش میں لیتے ہوئے تجھے ذرا بھی ترس نہیں آتا کہ کسی کی ماں اپنے بیٹے کے آنے کی منتظر ہوگی ۔کسی کی بہن اپنے بھائی کے آنے کا انتظار کررہی ہوگی۔ کوئی بیٹی اپنے باپ کا راستہ تک رہی ہوگی۔ کوئی بیوی اپنے سہاگ کو ایک نظر دیکھنے کی دعامانگ رہی ہوگی۔۔
مگر تو کیا جانے۔۔۔۔تیرے اندر زندگی کی حرارت ہی کہاں ۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
” اللہ رحم کرے۔ قریب ہی کہیں ایوالانچ آیا ہے شاید۔ ” زمین ہلی تھی ۔ میجر ارتضی نے اندازہ لگاتے ہوئے اپنے دونوں ساتھیوں کو آگاہ کیا۔
” جی سر۔ اللہ سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ ” حوالدار گلریز خان نے ہاتھ اٹھاتے ہوئے سلامتی کی دعائیں کی تھیں۔
وہ چلنے لگے۔ رسی کو ان تینوں نے اپنے ساتھ باندھا ہوا تھا۔ زمین ایک دفعہ پھر ہلی تھی۔ چلتے چلتے تیسرے نمبر پر موجود نائیک صوبیدارسلیم رضا کا پاؤں یکدم پھسلا تھا وہ توازن کو برقرار رکھنے میں ناکام ہوتے ہوئے نیچے کی طرف لڑکھنے لگے۔
یوں پیچھے کی طرف اچانک جھٹکا لگنے کی وجہ سے میجر ارتضی اور حوالادر گلریز خان بھی اپنے توازن کو برقرار نہ رکھ سکے۔ وہ بھی تیزی کے ساتھ اس ڈھلوان پر لڑھکنے لگے۔ ان کےجسم پوسٹ کے دوسری جانب والی ڈھلوان کی طرف تیزی سے لڑھک رہے تھے۔ ڈھلوان بہت زیادہ تھی۔
اس لیے وہ اپنے جسموں کو روک بھی نہ سکے۔
موت کا پیٹ شاید ابھی بھی نہیں بھرا تھا اس لیے نئے شکار کی تلاش میں ان کے پیچھے بھی آگئی۔
اسی دوران ان کی اسٹکس ان کے ہاتھ سے چھوٹ پڑیں۔
موت دھیرے دھیرے انہیں بے آسرا کرنے لگی۔
رسی میں بندھنے کی وجہ سے وہ تینوں ابھی بھی ایک ساتھ تھے۔ کافی دیر وہ اسی حالت میں بے سمت لڑھکتے رہے۔ ایک بڑے سے پتھر کو شاید ان پر ترس آیا تھا اسی لیے وہ ان کے راستے میں آگیا اور ان کے گیندوں کی طرح گھومتے جسموں کو قرارآیا۔
وہ باری باری اس بھاری پتھر سے ٹکرائے تھے۔ پتھر میں لگنے کی وجہ سے ان کے سروں پر چوٹ آئی تھی۔ اتنی شدت سے ٹکرانے کی وجہ سے وہ اپنے حواس کھو بیٹھے اور اس برفیلے بستر پر بے ہوش ہوکر خود کو سپردِ خدا کردیا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ریسکیو آپریشن میں زاہد پوسٹ پر موجود گیارہ ساتھیوں کے جسدِ خاکی مل گئے تھے۔ ان سب کے جسدِ خاکی ان کے آبائی علاقوں میں دفنا دیے گئے تھے۔ جبکہ میجر ارتضی اور ان کے باقی دونوں ساتھیوں کی لاشیں کسی کو بھی نہیں مل پائی تھیں۔ لیکن وہاں پہ ہونے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ وہ بھی اس حادثے کا شکارہوگئے تھے۔ اسی لیے ہیڈ کوارٹر میں پہنچائی گئی رپورٹ کے مطابق میجر ارتضی اور ان کے باقی ساتھیوں کی شہادت کا آفیشلی اعلان کردیا گیا۔ جبکہ ان کی لاشوں کی تلاش جاری رکھی گئی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
میجر بلال دو دن بعد ان کے فلیٹ میں آئے تھے۔ ان دونوں کےپاس ایک دوسرے کے فلیٹس کی چابیاں تھیں۔ وہ ان کی ہر چیز کو چھو کر دیکھ رہے تھے کیونکہ ان کے دوست نے ان چیزوں کا چھوا تھا۔ وہ ان کے لمس کو محسوس کرنا چاہ رہے تھے جس سے وہ اب ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے تھے۔
ان کی اسٹڈی ٹیبل پر ہر چیز سلیقے سے رکھی گئی تھی۔ کتابوں کی جلدوں کو چھوتے ہوئے ان کی نظر میجر ارتضی کی ڈائری کی طرف پڑی تھی۔
جس میں سے ایک صفحہ باہر جھانک رہا تھا۔
آنسو برساتی آنکھوں سے انہوں نے اس صفحے کو نکالا تو وہ خط ماریہ کے نام لکھا گیا تھا۔ بنا کچھ سوچے سمجھے انہوں نے ایک سادہ سی نوٹ بک سے کاغذ لیکر ماریہ کے لیے کچھ لکھا اور فلیٹ کو لاک کر کے پوسٹ آفس چلے گئے۔ جہاں انہوں نے وہ خط ماریہ کے اس ایڈریس پر بھیج دیا جو میجر ارتضی نے ڈائری کے اوپر ایک اسٹکی نوٹ پرلکھا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔)
ان تینوں کی لاشوں کو ڈھونڈنے کے لیے ایک ہیلی کو بھیجا گیا کیونکہ آپریشن کے دوران انہیں ایک بے سمت جاتیں نوکیلی ہکیں ملی تھیں جو کہ ایک خاص راستے کی طرف جارہی تھیں۔ ان ہکوں کے ساتھ رسیاں لگائی گئی تھیں تاکہ راستہ واضح ہوسکے۔ وہ ہکیں کچھ فاصلے کے بعد ختم ہوگئی تھیں۔
ریسکیو ٹیم کے مطابق وہ ہکیں میجر ارتضی اور ان کے باقی دو ساتھیوں نے ہی لگائی تھیں۔ اس سے پہلے وہ راستہ اس جگہ موجود نہیں تھا۔
کافی دیر پرواز کرنے کے بعد بالآخر ہیلی کو ان کے وجود مل ہی گئے۔
میجر سکندر ہیلی میں سے ایک رسے کی مدد سے نیچے لٹکے تھے۔ میجر ارتضی اور ان کے ساتھ اس برف پر بے ہوش پڑے تھے شاید۔
وہ رسہ کو نیچے لاتے ہوئے ان کے قریب اترے تھے اور خوشی سے اوکے کا سگنل دیتے ہوئے ان کے بھاری جسموں کو اٹھاتے ہوئے ہیلی میں لائے تھے جہاں سے انہیں ہاسپٹل منتقل کردیا گیا۔
کافی دیر برف پر پڑے رہنے کی وجہ سے حوالدار گلریز خان فراسٹ بائیٹ کا شکار ہوگئے تھے۔ جبکہ میجر ارتضی اور نائک صوبیدار سلیم رضا اس سے محفوظ رہے تھے۔
حوالدار گلریز خان کے بائیں بازو اور ٹانگ کو کاٹنے کی ہدایات دے دی گئی تھیں ۔۔۔۔
یہ بیٹے اپنے جسم کے کئی حصے اسی برف کی نذر کردیتے تھے۔ کسی کا بازو کٹ جاتا تو کسی کی ٹانگیں۔
اور بعض تو اس ملک کو اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کے دونوں بازو اور ٹانگیں ہمیشہ کے لیے ان سے جدا کردی جاتیں۔ صرف ایک دھڑ رہ جاتا۔
کہ یہ ملک ایسی ہی تو قربانیاں مانگتا ہے۔
جان نہیں تو اعضا ہی سہی۔۔۔۔تاکہ پتا چل سکے کہ اس ملک کے بیٹوں کو اپنی جانوں اور اپنے اعضاء سے زیادہ یہ ملک عزیز ہے۔
سلام۔۔۔
سلام۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
میجر بلال کو جیسے ہی میجر ارتضی کی خیریت کی خبر ملی تو وہ اسی وقت اللہ کے حضور شکر کے لیے سجدے میں گرگئے۔ سجدے میں انہوں نے میجر ارتضی کی مکمل صحت یابی کی دعائیں مانگی تھیں جو آسمان پر سن لی گئی تھیں۔
اس کے بعد وہ سیدھا ہاسپٹل پہنچے تھے۔ ریسپشنسٹ سے میجر ارتضی کے کمرے کا پوچھ کر وہ تیزی سے اس کی طرف بڑھنے لگے۔ ان کا دل چارہ رہا تھا کہ وہ اڑکر اس درمیانی فاصلے کو آن کی آن میں ختم کرلیں۔
لیکن ایسا کب ہوتا ہے۔
وقت اتنا تو انتظار کرواتا ہی ہے نا۔
دروازہ کھول کر وہ اندر داخل ہوئے تو میجر ارتضی کی عیادت کے لیے اس وقت دو اور آفیسر کھڑے تھے۔میجر بلال کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے انہیں جلد صحت یابی کی دعا دیتے ہوئے وہاں سے چلے گئے۔
” کیسا ہے تو؟ ” بیڈ کی طرف لپکتے ہوئے ان کا چہرہ انہیں یوں زندہ دیکھ کر کھلکھلا ہی تو اٹھا تھا۔
” جیسا گیا تھا۔ اب کونسا سینگ نکل آئے ہیں میرے۔ ” بے جان سے بھنوروں میں میجر بلال کو دیکھ کر جان آئی تھی۔
” ڈھیٹ آدمی تیری صحت کے بارے میں پوچھ رہا ہوں۔ ” ایک ہلکا سا مکا میجر ارتضی کے کندھے کو نصیب ہوا تھا۔
” بے شرم آدمی کسی کی عیادت کو جائیں تو خالی ہاتھ جاتے ہیں کیا؟ ” اس حالت میں بھی انہیں مذاق سوجھ رہا تھا۔ وہ بہت کمزور ہوچکے تھے۔ برف ان کی ساری رعنائی کو لوٹ کر جاچکی تھی۔
مگر جواب الٹا آیا تھا۔
انہیں شاید ابھی زاہد پوسٹ والے واقعے کا نہیں پتا چلا تھا ورنہ وہ تو شاید کئی دن بھولے سے بھی نہ مسکرا پاتے۔
” بیس کلو مٹھائی کا دیا ہے آرڈر ۔۔۔بس تیار ہوکر آتی ہی ہوگی۔ ” لہجے میں غصے کے ساتھ طنز بھی امڈ آیا تھا۔
” کوئی پھول ہوتے ہیں کوئی گیٹ ویل سون کے کارڈ ہوتے ہیں لیکن تمہیں کیا پتا کہ یہ کیا ہوتے ہیں۔ ” برا سا منہ بناتے ہوئے وہ رخ پھیر کر بیٹھ گئے۔
” وہ دوستوں کے لیے نہیں ہوتے۔ ” اتنے دنوں کے بعد ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی۔
” تو کیا مٹھائی ہوتی ہے؟ شرم تو نہیں آتی ۔مجھے اس حالت میں دیکھ کر تجھے مٹھائی کی سوجھ رہی ہے۔ ” کتنے ماہ ہوچکے تھے انہیں میجر بلال سے لڑائی کیے ہوئے۔یہی لڑائی ان کے پیار کی نشانی تھی۔
”دوستوں کے لیے پیار سے گلے لگا کر دی جانے والی دعائیں ہوتی ہیں۔ ” یہ کہہ کر وہ آگے بڑھے تھے۔
ترس ہی تو گئے تھے وہ دونوں ایک دوسرے کو گلے سے لگانے کے لیے۔
اب ملے تھے تو ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کوئی بہت صدیوں بعد مل رہا ہو۔ اور صرف اسی ملنے کی آس میں زندہ ہو۔
آنسو دونوں کی آنکھوں میں چمکے تھے۔
دوستی کیا ہوتی ہے؟
اس کا ایک ہی جواب ہے۔۔۔
میجر ارتضی اور میجر بلال۔۔۔
” ایک لمحے کے لیے مجھے لگا تھا کہ شاید اب ہم دوبارہ کبھی نہیں مل پائیں۔ ” میجر ارتضی کے ذہن میں وہی بات گونجی تھی جس نے میجر بلال کی شہادت کی خبر دی تھی۔وہ بہت دھیمے لہجے میں بات کررہے تھے۔ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے درد کی لہریں اٹھ رہی تھیں۔
” مجھے بھی۔ ” میجر بلال کا دل ان کی شہادت سے انکاری تھا لیکن حالات نے انہیں اس پر یقین کرنے پر مجبور کردیا تھا۔
” ہاں تمہیں تو لگنا ہی تھا آخر کو مجھ سے رینک میں سینئر جو ہونا چاہتے ہو۔ ” مصنوعی طنز بھرے لہجے سے انہوں نے میجر بلال کو خود سے جدا کیا۔
” ہاں یہ تو ہے۔ ” وہ سائیڈ ٹیبل پر میجر ارتضی کی میڈیکل رپورٹ والی فائل اٹھا کر دیکھنے لگے۔
جوابا میجر ارتضی مسکرا دیے۔
” اب جلدی سے ٹھیک ہوجاؤ۔ابھی بہت سے کام پڑے ہوئے ہیں جو ہمیں مل کر کرنے ہیں۔ ” ان کا اشارہ میجر ارتضی کی بہنوں کی شادی کی طرف تھا۔
” ہاں ان شاءاللہ۔ ” وہ آنکھیں بند کر کے لیٹ گئے تھے۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی لیکن وہ میجر بلال کی وجہ سے خود کو ہشاش بشاش دکھانے کی کوشش کررہے تھے۔ یہی حال میجر بلال کا بھی تھا دو گولیاں لگنے کے باوجودوہ ایسے بیٹھے تھے جیسے انہیں کوئی کانٹا تک بھی نہ چبھا ہو۔
میجر بلال کے دل پر ایک بوجھ سا گر پڑا تھا۔ وہ جلد بازی میں بہت بڑا قدم اٹھا چکے تھے۔
انہیں اتنی جلدی وہ خط ماریہ کو نہیں بھیجنا چاہیے تھا۔ لیکن وہ اب کیا کرسکتے تھے؟ یہی فکر انہیں کھائے جا رہی تھی۔
” پتا نہیں وہ خط اسے ابھی تک ملا بھی ہوگا یا نہیں؟ ” میجر ارتضی کے پرسکون چہرے کو دیکھ کر ان کا دل پھر بے چین ہوا تھا۔کیونکہ ان کی ایک غلطی کا پتا چلنے سے میجر ارتضی کے دل پر کیا گزرے گی وہ صرف ان کا دوست ہی سمجھ سکتا تھا۔
” کیا ہوا؟ ” ان کے چہرے پر سائے سے لہراتے دیکھ کر میجر ارتضی نے مسکراتے ہوئے دریافت کیا۔
” کچھ نہیں۔ ” وہ فی الحال انہیں کچھ بھی نہیں بتانا چاہتے تھے۔ لیکن موقع دیکھ کر وہ انہیں یہ بات ضرور بتا دیں گے۔ یہی سوچ کر انہوں نے خود کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔
” تمہارے زخم اب کیسے ہیں؟ ” انہیں پھر سے خاموش دیکھ کر میجر ارتضی نے بات کو آگے بڑھایا۔
” کونسے زخم ؟ ” انہوں نے انجان بننا چاہا۔
” تمہیں کیا لگتا ہے کہ تمہارے ساتھ اتنا بڑا حادثہ ہوجائے گا ااور مجھے خبر تک نہیں ہوگی ۔ ” مرمرا کے بھنور پھر گہرے ہوئے تھے۔
” تمہاری سلامتی کی خبر سن کر جلد ہی بھر گئے ہیں۔ ” ان سے بیٹھا نہیں جارہا تھا مگر وہ میجر ارتضی کو چھوڑ کر بھی نہیں جا سکتے تھے۔ پچھلے کئی ماہ کی باتیں ابھی کرنے والی رہتی تھیں۔
” تمہیں پتا ہے جب تمہیں گولیاں لگی تھیں تو مجھے بھی ویسی ہی تکلیف محسوس ہوئی تھی۔ اور مجھے لگا کہ تو اب نہیں رہا۔ مگر کچھ دیر کے بعد ہی یہ دل سنبھل گیا۔ میں نے ہوش میں آنے کے بعد سب سے پہلے کیپٹن مصطفی سے تمہارے بارے میں ہی دریافت کیا تھا۔ اور پھر پتا چلا کہ دل نے جو اطلاع دی تھی وہ بالکل ٹھیک تھی۔ ” انہوں نے اپنے دل پر ہاتھ کر اسے صحیح اطلاع دینے پر شاباش دی۔
” جاسوس کہیں کا۔ ” میجر بلال نے ان کے ہاتھ کی طرف دیکھا جو کہ ابھی بھی ان کے دل والی جگہ پر تھا۔
” تمہارے معاملے میں یہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ” انہیں اپنے دل پر فخر محسوس ہوا تھا۔
” اچھا۔ اب تم آرام کرو۔ میں ڈاکٹر سے مل کر آتا ہوں۔ ” اپنے سینے کو ہاتھ سے سہارا دیتے ہوئے وہ جانے کے لیے کھڑے ہوگئے۔
‘جوابا میجرارتضی سراثبات میں سر ہلا کر آنکھیں موند کر لیٹ گئے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
دو ماہ مزید گزر چکے تھے۔ آج اس کی یونیورسٹی آف لندن میں کانووکیشن تھی جس میں اسے بہترین تھیسس بنانے پر سونے کے تمغے سے نوازاجانا تھا۔
ایک خواب تھا جسے اس یونی کا ہر اسٹوڈنٹ دیکھتا تھا۔
اسٹیج ہو اور گلے میں سونے کا تمغہ۔
ماریہ کا یہی خواب پورا ہونے جارہا تھا۔
ہال میں وہ اپنی کرسی پر بیٹھے اسٹیج پر جا کر بولنے والے لفظ ترتیب دینے لگی۔
پورا ہال سنہری روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اسٹیج کو شاندار طریقے سے سجایا گیا تھا۔ ہر چیز ایک سحر سا فضا میں پیدا کررہی تھی جو کہ ہر آنکھ کو خیرہ کر رہا تھا۔وہاں انٹر نیشنل میڈیا بھی موجود تھا جوکہ اپنے چینلز اور اخبارات کےلیے اس پروقار تقریب کی کوریج کررہا تھا۔
کچھ ہی دیر بعد اس کا نام سونے کا تمغہ لینے کے لیے بولا گیا۔ خوشی سے اچھلتے ہوئے وہ اپنے قریب بیٹھے یونی فیلوز کے گلے ملی تھی۔
مہمانِ خصوصی نے اس کے گلے میں تمغہ ڈالا اور اس لڑکی کو یونی آف لندن میں ہمیشہ کے لیے سرخرو کردیا۔ وہ پورے لندن تو کیا پورے برطانیہ میں سے پہلی لڑکی تھی جس نے پاکستان کی تاریخ پر اتنا شاندار تھیسس بنایا تھا۔
تمغہ وصول کرکے چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجائے وہ ڈائس کی طرف بڑھی۔
” میری اس کامیابی کا سہرا صرف پاکستانی لوگوں کے سر جاتا ہے۔ میری اس کامیابی کے حقدار صرف پاکستانی لوگ ہیں۔ آج مجھے بین الاقوامی میڈیا کے ذریعے ایک بات پوری دنیا سے کہہ لینے دیجیے کہ جو خاکہ پاکستانی قوم کے لیے ہمارے ذہنوں میں نقش کردیا گیا ہے وہ بالکل غلط ہے۔ یقین جانیے وہ لوگ ہماری دنیا کے لوگوں سے بہت مختلف ہیں۔ بہت ہی زیادہ۔ اتنا تعاون میرا نہیں خیال کہ دنیا کی کوئی قوم بھی کسی دوسری قوم کے ساتھ کرتی ہوگی جتنا ان لوگوں نے میرے ساتھ کیا۔ اتنا پیار،اتنا امن صرف اس خطے میں ہی پایا جاتا ہے۔میں اپنے اس تھیسس کے لیے جتنے دن بھی ادھر رہی ایک بات میرے ذہن میں گردش کرتی رہی کہ اتنے پیار کرنے والے،اتنے پرخلوص اور اتنے امن پسند لوگ کیسے دہشت گرد ہوسکتے ہیں؟ پھر ایک جواب میرے اندر سے آیا کہ وہاں دہشت وہ لوگ پھیلاتے ہیں جنہیں وہاں کی دنیا میں امن برداشت نہیں ہوتا۔ وہ کوئی بھی انسان ہوسکتا ہے لیکن وہ پاکستانی نہیں ہوسکتا۔ آج میں پورے دعوے کے ساتھ یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ دنیا کا ہرانسان دہشت گرد ہوسکتا ہے مگر ایک پاکستانی کبھی نہیں۔۔۔کبھی بھی نہیں۔ شکریہ۔ ” اس کے ساتھ ہی پورا ہال کھڑا ہوا تھا اور تالیوں کی بلند آواز ان محرابوں تلے گونجی تھیں جو کہ بہت بلندی پر بنائے گئے تھے۔ خوشی سے نم ہوتی آنکھوں کے ساتھ اس نے اس داد کو وصول کیا تھا۔
تمغہ سینے سے سجائے اس کے ذہن میں میجر ارتضی کا خیال آیا تھا۔
اور اس نے دل میں اس کامیابی کا سارا کریڈٹ میجر ارتضی کو دیا تھا۔ تالیوں کی گونج میں وہ اپنی کرسی پر آگئی۔ اس کے دوست نہیں آسکے تھے ۔کیونکہ اس دن انہیں چینل والوں نے بلوا لیا تھا ڈاکومینٹری آن ائیر کرنے کے لیے۔
انہوں نے اپنی ڈاکومینٹری کا نام ہی ایسا رکھا تھا کہ ہر کسی کے دل میں تجسس پیدا ہوا تھا اس ڈاکومینٹری کو دیکھنے کے لیے۔
”THE HEAVEN ON THE EARTH( the place of love and peace)”
وہ دن ان دوستوں کی زندگیوں کا سب سے یاد گار دن تھا۔
کامیابی کا دن۔۔۔۔
کبھی نہ بھولنے والا دن۔۔۔۔
اپنی کرسی پر براجمان ہوتےہوئے ماریہ نے ایک سرد آہ بھری تھی۔
وہ بہت خوش تھی۔ لیکن یہ خوشی نامکمل تھی۔
مکمل ہوتی بھی کیسے؟
خوشیاں مکمل تو صرف میجر ارتضی کی ذات سے ہی تھیں۔
وہ بظاہر جتنا خوش نظر آتی تھی اندر سے اتنا ہی ٹوٹ چکی تھی۔
باہر اگر رومان بھری دھنیں بجتی تھیں تو اندر نوحہ کنی جاری تھی۔
وہ نہ خوش تھی اور نہ غم زدہ۔۔
بس درمیان میں ایک نقطے پر کھڑی تھی اور یہی نقطہ بہت تکلیف دہ تھا۔
گھر آکر اس نے وہ تمغہ اس وائلن بجانے والے مجسمے کے گلے میں پہنا دیا۔ کیونکہ وہی اس کا اصل حقدار تھا۔ آنسو پھر بہنے لگے۔ یہ آنسو پچھلے کئی ماہ سے اس کی آنکھوں میں سجے رہنے لگے تھے۔
اس کا رشتہ ان آنسوؤں کے ساتھ ہمیشہ جوڑ دیا گیا تھا۔
آسٹن اسے بہت خوش رکھنے کی کوشش کرتا مگر ناکام رہتا کیونکہ ماریہ کی خوشیاں صرف ایک شخص سے منسلک تھیں جو بدقسمتی سے اس دنیا میں نہیں رہا تھا۔
” کتنا روتی ہو یار تم؟ تمہارے سر میں درد نہیں ہوتا؟ ” میجر ارتضی کے الفاظ اس بند کمرے میں گونجے تھے۔
” اتنا رونے سے تمہیں ڈی ہائیڈریشن نہیں ہوتی کیا؟ ”
” امید ہے کہ تم ہنستے ہوئے اچھی ہی لگتی ہوگی۔ ” روتی آنکھیں مسکرانے لگی تھیں۔
اس کا ماننا تھا کہ روحیں ہروقت ہمارے اردگرد موجود رہتی ہیں۔ اسی لیے وہ میجر ارتضی کی روح کے سامنے صرف مسکرانا چاہتی تھی تاکہ ان کی روح کو کوئی دکھ نہ پہنچے۔
اسی لیے وہ روتے روتے ہنسنے لگتی اور ہنستے ہنستے رو دیتی۔ عجب پاگل سی زندگی بنی تھی۔
ماتم۔۔۔۔
صرف ماتم۔۔۔۔
اس کامیابی کی خوشی میں اس کے دوستوں نے ایک پارٹی کا اہتمام کیا تھا۔ ایک نظر اس مجسمے پر ڈالتے ہوئے وہ اس پارٹی میں جانے کی تیاری کرنے لگی۔
اس نے آسٹن کا تحفے میں دیا ہوا ڈریس پہنا اور مکمل تیاری کے بعد فلیٹ کو دوبارہ لاک کرکے چلی گئی۔
یہی اس کی زندگی تھی۔۔۔
اور یہی اس کی کہانی۔۔۔۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
اک عزمِ مسلسل تھا
وہ عزم کیا پورا
جو ضرب لگانی تھی
وہ ضرب لگائی ہے
دشمن کو بتانا ہے
مٹی یہ ہماری ہے
ہم اس کے تقدس کا
سودا نہیں کرتے ہیں
سر رکھ کر ہتھیلی پر
اس کے لیے شعلوں کے
دریا سے گزرتے ہیں
تلوارِ عضب پھر سے
اس بار اٹھائی ہے
جو ضرب لگانی تھی
وہ ضرب لگائی ہے
طوفان کے رستے میں
دیوار کی مانند ہے
یہ قوم ہماری سب
تلوار کی مانند ہے
دشمن کے کلیجے میں
اک آگ لگائی ہے
جو ضرب لگانی تھی
وہ ضرب لگائی ہے
اسلام کے غازی ہیں
یہ ملک ہمارا ہے
دشمن کو بتادیں گے
دھرتی کے لیے ہم کو
مرنا بھی گوارا ہے
ہر دور میں ہم
اک ضرب لگائیں گے
وہ ضرب عضب ہوگی
دشمن کے شبستان پر
وہ کہر غضب ہوگی
وہ ضرب عضب ہوگی
اپریل دوہزار سولہ کے آخر تک ضربِ عضب آپریشن کی پہلی فیز مکمل کردی گئی۔ جس میں شمالی وزیرستان کو مکمل طور پر پاک آرمی نے اپنے قبضے میں لے لیا۔
اس آپریشن کے دوران دہشت گردوں کے بڑے نیٹ ورکس ہمیشہ کے لیے ختم کردیے گئے۔ اس کے بعد آئی ایس پی آر نے ایک دعوی کیا کہ پاک آرمی نے اللہ کے کرم و فضل سے پاکستان سے دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کردیا ہے۔
اس آپریشن میں چھ سو کے قریب پاک آرمی کے جوانوں نےاپنی جانوں کے نذرانے اپنی دھرتی ماں کے لیے پیش کیے۔ جن میں سینئر افسران بھی شامل تھے۔
تین ہزار کے قریب جوان زخمی ہوئے۔
جبکہ پینتین سو کے قریب دہشت گرد مارے گئے۔ اس عرصے کے دوران چارسو پچاس کے قریب دہشت گردوں کو پھانسی لگایا گیا جبکہ گیارہ سو کو گرفتار کرلیا گیا۔
بلاشبہ یہ آپریشن پاکستان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا لیکن پاک آرمی نے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے اس چیلنج کو قبول کیا اور پھر اللہ کی نصرت سے اس میں بڑی کامیابی بھی حاصل کی۔
یہ دنیا کی پہلی بڑی جنگ تھی جو دہشت گردی کے خلاف لڑی گئی۔
اور یہ پہلی فتح بھی تھی جو کہ دہشت گردی کے خلاف حاصل کی گئی تھی۔
اس آپریشن کے دوران پاکستان آرمی کی دی جانے والی قربانیوں کو خراجِ تحسین لفظوں میں نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی یہ قربانیاں ایسی تھیں کہ انہیں لفظوں میں بیان کیا جاسکے۔
پوری قوم ان بیٹوں کو سلام پیش کرتی ہے۔
سلام ہو ان بیٹوں پر۔۔۔
سلام ہو ان جانثاروں پر۔۔۔
سلام ہو پاک آرمی پر۔۔۔۔
اس زمین کی مٹی میں
خون ہے شہیدوں کا
ارضِ پاک مرکز ہے
قوم کی امیدوں کا
دیکھنا گنوانا مت
دولتِ یقین لوگو
یہ وطن امانت ہے
اور تم امیں لوگو
(۔۔۔۔۔۔۔)
میجر بلال کئی دفعہ ماریہ کو خط لکھ چکے تھے۔ لیکن اس کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔
آتا بھی کیسے؟
وہ یہ گھر بیچ کر اپنی ماں کو اپنے پاس ہی لے آئی تھی۔ اس لیے اس گھر میں آئے نئے لوگ اس خط کو محفوظ رکھ لیتے کہ اگر کبھی وہ اس گھر میں آئیں تو وہ انہیں دے دیں گے۔ نئے گھر کا پتا معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس لیے وہ خط اسی گھر میں جمع ہوتے جارہے تھے۔
کاش وہ اب لوٹ کے آئے بھی نہ ورنہ جینے کےنام پر چلنے والی سانسیں بھی رک جاتیں۔
وہ اس کی طرف جواب ملنے سے مایوس ہوچکےتھے۔
آخر ایک دن وہ ہمت جمع کرکے میجر ارتضی کوبتانے ہی چلے آئے۔
وہ سیٹنگ ہال میں بیٹھے ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے۔جس پر آج کا خبر نامہ چل رہا تھا۔
وہ ان کے پاس بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔
” ارتضی مجھے معاف کردو یار۔ مجھ سے ایک بہت بڑی غلطی ہوگئی ہے۔ ” کچھ باتیں کرنے کے بعد وہ اصل موضوع کی طرف لوٹ آئے ۔
” کیسی غلطی؟ ” میجر ارتضی نے آواز کم کرتے ہوئے ان سے دریافت کیا۔
اس پر انہوں نے سارا واقعہ شروع سے لیکر آخر تک میجر ارتضی کو بتا دیا۔
” مجھ سے یہ سب بہت جلدی میں ہوگیا۔ مجھے معاف کردو میرے دوست۔ ”التجائیہ نظریں میجر ارتضی کے چہرے سے ٹکرائی تھیں جہاں کوئی تاثر نظر نہیں آرہا تھا۔
” کوئی بات نہیں دوست۔ ” وہ یہ کہہ کر دوبارہ خبریں سننے میں مصروف ہوگئے۔ اور وہ کہتے بھی کیا
” میں نے اسے بعد میں کئی خط لکھے لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ” میجر بلال کو لگا کہ شاید وہ خفا ہوگئے تھے۔
” اس نے جواب دینا ہوتا تو پہلے خط کا ہی دے دیتی۔ ” ایک درد بھری مسکراہٹ ان کے لبوں پر رینگی تھی۔
” لیکن یار یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ ” وہ پچھتاوے کی دلدل سے نکل نہیں پارہے تھے۔
” بلال قسمت ایسے ہی تو ہمیں آزماتی ہے۔ پہلے کسی کے لیے ہمارے دل میں بہت محبت پیدا کرتی ہے اور پھر اسی چیز کو ہم سے چھین لیتی ہے تاکہ بندے کے صابر و شاکر ہونے کا امتحان لے سکے۔ اور جانتے ہو اس کے اس امتحان میں ہی ہمارے لیے بہتری ہوتی ہے۔ وہ ہماری خواہشوں کے تحت نہیں چلتی۔ وہ ہمارے لیے اسے ہی منتخب کرتی ہے جو بہت بہتر ہوتا ہے۔ اس سارے معاملے میں تمہارا کوئی قصور نہیں ہے۔ اگر اس نے لوٹ کر آنا ہوتا تو میری قبر پر ایک پھول رکھنے ضرور آتی۔‘‘ ایک درد بھری لہر انہیں اپنے جسم سے گزرتی محسوس ہوئی۔
وہ واقعی نہیں آئی تھی۔
اگروہ سچی محبت کرتی تو ایک بار ان کی قبر پر ضرور آتی۔
ان کی خاموش قبر کو بتاتی کہ وہ ان کے بغیر کتنا تڑپ رہی ہے۔
مگر ایسا نہ ہونا تھا اور نہ ہوا۔
وہ خاموشی سے ٹی وی دیکھنے لگے۔ ان کا دل چاہا تھا کہ وہ بھی ایک دفعہ پھوٹ پھوٹ کر رولیں مگر وہ خود کو کمزور ثابت نہیں کرنا چاہتے تھے۔
میجربلال سر جھکائے بیٹھے رہے۔
پورا کمرہ سناٹے میں ڈوب چکا تھا کہ۔اگر سوئی بھی گرتی تو چھن کی آواز سنائی دیتی۔ اور میجر ارتضی کے لیے اتنی خاموشی برداشت کرنا ناممکن تھا۔ حقیقت میں وہ خود کو میجر بلال پر ظاہر نہیں کرنا چاہتے تھے ورنہ وہ ساری زندگی خود کو ہی اس بات کا قصوروار ٹھہراتے رہتے۔
دراصل قدرت کو یہ منظور ہی نہیں ہے کہ ہمارے درمیان کوئی تیسرا آئے۔‘‘ انہوں نے شرارت سے میجر بلال کو کندھے سے پکڑ کر پیچھے کی طرف دھکا دیا جس سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور صوفے سے نیچے گرگئے۔
’’لیکن قدرت کو میرے ہاتھوں سے تمہارا قتل ضرور منظور ہوگا۔‘‘ انہوں نے کشن اٹھا کر میجر ارتضی کودے مارا۔
’’دیکھتے ہیں کہ کون کس کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے۔‘‘ شرارت بھنوروں میں چھپائے انہوں نے دونوں کشن ایک ساتھ اٹھا کر میجر بلال کو پوری قوت سے مارے۔
اس چھوٹے سے ٹی وی ہال میں ایک دفعہ پھرہمیشہ کی طرح محاز کھل چکا تھا۔
جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر شروع ہوتا اور پھر گلے لگنے پر ختم ہوجاتا۔
ان کی بے مثال دوستی اسی محاز کی وجہ سے پوری یونٹ میں مشہور تھی اور رشک کی نگاہ سے دیکھی جاتی تھی۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
زندگی اپنے معمول پر آچکی تھی۔ان دونوں کی پوسٹنگ کلرکہار ہوگئی تھی۔
اس دن بھی وہ اپنے معمول کے فرائض سرانجام دینے کے بعد کلر کہار کے بلدار راستوں پر پیدل ہوا خوری کررہے تھے۔ موسم بہت سہانا تھا۔ شام ان پہاڑوں پر اک ادا سے اتر رہی تھی۔
سورج دن بھر کی تھکن مٹانے کے لیے مغرب کی طرف رواں دواں تھا۔ اور چاند نکلنے کے لیے بے تاب سا سورج کے گھر لوٹنے کا انتظار کررہا تھا۔
تختِ بابری کے قریب سے گزرتے ہوئے انہیں کچھ لڑکیاں پیچھا کرتے محسوس ہوئیں۔
وہاں شاید کسی یونیورسٹی کا ٹرپ آیا ہوا تھا۔
’’یار یہ لڑکیاں ہمارا پیچھا کیوں کررہی ہیں؟‘‘ میجر ارتضی نے کیپ درست کرنے کے بہانے پیچھے کی جانب ایک نظر دیکھا تھا۔اور اپنے ساتھ چلتے ہوئے بے نیاز سے میجر بلال سےاستفسار کیا۔
’’تو تم خود ان سے پوچھ لو۔‘‘ میجر بلال نے چہرے پر دلکش مسکراہٹ سجاتے ہوئے سرگوشی کی۔ وہ جانتے تھے کہ میجر ارتضی کبھی بھی یوں رک کران سے یہ بات نہیں پوچھیں گے۔
’’نہیں یار۔ایسے انہیں لگے گا کہ ہم انہیں چھیڑ رہے ہیں۔‘‘ وہ چلتے ہوئے جھیل کی جانب آرہے تھے۔ بہت سے پرندے ابھی بھی کلرکہار جھیل پر کسی کے لوٹ آنے کا انتظار کررہے تھے۔
’’تو پھر کرنے دو پیچھا۔‘‘ میجر بلال نے بات ہی ختم کردی تھی۔میجر ارتضی تیزی سے چلنے لگے۔ تبھی انہیں اپنے پیچھے سے ایک مہین سی آواز سنائی دی۔
’’ایکسیوزمی۔‘‘ اس پر وہ دونوں بیک وقت رکے۔
وہ چار پانچ لڑکیاں گھوم کر ان کے سامنے آگئیں۔
ان کا حلیہ بتا رہا تھا کہ وہ کافی ماڈرن گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔
’’جی؟‘‘ میجر بلال نے ہمیشہ کی طرح اپنے سافٹ سے لہجے میں پوچھا۔وہ لڑکیوں سے ہمیشہ ایسے ہی بات کیا کرتے تھے۔
’’آپ فوجی ہیں؟‘‘ ان میں سے ایک لڑکی نے چہک کر پوچھا۔
اس پر میجر بلال نے حیرت سے ایک نظر خود کو دیکھا۔ خاکی ہاف سلیوز والی ٹی شرٹ ،آرمی کا مخصوص ٹراوز اور کیپ پہنے وہ ہرلحاظ سے ایک فوجی نظر آرہے تھے۔ جبکہ میجر ارتضی آرمی کے فل یونیفارم میں تھے۔میجر ارتضی ان کی اس حرکت پر رخ موڑ کر اپنی ہنسی قابو کرنے لگے جو کہ بہت مشکل کام تھا وہ لاکھ کوشش بھی کرلیتے تو بھی ان کے بھنور ان کے ہنسنے کی چغلی کھا جاتے۔انہوں نے کیپ کو زرا سا نیچے کرتے ہوئے اپنا منہ چھپانے کی کوشش کی۔
’’آپ کو ہم کیا ایلین نظر آرہے ہیں؟‘‘ نا چاہتے ہوئے بھی ان کی لہجے میں طنز امڈ آیا۔میجر ارتضی کے سامنے وہ کہاں اپنی اتنی عزت افزائی برداشت کرسکتے تھے۔ انہیں لگا کہ شاید اس لڑکی نے یہ سوال کرکے ان پر طنز کیا تھا۔
’’سر آپ لوگ اتنے خوبصورت کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ ایک لڑکی نے حسرت بھری نظر سے میجر ارتضی کودیکھا تھا۔ اس کے یوں دیکھنے پر وہ دوبارہ رخ موڑ کر جھیل کی طرف دیکھنے لگے۔جس کا پانی سورج کی سرخی کی وجہ سے سرخ ہورہا تھا۔
بالکل ان کے گالوں کی سرخی کی طرح جو کہ بلش کررہے تھے۔
وہ اصل میں دل ہی دل میں محظوظ ہورہے تھے۔ خاص طور پر میجر بلال کی حالت پر۔
’’سر مجھے آرمی بہت اچھی لگتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میرے ’’وہ‘‘ بھی آرمی میں ہوں۔‘‘ یہ والی لڑکی کچھ زیادہ ہی آزاد خیال نظر آرہی تھی۔ لڑکیاں حقیقت میں آرمی والوں کو ایسے ہی پرپوز کرتی ہیں۔ یہ تو آرمی والے ہوتے ہیں جو ایسی باتوں کو مذاق میں ٹال جاتے ہیں۔اب کی بار میجر ارتضی سے واقعی بہت مشکل ہوگیا تھا کہ وہ اپنی ہنسی کو قابو میں رکھتے۔
میجر صاحب اب پھنسے تھے جب ایک لڑکی مسلسل ان پر لائن مارنے کی کوشش کررہی تھی۔
’’سر آپ مجھے اپنا نمبر دے سکتے ہیں؟‘‘ ایک لڑکی ڈائریکٹ میجر ارتضی سے مخاطب ہوئی۔
’’کیوں؟‘‘ لہجہ زرا چبھا تھا۔
’’ سر آپ بہت پیارے ہیں۔اس لیے۔‘‘ وہ زرا شرماتے ہوئے بولی تھی۔
اب کی بار میجر بلال میجر ارتضی کی فیز میں آئے تھے۔
’’کیوں مجھ میں سرخاب کے پر لگے ہیں؟‘‘ انہیں واقعی کسی کا یوں پرتکلف ہوجانا اچھا نہیں لگتا تھا خاص طور پرلڑکیوں کا جو ہر آرمی والے کودیکھ کراپنے حواس کھو بیٹھتی تھیں۔
’’سر لگتا ہے آپ مائنڈ ہی کرگئے ہیں؟‘‘ اس کے چہرے پر شام۔کا ایک سایہ سا لہرایا تھا۔
’’جی بالکل۔‘‘ وہ اس بات سے بے نیاز نظر آئے تھے کہ ان کے اس جواب سے اس لڑکی دل پر کیا گزرے گی۔
’’مسکان جی تو کہتی ہیں کہ آرمی والے بہت سویٹ ہوتے ہیں۔‘‘ اس لڑکی نے برا سا منہ بنایا۔وہ ان کے ایسے بات کرنے پر خفا سی ہوئی تھی۔
’’کون مسکان جی؟‘‘ میجر بلال نے ہمیشہ کی طرح دلچسپی کا اظہار کیا۔
’’رائٹر ہیں۔‘‘ اس کی ایک دوست نے چہک کر بتایا۔
’’اللہ۔۔۔۔ ایک تو ان رائٹرز کا بھی الگ سے حساب ہوگا۔پتا نہیں بھولی بھالی بچیوں کو آرمی سے متعلق کیا کچھ لکھ کر پڑھاتی رہتی ہیں۔‘‘ میجر ارتضی بس دل میں ہی سوچ کر رہ گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کسی ریڈرکے سامنے اس کی رائٹر کو کچھ کہنا آبیل مجھے مار کے مترادف تھا۔
’’اچھا سر اپنے ساتھ ایک تصویر ہی دے دیں۔‘‘ وہ اپنا موبائل آن کرنے لگی۔ میجر بلال تصویر بنوانے کے لیے سیدھے کھڑے ہی ہوئے تھے کہ میجر ارتضی نے دو ٹوک انکار کردیا۔
’’نہیں بالکل نہیں۔‘‘ ان کے اس جواب پر اب میجر بلال نے بھی برا سا منہ بنایا تھا۔
’’کیوں سر؟‘‘ وہ لڑکی ابھی بھی کیمرے کو آن کیے ہوئے تھی۔
’’کیونکہ یہ چیز مجھے بالکل اچھی نہیں لگتی کہ ہمارے ملک کی بیٹیاں اس طرح راہ چلتے کسی بھی لڑکے کے ساتھ تصویریں بنانا شروع ہوجائیں یا ان سے نمبر مانگنا شروع ہوجائیں خواہ وہ آرمی میں ہو یا پھر کوئی سپر اسٹار۔۔۔۔ اگر کوئی لڑکا آپ سے نمبر مانگے یا یوں کسی راستے میں تصویر مانگے تو بہت غصہ آتا ہے نا؟ کیوں؟‘‘ وہ پل بھر کے لیے ان کے چہرے کے بدلتے ہوئے تاثرات دیکھنے کے لیے رکے۔
’’کیونکہ وہ ایک عام لڑکا ہوتا ہے اس سے بات کرنے پر یا اس کے ساتھ تصویر بنانے پر گناہ ملتا ہے نا۔لیکن آرمی کے کسی بھی سولجر کے ساتھ یا کسی بھی سپر اسٹار کے ساتھ بات کرنے یا تصویر بنانے پر گناہ نہیں ملتا۔ ایم آئی رائٹ مس؟‘‘ وہ اسی لڑکی سے مخاطب ہوئے۔ جواباً وہ خاموش رہی۔
’’میں جانتا ہوں کہ آپ کو اس یونیفارم سے بہت محبت ہے۔ہم نے اسے اسی لیے پہنا ہوا ہے کہ کوئی آپ کی طرف بری نظر سے نہ دیکھے۔ لیکن اگر آپ ہی ایسی حرکتیں کرتی پھریں گی تو پھر ہم سے کیا توقع رکھیں گی آپ؟ میری ان باتوں کا برا مت منایئے گا پلیز لیکن ایک سولجر اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ میرا فرض بنتا ہے کہ میں آپ کے لیے بھی وہی چاہوں جو میں اپنی بہنوں کے لیے چاہتا ہوں۔ آخر میں ایک گزارش ہے آپ سے کہ آپ آرمی سے محبت کریں اور ضرور کریں لیکن احترام و عقیدت کے ساتھ۔اپنے وقار کو نیچے مت آنے دیں۔ آرمی کے لیے اپنی اقدار کو زوال مت آنے دیں۔ یوں کسی بھی لڑکے کے لیے پاگل ہونا میرا نہیں خیال کے ایک لڑکی کو زیب دیتا ہے۔ آپ اپنا ٹرپ انجوائے کریں۔ اور خیریت سے واپس جائیں۔ اللہ حافظ۔‘‘ آخر میں ان کے بھنور مسکراہٹ سے گہرے ہوئے تھے۔ وہ ان کا جواب سنے بغیر میجر بلال کو کھینچتے ہوئے لے گئے۔
’’کھڑوس کہیں کا۔‘‘ اسی لڑکی کی آواز سنائی دی۔
میجر ارتضی اس آواز کو سن کر ہنس دیے۔
’’لیکن ہینڈسم ہے یار۔‘‘ ان میں سے ایک لڑکی کی مرمٹنے کے سے انداز والی آواز نے ان کا تعاقب کیا۔
’’یار اس ملک کی لڑکیوں کا کچھ نہیں ہوسکتا۔‘‘ وہ کھلکھلا کرہنس دیے۔
’’تمہیں کس نے کہا تھا کباب میں ہڈی بننے کا۔‘‘ میجر بلال کے چہرے پر مصنوعی خفگی چھائی تھی۔
’’بیٹا ابرش کو پتا چل گیا نا تو تمہارا خون چوسنے کے لیے آسمانوں سے اتر آئے گی۔‘‘ میجر ارتضی نے انہیں مستقبل کے انجام سے ڈرایا۔
’’اس کا تو پتا نہیں لیکن میں تمہارا خون ضرور پی جاؤں گا۔‘‘ میجر بلال انہیں مارنے کی غرض سے ان کی جانب لپکے۔ انہیں ابرش کے بارے میں یہ مذاق بھایا نہیں تھا۔
ان کی اتنی خوبصورت بیوی کو انہوں نے پل بھر میں کسی خون پینے والی چڑیل سے تشبیہہ دے دی تھی۔
میجر ارتضی دفاع کے لیے آگے کی جانب بھاگے۔
سڑک پر وہ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔
پرندے اپنے گھروں کی جانب لوٹ چکے تھے۔ شام پوری طرح جھیل پر اتر چکی تھی۔
ہر چیز بہت خوشگوار ہوگئی تھی۔ بس ان کے دلوں میں ایک خالی جگہ بچ گئی تھی جو صرف ابرش اور ماریہ کی وجہ سے ہی پر ہوسکتی تھی۔
لیکن قسمت میں لکھا کہاں بدلا جاسکتا ہے۔ کہانی کا جو انجام ہونا ہوتا ہے وہ ہوکر رہتا ہے چاہے کہانی کو جتنے مرضی موڑ دے دیے جائیں۔ اور دوستی کی اس لازوال داستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
آپریشن ضربِ عضب اور سیاچن پر شہید ہونے والے شہدا کی یاد میں یادگارِ شہدا پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔جہاں پاک آرمی اور شہدا کے لواحقین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔
رات کا وقت تھا۔۔۔آسمان پر تارے جھرمٹوں کی شکل میں جگمگا رہے تھے۔ اور چودھویں شب کا چاند اس وقت ان عظیم لوگوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے آسمان پر روشن ہوا تھا۔
ہر شہید عظیم تھا۔۔۔۔۔۔
جرات و بہادر کی عظیم مثال۔۔۔۔۔
شہدا کو یاد کیا جانے لگا اور اس کے ساتھ ہی تقریب میں شرکت کرنے والوں کی آنکھیں چھلکنے لگیں۔
ہر ماں کو اپنا بیٹا یاد آیا تھا۔ بہن نے اپنے بھائی کو یاد کیا تھا۔بیٹی اور بیٹا اپنے باپ کے نام پر اپنا ضبط کھو بیٹھے تھے۔
شہدا کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے کئی پروگرام پیش کیے گئے۔
میجر ارتضی نے ایک نغمہ گا کر اپنے شہید دوستوں کو سلام پیش کیا۔
’’میں یہ نغمہ ضربِ آپریشن، اپنی یونٹ اور پاک آرمی کے تمام شہدا خاص طور پر اپنے ان ساتھیوں کے نام کرتا ہوں جو زاہد پوسٹ پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔‘‘ اسی کے ساتھ پیانو پر ایک خاص دھن بجائی جانے لگی۔اور اس دھن پر میجر ارتضی کی آواز میں ایک خوبصورت نغمہ گونجنے لگا۔
اے راہِ حق کے شہیدو
وفا کی تصویرو۔۔۔۔
تمہیں وطن کی ہوائیں
سلام کہتی ہیں۔۔۔۔۔۔
وقت سرکنے لگا۔ چاند بادلوں کی اوڑھ سے نکل کر یادگارِشہدا پر اپنی چاندنی پھیلانے لگا۔
لگانے آگ جو آئے تھے آشیانے کو
وہ شعلے اپنے لہو سے بجھا دیے تم نے
بچا لیا ہے یتیمی سے کتنے پھولوں کو
سہاگ کتنی بہاروں کے رکھ لیے تم نے
تمہیں وطن کی فضائیں
سلام کہتی ہیں۔۔۔۔۔
سبزے پر بچھی کرسیوں پر براجمان ہر شخص کو اپنے عزیز یاد آنے لگے۔۔
چلے جو ہوگے شہادت کا جام پی کرتم
رسولِ پاکﷺ نے بانہوں میں لے لیا ہوگا
علیؓ تمہاری شہادت پہ جھومتے ہوں گے
حسینؓ پاک نہ ارشاد یہ کیا ہوگا
تمہیں خدا کی رضائیں
سلام کہتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شخص کو اپنے شہید عزیزوں پر فخر محسوس ہوا تھا۔ ستاروں کی کہکشائیں زمین پر اتر کر ان شہدا کے گھر والوں کا ماتھا چومنے لگیں۔ جگنو مبارکباد دینے کے لیے گروہوں کی شکل میں آنےلگے۔
اے راہِ حق کے شہیدو
وفا کی تصویرو۔۔۔۔
تمہیں وطن کی ہوائیں
سلام کہتی ہیں۔۔۔۔
اے راہِ حق کے شہیدو۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی میجر ارتضی کی آواز تھمی تھی۔۔۔۔ فضا میں تالیاں گونجی تھیں۔ ان کو سراہا گیا تھا اس شاندار سلام پیش کرنے پر۔
اس کے بعدمیجربلال ان شہدا کے لیے کچھ اشعار پیش کرنے کے لیے اسٹیج پر آئے تھے۔
جو کوئی بھی تیری راہ میں مرگیا
اپنی ہستی کو وہ جاوداں کرگیا
میں شہیدِوفا ہوگیا ہوں تو کیا
زندگی میرے در سے جائے گی کہاں
خوبصورت الفاظ۔۔۔۔۔
عظیم لوگوں کے لیے۔۔۔۔
اس کے بعد پاک آرمی کے دستے نے شہدا کو سلامی
دی اور چیف آف آرمی نے یادگارِشہدا پر پھول چڑھائے۔
تقریب کے اختتام پر میزبان نے ایک شعر ان عظیم شہدا کی نذر کیا۔۔۔۔۔۔
؎مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے
وہ قرض چکائے ہیں جو واجب بھی نہ تھے
اور اس کے ساتھ ہی بنتِ عبدالخالق کا قلم رکتا ہے کہ
شہیدانِ وطن۔۔۔۔
شہیدانِ عشق۔۔۔
شہیدانِ وفا کی یہ داستان یہیں مکمل ہوتی ہے۔
(۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔)
ختم شد
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...