میں گجرات کا ٹھیا واڑ کا رہنے والا ہوں۔ ذات کا بنیا ہوں ۔پچھلے برس جب تقسیم ہندوستان پر ٹنٹا ہو ا تو میں بالکل بے کار تھا۔ معاف کیجئے گا۔ میں نے لفظ ٹنٹا استعمال کیا۔ مگر اس کا کوئی حرج نہیں۔ اس لئے کہ اردو زبان میں باہر کے الفاظ آنے ہی چاہئیں۔ چاہے وہ گجراتی ہی کیوں نہ ہوں۔
جی ہاں، میں بالکل بے کار تھا۔ لیکن کوکین کا تھوڑا سا کاروبار چل رہا تھا جس سے کچھ آمدن کی صورت ہو ہی جاتی تھی۔ جب بٹوارہ ہوا اور ادھر کے آدمی ادھر اور ادھر کے ادھر ہزاروں کی تعداد میں آنے جانے لگے تو میں نے سوچا چلو پاکستان چلیں۔ کوکین کا نہ سہی کوئی اور کاروبار شروع کردوں گا۔ چنانچہ وہاں سے چل پڑا اور راستے میں مختلف قسم کے چھوٹے چھوٹے دھندے کرتا پاکستان پہنچ گیا۔
میں تو چلا ہی اس نیت سے تھا کہ کوئی موٹا کاروبار کروں گا۔ چنانچہ پاکستان پہنچتے ہی میں نے حالات کو اچھی طرح جانچا اور الا ٹمنٹوں کا سلسلہ شروع کردیا۔ مسکہ پالش مجھے آتا ہی تھا۔ چکنی چپڑی باتیں کیں، ایک دو آدمیوں سے یارانہ گانٹھا اور ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کرالیا۔ اس سے کافی منافع ہوا تو میں مختلف شہروں میں پھر کر مکان اور دکانیں الاٹ کرانے کا دھندا کرنے لگا۔
کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔ مجھے بھی چنانچہ الاٹ منٹوں کے سلسلے میں کافی تگ و دو کرنا پڑی۔ کسی کے مسکہ لگایا، کسی کی مٹھی گرم، کسی کو کھانے کی دعوت دی، کسی کو ناچ رنگ کی، غرض کہ بے شمار بکھیڑے تھے۔ دن بھر خاک چھانتا، بڑی بڑی کوٹھیوں کے پھیرے کرتا اور شہر کا چپہ چپہ دیکھ کر اچھا سا مکان تلاش کرتا جس کے الاٹ کرانے سے زیادہ منافع ہو۔
انسان کی محنت کبھی خالی نہیں جاتی ، چنانچہ ایک برس کے اندر اندر میں نے لاکھوں روپے پیدا کرلیے۔ اب خدا کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، بینک میں بے اندازہ مال پانی۔۔۔۔۔۔معاف کیجئے گا۔ میں کاٹھیاواڑ گجرات کا روز مرہ استعمال کرگیا۔ مگو کوئی مضائقہ نہیں اردو زبان میں باہر کے الفاظ بھی شامل ہونے چاہئیں۔۔۔۔۔۔جی ہاں ،اﷲ کا دیا سب کچھ تھا۔ رہنے کو بہترین کوٹھی، نوکر چاکر ، پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے ،کارخانے اور دکانیں الگ۔۔۔۔۔۔یہ سب کچھ تھا لیکن میرے دل کا چین جانے کہاں اڑ گیا۔ یوں تو کوکین کا دھندا کرتے ہوئے بھی دل پر کبھی کبھی بوجھ محسوس ہوتا تھا لیکن اب تو جیسے دل رہا ہی نہیں تھا۔ یا پھر یوں کہئے کہ بوجھ اتنا آن پڑا کہ دل اس کے نیچے دب گیا۔ پر یہ بوجھ کس بات کا تھا؟
آدمی ذہین ہوں، دماغ میں کوئی سوال پیدا ہو جائے تو میں اس کا جواب ڈھونڈ ہی نکالتا ہوں۔ ٹھنڈے دل سے (حالانکہ دل کا کچھ پتا ہی نہیں تھا) میں نے غور کرنا شروع کیا کہ اس گڑ بڑ گھوٹالے کی وجہ کیا ہے؟
عورت ؟۔۔۔۔۔۔ہوسکتی ہے۔ میری اپنی تو کوئی تھی نہیں، جو تھی وہ کاٹھیاواڑ گجرات ہی میں اﷲ کو پیاری ہوگئی تھی۔ لیکن دوسروں کی عورتیں موجود تھیں۔ مثال کے طور پر اپنے مالی ہی کی تھی۔ اپنا اپنا ٹیسٹ ہے۔ سچ پوچھئے تو عورت جوان ہونی چاہئے اور یہ ضروری نہیں کہ پڑھی لکھی ہو، ڈانس جانتی ہو۔ اپن کو تو ساری جوان عورتیں چلتی ہیں۔ (کاٹھیاواڑ گجرات کا محاورہ ہے جس کا اردو میں نعم البدل موجود نہیں۔)
آدمی ذہین ہوں ۔کوئی مسئلہ سامنے آجائے تو اس کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔ کارخانے چل رہے تھے۔ دکانیں بھی چل رہی تھیں۔ روپیہ اپنے آپ پیدا ہو رہا تھا۔ میں نے الگ تھلگ ہو کر سوچنا شروع کیا اور بہت دیر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا کہ دل کی گڑ بڑ صرف اس لیے ہے کہ میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا۔
کاٹھیاواڑ گجرات میں تو بیسیوں نیک کام کیے تھے۔ مثال کے طور پر جب میرا دوست پانڈو رنگ مرگیا تو میں نے اس کی رانڈ کو اپنے گھر میں ڈال لیا۔ اور دو برس تک اس کو دھندا کرنے سے روکے رکھا۔ ونائک کی لکڑی کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو اسے نئی خرید دی۔ تقریباً چالیس روپے اس پر اٹھ گئے تھے۔ جمنا بائی کو گرمی ہوگئی۔ سالی کو (معاف کیجئے گا) کچھ پتا ہی نہیں تھا۔ میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ چھ مہینے برابر اس کا علاج کراتا رہا ۔۔۔۔۔۔لیکن پاکستان آکر میں نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا اور دل کی گڑ بڑ کی وجہ یہی تھی ورنہ اور سب ٹھیک تھا۔
میں نے سوچا کیا کروں؟۔۔۔۔۔۔خیرات دینے کا خیال آیا۔لیکن ایک روز شہر میں گھوما تو دیکھا کہ قریب قریب پر شخص بھکاری ہے۔ کوئی بھوکا ہے، کوئی ننگا۔ کس کس کا پیٹ بھروں، کس کس کا انگ ڈھانکوں؟ سوچا ایک لنگر خانہ کھول دوں۔ لیکن ایک لنگر خانے سے کیا ہوتا اور پھر اناج کہاں سے لاتا۔ بلیک مارکیٹ سے خریدنے کا خیال پیدا ہوا تو یہ سوال بھی ساتھ ہی پیدا ہو گیا کہ ایک طرف گناہ کرکے دوسری طرف کار ثواب کا مطلب ہی کیا ہے؟
گھنٹوں بیٹھ بیٹھ کر میں نے لوگوں کے دکھ درد سنے۔ سچ پوچھئے تو ہر شخص دکھی تھا۔ وہ بھی جو دکانوں کے تھڑوں پر سوتے ہیں اور وہ بھی جو اونچی اونچی حویلیوں میں رہتے ہیں۔ پیدل چلنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کام کاکوئی جوتا نہیں۔ موٹر میں بیٹھنے والے کو یہ دکھ تھا کہ اس کے پاس کا ر کا نیا ماڈل نہیں۔ ہر شخص کی شکایت اپنی اپنی جگہ درست تھی۔ ہر شخص کی حاجت اپنی اپنی جگہ معقول تھی۔
میں نے غالب کی ایک غزل اﷲ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر سے سنی تھی۔ ایک شعر یاد رہ گیا ہے۔ ؎ کس کی حاجت روا کرے کوئی۔۔۔۔۔۔معاف کیجئے گا یہ اس کا دوسرا مصرعہ ہے اور ہوسکتا ہے پہلا ہی ہو۔
جی ہاں، میں کس کس کی حاجت روا کرتا جب سو میں سے سو ہی حاجت مند تھے ۔میں نے پھر یہ بھی سوچا کہ خیرات دینا کوئی اچھا کام نہیں۔ ممکن ہے آپ مجھ سے اتفاق نہ کریں۔ لیکن میں نے مہاجرین کے کیمپوں میں جا جا کر جب حالات کا اچھی طرح جائزہ لیا تو مجھے معلوم ہوا کہ خیرات نے بہت سے مہاجرین کو بالکل ہی نکما بنا دیا ہے ۔دن بھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ تاش کھیل رہے ہیں۔ جگار ہو رہی ہے (معاف کیجئے گا، جگار کا مطلب ہے جو یعنی قمار بازی ) گالیاں بک رہے ہیں اور فوگٹ یعنی مفت کی روٹیاں توڑ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ایسے لوگ بھلا پاکستان کو مضبوط بنانے میں کیا مدد دے سکتے ہیں۔ چنانچہ میں اس نتیجے پر پہنچا کہ بھیک دینا ہرگز ہرگز نیکی کا کام نہیں۔ لیکن پھر نیکی کے کام کے لیے اور کون سا رستہ ہے؟
کیمپوں میں دھڑا دھڑ آدمی مر رہے تھے۔ کبھی ہیضہ پھوٹتا تھا کبھی پلیگ۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ قریب تھا کہ ایک ہسپتال بنوا دوں مگر سوچتے پر ارادہ ترک کردیا۔ پوری اسکیم تیار کرچکا تھا۔ عمارت کے لیے ٹنڈر طلب کرتا۔ داخلے کی فیسوں کا روپیہ جمع ہو جاتا۔ اپنی ہی ایک کمپنی کھڑی کردیتا اور ٹنڈر اس کے نام نکال دیتا۔ خیال تھا ایک لاکھ روپے عمارت پر صرف کردوں گا ۔ظاہر ہے کہ ستر ہزار روپے میں بلڈنگ کھڑی کردیتا اور پورے تیس ہزار روپے بچا لیتا۔ مگر یہ ہماری اسکیم دھری کی دھری رہ گئی۔ جب میں نے سوچا کہ اگر مرنے والوں کو بچا لیا گیا تو یہ جو زائد آبادی ہے وہ کیسے کم ہوگی۔
غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی فالتو آبادی کا ہے۔ لفڑا کا مطلب ہے جھگڑا، وہ جھگڑا جس میں فضیحتاً بھی ہو لیکن اس سے بھی اس لفظ کی پوری معنویت میں بیان نہیں کرسکا۔
جی ہاں، غور کیا جائے تو یہ سارا لفڑا ہی اس فالتو آبادی کا ہے۔ اب لوگ بڑھتے جائیں گے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینیں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی جائیں گی۔ آسمان بھی پھیلتا جائے گا۔ بارشین زیادہ ہوں گی۔ اناج زیادہ اگے گا۔ اس لیے میں اس نتیجے پر پہنچا ۔۔۔۔۔۔ کہ ہسپتال بنانا ہرگز ہرگز نیک کام نہیں۔
پھر سوچا کہ مسجد بنوا دوں لیکن اﷲ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر کا گایا ہوا ایک شعر یاد آگیا ؎نام منجور ہے تو فیج کے اسباب بنا۔۔۔۔۔۔وہ منظور کو منجور اور فیض کو فیج کہا کرتی تھی۔ نام منظور ہے تو فیض کے اسباب بنا۔ پل بنا چاہ مسجد و تالاب بنا۔
کس کم بخت کو نام و نمود کی خواہش ہے۔ وہ جو نام اچھالنے کے لیے پل بناتے ہیں نیکی کا کام کیا کرتے ہیں؟۔۔۔۔۔۔خاک! میں نے کہا نہیں یہ مسجد بنوانے کا خیال بالکل غلط ہے۔ بہت سی الگ الگ مسجدوں کا ہونا بھی قوم کے حق میں ہرگز مفید نہیں ہوسکتا،اس لیے یہ عوام بٹ جاتے ہیں۔
تھک ہارکر میں حج کی تیاریاں کررہا تھا کہ اﷲ میاں نے مجھے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ شہر مین ایک جلسہ ہوا۔ جب ختم ہوا تو لوگوں میں بدنظمی پھیل گئی۔ اتنی بھگدڑ مچی کہ تیس آدمی ہلاک ہو گئے۔ اس حادثے کی خبر دوسرے روز اخباروں میں چھپی تو معلوم ہوا کہ وہ ہلاک نہیں بلکہ شہید ہوئے تھے۔
میں نے سوچنا شروع کیا ۔سوچنے کے علاوہ میں کئی مولویوںسے ملا۔معلوم ہوا کہ وہ لوگ جو اچانک حادثوں کا شکارہوتے ہیں انھیں شہادت کا رتبہ ملتا ہے یعنی وہ رتبہ جس سے بڑا کوئی اور رتبہ ہی نہیں۔ میں نے سوچا کہ اگر لوگ مرنے کی بجائے شہید ہوا کریں تو کتنا اچھا ہے۔ وہ جو عام موت مرتے ہیں ظاہر ہے کہ ان کی موت بالکلاکارت جاتی ہے۔ اگر وہ شہید ہو جاتے تو کوئی بات بنتی۔
میں نے ایک باریک بات پر اور غور کرنا شروع کیا۔
چاروں طرف جدھر دیکھو خستہ حال انسان تھے۔ چہرے زرد، فکر و تردد اور غم روز گارکے بوجھ تلے پسے ہوئے۔ دھنسی ہوئی آنکھیں ، بے جان چال، کپڑے تار تار،ریل گاڑی کے کنڈم مال کی طرح یا تو کسی ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں پڑے ہیں یا بازاروں میں بے مالک مویشیوں کی طرح منہ اٹھائے بے مطلب گھوم رہے ہیں۔ کیوں جی رہے ہیں۔ کس کے لیے جی رہے ہیں اور کیسے جی رہے ہیں۔ اس کا کچھ پتا ہی نہیں۔ کوئی دبا پھیلی۔ ہزاروں مرگئے اورکچھ نہیں تو بھوک اور پیاس ہی سے گھل گھل مرے۔ سردیوں میں اکڑ گئے۔ گرمیوں میں سوکھ گئے۔ کسی کی موت پر کسی نے دو آنسو بہا دیے ۔ اکثریت کی موت خشک ہی رہی۔
زندگی سمجھ میں نہ آئی، ٹھیک ہے۔ اس سے خط نہ اٹھایا، یہ بھی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔وہ کس کا شعر ہے اﷲ بخشے شولا پور کی امینہ بائی چتلے کر کیا درد بھری آواز میں گایا کرتی تھی ؎مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے۔ میرا مطلب ہے اگر مرنے کے بعد بھی زندگی نہ سدھری تو لعنت ہے سسری پر۔
میں نے سوچا کیوں نہ یہ بیچارے ، یہ قسمت کے مارے، در در کے ٹھکرائے ہوئے انسان، جو اس دنیا میں ہر اچھی چیز کے لیے ترستے ہیں۔ اس دنیا میں ایسا رتبہ حاصل کریں کہ وہ جو یہاں ان کی طرف نگاہ اٹھانا پسند نہیں کرتے وہاں ان کو دیکھیں اور رشک کریں۔ اس کی ایک صورت تھی کہ وہ عام موت نہ مریں بلکہ شہید ہو ں۔
اب سوال یہ تھا کہ یہ لوگ شہید ہونے کے لیے راضی ہوں گے ؟ میں نے سوچا، کیوں نہیں، وہ کون مسلمان ہے جس میں ذوق شہادت نہیں۔ مسلمانوں کی دیکھا دیکھی تو ہندوئوں اورسکھوں میں بھی یہ رتبہ پیدا کردیا گیا ہے۔ لیکن مجھے سخت ناامیدی ہوئی جب میں نے ایک مریل سے آدمی سے پوچھا۔
’’کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو؟۔۔۔۔۔۔‘‘
تو اس نے جواب دیا ۔
’’نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
سمجھ میں نہ آیا کہ وہ شخص جی کر کیا کرے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ دیکھو بڑے میاں، زیادہ سے زیادہ تم ڈیڑھ مہینہ اور جیو گے۔ چلنے کی تم میں سکت نہیں، کھانستے کھانستے غوطے میں جاتے ہو تو ایسا لگتا ہے کہ بس دم نکل گیا۔ پھوٹی کوڑی تک تمھارے پاس نہیں۔ زندگی بھر تم نے سکھ نہیں دیکھا۔ مستقبل کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ پھر اور جی کر کیا کرو گے۔ فوج میں تم بھرتی نہیں ہو سکتے۔ اس لیے محاذ پر اپنے وطن کی خاطر لڑتے لڑتے جان دینے کا خیال بھی عبث ہے۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ تم کوشش کرکے یہیں بازار میں یا ڈیرے میں، جہاں تم رات کو سوتے ہو، اپنی شہادت کا بندو بست کرلو۔ اس نے پوچھا۔
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے جواب دیا۔
’’سامنے کیلے کا چھلکا پڑا ہے۔ فرض کرلیا جائے کہ تم اس پر سے پھسل جائو۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے کہ تم مرجائو گے اور شہادت کا رتبہ پائو گے۔۔۔۔۔۔‘‘ پر یہ بات اس کی سمجھ میں نہ آئی، کہنے لگا۔
’’میں کیوں آنکھوں دیکھے کیلے کے چھلکے پر پائوں دھرنے لگا۔۔۔۔۔۔کیا مجھے اپنی جان عزیز نہیں۔۔۔۔۔۔‘‘
’’اﷲ اﷲ کیا جان تھی۔۔۔۔۔۔ہڈیوں کا ڈھانچہ ۔۔۔۔۔۔جھریوں کی گٹھڑی۔۔۔۔۔۔!!!‘‘
مجھے بہت افسوس ہوا اور اس وقت اور بھی زیادہ ہوا جب میں نے سنا کہ وہ کم بخت جو بڑی آسانی سے شہادت کا رتبہ اختیار کرسکتا تھا خیراتی ہسپتال میں لوہے کی چارپائی پر کھانستا کھنکارتا مرگیا۔
ایک بڑھیا تھی، منہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت، آخری سانس لے رہی تھی۔ مجھے بہت ترس آیا۔ ساری عمر غریب کی مفلسی اور رنج و غم میں گزری تھی۔ میں اسے اٹھا کر ریل کے پاٹے پر لے گیا۔ (معاف کیجئے گا ہمارے یہاں پٹڑی کو پاٹا کہتے ہیں۔) لیکن جناب جونہی اس نے ٹرین کی آواز سنی ہوش میں آگئی اور کوک بھرے کھلونے کی طرح اُٹھ کر بھاگ گئی۔
میرا دل ٹوٹ گیا ، لیکن پھر بھی میں نے ہمت نہ ہاری ۔بیٹے کا بیٹا اپنی دھن کا پکا ہوتا ہے۔ نیکی کا جو صاف اور سیدھا راستہ مجھے نظر آیا تھا میں نے اس کو اپنی آنکھ سے اوجھل نہ ہونے دیا۔
مغلوں کے وقت کا ایک بہت بڑا احاطہ خالی پڑا تھا۔ اس میں ایک سو اکاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے، بہت ہی خستہ حالت میں، میری تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بڑی بارش میں سب کی چھتیں ڈھے جائیں گی۔ چنانچہ میں نے اس احاطے کو ساڑھے دس ہزار روپے میں خرید لیا اور اس میں ایک ہزار مفلوک الحال آدمی بسا دئیے۔دو مہینے کا کرایہ وصول کیا ایک روپیہ ماہوار کے حساب سے۔ تیسرے مہینے جیسا کہ میرا اندازہ تھا پہلی ہی بڑی بارش میںسب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے شہید ہوگئے۔
وہ جو میرے دل پر بوجھ سا تھاکسی قدر ہلکا ہوگیا۔ آبادی میں سے سات سو آدمی کم بھی ہوگئے اور انھیں شہادت کا رتبہ بھی مل گیا۔ ادھر کا پلڑا بھاری ہی رہا۔
جب سے میں یہی کام کررہا ہوں ۔ہر روز حسب توفیق دو تین آدمیوں کو جام شہادت پلا دیتا ہوں۔ جیسا کہ میں عرض کرچکا ہوں کام کوئی بھی ہو انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے۔مثال کے طور پر ایک آدمی کو جس کا وجود چھکڑے کے پانچویں پہے کی طرح بے معنی اور بیکار تھا، جام شہادت پلانے کے لیے مجھے پورے دس دن جگہ جگہ کیلے کے چھلکے گرانے پڑے، لیکن موت کی طرح جہاں تک میں سمجھتا ہوں شہادت کا بھی ایک دن مقرر ہے۔ دسویں روز جا کر وہ پتھریلے فرش پر کیلے کے چھلکے پر سے پھسلا اور شہید ہوا۔
آج کل میں ایک بہت بڑی عمارت بنوا رہا ہوں۔ ٹھیکہ میری ہی کمپنی کے پاس ہے۔ دو لاکھ کا ہے۔ اس میں سے پچھتّر ہزار تو میں صاف اپنی جیب میں ڈال لوں گا۔ بیمہ بھی کرالیا ہے۔ میرا اندازہ ہے کہ جب تیسری منزل کھڑی کی جائے گی تو ساری بلڈنگ اڑا اڑا دھڑام گر پڑے گی، کیونکہ مصالحہ ہی میں نے ایسا لگوایاہے۔ اس وقت تین سو مزدور کام پر لگے ہوں گے۔ خدا کے گھر سے مجھے پوری پوری امید ہے کہ یہ سب کے سب شہید ہو جائیں گے۔ لیکن اگر کوئی بچ گیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ پرلے درجے کا گنہگار ہے جس کی شہادت اﷲ تبارک تعالیٰ کو منظور نہیں تھی۔
٭٭٭
تجزیہ
افسانہ شہید ساز کا شمار سعادت حسن منٹو کے بہترین افسانوں میں ہوتا ہے شہید ساز کی کہانی کچھ اس طرح سے ہے ملاحظہ ہو:
اس افسانے میں راوی خود اس کا بنیادی کردار ہے جو گجرات کا رہنے والا ہے ذات کا بنیا ہے ہندوستان میں اُس کا کوکین کا دھندہ ہے وہ پاکستان چلا جاتا ہے یہ سوچ کر کہ وہاں جا کر وہ کوئی موٹا کارو بار کرے گا۔ پاکستان جا کر وہ مہاجرین کی جائیدادوں کی الاٹمینٹوں کا کام شروع کرلیتا ہے آفیسروں کو مسکا لگانا خوشامد کرنا، پارٹیاں کھلانا اُسے خوب آتا تھا۔ وہ پہلے ایک چھوٹا سا مکان الاٹ کروا لیتا ہے اُس سے اچھا خاصا فائدہ اُٹھا کر ۔وہ شہر میں گھوم پھر کر اچھے مکان تلاش کرتا ہے اور اُن کو اپنے نام کروا کر بیچ دیتا ہے اور منافع کماتا ہے اُس کے پاس رہنے کے لئے کوٹھی ،نوکر چاکر ،گاڑی، بینک بیلینس ، کارخانے اور دوکانیں سب کچھ ہیں مگر اُسے سکون نہیں ملتا وہ سوچتا ہے کہ وہ ہندوستان میں تھا تو کوئی نیک کام بھی کر لیتا تھا پاکستان آکر تو اُس نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ پیسہ ہی کمایا۔ بقول اُس کے اﷲ کا دیا سب کچھ تھا رہنے کو بہترین کوٹھی ،نوکر چاکر ،پیکارڈ موٹر، بینک میں ڈھائی لاکھ روپے، کارخانے اور دوکانیں الگ۔ یہ سب کچھ تھا مگر اُس کے دل کو سکون نہیں تھا۔ سکون کے لئے عورت چاہئے۔ عورت تو ہندوستان میں مر گئی ۔ چلو دوسروں کی عورتیں ہیں۔ وہ اس نتیجے پر پہونچتا ہے کہ کوئی نیک کام کیا جائے۔ کاٹھیاواڑ گجرات میں وہ کبھی کسی بیوہ کی مدد کردیتا تھا۔ کسی لنگڑے کو لکڑی کی ٹانگ لگوا دیتا تھا کسی بیمار کا علاج کروا دیتا ۔ اُس نے سوچا کہ بہت لوگ کیمپوں میں بیمار پڑے ہیں کیوں نا وہ اسپتال بنا دے۔ وہ ارادہ کرتا ہے۔ پھر سوچتا ہے کہ اسپتال بن گیا تو لوگ کم تعداد میں مریں گے۔ ملک کی آبادی بڑھے گی جو ملک اور قوم کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ وہ اسپتال بنانے کا خیال چھوڑ دیتا ہے۔ پھر سوچتا ہے چلو ایک مسجد بنوادیتا ہوں لوگ عبادت کریں گے۔یہ بھی نیک کام ہے۔ پھر یہ سوچ کر مسجد بنانے کا خیال بھی چھوڑ دیتا ہے کہ زیادہ مسجدیں بنیں گی تو قوم بٹ جائے گی۔ وہ حج جانے کے لئے ارادہ بنا لیتا ہے کہ ایک دن اخبار میں خبر پڑھتا ہے کہ ایک جلسہ میں بھگدر مچ گئی ۔تیس شہید ہو گئے۔ وہ پریشان رہتا ہے اور ایک مولوی سے پوچھتا ہے ۔ مولوی اُس کو بتاتا ہے کہ کوئی شخص اگر اچانک کسی حادثے کا شکا ر ہو جائے تو وہ شہید کا رتبہ پالیتا ہے ۔ وہ سوچتا ہے کہ لوگ ایسے ہی مر جاتے ہین اگر ان کو شہید کا رتبہ دلایا جائے تو یہ بھی نیک کام ہوا۔ وہ سوچتا ہے کہ وہ تو حج کی تیاریاں کررہا تھا کہ اﷲ میاں نے اُسے خود ہی ایک راستہ بتا دیا۔ اب سوال یہ تھا کہ شہید ہونے کے لئے کس کو تیار کیا جائے۔ اُس نے ایک مریل آدمی سے پوچھا کہ کیا تم شہید ہونا چاہتے ہو تو اس نے جواب دیا ۔
’’نہیں‘‘اُس نے مریل آدمی کو سمجھایا کہ وہ زیادہ دن جی نہ سکے گا ۔پھوٹی کوڑی اس کے پاس نہیں۔ فوج میں بھرتی وہ ہو نہیں سکتا۔بہتر ہے شہید ہو جائے مریل آدمی پوچھتا ہے وہ کیسے کہ وہ کیلے کا چھلکا پھینکے گا وہ اُس پر پھسل کر مر جائے اور شہادت کا رتبہ پالے۔ آدمی صاف انکار کردیتا ہے کہتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر کیوں پھسلے۔ تھوڑے دنوں بعد وہ مرگیا مگر شہید نہ ہوا۔ ایک بڑھیا تھی آخری سانسیں لے رہی تھی وہ اُسے اُٹھا کر ریل کی پٹری پر لے گیا ٹرین کی آواز سن کر وہ ہوش میں آگئی اور اُٹھ کر بھاگ گئی۔ وہ بڑا دل برداشتہ ہوا۔ لیکن اُس نے ہمت نہ ہاری۔ اُسے مغلوں کے زمانے کا ایک احاطہ مل گیا ۔جسے اُس نے دس ہزار روپے میں خرید لیا۔ اُس احاطے میں ایک سو اکیاون چھوٹے چھوٹے کمرے تھے۔ ان کمروں میں اُس نے ایک ہزار کرایہ دار بسا لئے۔ اُس کی تجربہ کار آنکھوں نے اندازہ لگا لیا کہ پہلی ہی بارش میں چھتیں گر جائیں گے۔ تین مہینے بعد چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے ،شہید ہوگئے۔ اُسے بڑا اطمینا ہوا، ملک کی آبادی میں سات سو آدمی کم ہوگئے۔ دوسرے اُن سب کو شہادت کا رتبہ مل گیا۔ بقول بنیا صاحب کہ وہ ہر روز دو تین آدمیوں کو جام شہادت پِلا دیتے ہیں۔ فی الحال وہ ایک بلڈنگ بنوا رہے ہیں جس میں تین سو مزدور کام پر لگیں گے ۔ناقص میٹریل کی وجہ سے بلڈنگ گر جائے گی۔ مزدور دب جائیں گے یعنی شہادت پالیں گے۔ اگر کوئی بچ گیا، تو سمجھو اُس کی شہادت اﷲ کو منظور نہیں۔
اگر کوئی شخص کسی واردات کی پلاننگ کرتا ہے اور سات سو آدمیوں کو موت کے گھاٹ اتاردیتا ہے اُسے ہم کیا کہیں گے۔۔۔۔۔؟شہید ساز کا مرکزی کردار جان بوجھ کر سوچی سمجھی سکیم کے تحت اسی نیت سے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ مریں ، اپنے احاطہ میں کرایہ دار بھر لیتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار لُٹے کُھٹے اور غریب لوگ سستا کرایہ دیکھ کر آجاتے ہیں۔ عین اندازے کے مطابق چھتیں گرتی ہیں اور سات سو آدمی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔ اس سے بڑا آتنک وادی کون ہوسکتا ہے۔ سات سو آدمیوں جن میں بچے بوڑھے اور نوجوان تھے، کو موت کی نیند سلا کر مرکزی کردار بنیا مطمئن ہے کہ اُس نے اپنے ملک کی آبادی کم کرنے میں مدد کی ہے۔
کیا ملک کو آتنک وادیوں اور نکسلیوں کا مرہون منت ہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔؟ اور اُن کو دیش بھگت مان لینا چاہئے؟۔۔۔۔۔۔کہ وہ آبادی کم کرنے میں ملک کی مدد فرما رہے ہیں۔
بہر حال آئیے ہم شہید ساز کے دوسرے پہلوئوں پر بھی غور کریں۔ ہمیں پہلی بار معلوم ہوا کہ مسلمانوں میں بھی بنیا ذات ہے ورنہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ بنیا اور مسلمان دو متضاد قومیں ہیں۔ بنیا غیر مسلم ہی ہوتا ہے ۔شاید ہماری معلومات ناقص تھی۔ ممکن ہے جیسا استاد منٹو نے دکھایا ہے کہ گجرات میں مسلمان بنیے ہوا کرتے ہیں۔ ہم نے کسی مسلمان کے نام کے آگے گُپتا یا گوئیل لکھا نہیں دیکھا۔ اس افسانے میں حسب روایت استاد منٹو خود راوی نہیں بلکہ مرکزی کردار جس کو منٹونے کوئی نام نہیں دیا وہی آپ بیتی بیان کرتا ہے۔ نام دے دیتے تو افسانے کے آغاز میں ہی واضح ہو جاتا کہ وہ مسلمان ہے اور بنیا بھی۔ تقسیم وطن کے دنوں میں وہ پاکستان چلا جاتا ہے اس ارادے سے کہ وہ پاکستان میں موٹا کاروبارکرے گا، کوئی اچھا بیوپاری تو یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ قتل و غارت لوٹ کھسوٹ کے ماحول میں آدمی کیا موٹا کاروبار کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔؟ہندوستان پاکستان سے ہزاروں لوگوں نے اِدھر سے اُدھر ہجرت کی لوگ دونوں ملکوں میں اپنی جائیداد یں چھوڑ کر ہجرت کرگئے۔ ایسی چھوڑی ہوئی جائیدادوں کو ’’ایویکیو‘‘ جائیداد کا نام دیا گیا ان کے انتظام کے لئے دونوں طرف کسٹوڈین نامی محکمے بنائے گئے۔ مان لیجئے کہ اگر کوئی مسلمان ہندوستان میں اپنی ایک لاکھ کی جائیداد چھوڑ کر پاکستان چلا گیا اور اُس نے وہاں جا کر حکومت سے اپنی جائیداد کے کلیم کا مطالبہ کیا تو کسٹوڈین اُس سے چھوڑی ہوئی جائیداد کے پکّے ثبوت مانگتا تھا۔ تسّلی بخش ثبوت دیکھ کر اُس کی جائیداد کا اُس کو معاوضہ ملتا تھا۔ بہت سے لوگ تو تقسیم کے بہت بعد دوسرے ملک سے اپنی جائیدادوں اور مکانوں کے ثبوت حاصل کرنے آئے ۔حکومتیں آپس میں ثبوتوں کو تصدیق کرتی تھیں۔ شہید ساز میں استاد منٹو کا مرکزی کردار افسروں کو خوش کرکے کلیم حاصل کرتا گیا۔ وہ شہر میں گھوم پھر کر ایسے مکانات دیکھ لیتا جو مہاجرین کے ہوتے اور اپنے نام کروا لیتا۔ ایک آدھ معاملے میں بے ضابطگی تو مانی جاسکتی ہے مگر کسٹوڈین کے آفیسر جس کو چاہتے تھے یوں ہی جائیداد الاٹ کردیتے تھے۔ یہ ممکن نہیں تھا، میں سمجھتا ہوں یہ مشاہدات کی کمی ہے شاید یہ استاد کا خیالی پلائو تھا۔ کسٹوڈین دوسرے ملک کے محکمہ مال کا ریکارڈ اور رجسٹری وغیرہ دیکھ کر ہی کلیم دیتا تھا۔ مانا کہ استاد نے بنیے کے بیٹے کو امیر ترین شخص بنانا تھا کسی اور ذریعہ سے بنا دیتے۔ بہت سا روپیہ کما کر بنئے کے دل کا سکون ختم ہو جاتا ہے۔ وہ ہندوستان میں تھا تو کبھی کسی بیوہ کی مدد کردیتا کسی لنگڑے کو نقلی ٹانگ لگوا دیتا، کسی مریض کا علاج کروا دیتا ، جب سے وہ پاکستان آیا تھا۔ اُس نے کوئی نیک کام نہیں کیا تھا۔ وہ کیمپوں میں بیمار لوگوں کو دیکھ کر سوچتا ہے کہ وہ ایک اسپتال بنا دے پھر سوچتا ہے ۔اسپتال بنا تو ملک کی آبادی کم نہ ہوگی ۔یہ خیال ترک کرکے وہ سوچتا ہے کہ چلو مسجد بنوا دیں۔ پھر سوچتا ہے جتنی زیادہ مسجدیں ہونگی اتنی ہی قوم حصّوں میں بٹے گی۔ وہ حج کرنے کا رادہ بنا لیتا ہے۔ درایں اثناء ایک حادثہ ہو تا ہے ایک جلسے میں بھگدڑ کے دوران تیس آدمی مارے جاتے ہیں اخبار لکھتا ہے کہ تیس آدمی شہید ہوگئے ۔وہ ایک مولوی سے تصدیق کی غرض سے پوچھتا ہے کہ اس طرح لوگ شہید ہوسکتے ہیں۔ مولوی جواب دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص اچانک کسی حادثے کا شکار ہو جائے تو اُسے مرنے کے بعد شہادت کا رتبہ ملتا ہے۔ جو آدمی مولویوں سے شرعی معاملوں کے سلسلہ میں مشورہ لیتا ہے۔ وہاں وہ مولوی سے یہ نہیں پوچھ سکا کہ آخر وہ ایسا کون سا نیک کام کرلے کہ جس سے اُسے سکون حاصل ہو۔ جب وہ لوگوں کو شہید بنانے یعنی شہید سازی کا عمل شروع کرتا ہے اُس وقت بھی مولوی سے دریافت نہیں کرتا کہ اُس کے جال میں پھنس کر لوگ شہید کا مرتبہ تو پالیں گے اُس کو ثواب ملے گا یا اس کام کے بدلے عذاب۔اُس کا فعل کیا کہلائے گا اُس فعل کی کیا شکل ہوگی۔۔۔۔۔۔!؟
شہادت کا رتبہ دلانے کو نیک کام سمجھ کر وہ جان بوجھ کر سا ت سو غریبوں کو مروا دیتا ہے۔ وہ اپنے اس فعل پہ مطمئن ہوتا ہے کہ وہ بڑا نیک کام کررہا ہے۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ ہزار کرایہ داروں میں سے کوئی ایک آدمی بھی عقلمند نہیں تھا جو یہ سمجھ سکتا کہ چھتیں اس قدر بوسیدہ ہیں کہ جان جانے کا خطرہ ہے۔ کیا اُن کو شہید ہونے کا شوق تھا ۔جب بنیے کا بیٹا سمجھ سکتا ہے کہ اس برسات میں چھتیں گریں گئیں تو وہ ہزار آدمی کیوں نہ سمجھ سکے۔ بنیے کا بیٹا محسوس ہی نہیں کرسکا کہ مرنے والوں کی موت کا ذمہ دار وہ خود ہے جب کمرے گرے تو ظاہر ہے مالک مکان بھی حادثہ کی جگہ پہونچا ہی ہوگا اتنی بڑی تعداد میں لاشیں تو اُس نے بھی دیکھی ہی نہیں ہونگی۔ دس لاشیں دیکھ کر آدمی کا برا حال ہو جاتا ہے۔ بنیے کے دل پر کیا گذری جب اُس نے بقول استاد کے کہ سات سو لوگ مرے دیکھے۔ لاشوں کا ڈھیر لگ گیا ہوگا ۔بنیے تو بنیادی طور پر دل کے کمزور ہوتے ہیں اتنی بڑی تعدادمیں لاشیں دیکھ کر اُس پر کوئی اثر نہ ہوا ؟ حکومت نے یہ جاننے کی بھی کوشش نہ کی کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مرے تو کیوں۔۔۔۔۔۔؟ سات سو لوگوں کا مرنا کوئی چھوٹا حادثہ نہیں ہوتا۔ استاد سو پچاس آدمی مروا دیتے تو بہتر تھا۔ معاملہ یہیں نہیں رُکا بلکہ بنیا روزانہ دو تین آدمیوں کو جامِ شہادت پلا دیتا ہے۔ بنیا مزید کام بڑھا دیتا ہے وہ یہ کہ اُس کی پلاننگ ایک تین منزلہ بلڈنگ بنانے کی ہے گھٹیا میٹریل لگا کر ۔وہ بلڈنگ بنتے بنتے گرے گی اور تین سو مزدور شہید ہو جائیں گے۔ شہید سازی کی حد ہوگئی۔ یہ افسانہ تخلیق کرکے منٹو نے کیا کہنا چاہا ہے؟ انہوں نے یہ افسانہ لکھ کر کیا (Message)دیا ہے۔ ملک و سماج کے تئیں بھی ادیب کے کچھ فرائض ہوتے ہیں۔ مانا کہ منٹو سماج اور ملک سے باغی تھے۔ سر پھرے ، خود سر، شدّت پسند قلم کار تھے۔ پر صاحب اُن مدیران کو کیا ہوگیا تھ جو ایسے افسانے لکھوا کر فوراً معاوضہ پیش کرتے تھے۔ کیا وہ بھی یہی پیغام دینا چاہتے تھے کہ دیش کی آبادی کم کرنے کے لئے ایک وقت میں تین سو یا سات سو لوگ مار دیئے جائیں۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ شہادت کے جام پی لیں گے۔ کم سے کم آج کا افسانہ نگار ایسے منفی اثرات چھوڑنے والے موضوعات نہیں اپناتا خواہ یہ نک چڑھے نقاد اسے گنتی میں رکھیں یا نہ رکھیں۔ آج کا مدیر بھی ایسے افسانے شائع نہیں کرے گا۔ ملک اور قوم کے علاوہ یہ انسانیت کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ کہ اتنی بڑی تعداد میں معصوم انسانوں کو شہید کردو شہید ہونے والا تو شہید ہو جائے گا آپ کو تو قاتل بنا جائے گا۔
استاد کو روپیوں کی ضرورت ہوتی تو رسائل کے دفاتر میں پدھار تے اور کاغذ قلم لے کر وہیں بیٹھ کر افسانہ تخلیق کرتے، افسانے کا معاوضہ لے کر بغیر گنے جیب میں رکھ لیتے اور چل دیتے ۔ایسا کمرشیل ادیب ملک قوم یا انسانیت کے تقاضوں کو کیا سمجھے گا؟اور کیوں؟ آخر دیش بھگتی یا انسانی بھلائی کے موضوعات وہ کہاں سے لاتا اور کب تک اُسے تو ہر روز معاوضہ چاہئے تھا اور معاوضہ کے لئے اُسے لکھنا پڑتا تھا۔ ایسا کمرشیل رائٹر قابل معافی ہی ہے مگر ان لوگوں کا کیا کیا جائے جو اُس کو افسانہ نگاری کاولی قرار دے دیتے ہیں۔اُن کے بارے لکھ دیتے ہیں کہ منٹو جیسا نہ پیدا ہوا ہے نہ ہوگا ۔ویسے بھی استاد منٹو سماج اور قوم کا ستایا ہوا انسان تھا ۔مقدموں کی وجہ سے وہ چڑ بھی گیا تھا ممکن ہے شہید ساز انہوں نے چِڑ کر لکھا ہو۔
میرے نزدیک ہر واقعہ پر افسانہ تخلیق نہیں ہوا کرتا اگر آپ کے سامنے کوئی عجیب و غریب واقعہ یاحادثہ آیا ہے تو اُس کو اپنی کسوٹی پر پرکھ لیں کہ اس کا موضوع کیا ہے اس پر افسانہ لکھنا درست ہے یا نہیں ۔یہ افسانہ کوئی مثبت پیغام دے گا یا منفی؟ یہ موضوع کرائم کو بڑھاوا دینے والا تو نہیں ۔ملک کے مفاد میں ہے؟انسانی جذبوں کو زخمی تو نہیں کرتا ؟اگر آپ کے ذہن کی کسوٹی پر موضوع کھرا اُترتا ہے پھر اُس پر محنت کیجئے۔ ہر موضوع جو سامنے آ جائے اُس پر افسانہ لکھنا اچھا نہیں۔ استاد منٹو نے آخر اس موضوع کو کیوں اپنایا۔۔۔۔؟شاید استاد نے یہ خبر پڑھ لی ہو کہ کسی جلسے کی بھیڑ میں بھگدڑ مچی اور تیس آدمی شہید ہوگئے انہوں نے سوچا ہوگا کہ کتنے ہی لوگ ایسے ہی مر جاتے ہیں۔ یہ لوگ تو اچھے رہے جو شہیدی کو مرتبہ پا گئے۔ اگر کوئی ایسے ہی مرنے والوں کو شہادت کا جام پلا ئے یہ بھی بھلا کام ہے۔ اسی نظریہ پہ افسانہ تخلیق کرکے معاوضہ پالیا ہوگا۔ مدیر تو اُس وقت یہی دیکھتے تھے کہ افسانہ منٹو کا ہے چھاپ دو۔آج کا افسانہ محض سوچی ہوئی ، فکری بات نہیں۔ ہمارے افسانے میں سچائی چھپی ہوئی ہوتی ہے اسی لئے آج کے افسانے میں بیان کیا ہوا ماجرا قابل یقین ہوتا ہے۔ بعید از قیاس نہیں۔ گپ نہیں کہ سات سو آدمیوں کو مرنے کا سامان مہیا کردیا ۔’’شہید ساز ‘‘عنوان آدھے افسانے مین ہی گرہ کھول دیتا ہے۔ کہانی پن کی کمزوری نظر آجاتی ہے ۔کلائمکس تو سپاٹ ہے بلکہ اس افسانے کو اینٹی کلائمیکس کہہ لیں تو بہتر۔ دیکھ لیجئے۔
کردار کا فعل تو جاری ہی ہے ابھی تو وہ دوسری بڑی واردات کی پلاننگ کررہا ہے کہ وہ ایک تین منزلہ بلڈنگ بنائے گا گھٹیا میٹریل سے بلڈنگ گرے گی اور وہ تین سو انسانوں کو تین سو مزدوروں کو لقمہ اجل بنا دے گا۔ اُس نے ابھی تو اگلا قدم سوچا ہی تھا کہ استاد نے افسانہ ختم کردیا ۔افسانہ تو وہیں ختم ہو جاتا ہے جب مغلوں کے زمانے کے احاطے کے کمرے گرتے ہیں اور سات سو آدمی جاں بحق ہو جاتے ہیں۔جملہ بھی اختتام ظاہر کرتا ہے۔
’’سب کمروں کی چھتیں نیچے آرہیں اور سات سو آدمی جن میں بچے بوڑھے سبھی شامل تھے شہید ہوگئے۔‘‘
افسانہ وہیں ختم ہو جانا چاہئے تھا کیوں کہ بنیے کا مقصد پورا ہوگیا وہ سات سو آدمیوں کو شہید کا مرتبہ دلادیتا ہے۔ بھئی شہید سازی کا کام مکمل ہو جاتا ہے، بنیے کے بیٹے کو سکون مل جاتا ہے بات ختم۔ بنیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ چوہیا کو بھی نہیں مار سکتے۔ گھر میں سانپ نکل آئے تو کہتے ہیں کسی آدمی کو بلا ئو تا کہ سانپ کو مارا جائے۔ استاد منٹو کے افسانے کا بنیا تو دلیر اور سفّاک ہے جو سینکڑوں کو مار کر بھی گھبراتا نہیں بلکہ مزید پلاننگ کرنا شروع کردیتا ہے۔
یاد رکھیئے ۔۔۔۔۔۔! ادیب قوموں کی سوچ بدل دیا کرتے ہیں۔ ادیب کو بہت سنبھل کر ادب تخلیق کرنا چاہئے ۔اُس کی ذرا سی لغزش نقصان دیہہ ثابت ہو سکتی ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ اُستاد نے ایک کرپشن سے پردہ اُٹھایا ہے یہ بھی درست نہیں ۔اسے کرپشن بھی نہیں کہہ سکتے بنیا لوگوں کو روپے کی خاطر شہید نہیں بناتا۔ یہ بھی ایک سوال ہے۔
دوسرے یہ کہ ملک اور قوم کے تئیں بھی ادیب کا کوئی فرض بنتا ہے۔ مذہب اور انسانیت کے بھی کچھ تقاضے ہوا کرتے ہیں اُن کو بھی مدّنظر رکھنا چاہئے۔ یہ نہیں کہ جو بات سوچ لی غلط صحیح اُسی کو بنیاد بنا کر ادب تخلیق کردیا۔ آخر ہمیں جواب دینا ہے اپنے ہمعصر قارئین کو، آنے والی نسلوں کو ۔
’’کیا اس افسانے کو علامتی سمجھ لیا جائے۔۔۔۔۔۔؟‘‘
یا منٹو استاد نے احتجاج کے طور پر یہ افسانہ لکھا تھا۔ اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے جو بھی آپ کو مناسب لگے استاد تو اپنا کام کرکے چلے اور کب کے منوں مٹّی کے نیچے جا چکے۔
٭٭٭