عرفان کی شادی کو پُورا ایک سال بھی نہ ہوا تھا کہ افروز کی طرف سے شکایت پیدا ہو گئی۔ اِس شکایت کا حقیقی ذمہ دار کون ہے یہ فیصلہ واقعات کریں گے کہ فقط افروز اس کی وجہ نہیں۔ اگر وہ سیر بھر ہے تو آدھ سیر عرفان اور پان سیر مُسلمان۔ بیاہی گئی تو تندرُست تھی چھڑی تھی اور دل کو یہ یقین تھا کہ نکاح کے معنی شوہر کی فرمانبرداری ہیں ، جتنی ممکن تھی کی۔ خُدا کے فضل سے گھر میں نوکر چاکر ، لونڈی ماما سب موجود تھے مگر نہ معلوم اُس اللہ کی بندی کو کیا مزہ آتا تھا کہ عِرفان کا کام آدھی ہو یا پچھلا اپنے ہاتھ سے کرتی اور دُوسرے کو ہاتھ نہ لگانے دیتی۔ چند روز تو یہ چاؤ چونچلے خوب نبھے مگر جب بچہ پیدا ہونے میں دو چار روز ہی رہ گئے اور چھکڑا بن گئی تو جگہ سے ہلنا دوبھر تھا۔ عرفان کی نو عمری بشمول بیوقوفی غرض وجہ جو کچھ ہو نتیجہ یہ کہ وہ بیوی کی مجبوری کو تساہل سمجھنے لگا اور دل ہی میں نہیں کئی مرتبہ اُس کے منہ پر بھی کہہ دیا۔ شوہر کہتا نہ کہتا۔ ہاتھ سے پاؤں سے ، ترکیب سے ، تدبیر سے ، اب جو بھی اِمکان میں تھا افروز اس سے باہر نہ تھی۔ ایک روز رات کے وقت شاید دس بجے ہوں گے ، عرفان کھانا کھا رہا تھا اور افروز پاس بیٹھی ، عرفان کو اچّھو ہوا ، بڑی بی سامنے موجود تھیں مگر اُونگھ رہی تھیں ، صُراحی دُور تھی ، افروز اُٹھی مگر مُصیبت سے اُٹھی اور مشکل سے چلی۔ جب تک پانی آئے اچھو اور تیز ہوا اور اِس اَور کا کہ آنکھیں نکل پڑیں ، پانی آیا مگر دیر میں اور دقت سے۔ عرفان نے پانی بھی پی لیا اور اچھو بھی جاتا رہا مگر آدھے پیٹ اُٹھ گیا اور کہنے لگا ،
”تم تو بالکل ہتیا ہو گئیں۔ عورتوں کی تکلیف تو عارضی ہوتی ہے ، مَردوں کو ہر وقت ایسی ایسی اَذّیتیں پیش آتی رہتی ہیں اگر وہ بھی تُمہاری طرح ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائیں تو دُنیا کے کام ہی ٹھنڈے ہوں ، ابھی میرا دَم نکل جاتا۔ بھلا غضب خُدا کا ،گھنٹہ بھر میں پانی لائی ہو۔“
یہ سال بھر میں پہلا اتفاق تھا کہ افروز نے شوہر کی ایسی گفتگو سُنی ، خاموش ہو گئی کوئی جواب نہ دیا۔ عرفان بڑبڑاتا باہر چلا گیا اور وہاں سے کہلا بھیجا کہ میں چند روز کے واسطے باغ جاتا ہوں۔
اس واقعے کی ذمہ داری کِس پر ہے یہ ایک ٹیڑھا سوال ہے ، قُصور عرفان کا ہے یا افروز کا ، اس کا جواب مشکل ہے ، ہم تو جہاں تک غور کرتے ہیں ہماری رائے میں قُصوروار ہیں تو دونوں اور بے قُصور ہیں تو دونوں۔ اس سلسلے میں اگر یہ کہا جائے تو شاید بے جا نہ ہو گا۔ افروز اگر شروع ہی سے انجام کو ملحوظ رکھتی اور عرفان کی عادتیں اس حد تک نہ بگاڑتی کہ وہ مزے سے پلنگ پر لیٹا ہوا ہے ، مامائیں سو گئیں اور خُود لالٹین لیکر مکان کا دروازہ بند کرنے جا رہی ہو ، تو غالباً یہ وقت نہ آتا۔
لیکن جب اُس کے اِس تعلق کا مقصد ہی عرفان کا دل فتح کرنا تھا تو وہ اس سے بھی چوگنی خدمت کرتی اعتراض نہیں۔ خیر اب یہ فیصلہ سننے والے اور پڑھنے والے کریں کہ ذمہ دار کون ہے ، میاں یا بیوی ؟ ہاں اتنا کہنے میں ہمیں بھی باک نہیں کہ عرفان کے منہ پر آنکھیں ہوتے ساتھے اندھا تھا۔ نوکر اور غُلام تک مجبُوری میں معذُور ہیں۔ ممکن ہے افروز کا درجہ اُس کی رائے میں نوکر سے بھی بَدتر ہو اور ممکن کیا ہے یقیناً تھا ورنہ یہ نوبت کیوں آتی۔
عرفان کے جانے کے بعد افروز معاملہ کی نوعیت پر غور کرنے لگی تو اُس کو قُصور تو نہیں مگر اپنی غفلت ایمان کے آئینہ میں صاف نظر آ رہی تھی۔ پہلی یہ کہ کھانے سے پہلے پانی کی صُراحی اپنے پاس کیوں نہ رکھوائی اور دُوسری یہ کہ اگر خُود معذُور تھی تو ماما سے فوراّ پانی کیوں نہ مانگا۔ سوچتے سوچتے اُس کا تخیّل اس سلسلے میں شادی کے مسئلہ پر ٹھٹکا اور وہ بالآخر اس نتیجے پر پہنچی کہ
ہمارے موجودہ تمدن کو ملحوظ رکھتے ہوئے شادی کی ضرورت لڑکے سے زیادہ لڑکی کو ہے ، غلط ہے یا صحیح یہ دُوسری بحث ہے مگر حقیقت یہی ہے۔ کُوار پتہ کا زمانہ طویل ہونے سے جو کرب لڑکی کے والدین کو ہوتا ہے ، لڑکے کے نہیں ہوتا۔ لڑکے والوں کی جو حقیقت ہے اُس کو ارمان کہہ سکتے ہیں ، خواہش کہہ سکتے ہیں ، تلاشِ مُسرت کہہ سکتے ہیں ، لیکن لڑکی والوں کی کیفیت تعبیر ہو گی۔ ایک اضطراب سے ایک کرب سے ایک پریشانی سے۔ اِن حالات میں عرفان کا اپنی آمدنی میں میرا بار ڈالنا اور اُس کو بآسانی گوارا کرنا اس وقت جائز ہے کہ میں اس کے واسطے وجہِ راحت ہوں۔ اگر مجھ سے اس کو آرام نہ پہنچے تو وہ دیوانہ ہے جو میرے حقوق ادا کرے اور میں بے غیرت کہ اپنے حقوق کا مُطالبہ کروں۔
عرفان باغ میں پہنچا تو راستہ بھر اِن ہی خیالات میں مُستغرق اور وہاں پہنچ کر اسی اُدھیڑ بن میں مُنہمک۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ نقصان جو مجھ کو پہنچا یعنی خاصی اچھی بھلی چنگی خدمت کرنے والی بیوی جس نے سال بھر تک نوکر اور ماما ، عزیز اور اقارب سب کو پَرے بٹھا دیا بالکل بیکار ہو گئی۔ اس کی کیا تلافی کروں۔ اگر افروز شروع ہی سے مجھ کو اس راحت و آسائش کا عادی نہ بناتی تو مجھ کو شکایت نہ تھی۔ میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ مگراپن کرتی ہے اور جان بُوجھ کر کام چور بنتی ہے ، مگر ہاں یہ شاید کہہ سکتا ہوں کہ وہ اگر چاہے تو اس سے زیادہ کر سکتی ہے جتنا کرتی ہے آخر اسی حالت میں پرسوں اپنے دوپٹہ پر کنارہ ٹانکا اور میرے شامی کباب ماما کے سُپرد کر دیئے۔
اِن دونوں مُسلمان میاں بیوی کے خیالات سننے اور یہ دیکھنے کے بعد کہ ایک مُسلمان لڑکی کی گھُٹی میں یہ بات پڑی ہوئی ہے کہ وہ صرف مرد کی خدمت کو بنائی گئی ہے ، مساوات تو درکنار ، وہ بھُول کر بھی شوہر کے مقابلہ میں اپنی ہستی کو ذرہ بھر وقعت نہیں دے سکتی۔ اور ایک مُسلمان شوہر کو یقینِ کامل ہے کہ بیوی بھی ایک قسم کی لونڈی ہے اور اُس کا یہ فرض ہے کہ دن رات میری خدمت میں مصروف رہے ، کیا کوئی مسلمان یہ کہنے کی جُرأت کر سکتا ہے کہ عورت کی وقعت اسلام نے سب سے زیادہ کی اور اگر یہ حقیقت ہے تو کیا قوم اس پر عمل کر رہی ہے ؟ اور اگر نہیں تو اس کی ذمہ داری شوہروں پر ہے یا بیویوں پر ؟
آسمان پر اب تک پانی وہونتال برس چکا تھا ، سیاہ گھٹا چھائی ہوئی تھی۔ بجلی اور بادل کے خاموش ہونے پر عرفان نے اپنی پلنگڑی باہر صحن میں بچھوائی ، اسی اُلجھن میں لیٹا اور اسی چکر میں سویا۔ آنکھ لگی تو ایک عجیب خواب نظر آیا ، دیکھتا کیا ہے۔
ایک عظیم الشان جیل خانہ میں کھڑا ہے جہاں ہر طرف قیدی ہی قیدی بھرے ہیں۔ اُن کے پاؤں میں بیڑیاں ہیں گلے میں طوق ہیں۔ دوپہر کا وقت ہے ، گرمی کا موسم ، لُو کے تھپیڑے زور و شور سے چل رہے ہیں ، مگر ان قیدیوں کو مُشقت سے دم بھر کو چھُٹکارا نہیں۔ ایک جمعدار آتا ہے دوچار ڈنڈے لگا کر آگے بڑھ جاتا ہے ، دوسرا آتا ہے ایک آدھ لات لگا سیدھا ہو لیتا ہے ، جو برابر سے گزرتا ہے وہ بھی بغیر گھُرکی اور درُشتی کے بات نہیں کرتا۔ قیدی تکلیف سے اُکتا رہے ہیں ، مگر مُشَقّت میں کمی نہیں کرتے ، سر سے پاؤں تک پسینہ میں شرابور ہیں لیکن تیوری پر بل نہیں آتا ، پِٹ رہے ہیں اور ہنس رہے ہیں مر رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔ عرفان یہ سماں دیکھ کر سخت متعجب ہوا اور دل میں کہنے لگا یہ کیسے سنگدل لوگ ہیں کہ اِن بے کس قیدیوں پر رحم نہیں آتا۔ اور یہ قیدی کتنے سیدھے اور کیسے بھولے ہیں کہ ہر تکلیف میں خوش اور ہر اذیت میں رضامند ہیں۔ دن فنا ہو کر رات ہوئی ، رات ختم ہو کر فجر ، مگر اِن بَد نصیب قیدیوں کی اذیت کا خاتمہ نہ ہوا۔ کمال یہ تھا کہ مُحافظ اور نگران خُود زندگی کا لُطف اُٹھا رہے ہیں مگر اُن پر ہر راحت حرام کر رکھی تھی ، دروازے چاروں طرف کھُلے ہوئے تھے ، راستہ عام تھا مگر قیدی اس جیل خانہ کے ایسے عاشق تھے کہ یہاں سے ان کے جنازے تک نکلتے تھے مگر وہ خود نکلنے کا نام نہ لیتے تھے۔
س عرفان چاہتا تھا کہ یہاں کا حال کچھ معلوم کرے کہ ایک نو وارِد کو دیکھا جو داروغہ سے ایک قیدی کو آزاد کرا رَہا تھا ، بیتاب ہو کر پُکارا اور خاموش ہو گیا۔ اب اور بھی زیادہ عرفان کو حیرت ہوئی۔ داروغہ آزادی پر رضامند تھا اور بہ خُوشی قیدی کو دے دینے کو آمادہ ، مگر اُس کے آرام و آسائش کی نہایت کڑی شرطیں لگا رہا تھا۔ نو وارِد نرم آدمی تھا قیدیوں کی مُصیبت پر دل پسیج گیا اور جو جو شرائط داروغہ نے پیش کیں سب منظُور کر لیں۔ عرفان کو سکتہ تھا کہ منجملہ بہت سی شرائط کے اس قیدی کی بیع دو ہزار رُوپے کی ہُوئی اور جب نو وارِد رُوپے دے چکا تو داروغہ نے اُس قیدی کو جس پر اب تک غلاموں کی طرح حکومت کر رہا تھا بُلا کر گلے لگایا اور کہا تُم آج ہم سے رُخصت ہوتے ہو ، یہ رُوپیہ اپنے پاس رکھو۔ خُدا تمہارا مالک شریف اور رحیم ہو ، تمہاری اس وقت تک کی خدمات کا پروانہ ہے ، جاؤ خُدا تم کو خوش رکھے۔ نو وارِد آگے آگے اور قیدی اُس کے پیچھے پیچھے اور دونوں کے پیچھے عرفان۔ کیفیت دیکھتے چلے جا رہے تھے کہ مالک کو پیاس لگی اور اُس نے قیدی سے کہا ، جا کنوئیں سے پانی بھر لا۔ رات کا وقت ، اندھیرا گھُپ ، نامعلوم جگہ ، ناواقف آدمی ، بھٹکتا بھٹکتا گیا اور پانی لایا مگر بجائے شاباش کے مالِک نے اُس قیدی کے دیر لگانے پر بُہت بُرا بھلا کہا۔ عرفان اُس مالک کی حرکت پر جَل رہا تھا کہ اُس نے قیدی سے پاؤں دبانے کو کہا۔ غُلام کو عُذر کیا ہو سکتا تھا ، دبانے بیٹھا تو حُکم دیا ، ایک ہاتھ سے پاؤں دبا ایک ہاتھ سے پنکھا جَھل۔ دو گھنٹے بعد مالک بیدار ہوا تو گرمی سخت تھی۔ قیدی کے ایک لات ماری اور کہا سیدھی طرح پنکھا کیوں نہیں جَھلتا۔ عرفان رنگ دیکھ کر مالک پر دل ہی دل میں لعنت ملامت کرنے لگا۔ اب صبح ہو چکی تھی۔ مالک نے قیدی کو کھانا پکانے کا حُکم دیا ، مگر افسوس قیدی مارا مار کھانا تیار کر کے لایا تو مالک کی ناپسند تھا۔ کہیں نمک کم تھا تو کہیں مِرچ زیادہ۔ قیدی خاموش کھڑا تھا۔ مالک نے کھانا اُٹھا کر پھینک دیا اور یہ کہہ کر باہر چلا گیا ،
”جب تک میں نہ آؤں دروازہ کھُلا اور تُو جاگتا رہے۔“
اب عرفان سے ضبط نہ ہو سکا ، وہ آگے بڑھا اور مالک سے کہنے لگا ،
”حضرت اس سے تو یہ بدنصیب قیدی جیل خانہ ہی میں اچھا تھا۔“
عرفان کے اتنا کہتے ہی قیدی اور مالک دونوں غائب تھے ، البتہ دیوار پر موٹے موٹے حرفوں میں یہ لکھا ہوا تھا۔
”بیوقوف دُوسروں کو ٹوکتا ہے اور خُود کرتا ہے۔“
”تُو بھی تو اِسی گُناہ کا مُرتکب ہے۔ وہ بیکَس قیدی جن پر تیرا دِل کُڑھا ، مُسلمانوں کی کُنواری بچیاں ہیں جو حقیقتاً تو نہیں اس لئے کہ کلیجے کا ٹکڑا ہیں مگر حالات کے اعتبار سے قیدیوں ہی کے برابر ہیں۔ صبح سے شام تک اور شام سے رات تک گھر کے کام کاج میں جُتی رہیں ، پُتلی کی طرح ایک ٹانگ سے پھریں ، ماں باپ کا غُصہ اِن پر ، بڑے بہن بھائیوں کی فضیحتی اِن پر ، کہیں آنے جانے کا حُکم اِن کو نہیں ، کسی سے ملنے جُلنے کی اجازت اِن کو نہیں ، کیا یہ حالت قیدیوں کی سی نہیں ہے ؟ اس حالت پر اعتراض نہیں ؟ زمانہ کا تقاضہ اور وقت کی ضرورت سب صحیح ، مگر کیا یہ رحم کی مُستحق نہیں ؟ اِسی کی سزاوار ہیں کہ بھائی کے موزے میں ٹانکا نہیں بھرا تو ہزار فضیحتیں اور اباجان کے کام کو دیر ہو گئی تو ہزار ملامتیں۔ غور کرو تو شادی ایک قسم کی آزادی ہے کہ وہ احتیاط اور روک ٹوک سب ختم ہوئی ، اب جس نے آزاد کرایا وہی صیّاد ہو جائے تو اُس سے خُدا ہی سمجھے۔“
عرفان اتنا ہی پڑھنے پایا تھا کہ آنکھ کھُل گئی اُس وقت دل کی حالت کچھ اور ہی تھی۔ افروز کی مجبُوری اور اپنی زیادتی سامنے تھی اور رَونگٹا رونگٹا اپنے اُوپر ملامت برسا رہا تھا۔ کہتا پر نکل آئیں تو اُڑ کر جاؤں اور افروز سے معافی مانگوں۔ مُشکل سے رات کاٹی ، خدا خدا کر کے صبح ہوئی ، تو کیسا کھانا اور کس کا پینا اور کس کا ناشتہ ، آندھی کی طرح چلا اور بگولے کی طرح پہنچا۔ نادم و شرمسار اندر گیا تو سب سے پہلے اپنے بچہ پر نظر پڑی جو ایک انّا کی گود میں تھا ، اور اس کے بعد ایک پرچہ پڑھا جو چھوٹی بہن نے لا کر دیا ، جس میں لکھ تھا ،
میرے سرتاج واقعی مجھ سے خطا ہوئی اور میں قصُور وار ہوں مگر آپ اپنے رحم و کرم سے لللہ معاف کر دیجئے۔ آپ آقا ہیں میں کنیز ہوں۔ زبردست اور کمزور کی لڑائی کیا ، مجھے کافی سزا مل گئی ہے کہ آخر وقت بھی آپ کی صُورت نہ دیکھ سکی ، میرا بچہ آپ کے پاس امانت ہے ، اِس کی دلجوئی کیجئے ، یہ خُدا کے سُپرد ہے ، میری حالت بگڑ گئی ، اماں جان سے ہر چند درخواست کی ، اُنھوں نے لیڈی ڈاکٹر کو نہ بُلایا۔ ہندوستانی دائی انگھڑ تھی ، ظالم نے جان لے کر پیچھا چھوڑا ، مُجھ کو اپنے قصُور کی کافی سزا مل گئی کہ دَم آنکھوں میں ہے مگر نگاہ دروازہ پر اور کان آواز پر۔ دُنیا کے آئندہ تعلقات خُدا کرے آپ کے واسطے خُوش گوار ہوں مگر میری آخری التجا ہے کہ اِس درخواست کو پڑھتے ہی میری خطا معاف کر دیجئے ، میں عذابِ آخرت سے محفوظ رہوں۔ ارمان تھا کہ اپنے ہاتھ سے پیوندِ زمین کرتے ، دِل کی حسرت دل ہی میں رہی ، اچھا میرے سرتاج ! دونوں باپ بیٹوں کا خُدا نگہبان۔
پرچہ پڑھتے ہی عرفان کو سناٹا آگیا۔ معلوم ہوا کہ افروز کو مَرے تیسرا روز ہے۔ قبر پر گیا مگر زندگی کی نخوت ایمان کا ایسا نقصان کر چکی تھی جس کی تلافی دوسری زندگی بھی نہ کر سکتی تھی۔
1921ء