یار یہ ۔۔ہم سٹوڈنٹس کی تو زندگی برباد ہو جاتی ہے جب ہم یونی میں قدم رکھتے ہیں …وہ کتاب کو پٹختے ہوئے بولا …۔
کیا ہوگیا …۔آرام سے ۔۔باسط نے دل پر ہاتھ رکھتے ہوئے اسے ٹوکا ۔۔وہ دونوں رات کے وقت ویڈیو کال پر بات کر رہے تھے ۔۔اور کال بھی حدید نے ہی کی تھی باسط سے ایک سوال سمجھنے کے لئے ۔
نہیں مطلب …یہاں پڑھائی کم ۔۔پیپر زیادہ ہوتے ہیں ۔۔مڈ ختم ہوا تو فائنل اور فائنل ختم ہوا تو مڈ …اب تو مجھے لگتا ہے اگر اسی دوران میری موت ہوئی تو شہادت کا رتبہ حاصل ہوگا ۔۔سچی …۔
وہ بالوں کو مٹھی میں جکڑتے ہوئے بولا …۔
فائنل ہونے کی وجہ سے اسے اپنے گریڈ کی پریشانی تھی جبھی اس بار وہ دل لگا کر پڑھنے کی کوشش کرنے لگا …
مگر … !!
بے سود …۔!!
کیوں کہ جب حدید نے کتاب کھول کر آدھا پیج بھی پڑھا نہ تو اسکی امی کے بقول ۔۔
” وہ دن …اسکی پیدائش سے بھی زیادہ سنہرا اور شاندار ہوگا ۔۔”
اچانک اسے مناہل کی آواز سنائی دی جو شاید باسط کو چائے دینے کے ساتھ ساتھ کھانے کا بھی پوچھ رہی تھی ۔۔
وہ موبائل سے اسے دیکھنے کی کوشش کرنے لگا مگر ناکام ۔۔۔۔۔!!!!
البتہ ہاں چہرہ نہ سہی مگر اسے مناہل کی چوڑیوں سے بھری کلائی ضرور نظر آئی ۔۔
فکر نہیں کرو …کل ویسے بھی آخری پیپر ہے ۔۔۔پھر اسکے بعد آزادی …باسط کے تسلی بھرے لہجے سے وہ اسکی جانب متوجہ ہوا ۔۔
مگر اب پڑھائی کہاں ہونی تھی ۔۔اب تو اسکے تصور میں ڈوبنا تھا ۔۔۔
” پھر _ کتابوں _ میں _ کوئی _اور _بسا _ ہے
عشق _ ہوجائے _ تو _ پڑھائی _ بھی _ بری _ لگتی _ ہے ”
حدید تو اپنے کام میں مصروف ہو گیا ۔۔مگر باسط ۔۔۔!!!!
جو آزادی کے ارادے اور سنہرے مستقبل کے خواب بن رہا تھا وہ یہ بھلا بیٹھا تھا کہ آزادی بھی بھرپور کوشش کرنے کے باوجود ہی ملتی ہے ۔۔کئی مشکلوں سے گزرنے کے بعد ۔۔
اتنی مشکلات کے باوجود اسے آگے کن مشکلات کا سامنا کرنا تھا یہ تو وقت ہی بتاۓ گا ۔۔۔
۔***************۔
انتظار _ یار بھی لطف _ کمال ہے
نظریں کتاب پر ہیں اور سوچیں جناب پر
تابین ۔۔نہ تم خود پڑھ رہی ہو اور نہ ہی مجھے پڑھنے دے رہی ہو اس سے اچھا ہے کہ میں گھر چلی جاؤں ۔۔وہ زچ ہوتے ہوئے بولی ۔۔
ارے نہیں نہیں تم نہیں جانا ۔۔گر تم گئی تو میرا کیا ہوگا ۔۔تابین نے جلدی سے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکنا چاہا ۔۔
ٹھیک ہے اگر اس بر تم نے دھیان نہ دیا تو خیر نہیں ۔۔۔امل سیدھا دھمکی پر اتر آئی ۔۔
ارے امل تو بڑی ہو گئی ہے ۔۔اب دھمکی دینے بھی لگ گئی ۔۔اناسہ چائے لیتے ہوئے نمودار ہوئی ۔۔
ایسی ۔۔ویسی ۔۔!!تابی نے چائے کا کپ تھماتے ہوئے لقمہ دیا ۔
” ارے اب تو ہماری امل بولنے بھی لگی ہے ۔۔اور تمہیں پتا ہے اکیلے مارکٹ بھی چلی جاتی ہے ۔۔یقین نہیں آتا یہ وہ امل ہے جو گھر سے باھر اکیلے قدم رکھنے سے بھی کانپتی تھی ۔۔”
کیا واقعی ۔۔۔۔؟؟ اناسہ تعجب کیئے بغیر نہ رہ سکی ۔۔۔
امل کھا جانے والی نظروں سے تابی کو گھورنے لگی ۔۔
کس کی صحبت کا اثر ہے ہاں ۔۔۔اناسہ اسے چھیڑھنے والے انداز میں گویا ہوئی ۔۔
میں بتاؤں ۔۔۔؟ آنکھوں میں چمک لئے تابین نے کہا ۔۔
امل اسکے رویئے پر حیران رہ گئی کہ نہ جانے اب تابین کیا بولنے والی تھی ۔۔۔
۔**************۔
شادی والا گھر ہے ہزاروں کام پڑے ہیں اور تم ہو کہ یہاں ٹانگ پر ٹانگ جمائے مزے سے بیٹھے ہو ۔۔حدید نے اسے ایک لت جڑتے ہوئے کہا وہ سیدھا نیچے کی جانب گرا ۔۔۔
کیا یار ۔۔۔۔۔۔!!
دیکھ نہیں رہے ایک بہت بڑا کام کر رہا ہوں ۔۔وہ منہ بناتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا ۔۔
ہمم ۔۔۔یہ سوچنے والا کام ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
حدید نے منہ بناتے ہوئے کہا ۔۔۔
آ آ ۔۔۔ہاں ۔۔۔۔ علامہ اقبال نے جب یہ سوچنے والا کام کیا تھا ۔۔ تو انھیں شاعر مشرق کے لقب سے نوازا گیا ۔۔اور تو اور یوں بیٹھنے والی پوٹریٹ بھی بنا لی ۔۔۔اسنے اشاروں سے بتانا شروع کیا ۔۔
گر میں یہ کام کروں تو مذاق ہاں ۔۔۔۔۔واہ مولا تیری شان ۔۔وہ طنزیہ انداز میں کہتے ہوئے دوبارہ صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر بیٹھ گیا ۔۔
انہوں نے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں سوچا تھا ۔۔تبھی انھیں اس لقب سے نوازا گیا ۔۔
حدید فون میں مصروف ہوتے ہوئے بولا ۔۔
پر میں اپنے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہوں ۔۔وہ نہ آنے والے آنسو صاف کرتے ہوئے بولا ۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔؟ حدید پوچھے بغیر نہ رہ سکا ۔۔
وہ جو شزا کی دوست تھی نہ ماہ نور ۔۔۔وہ جسکا نمبر تو نے دیا تھا ۔۔۔اب وہ بات ہی نہیں کر رہی ۔۔۔اسے یاد دھیانی کراتے ہوئے وہ گویا ہوا ۔۔
اچھا وہ ماہ نور ۔۔۔۔یاد آنے پر حدید گویا ہوا ۔۔۔
اگر شزا ۔۔۔چھوٹی ممانی ہو سکتی ہیں تو ۔۔ماہ نور ۔۔۔پاس سے گزرتی ہوئی اناسہ نے لقمہ دیا ۔۔۔۔
دونوں کچھ کچھ سمجھتے ہوئے بیک وقت اسکی جانب مڑے ۔۔
مطلب ۔۔۔۔۔امی ۔۔۔۔۔ولید نے تصدیق کرنا چاہی ۔۔
ہاں جی امی ۔۔۔۔!!
امی مر گئے ۔۔۔۔!!!!
وہ دونوں سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔۔۔مطلب اب بڑی پھپھو کے ہاتھوں درگت جو بننی تھی ۔۔۔
۔**************۔
ہر بار کی طرح اس بار بھی سب کو یقین تھا کہ ٹاپ پر باسط نے ہی آنا ہے ۔۔
ہر طرف مقابلے ہونے لگے ۔۔ٹاپ پر آنے کے چکر میں سب کے دلوں میں جلن کا کیڑا ابھرنے لگا ۔۔۔
یہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔؟ظفر کی کاروائی دیکھتے ہوئے اسکے دوست نے حیرت سے پوچھا ۔۔
بڑے پر نکل آئے ہیں نہ اس بونگو کے ۔۔آج اسکو پتا چلے گا ۔۔۔
واہ بھائی ۔۔۔تسی گریٹ ہو ۔۔۔بات سمجھ آنے پر اسکا دوست اسے داد دیئے بنا نہ رہ سکا ۔۔
چلو ۔۔پیپر کا وقت ہوا چاہتا ہے ۔۔۔۔وہ اسے شانوں سے پکڑتے ہوئے آگے بڑھ گیا ۔۔۔
۔*************۔
سب نظم و ضبط سے بیٹھے پیپر لکھنے میں مصروف تھے ۔۔
سر حمید باری باری سب پر نظر رکھتے ہوئے ارد گرد چکر کاٹ رہے تھے ۔۔
جونہی انکی پشت ظفر کی جانب ہوئی ۔۔ظفر نے موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سب سٹوڈنٹس کو کام میں مصروف دیکھتے ہوئے اپنا کام کر گیا ۔۔۔
وہ وقت کو دیکھتے ہوئے اپنے کام میں اس قدر مصروف تھا جبھی آس پاس کا دھیان ہی نہ رہا ۔۔
حدید جو اس سے دو قدم کے فاصلے پر بیٹھا اسے آوازیں دینے میں مصروف تھا ۔۔اسکی توجہ نہ پاکر اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔۔
اب اس سے کیسے پوچھوں یہ تو آ بھی نہیں رہا ۔۔وہ بڑبڑانے لگا ۔۔
کیا ہوا ۔۔۔۔؟ پیپر بہت مشکل ہے ۔۔۔؟ سر حمید اسے اس طرح بیٹھا ہوا دیکھ کر طنزیہ بولے ۔۔
آہ سر ۔۔۔وہ چونکتے ہوئے گویا ہوا ۔۔
اتنے سارے سٹوڈنٹس ۔۔جو ماشاءاللّه مجھ سے بھی زیادہ زہین ہیں ۔۔انکے لیول کا پیپر میں سولو کر رہا ہوں ۔۔کم بات تھوڑئی ہے ۔۔۔اس نے سٹوڈنٹس پر نظر دوڑاتے ہوئے کہا ۔۔
پیپر تو بہت آسان ہے ۔۔بہت آسان ہے ۔۔۔بہت ت ۔۔۔۔آنکھیں پوری طرح باھر نکالے اس نے بہت پر زور دیتے ہوئے کہا ۔۔
تو سیدھا سیدھا بول دیتے کہ پیپر آسان ہے ۔۔اتنا بکواس کرنے کا کیا ضرورت ۔۔۔سر حمید کڑھتے ہوئے بولے ۔۔
وہ سر کو کھجاتے ہوئے شرمندگی سے آس پاس تکنے لگا ۔۔
سر ۔۔ٹیڑھا آپ کو سمجھ نہیں آتا ۔۔اور سیدھا سیدھا میں بول نہیں سکتا ۔۔۔اسکی اس بات پر سب کی ہنسی چھوٹ گئی ۔۔
ناؤ کنٹینیو یور پیپر ۔۔۔وہ تلخ لہجے میں کہتے ہوئے آگے بڑھے ۔۔مگر جونہی وہ باسط کے پاس سے گزرے تھے اچانک باسط کی سیٹ سے کچھ انکے قدموں میں آگرا ۔۔۔
وہ ٹھٹھک کر توجہ سے اسے دیکھنے لگے ۔۔
غصے میں کڑھتے ہوئے باسط کے اوپر برس پڑے ۔۔۔
مسٹر باسط ۔۔یہ کیا ہے ۔۔۔؟اسکے سامنے چٹ لہراتے ہوئے پوچھنے لگے ۔۔۔
انکی بلند آواز سے ساری کلاس اس جانب متوجہ ہو گئی ۔۔
سر ۔۔۔یہ تو پیج ہے ۔۔۔۔باسط نے نرم لہجے میں جواب دیا ۔۔
یہ پیج نہیں ۔۔پرچی ہے مسٹر باسط ۔۔۔ناؤ اسٹینڈ اپ اینڈ گیٹ لاسٹ ۔۔۔۔
سر ۔۔۔۔وہ حیرانگی جیسے ملے جلے تاثرات سے یہ کہتے ہوئے کھڑا ہو گیا ۔۔
جہاں باسط اور ساری کلاس حیران تھی وہاں ظفر اور سر حمید کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔۔۔
سر میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔یہ میری نہیں ۔۔۔۔وہ کانپتے ہوئے جلدی سے بولا ۔۔
ایک تو چیٹنگ کرتے ہو اوپر سے زبان چلاتے ہو ۔۔ابھی تمہیں پتا چلے گا ۔۔۔
واہ واہ ۔۔اچھا تو یہ راز ہے ٹاپ پر آنے کا ۔۔۔ظفر نے بھی جلتی پر تیل پھینکا ۔۔۔
سر یہ غلط ہے ۔۔۔جھوٹ ہے ۔۔فریب ہے ۔۔۔باسط ایسا نہیں کر سکتا ۔۔۔۔امل نے اسکی صفائی میں کچھ کہنا چاہا ۔۔
جی سر ۔۔۔جب کے آپ کو پتا ہے باسط ایسا کر ہی نہیں سکتا ۔۔حدید نے بھی اپنا حصہ ڈالنا چاہا ۔۔۔
مگر سر حمید تو کچھ سننے کے لئے تیار ہی نہ تھے ۔۔۔
۔*************۔
اب کیا ہوگا ۔۔۔۔۔کتنی مشکل سے وہ یہاں تک پہنچا تھا ۔۔۔اس وقت وہ پرنسپل کے سامنے پیش تھا جبھی وہ سب آفس کے باھر چکر کاٹ رہے تھے ۔۔
مجھے تو یقین ہی نہیں آرہا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے ۔۔تابین منہ میں انگلی دبائے کچھ سوچنے لگی ۔۔۔
کیا پتا اچھی جاب پانے کے لئے اسنے ایسا کیا ہو ۔۔۔حزیفہ جو ان سب معاملات میں خاموش تھا فوراً ہاتھ باندھتے ہوئے رسانیت سے بولا ۔۔
اتنا سج دھج کر وہ تیار ہو کر آیا تھا کے تابین کو سب کے سامنے پھول پیش کرے گہ ۔۔مگر فٹے منہ ۔۔۔سارے منصوبہ بندی پر پانی پھر گیا ۔۔
ہو نہ ہو ۔۔یہ کسی کی سازش ہے ۔۔۔
سب ککے دماغ میں عجیب سے خیالات گردش کرنے لگے ۔۔۔
اور ایک وہ ۔۔۔جو سب کے سامنے پیش ہو کر گھبراہٹ اور بے بسی کے مارے اپنی صفائی میں بھی کچھ نہ کہہ سکا ۔۔
مسٹر باسط ۔۔۔میں تمہیں ایک آفر دیتا ہوں ۔۔۔اگر تم مان لے تو تمہارے لئے فائدہ ہوگا ۔۔۔
سر حمید نے اسے اپنے آفس میں بلاتے ہوئے کہا ۔۔۔
اسے اپنا مستقبل ڈوبتا ہوا دکھائی دیا ۔۔۔وہ خالی خالی نظروں سے انھیں دیکھنے لگا ۔۔سب کو صفائی پیش کرتے کرتے اب وہ تھک چکا تھا ۔۔۔
تمہاری پرفارمینس شروع سے بہت اچھی رہی ہے ۔۔۔۔ہنڈریڈ میں سے نائینٹین پرسنٹ چانس ہیں تمہیں ایک بہترین جاب مل سکتا ہے ۔۔اور تو اور فورن کنٹری سے بھی تمہیں بیسٹ آفر مل سکتا ہے اگر تم اس بار بھی ٹاپ پر آئے ۔۔
لیکن سر میں قسم کھانے کو تیار ہوں میں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ۔۔۔لہجے میں بیزاری نمو دار کرتے ہوئے وہ کہنے لگا ۔۔
لیکن سب کو تو یہی لگ رہا ہے نہ کہ یہ تم نے کیا ہے ۔۔۔
میں تمہیں اس معملے میں بچا سکتا ہوں ۔۔۔مگر ۔۔۔۔
تمہیں بدلے میں ایک کام کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔
کیسا کام ۔۔۔؟وہ چونکے بنا نہ رہ سکا ۔۔۔
۔**************۔
سر حمید سے ہونے کے بعد وہ سب سے الگ تھلگ بینچ پر بیٹھا ۔۔بیشمار سوچوں میں شکار تھا ۔۔
سر حمید کی باتیں اسکے ذہن میں گونجنے لگیں ۔۔۔۔
ایک طرف سر حمید کی باتیں تو دوسری طرف اپنا اور مناہل کا مستقبل ۔۔۔
وہ رو دینے کو تھا ۔۔جبھی کسی کا نرم ہاتھ کندھے پر محسوس کرتے ہوئے فوراً مڑا ۔۔۔
امل کو دیکھتے ہوئے اسنے اپنی آنکھیں رگڑیں ۔۔
سب کو پتا ہے کہ تم نے کچھ نہیں کیا ۔۔۔۔مگر ۔۔۔وہ اسکے ساتھ بیٹھتے ہوئے بولی ۔۔۔
مگر سب کی زبان پر تالے لگ چکے ہیں صرف اس وجہ سے کہ کہیں صفائی دینے کے چکر میں وہ نہ پس جائیں ۔۔۔وہ اسے سمجھانے لگی ۔۔
مجھے اپنے مستقبل کی نہیں ۔۔۔مناہل کی فکر ہے ۔۔۔با مشکل ہی آنسو پر قابو پاتے ہوئے وہ بولا ۔۔
اسنے بہت خواب دیکھ رکھے ہیں ۔۔جو پورے ہونے سے پہلے ہی کرچی کرچی ہونے لگے ہیں ۔۔۔۔آخر کار وہ رو دیا ۔۔۔
اسکے آنسو دیکھتے ہی امل کے آنسو بھی چھلک پڑے ۔۔۔
باسط ۔۔۔۔
یہ قانون ہی ایسا ہے ۔۔جہاں کمزور ہی پستے ہیں ۔۔۔اگر سر کتے کا بچہ بھی کہے تو سر جھکا کر انکی ہاں میں ہاں ملا لو ۔۔ورنہ وہ کیا کر سکتے ہیں اسکا اندازہ تمہیں بھی نہیں ۔۔۔
میں کیا کروں ۔۔۔۔میں تو آواز بھی نہیں اٹھا سکتا کیوں کہ کمزور جو ہوں ۔۔وہ بالوں کو مٹھی میں جکڑے کہنے لگا ۔۔۔
اسکی حالت دیکھتے ہی امل کا دل پھٹنے کو تھا اسنے سوچ لیا تھا کہ وہ سارا الزام اپنے سر لیگی ۔۔۔
۔***************۔
اشرف یعقوبی: جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کا شاعر
اشرف یعقوبی کا کولکاتا مغربی بنگال سے ہے، آپ جدید احساسات اور خوبصورت خیالات کے شاعر ہیں ان کی غزل...