رات کا سماں تھا ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا آسمان پر چاند پورے آب و تاب کے ساتھ روشن تھا چودویں کا چاند ہر طرف ہلکی ہلکی روشنی کئے ہوئے تھا وہ اسلام آباد ایئرپورٹ سے سیدھا گھر روانہ ہوا اسے پہلے جا کر چاچی کو تسلی دینی تھی انہیں اس وقت کسی بہت اپنے کے سہارے کی ضرورت تھی اس نے سوچھا تھا وہ اب کی بار گیا تو کبھی لوٹ کر نہیں آئے گا مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا وہ ایک دن کی دوری بھی سہ نہیں پایا تھا
گھر میں داخل ہوا تو گھر لوگوں سے بھرا پڑا ہوا تھا کوئی اداس تھا کوئی کسی سے کسی موضوع پر بات کر رہا تھا ایک طرف کلثوم بیگم خاموش بیٹھی نظر آئی اس پاس کے لوگوں نے شاہ زر کو دیکھ کر سرگوشیاں شروع کی مگر اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی وہ آگے بس آگے بڑھ رہا تھا کلثوم بیگم نے اسے دیکھ لیا وہ کسی ہاری ہوئی جواری کی طرح اٹھ کر اس کے پاس آئی اس کے سینے سے لگ کر چغ چغ کر روئی پورے دن کے روکے آنسو اب کسی اپنے کا سہارا ملتے ہی خود بخود آنکھوں سے نکلنے کو بے تاب ہوئے
“شاہ زر میری پریشے ۔۔۔ “انہوں نے اٹک اٹک کر کہا شاہ زر ان کے سر پر اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا انہیں تسلی دینے کی کوشش کر رہا تھا “کچھ نہیں ہو گا ہماری پری کو چاچی وہ بلکل ٹھیک ہو جائے گی میں آ گیا ہوں نا ” اس نے خود کو مضبوط کرنا چاہا وہ اس وقت کمزور نہیں پڑھنا چاہتا تھا وہ مرد تھا وہ ایک مضبوط مرد تھا وہ ایسے سب کے سامنے اپنی بربادی پر آنسو نہیں بہانا چاہتا تھا اس نے دھیرے سے انہیں خود سے الگ کیا پھر ان کے آنسو اپنے ہاتھوں کی پوروں سے صاف کئے وہ اس وقت خود پر بہت ضبط کئے ہوئے تھا
“بیٹا مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے تم میرے ساتھ میرے کمرے میں چلو ” انہوں نے بھی خود پر قابو پایا وہ اب اور دیر نہیں کرنا چاہتی تھی
شاہ زر نے اثبات میں سر ہلایا اور ان کے پیچھے چلنے لگا خاندان والوں نے ان دونوں کو عجیب نظروں سے دیکھا ابھی ابھی جنازہ ہوا تھا اس اچانک موت پر پہلے ہی سب لوگ حیران پریشان تھے کہ دانیال صاحب جن کا ایک نام تھا مقام تھا ایسا کیا ہوا جس کی وجہ سے انہیں خودکشی کرنی پڑ گئی تھی
وہ کمرے میں آئے انہوں نے کمرے کا دروازا بند کیا اور اسے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کو کہا وہ بھی پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا وہ الجھن کا شکار ہوا آخر ایسی کیا بات ہے جو انہوں نے اسے کمرے میں بولایا تھا
“بیٹا میں جو تمہیں بتانے والی ہوں وہ آرام اور تحمل سے سنا پری میری اور دانیال کی بیٹی نہیں ہے مگر یہ بات خاندان کے کسی بھی بندے کو نہیں پتا دانیال کا راز جب کھول کر ہم سب کے سامنے آیا تو وہ اپنی ہار برداشت نہیں کر پائے انہوں نے پری کو ساری حقیقت بتا دی اس کی وجہ سے پری اس وقت زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہی ہے ” وہ کچھ لمحے خاموش ہوئی شاہ زر نے حیرت سے انہیں دیکھا اس کی آنکھوں میں کئی سوال تھے کلثوم بیگم نے اسے دیکھا
“وہ میری بہن کی بیٹی ہے مجھ سے بڑی تھی میری بہن تمہاری دادی نے کہا تھا وہ اسے اکرام بھائی کی دلہن بنائے گی مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا پھر ان کی موت کے بعد میری شادی خاندان کے کچھ بزرگوں نے مل کر دانیال سے کروائی خدا گواہ ہے مجھے حقیقت نہیں معلوم تھی میں بے خبری میں ماری گئی میں نے ایک اچھی بیوی کی طرح ان کا ہر حکم مانا انہوں نے مجھے تم سے دور رہنے کو کہا میں دور ہو گئی مگر ان سے چھپ کر میں تمہارے سارے کام کر جاتی تھی پھر تم بڑے ہوئے تو تم خود مجھ سے دور ہوتے چلے گئے شادی کے تین سال تک میری اولاد نہیں ہوئی ڈاکٹر کو دیکھایا دانیال نے بتایا کہ میں ماں نہیں بن سکتی میں پڑی لکھی تھی وہ ساری ریپوٹ خود ڈاکٹر کو دیکھا آئی تو معلوم ہوا مسلہ مجھ میں نہیں دانیال میں ہے انہی دنوں میری بہن میرے گھر آئی اس نے کسی سے چپ کر نکاح کیا ہوا تھا اور نکاح کے دو ماہ بعد اس شخص نے اسے طلاق دے دی اب چونکہ وہ امید سے تھی اور بہت پریشان تھی دانیال نے ان کی پریشانی دور کرنے کے لیے کہ دیا وہ اس بچے کو اپنا نام دے گے تمہیں یاد ہو گا میں اور دانیال کچھ ماہ کے لیے انگلینڈ گئے تھے میری بہن بھی ہمارے ساتھ تھی پری کی پیدائش پر وہ اپنی زندگی کر بازی ہار بیٹھی تھی پری کو ہم نے اپنی اولاد سے بڑھ کر چاہا ہے شاہ زر میں نے اسے جنم نہیں دیا تو کیا ہوا اسے ماں کی طرح پالا ہے دانیال بھی اس سے اتنی ہی محبت کرتے تھے ” انہوں نے اپنے آنسو صاف کیے اور اٹھ کر الماری کی طرف بڑھی
شاہ زر ابھی تک شاک میں تھا جیسے کوئی خواب دیکھ رہا ہوں کلثوم بیگم اس کے پاس آئی ایک کاغذ اس کی طرف بڑھایا شاہ زر نے چونک کر انہیں دیکھا پھر وہ کاغذ تھام لیا انہوں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی پھر بنا کچھ کہے وہاں سے چلی گئی شاہ زر نے اس کاغذ کو دیکھا پھر اسے کھولا
“میں دانیال اپنے پورے ہوش وحواس میں یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ہاں میں قاتل ہوں میں نے کیا ہے قتل اپنے بھائی کی خوشیوں کا میں یہ اعتراف بھی کرتا ہوں کہ میں بھی کبھی چین سے نہیں جی پایا مجھ جیسے لوگوں کو سکون میسر ہو بھی نہیں سکتا میں پل پل اس عذاب میں رہا ہوں میں کبھی بھی وہ سب نہیں بھول سکا ہاں میں انتقام میں اندھا ہو گیا تھا میں آپنے ہی گھر کی عزت کو پامال کرنے پر تلا تھا میں نے سب برباد کر دیا میں اب اور نہیں جینا چاہتا جس بیٹی کو میں نے ٹوٹ کر چاہا تھا آج اس کی آنکھوں میں اپنے لیے نفرت برداشت نہیں کر پایا جس بیوی کو میں نے پوری عمر اپنے کیے پر باپند رکھا اج اس کی آنکھوں میں بے اعتباری تھی یقین ٹوٹ جانے کا دکھ میں کسی کا بھی سامنا کرنے کی ہمت نہیں کر سکتا شاہ زر کو بچپن سے میں نے اب کی نظروں میں گرانے کی کوشش کی اج میں خود ہی اپنوں کی نظروں میں گر گیا
دانیال
شاہ زر نے سکون کی سانس لی آج اس کی ماں بے گناہ ثابت ہو گئی تھی آج اس کے دل سے بوجھ ہلکا ہو گیا تھا اس نے وہ کاغذ فولڈ کر کے اپنی جیب میں ڈالا اب اسے اپنی پری کے پاس جانا تھا اسے منانا تھا اسے بتانا تھا اس کا شاہ زر اسکے بنا ادھورا ہے بلکل ادھورا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہاسپٹل کے کوریڈور میں ادھر سے ادھر بے چینی نے ٹہل رہا تھا پری کو ابھی تک ہوش نہیں آیا تھا ڈاکٹر سے اس کی بات ہوئی تھی مگر وہاں سے بھی کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا تھا وہ بہت پریشان تھا اس کی زندگی میں اتنے غم آئے تھے کہ وہ ڈھونڈ کر بھی ایسی کوئی خوشی کا موقع نہیں ڈھونڈ سکتا تھا جب وہ دل سے خوش اور مطمئن ہوا ہو ایک کے بعد ایک پریشانی اس کی زندگی کا حاصل وصول تھی
ڈاکٹر ابھی ابھی پری کا چیک اپ کر کے باہر آیا شاہ زر جلدی سے اس کے پا س گیا
“کیا میں پری سے ایک بار مل سکتا ہوں ” اس نے بہت آس سے پوچھا
“ابھی تو وہ ہوش میں نہیں آئی آپ کا ملنا بےکار ہے شاہ زر
“پلیز مجھے بس ایک بار اس کے پاس جانے دے ” اس نے التجا کی
ڈاکٹر نے کچھ سوچا پھر اسے جانے کی اجازت دی ” مگر صرف پانچ منٹ اس سے زیادہ نہیں وہ ابھی ہوش وحواس سے بیگانہ ہے بہتر ہے اس کے ہوش میں آنے کے بعد ہی آپ ملے مگر آپ کی رہے ہے تو صرف پانچ منٹ ” شاہ زر نے جلدی سے اس کا شکریہ ادا کیا اور کمرے میں گیا
اس کی نظر بیڈ پر پڑی جہاں پری کو آکسیجن لگا ہوا تھا اس کے بال کھولے ہوئے تھے چہرہ زردی مائل تھا وہ ایک دن میں ہی اس حد تک کمزور لگ رہی تھی دکھ بندے کو کیا سے کیا بنا دیتا ہے وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے اس کے بیڈ کے سائیڈ پر آیا اس کے ماتھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر اس کے ہونے کے احساس کو محسوس کیا وہ بےسود پڑی ہوئی تھی شاہ زر نے اس کے ماتھے پر آئے بال آرام سے پیچھے کئے اس کے چہرے کے ایک ایک نقس کو اپنء آنکھوں میں قید کرنا چاہا
پر کرسی کھینچ کر پری کے سامنے بیٹھ گیا اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں تھاما ھو بلکل سرد تھا اس نے اس کے ہاتھ پر جگ کر بھوسہ دیا
“پری میں بہت شرمندہ ہوں میرے ساتھ جو ہوا اس میں بلا تمہارا کیا قسور تھا تم تو بے خبری میں ماری گئی ہوں میں سمجھ سکتا ہوں تمہارا درد تمہاری تکلیف کو میں جانتا ہوں جب تمہیں حقیقت پتا چلی ہوں گئی تو تمہارے دل پر کیا گزری ہو گی تم کتنی تڑپی ہو گئی ۔۔ ہاں میں سمجھ سکتا ہوں شاک پر شاک ملنے کے بعد تم کتنی ٹوٹ گئی ہو میرا وعدہ ہے پری اب اور نہیں بس اب میں تمہاری زندگی میں خوشیاں ہی خوشیاں بکھیر دوں گا اتنی خوشیاں دوں گا کہ تم اپنے سارے غم بھول جاؤ گی وعدہ ہے تم سے پری تمہیں جینا ہے میرے لیے ہمارے لیے ہمارے آنے والے خوبصورت وقت کے لیے ” اس کے آنسو پری کے ہاتھ پر گر رہے تھے پری کے بےجان ہاتھ میں ہرکت ہوئی شاہ زر نے چونک کر اسے دیکھا اس کا ہاتھ تھوڑا تھوڑا ہل رہ تھا
“پری میری جان تم بلکل ٹھیک ہوں جاؤ گی مجھے یقین تھا ” وہ خوشی سے چلایا اس نے بھاگ کر ڈاکٹر کو اطلاع دی ڈاکٹر اور نرس جلدی سے ائے شاہ زر کو اندار نے کی اجازت نہیں تھی وہ ہاسپٹل کے قریب واقع مسجد میں گیا جلدی سے وضو کر کے شکرانے کے نوافل ادا کئے آج اللّٰہ نے اس کی سن لی تھی آج اللّٰہ نے اسے پری واپس کر دی تھی
خوشی کا احساس کیسا ہوتا ہے یہ شاہ زر نے اپنی زندگی میں پہلی بار جانا تھا اس کا انگ انگ اللّٰہ کے حضور سجدہ شکر ادا کر رہا تھا آج محبت جیت گئی تھی آج شاہ زر کی محبت جیت گئی تھی ۔۔۔۔۔ اس نے مسجد سے نکل کر کلثوم بیگم کو سب سے پہلے فون کر کے آنے کو کہا پھر باہر نکالا وہاں کھڑے فقیر کو وائلیت میں موجود سارے پیسے پری کے صدقے کے طور پر دئی ابھی تو اس نے بہت کچھ دینا تھا یہ تو کچھ بھی نہیں تھا پری کی قیمت ان پیسوں سے بہت بڑھ کر تھی اس نے اس ایک دن میں جانا تھا پری اس کی زندگی میں کتنی ضروری ہے
پری کو ہوش تو آگیا تھا مگر ابھی بھی وہ دواؤں کے زیرِ اثر سو رہی تھی مما اس کے پاس ہی تھی شاہ زر بھی وہی موجود تھا وہ اس وقت بہت رف حلیے میں تھا اس نے ہاف وائٹ شرٹ کے ساتھ بلک جینز پہننی ہوئی تھی شرٹ کی بازوں آج بھی اوپر کو فولڈ تھے بال ماتھے پر پڑے ہوئے تھے اب تو ڈیٹ رہنے والا بندہ آج اتنے رف خلیے میں تھا مگر اسے اس چیز کی کوئی ٹینس نہیں تھی اسے پروا تھی تو صرف پری کی جو ایک ہی دن میں مرجھا گئ تھی بند آنکھوں کے نیچے بھی ہلکے صاف دیکھائی دے رہے تھے شاید وہ بہت دنوں سے سکون سے سو نہیں پائی تھی۔ “چاچی آپ سو جائے میں یہی پر ہوں آپ پریشان نہ ہو ” شاہ زر نے کلثوم بیگم سے کہا وہ اس وقت بہت تھکی ہوئی تھی پورا دن اتنی ٹینشن میں گزرا تھا ابھی بھی شاہ زر نے زبردستی نیند کی ٹیبلیٹ دے کر انہیں پری کے پاس پڑے صوفے پر سونے کو کہا
خود کرسی کھینچ کر پری کے سامنے بیٹھ گیا رات کے کسی پہر پری کی آنکھ کھول گئی سر اب بھی باری تھا دواؤں کا اسر تھا اس نے تھوڑی سی آنکھیں کھول کر سامنے دیکھا وہاں شاہ زر کو کرسی پر بیٹھا دیکھا جو سر ایک طرف رکھے سو رہا تھا پری کا خلق تک گڑوا ہو گیا “مما مما کہاں ہے آپ مما اسے کہےیہ یہاں سے جائے مما ” اس کے چلانے سے مما اور شاہ زر بڑبڑا کے اٹھے پری اپنے ہاتھ سے ڈیپ کو کھینچ کر ہٹا رہی تھی شاہ زر نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما
“پاگل مت بنو پری کیا کر رہی ہوں کیوں خود کو اذیت دے رہی ہوں ”
“چھوڑوں میرا ہاتھ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے چونے کی بھی ” پری نے بے رحمی سے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے گرفت سے آزاد کیا وہ اس وقت بلکل اپنے ہوش و حواس میں نہیں تھی شاہ زر نے بےبسی سے اسے دیکھا
“جاؤ چلے جاؤ یہاں سے ” وہ زور زور سے چلائی مما نے آگے بڑھ کر اسے سنبھالنا چاہا مگر وہ اپنے حواسوں میں ہوتی تو کچھ سمجھ سکتی اس نے مما کو پیچھے دھکیلا “چلے جاؤ سب چلے جاؤ یہاں سے مجھے کسی کی ضرورت نہیں ہے کوئی نہیں ہے میرا مت کروں مجھ پر مزید احسان جاؤ ” وہ چلا رہی تھی شاہ زر نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے پکڑا اور چھنچوڑا “ہوش میں آؤ پری کیا ہو گیا ہے تمہیں کیوں خود کو اذیت دے رہی ہوں تمہیں اذیت میں دیکھ کر مجھے اور مما کو بھی تکلیف ہو رہی ہے ہوش کروں خدا کا واسطہ ہے ” شاہ زر نے سختی سے اس سے کہا پری نے اس کے ہاتھ جھٹک دیےاور نفرت سے منہ موڑ دیا
“مما اس شخص سے کہے یہ یہاں سے چلا جائے میں اس شخص کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی ” وہ اب بھی اپنی بات پر قائم تھی مما نے بےبسی سے شاہ زر کو دیکھا
“اگر نہ جاؤ تو ” شاہ زر کو بھی اب اس کی بےجا ضد پر غصہ آنے لگا
پری نے اردگرد دیکھا سائیڈ ٹیبل پر فروٹ باسکٹ میں چاکو پڑا تھا اس نے لمحہ ضائع کیے بنا وہ اٹھا کر اپنے ہاتھ کی رگ پر رکھا
“تو یہ کہ مسٹر شاہ زر میں اپنی جان دے دوں گی ” اس نے چبا کر کہا
“نہیں پری پلیز نہیں دیکھوں پری میں جا رہا ہوں یہاں سے اسے واپس رکھوں ” شاہ زر نے افسوس سے اسے دیکھا وہ اس وقت پہلے والی پری بلکل نہیں لگ رہی تھی
“پری بیٹا پلیز اسے واپس رکھوں مجھ میں اور طاقت نہیں ہے کہ میں مزید کوئی غم برداشت کر سکوں جاؤ شاہ زر تم جاؤ یہاں سے ” کلثوم بیگم نے آگے بڑھ کر چاقو اس کے ہاتھ سے لیا شاہ زر بنا کچھ کہے وہاں سے چلا گیا پری نے سر دونوں ہاتھوں میں تھام لیا مما نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا پری نے اب کی بار کوئی مزہمت نہیں کی ان کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر روئی
“مما۔۔ پاپا ۔۔آپj میں کون ۔۔ م” اس کے منہ سے ٹوٹے پھوٹے الفاظ نکل رہے تھے کلثوم بیگم نے دھیرے دھیرے اسے ساری حقیقت بتا دی
اس کے بعد پری کو ایسی چپ لگی کہ شاہ زر کے اور مما کے بار بار کہنے سے بھی وہ کچھ نا بولی بس خالی خالی نظروں سے دیواروں کو دیکھتی رہتی ۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج پری کو ایڈمٹ ہوئے تیسرا دن تھا مما اس کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھ رہی تھی البتہ شاہ زر اس واقع کے بعد سے نہیں آیا تھا ابھی بھی مما نے اسے سوپ دیا پھر اسے آرام کرنے کا کہ کر کچھ ٹائم کے لیے گھر چلی آئی
پری نے آنکھیں مھند رکھی تھی دروازہ آہستہ سے کھولا اور شاہ زر اندار آیا پری کو ایک نظر دیکھا جو آج پہلے سے کچھ بہتر لگ رہی تھی اا سے آگے بڑھ کر پری کے ہاتھ کو چھوا پری کرنٹ کھا کر اٹھی
”یہ کیا بدتمیزی ہے مسٹر ” اس نے غصے سے اپنے ہاتھ کھینچا اور گھور کر شاہ زر کو دیکھا شاہ زر بہت محبت سے اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے گھبرا کر آنکھیں نیچے کی
“مائے ڈیئر وائف یہ بدتمیزی نہیں محبت ہے جو مجھے اپنی پیاری سی بیوی سے ہے “اس نے بہت لگاوٹ سے کہا
“مسٹر شاہ زر اسی بےہودہ باتیں میرے سامنے کرنے کی ضرورت نہیں مجھے آپ کی ان فضول باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں “وہ نخوست سے بولی
“تمہیں ضرورت ہو نہ ہو مجھے تو ہے اس محبت کی ضرورت تمہاری ضرورت “اسنے آگے بڑھ کر جھگ کے پری کے بال اس کے ماتھے سے پیچھے کیے پری مزید پیچھے ہوئی “اپنی حد میں رہے شاہ زر ڈونٹ ٹچ می “اس نے نفرت سے اس کا ہاتھ جھٹک دیا
شاہ زر نے ایک نظر پری پر ڈالی پھر خود کو ریلکس کیا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا
“پری اج تمہیں ڈسجارج کر دیا جائے گا میں نے اپنا گھر صاف کروا دیا ہے اب تم اور چاچی میرے ساتھ ہمارے گھر جاؤ گے ” شاہ زر نے نرمی سے کہا
“میں مر کر بھی آپ کے ساتھ نہیں جاؤ گی آپ نے سوچ بھی کیسے لیا میں اب آپ کے ساتھ کوئی رشتہ رکھنا بھی چاہتی ہوں “وہ غصے سے لال پیلی ہو گئی
“پری مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کروں جو کہ رہا ہوں چپ چاپ مان لوں یہی تمہارے حق میں بہتر ہے ” شاہ زر نے بھی اب کی بار سختی سے کہا
“کیا کر لے گے آپ بولیے کیا کر سکتے ہیں آپ مجھے مارے گئے دھمکائے گے بلک میل کرئے گے ۔۔ بتائیں نا کیا کرئے گے مجھے بھی پتا چلے اب کی بار آپ کیا کروں گے ” اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا
“پری میں پہلے بھی بتا چکا ہوں میں اس پر بہت شرمندہ ہوں مجھے مزید شرمندہ مت کروں میرے ساتھ چپ چاپ آرام سے جاؤ میں سب ٹھیک کر دوں گا “اس نے آگے بڑھ کر بیڈ کے سائیڈ پر بیٹھ کر شرمندگی سے کہا
“میں نے کہا نا میں آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی کیوں سمجھ نہیں آتی آپ کو ”
“بیوی ہو تم میری میں زبردستی بھی لے جا سکتا کو تمہیں یہ بات تم اچھے سے جانتی ہوں اس لیے مجھے غصہ مت دلاؤ” اب کے شاہ زر بھی اونچی آواز میں بولا
“واہ شاہ زر صاحب آپ کو یاد ہو گا اس رشتے کو اپ سو بار اپنے لیے عزاب کہ چکے ہوں اس رشتے کو اپ حتم کرنا چاہتے تھے نا آج میں خود اس رشتے کو ختم کرنا چاہتی ہوں ” وہ بھی بے خوفی سے بولی
“پری میں تم سے پیار کرتا ہوں پلیز سمجنے کی کوشش کروں” شاہ زر نے بےبسی سے اس نادان لڑکی کو دیکھا جو اس کی کوئی بھی بات سنے کو تیار نہیں تھی
“ہاہاہا پیار اچھا یہ ایک ہی دن میں آپ کو مجھ سے نفرت سے محبت کیسے ہو گئی کل تک تو آپ مجھ سے زوروں شور سے نفرت کرتے آ رہے تھے اب اچانک سے آپ کو میں اچھی لگنے لگ گئی ہوں بند کرئے اپنا یہ ڈرامہ مجھے آپ کی ہمدردی اور ترس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ” وہ اکتائے ہوئے لہجے میں بولی
“وہ نفرت نہیں تھی پری بس اس شخص کی وجہ سے مجھے تم سے چڑ تھی ” اس نے اپنے حق میں دلیل تھی
“او تو آج آپ کو پتا چلا میں اس شخص کی اولاد ہی نہیں ہوں تو آپ کے دل میں سوئی ہوئی محبت جاگ اٹھی واہ بہت خوب” وہ طنزیہ ہنسی
“پری تم میری مجبوری کیوں نہیں سمجھ رہی ہوں میں بے بس تھا میں چاہ کر بھی تمہیں نہیں اپنا سکتا تھا مگر خدا گواہ ہے جب میں نے سنا تم ایڈمٹ ہو میں بھگا چلا آیا ساری بےزاری،نفرت سب کچھ بھول کر میں صرف اور صرف تمہارے لیے لوٹا ہوں تم خود کو میری جگہ رکھ کر سوچو پری تمہیں اندازہ ہو جائے گا میں کس قرب سے گزرا ہوں”
“میں کیوں خود کو آپ کی جگہ رکھ کر سوچو میں نے آپ سے کبھی کہا شاہ زر آپ خود کو میری جگہ رکھ کر سوچو جو آپ میرے ساتھ کر رہے ہوں وہ غلط ہے کبھی آپ نے خود کو میری جگہ رکھ کر سوچھا مجھے جس غلطی کی سزا دے رہے ہوں اس کا علم بھی نہیں تھا پھر بھی آپ نے مجھے ہر قسم کی سزا دی جب آپ نے مجھے مارا تب آپ نے سوچا مجھے کتنی تکلیف ہوئی ہو گئی جب آپ نے مجھے بارش میں کھڑے رکھا تب آپ نے کچھ سوچا تھا نہیں نا تو آج آپ کیسے مجھ سے کوئی گلہ شکوہ کر سکتے ہے جب میں نے آپ سے تب کچھ نہیں کہا تھا تو آج آپ مجھے کیوں کہ رہے ہوں
پری پھٹ پڑی تھی اتنے دنوں کی خاموشی آج نفرت کے اظہار میں ختم ہوئی تھی شاہ زر نے سر نفی میں ہلایا اس کے پاس پری کے کسی سوال کا جواب نہیں تھا
“پری تم نے خود مجھ سے کہا تھا تمہیں مجھ سے محبت ہے اب کہا گئی وہ محبت کیوں مجھے اور خود کو اذیت دے رہی ہوں سب بھول جاؤ پری “شاہ زر نے آخری کوشش کی اس ضدی لڑکی کو منانے کی
ہاہاہا پری قہقہہ لگا کر ہنسی اور پر پھر ہنستی ہی چلی گئی اس کے آنکھوں سے آنسو آنا شروع ہو گئے وہ درد میں تھی اسے اپنی آخری غلطی یاد آئی جب اس نے شاہ زر نے سامنے اپنا آپ ہارا تھا وہ اس کی سب سے بڑی نادانی تھی اپنے آپ پر ہنسی آرہی تھی شاہ زر پریشانی سے اسے دیکھا
“محبت ہاہاہا ہاں مجھے کبھی آپ سے محبت تھی مگر اب میرے دل میں کوئی احساس کوئی خذبہ باقی نہیں رہا مجھے تو یہ بھی یاد نہیں ہے کہ میں نے کبھی آپ کو چاہا بھی تھامیرے دل میں نا محبت کا جذبہ ہے نا نفرت کا جانتے ہوں میرے دل میں کیا ہے ” اس نے شاہ زر کی طرف دیکھ کر سوال کیا شاہ زر نے نفی میں ہلایا
“میرے دل میں صرف اور صرف بےزاری ہے میرا دل کر رہا ہے آپ کو یہاں سے اٹھا کر کہی دور پھینک آؤ جہاں سے آپ کبھی لوٹ کر نا آسکوں ” اس نے ایک ایک لفظ چبا کر کہا شاہ زر کو غصہ تو بہت آیا مگر وہ اپنے غصّے کو پی گیا اس وقت غصہ کر کے پری کو مزید خود سے بدگمان نہیں کرنا چاہتا تھا
‘تم کیا چاہتی ہوں پری ” اسنے بہت ضبط سے پوچھا
“علیحدگی طلاق ۔۔۔”
“بکواس بند کروں اپنی بہت کہ چکی تم بہت سن چکا میں اب ایک اور لفظ بھی تم نے کیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا ” شاہ زر نے اس کی بات کاٹ کر غصے سے کہا اس کی آنکھیں لال ہو گئی تھی ماتھے پر شکن تھے اپنے ہاتھوں کو مضبوطی سے بند کر رکھا تھا وہ اس وقت کچھ بھی ایسا ویسا نہیں کرنا چاہتا تھا جس سے بعد میں اسے پچھتانا پڑتا
“تو کیا کر لوں گے آپ میرے ساتھ زبردستی کروں گے بلک میل کروں گے یا ماروں گے میں کوئی موم کی گڑیا نہیں ہوں جسے آپ یا کوئی بھی اپنی مرضی کے مطابق بدل دے گا میں خود کو حتم کر لوں گی مگر آپ کے ساتھ نہیں جاؤں گی آپ کے ساتھ جانے سے بہتر ہے میں خودکشی کر لوں مجھے نہیں چاہئے بھیک میں ملی آپ کی ہمدردی ” وہ بھی غصّے میں اونچی اونچی آواز میں بول رہی تھی
شاہ زر نے افسوس سے اس نادان لڑکی کو دیکھا جو اس کے جذبوں کو ہمدردی سمجھ رہی تھی وہ اٹھ کھڑا ہوا پری کے تھوڑا اور قریب ہوا
“جا رہا ہوں میں تم سوچ لینا تمہیں سوچنے کا وقت دے رہا ہوں میں اچھی طرح سوچ لینا جب تمہارے دماغ سے ہمدردی کا خیال نکل جائے نا تو بتا دینا میں لینے آ جاؤ گا اور ہاں ایک اور بات آئندہ اگر علیحدگی کی بات بھی کبھی غلطی سے کی نا پریشے شاہ زر تو تم کیا خود کو ماروں گئی میں خود آپ نے ہاتھوں سے تمہاری جان لے لوں گا تم کل بھی میری تھی آج بھی میری ہوں آنے والے وقت میں بھی میری ہی کہلاؤں گی سمجھ گئی ” اس نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا پھر پری کے ماتھے پر جھگ کر پیار کیا اور لمبے لمبے ڈگ بڑھتا چلا گیا پری نے اپنی کب کی روکی سانس خارج کی اور غصے سے دروازے کو گھورا ” جنگلی انسان میں بھی دیکھتی ہوں تم میرے ساتھ کیسے زبردستی کرتے ہوں ” اس نے نفرت سے سوچا اور بیڈ کے ساتھ ٹیگ لگا کر آنکھیں بند کر لی ۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ہوسپیٹل سے ڈسچارج ہو کر گھر آ گئی تھی مما اس کا پہلے سے بڑھ کر خیال رکھ رہی تھی شازر نے اس کے بعد کوئی بھی رابطہ نہیں کیا پری مطمئن تھی کہ اب شاہ زر دوبارہ تنگ نہیں کرے گا اس لیے اس نے ایک سکول میں ٹیچنگ کے لیے اپلائی کیا ممانے بہت روکا مگر اس نے ایک بھی نہ سنی اور اپنے ضد پر قائم رہی مما نے اسے اس کے خال پر چھوڑ دیا وہ جانتی تھی پری اندار سے بہت بری طرح ٹوٹ چکی ہے کچھ وقت تو لگنا ہی تھا ان زخموں پر مرہم رکھنے میں
آج بارش صبح سے زوروں شور سے برس رہی تھی جیسے آج کے ہی برس کر زمین کو سیراب کرنا تھا اس نے اف وائٹ شاٹ فراق کے ساتھ ریڈ جوری دار پاجامہ پہنا ہوا تھا دوپٹا گلے میں چول رہا تھا بال کھولے چھوڑے ہوئے تھے وہ ابھی ابھی نہا کر ٹیرس پر آئی تھی شام ہوتے ہی دن بھرکے گئے پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی طرف آ رہے تھے وہ دور خلاءمیں ناجانے کیا کھوج رہی تھی بارش کو دیکھ کر اسے گزرے لمحوں کی یاد آئی وہ وہاں سے ہٹ کر نیچے لان میں ائی اس نے پاوں جوتے سے آزاد کیے اور بارش میں لان کے بیچوں بیچ کھڑی ہو گئی اس کی آنکھیں بھی بارش کے قطروں کی طرح برس رہی تھی
“پری بیٹا یہ کیا کر رہی ہوں بیمار پڑ جاؤ گی واپس آؤ ” مما نے اسے دیکھا تو باہر چلی آئی مگر پری نے جسے اپنے کان بند کر لیے تھے اسے کسی چیز کی پرواہ نہیں تھی
“پری میری جان ” وہ ایک بار پھر چلائی گاڑی کی ہان کی آواز آئی شاہ زر اندار آیا گاڑی روک کر نیچے اترا اس کی نظر لان میں کھڑی پری پر پڑی
“چاچی پری وہاں کیا کر رہی ہے” شاہ زر نے حیرانی سے پوچھا
“پتا نہیں بیٹا ابھی ابھی نہا کر آئی تھی پھر ناجانے کیا سوجھی بارش میں چلی گئی میں کب سے آوازیں دے رہی ہوں مگر وہ سن ہی نہیں رہی ” انہوں نے پریشانی سے کہا
“آپ جائے اندار میں لے کر آتا ہوں اسے ” شاہ زر نے انہیں تسلی دی
“بیٹا یہ چھتری لیتے جانا ” انہوں نے چھتری اس کی طرف بڑھائی مگر اس نے لینے سے انکار کر دیا اس کی پری بھی تو بارش میں بھیگ رہی تھی وہ آہستہ آہستہ چلتے ہوئے پری کے سامنے کھڑا ہو گیا پری نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا بارش کی بوندیں شاہ زر کے چہرے پر گر رہے تھے اس کے ماتھے کے بال بھی گیلے ہو گیے تھے پری نے اپنی نظریں چڑائی شاہ زر پری کو ہی دیکھ رہا تھا جس کے چہرے پر بارش کے چھوٹے چھوٹے قطرے گر رہے تھے جو اس کے معصوم چہرے کو اور دلکش بنا رہاتھا
“پری یہ کیا بچپنا ہے تم یہاں اسے کیوں کھڑی ہوں اندار چلو بیمار پڑ جاؤ گی” اس نے فکرمندی سے کہا پری نے گھوری سے نوازا
“فکر مت کرئے میں تو بہت ڈھیٹ ہوں میں تو اس سردی کی بارش میں بھیگ کر بیمار نہیں ہوئی تو یہ بارش میرا کیا بیگار لے گئ ” اس نے لاپرواہی سے کہا شاہ زر کی نظروں کے سامنے مری میں بارش میں بھیگتی پری کا چہرہ گھوما
“پری تم وہ سب بھول کیوں نہیں جاتی کیوں خود کو اذیت دے رہی ہوں ” شاہ زر نے بےبسی سے کہا
“بھول جاؤں بھول جانا اتنا آسان ہے شاہ زر وہ اذیت کے لمحے بھول جاؤں آپ مردوں کے لیے کہنا بہت آسان ہے آپ لوگ ہزار بار عورتوں پر ہاتھ اٹھاؤ انہیں ماروں ٹارچر کروں پھر جب دل کیا آ کر سوری کہ دیا اور آپ مردوں کو لگتا ہے کہ ہم عورتیں سب بھول بھال کر آپ لوگوں کو معاف کر دے کیوں آخر کیوں آپ لوگ خود کو نہیں بدلتے ” وہ تلخی سے گویا ہوئی
شاہ زر کے پاس اس کے سوالوں کے کوئی جواب نہیں تھے
“آپ بھول گئے تھے جب آپ کی مما کو بےدردی سے مارا گیا تھا تب تو آپ تھے بھی صرف پانچ سال کے مگر وہ تکلیف کے پل آپ کے دل میں آج تک زندہ ہے ہم خوشی کے پلوں کو تو جلد ہی بھول جاتے ہیں مگر دل پر لگی زخموں کو پوری عمر نہیں بھول سکتے آپ مجھ سے ہمدردی کرنا بس کر دے اگر آپ کو مجھ سے محبت ہوتی تو آج میں اس حال کو نہیں پہنچتی آپ ہمدردی کے اڑ میں مجھ سے کیے ہر زیادتی کا مداوا کرنا چاہتے ہیں بس ” وہ کہ کر روکی نہیں مڑ کر جانے لگی شاہ زر نے اس کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی طرف کھینچا وہ توازن برقرار نہیں رکھ پائی اور شاہ زر کے چھوڑے سینے سے جا ٹکرائی
“یہ کیا بدتمیزی ہے” اس نے سر اٹھا کر کہا شاہ زر نے دوسرا ہاتھ اس کے کمر میں ڈال کر اسے خود کے مزید قریب کیا پری کے تو اوسطان حطا ہو گئے
“اسے بدتمیزی نہیں کہتے ڈیئر وائفی اسے محبت کہتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ تم میری محبت کو ہمدردی سمجھ کر ٹکرا رہی ہوں ” اس نے پری کے کان میں سرگوشی کی
“شاہ۔۔ زر پل۔۔ پلیز چھوڑے مجھے مجھے اندار جانا ہے کو ۔۔ کوئی دیکھ لے گا پلیز” وہ بہت پزل ہو رہی تھی
“جلدی بھی کیا ہے جاناں اتنا رومنٹک موسم ہے میں اور تم اور یہ خوبصورت سماں” اس نے گنگناتے ہوئے کہا شاہ زر کو اسے تنگ کرنے میں مزا آ رہا تھا
پری کی تو بولتی ہی بند ہو گئی تھی اس نے خود کو چھوڑنے کی ناکام کوشش کی شاہ زر کی گرفت مزید تنگ ہو رہی تھی
“پری شاہ زر بیٹا کہا ہوں تم دنوں اندار آؤ میں نے اپنے ہاتھوں سے گرم گرم پکوڑے بنائے ہیں ” کلثوم بیگم کی آواز پر شاہ زر نے بوکھلا کر پری کو خود سے دور کیا پری نے غصے سے اسے گھورا اور آزادی ملتے ہی اندار کو بھاگی شاہ زر آوازیں ہی دیتا رہ گیا اس کے چہرے پر جاندار سی مسکراہٹ تھی وہ مسکراتے ہوئے اندار گیا پری اپنے کمرے میں جا کر بند ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مما ایک بات پوچھوں ” پری نے پر سوچ انداز میں مما کو مخاطب کیا
“ہاں پوچھو میری جان ” وہ دنوں اس وقت ٹی وی لاؤنچ میں بیٹھے ہوئے تھے مما صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی پری ان کے گود میں سر رکھی لیٹی ہوئی تھی مما ساتھ ساتھ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیر رہی تھی
“مما کیا پاپا کو کبھی بھی اپنے کئے پر کوئی پچھتا نہیں ہؤا ” اس نے سر اٹھا کر مما کو دیکھا
“پتا نہیں پری پچھتاوا کیسے کہتے ہیں ہاں مگر جانتی ہوں پری دانیال رات رات بھر جگا کرتے تھے گہری نیند میں چغ کر اٹھ جاتے تھے پسینے سے شرابور ہویا کرتے تھے مجھے تب سمجھ نہیں آتی تھی ان کی اس بے چینی کا ایک رات نیند میں بڑبڑا رہے تھے کہ مجھے معاف کر دوں معاف کر دوں مجھے جب ہوش میں آئے میں نے پوچھا تو کہنے لگے کلثوم کچھ رازوں پر پردہ ہی پڑا رہے اچھا ہوتا ہے تب مجھے یہی لگا کہ وہ مجھ سے کئے گئے جھوٹ پر پچھتا رہے ہیں ” کلثوم بیگم کی آنکھوں میں آنسو تھے وہ رو رہی تھی اس انسان کے لیے جس پر اس نے دنیا میں سب سے زیادہ یقین کیا تھا
“پتا ہے وہ صبح نماز کے ٹائم اٹھ جاتے تھے میں اکثر ان سے کہتی تھی جاگ ہی گئے ہیں تو نماز پڑھ لے کہتے تھے مجھ سے نہیں پڑھی جاتی جانے کیوں میرا دل گھبرا جاتا ہوں پری بیٹا جب اللّٰہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو اس سے سجدے کی توفیق چین لیتا ہے وہ شخص پوری عمر بے سکون رہا پوری عمر تڑپتا رہا ہے کیا اس سے بھر کر کوئی سزا ہو سکتی ہے کسی کے لیے کے وہ پوری عمر بے سکونی کی زندگی گزارتا رہا ہوں ” مما نے آنسو صاف کیے پری بھی رو رہی تھی
“مما کیا آپ نے انہیں معاف کر دیا ہے ” مما تلخی سے مسکرائی
“تمہیں لگتا ہے میں ایک قاتل کو معاف کر سکتی ہوں ” پری نے اٹھ کر انہیں دیکھا کتنا دکھ تھا ان کے لہجے میں اس نے آگے بھر کر مما کو گلے لگایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...