شاہ زر رات گئے لوٹا کچن میں کھٹ پٹ کی آواز آ ہی تھی “ایک تو بوا بھی نہ کتنی بار کہا ہے میرے لیے نہ جگا کرے مگر یہ سنے تب نہ”وہ خودکلامی کرتے ہوئے سیڑھیاں طے کرنے لگا پھر خیال آنے پر روکا وہی سے آواز دی “بوا کھانا گرم کر کے ٹیبل پر رکھ دے میں آ کر کھاتا ہوں ”
واپس آیا ٹیبل پر کھانا لگا ہوا تھا کچن سے پری نمودار ہوئی
“تم یہاں کیا کر رہی ہے اور بوا کہا ہے “شاہ زر نے سخت لہجے میں اسے دیکھ کر کہا
“انہیں میں نے آرام کرنے کے لیے کواٹر بھیج دیا آپ رات اتنی دیر سے آتے ہو میں نے ان سے کہ دیا آئیندہ آپ کے لیے کھانا میں ہی بنا کر سرو کروں گی “اس نے کلاس میں پانی ڈال کر شاہ زر کے قریب رکھا
“مجھے تمہارے احسان کی ضرورت نہیں ہے میرے کاموں کے لیے نوکر موجود ہے آئندہ مجھے تم میرے کام کرتی نظر نہ آؤ” شاہ زر نے ناگواری سے کہا
“میں آپ کی بیوی ہوں نوکروں سے ذیادہ شوہر کا خیال بیویاں ہی اچھے سے رکھتی ہے”
شاہ زر کے ماتھے میں شکن پڑے وہ غصہ نہیں کرنا چاہتا تھا مگر شاید پری کو اپنی عزت خود ہی عزیز نہیں تھی تو وہ کیا کر سکتا تھا
“بکواس بند کروں اپنی میں نے کہا میری بیوی بن کر رہو مجھے نہ کل تمھاری ضرورت تھی نہ آج ہے نہ آنے والے وقت میں کبھی ہو گا سمجھ گی تم “وہ ڈھارا پری ایک دم در کر پیچھے ہوئی پھر ہمت کر کے وہی کھڑی رہی وہ اس رشتے کو ہر طریقے سے بچانا چاہتی تھی اپنی آنا اپنی عزت نفس کو ایک طرف رکھ کر وہ اس بندے کے سامنے جھک رہی تھی جیسے اس کی بلکل پروا نہیں تھی
“ہاں تو میں بھی یہاں نہیں رہنا چاہتی تھی جا رہی تھی آپ کی زندگی سے آپ جانے دیتے مجھے کیوں روکا اس لیے کیوں کہ آپ کے دل میں بھی میں بستی ہوں آپ مانو نہ مانو یہ الگ بات ہے ” پری نے اطمینان سے کہ کر شاہ زر کے سر پر بم پھوڑا
شاہ زر اٹھا لمبے لمبے ڈگ بھر کر پری کے قریب ہوا پری ڈر سے ایک قدم پیچھے ہوئی
“جسٹ شٹ اپ آج تو یہ بکواس کر لی آئندہ مت کرنا ورنہ میں خود سے کیا وعدہ بھول جاؤ گا مجھے خود پر سختی کرنے پر مجبور مت کروں پریشے دانیال ورنہ نہ یہ میرے حق میں بہتر ہو گا نہ تمہارے آذادی دی تھی تمہیں یہاں سے جانے کی اب وہ سب آزادی حتم اب اس گھر سے ایک قدم باہر بھی نکالا تو ٹانگیں توڑ کر ہاتھ پر رکھ دوں گا اور محبت اور تم سے نہیں پریشے بی بی شاہ زر اتنا کمزور مرد نہیں ہے کہ اپنے دشمنوں سے محبت کر بیٹھے اب میں تمہیں اتنا مجبور کر دوں گا اپنی محبت میں کہ تم مجبور ہو کر مجھ سے اپنی محبت کی بھیک مانگو گی پھر یاد رکھنا شاہ زر کی محبت تمہیں کبھی نصیب نہیں ہو گی یہ میرا وعدہ رہا تم سے ”
وہ کہ کر وہاں روکا نہیں وہ پھر سے وہ سب نہیں دہرانا چاہتا تھا جو وہ اس کے ساتھ کر چکا تھا یہ لڑکی اس کے صبر کو بہت بری طرح آزما رہی تھی شاہ زر نے نفرت سے سر جھٹکا اور گاڑی کی چابی اٹھا کر باہر نکل گیا اس کے پورے جسم میں آگ لگی ہوئی تھی
اور پری وہاں کھڑی اس کے نفرت میں کہے الفاظ پر غور ہی کرتی رہ گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال دوسرے ہی دن ثانیہ کے گھر گیا دروازہ بند تھا اس نے بل دی بہت ٹائم گزرنے کے بعد بھی کیسی نے دروازہ نہ کھولا تو اس نے گھنٹی پر ہاتھ رکھ دیا باہر گرمی بھی آج کچھ زیادہ تھی
“کون ہے آ رہی ہو کیا ہو گیا ہے بندہ مصروف بھی ہو سکتا ہے ” ثانیہ کے لہجے میں بےزاری تھی دانیال اس کی آواز سن کر مسکرایا وہ غصے میں بہت پیاری لگتی تھی اس وقت بھی اس کا چہرہ دانیال کے سامنے گھوم گیا ساری بےزاری خود بخود ختم ہو گی
“کون ہے ”
“میں دانیال دروازا کھولوں گرمی سے باہر پگھل رہا ہوں ”
“معاف کیجئے گا دانیال بھائی اماں گھر پر نہیں ہے اور ابا بھی کام پر گئے ہے میں آپ کو آنے آنے کی اجازت نہیں دے سکتی”
ثانیہ نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا
دانیال کو آگ ہی لگ گئی وہ کوئی چوڑ لوٹیرہ تو نہیں تھا کہ اسے اندر نہیں آنے دے رہی تھی اس نے مشکل سے اپنا غصّے کنٹرول کیا
“دیکھو ثانی میں تم سے ہی ملنے آیا ہو باہر کھڑے کھڑے بات تو نہیں کر سکتا نہ ”
“جی آپ کو جو بھی بات کرنی ہے صبح اماں کی موجودگی میں آ کر کر لیجیے گا”
بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا یہ نام نہاد پردہ سب جانتا ہوں میں اتنی ہی دودھ میں دھلی ہوئی ہو نہ تو میرے بھائی پر دوڑے نہ ڈالتی ” دانیال نے چبا چبا کر غصّے سے کہا اسے رہ رہ کر غصہ آ رہا تھا کہ ایک چھٹانک بھر کی لڑکی نے اس کی بے عزتی کی ہے
“ابھی بہتر ہے آپ یہاں سے جائے میرے پاس آپ کے فضول سوالوں کے کوئی جواب نہیں ہے ”
“اکرام سے شادی سے انکار کر دوں ثانیہ نہیں تو بہت پچھتاوں گی ”
“آپ ہوتے کون ہے مجھے دھمکی دینے والے میں ماموں جان سے آپ کے اس رویے کی شکایت کروں گی”
“شوق سے کرنا مگر یاد رکھنا یہ شادی کر کے تم اپنے ساتھ خود زیاتی کر رہی ہو ” دانیال نے زور سے دروازے کو لات ماری اور وہاں سے چلا گیا
“پاگل نا ہوں تو بڑا آیا دھمکیاں دینے والا ”
ثانیہ نے اس بات کو اتنا سیریس نہیں لیا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دانیال نے جب سے سنا تھا کہ ابا نے اکرام کا رشتہ ثانیہ سے پکا کر لیا ہے وہ ایک پل کے لیے سکون سے نہیں رہ سکا تھا اسے رہ رہ کر اپنی قسمت پر رونا آرہا تھا دوسری طرف اماں بھی غم وغصے سے پاگل ہو رہی تھی وہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پائی شادی کی تیاری بھی شوہر کے ڈر سے بےدلی سے کرتی رہی تھی ابھی بھی شاپنگ کر کے آئی تھی آج اکرام بھی گھر پر موجود تھا اماں کو تھکا ہوا دیکھ کر ان کے لیے گرما گرم چائے بنا کر لایا وہ جانتا تھا اماں اس کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں آج اسے موقع ملا تھا کہ وہ انہیں منا لے جانتا تھا اماں اس سے بہت پیار کرتی ہے وہ مان ہی جائے گی مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اماں اس کی خوشی کے لیے چپ چاپ سب برداشت تو کر سکتی ہے مگر اس لڑکی کو کھبی بھی دل سے قبول نہیں کرنے والی تھی
“اماں یہ لے گرما گرم چائے میں نے اپنے ہاتھوں سے بنا کر لایا ہوں” اس نے نیچے اماں کے قدموں کے سامنے کاوچ پر بیٹھ کر انہیں کپ دیا جو اماں نے ناراضگی سے اسکے ہاتھ سے لے کر صوفے کے سائیڈ پر پڑے میز پر رکھی
“رہنے دوں برخوردار یہ مسکے کیسی اور کے ساتھ لگنا اتنا ہی ماں کا خیال ہوتا تو اتنا بڑا فیصلہ ماں سے پوچھے بنا نہیں کرتے “انہوں نے ناراضگی سے کہا
“اماں میری پیاری اماں اگر آپ میرے اس فیصلے پر خوش نہیں تو میں ابھی ابا کو منا کر لیتا ہوں میں نے تو آپ دونوں کے سامنے اپنی پسند رکھی تھی نا ابا نے کہا وہ پہلے میرے ساتھ جا کر پھوپو سے رشتے کی بات کرے گے آپ نے اس ٹائم کچھ بھی نہیں کہا مجھے تو یہی لگا کہ آپ بھی اس رشتے پر راضی ہے ”
اکرام نے اماں کے بعد میں سر رکھ کر لاڈ سے کہا اماں کے دل کو کچھ ہوا ابھی وہ انکار کر بھی لیتا تو ان کے شوہر کبھی بھی انکار نہیں کرتے اس لیے انہوں نے سوچ لیا تھا یہ شادی تو وہ ہونے دے گی مگر اس کے بعد ثانیہ کی زندگی حرام کر دے گی اماں نے پیار سے اس کے بالوں میں ہاتھ چلایا
“اکرام مجھے غلط مت سمجھنا ہاں میں اس رشتے کے لیے دل سے راضی نہیں تھی ابھی سوچا تو مجھے اپنا فیصلہ غلط لگا شادی تو تمہاری کرنی ہی تھی اچھا ہے اپنے گھر کی بیٹی ہی آئے گی یہاں ” اماں نے چالاکی سے کہا اکرام تو ماں کے اس بات پر نصار ہی ہو گیا
پھر اللّٰہ اللّٰہ کر کے ثانیہ اکرام کی بیوی بن کر اس گھر میں آ گئی اکرام کی محبت نے ثانیہ کو ایک نئے جہان میں ہی پہنچا دیا تھا اسے تو اماں اور دانیال کا کھچا کھچا رویہ بھی نظر نہیں آرہا تھا ابا تو اپنی پہلی اور لاڈلی بہو کے ناز اٹھاتے ہی نہیں تھک رہے تھے
ایک دن ابا صبح کام پر گئے اور واپس ان کی لاش آئی تھی ان کا روڈ آکسیڈنٹ میں انتقال ہو گیا تھا اس کے بعد گھر کا ماحول اچانک ہی بدل گیا اکرام تو ابا کے شروع کیے نئے کاروبار کے چکر میں کراچی چلے گئے ثانیہ کو وہ اماں کے پاس ہی چھوڑ گیا وہ اماں کو اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتے تھے دانیال بھی اس کی شادی کے بعد کم کم ہی گھر میں نظر آنے لگا تھا اکرام کے کراچی جانے کے بعد ثانیہ کی زندگی کا ایک تلخ باب کی ابتدا ہوئی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج چاند بہت اداس تھا
وہ لان میں آکر بیٹھ کرکرسی پر بیٹھی اور پاؤں بھی کرسی پر رکھے
اس کا دل خالی خالی تھا آنکھیں ویران تھی اس زندگی کیا سے کیا ہو گی تھی وہ تو سوچ سوچ کر ہی پاگل ہو رہی تھی وہ جانتی تھی کہ پاپا اور شاہ زر ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں مگر وہ آج تک اس نفرت کے پیچھے چھپے راز کو وہ چاہ کر بھی نہیں جان سکی تھی مما کے کتنی بار کال آئی تھی انہوں نے کتنا سمجھایا تھا کہ وہ واپس آ جائے اس کے پاپا سب ٹھیک کر لے گے مگر وہ نہیں مانی پاپا نے بھی اس سے پھر بات نہیں کی تھی اسے اس بات کا افسوس تھا مگر اب وہ اس گھر سے اس وقت تک نہیں جانا چاہتی تھی جب تک وہ شاہ زر کے ماضی کے اس تلح باب کو جان کر اسے اس درد سے نکال نہ لیتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اج حسبِ معمول شاہ زر گھر پر موجود تھا وہ ہال میں بیھٹا اخبار پڑھ رہا تھا پری عموماً اس وقت ہی روم سے نکلتی تھی جب تک شاہ زر گھر سے آفس کے لیے نکل نہیں جاتا تھا اس رات کے بعد دونوں کا سامنا نہیں ہوا تھا ابھی بھی وہ نیچے آئی ہال میں شاہ زر پر نظر پڑی تو وہی سے واپس جانے لگی کہ شاہ زر کی آواز اس کے کانوں میں پڑی جو کسی سے فون پر بات کرتے ہوئے قہقہہ لگا کر ہنس رہا تھا
پری حیران ہو کر وہی روک گی اسے وہ قہقہہ اپنے کانوں کا دھکا لگا شاہ زر تو کبھی زندگی میں کھل کر مسکرائے نہیں تھے کہا قہقہہ لگا رہے تھے پری کو حیرت ہوئی ہیٹلر کا جانشین اسے خوش بھی رہتا تھا وہ تو بس آوروں کا خون خشک کرتا رہتا تھا
“تم سچ کہ رہی ہوں نا تم واقعی میں پاکستان آ رہی ہوں ” وہ بے یقینی سے بولا شاہ زر نے تھوڑا سا مڑ کر پری کو دیکھا جو وہاں سٹیچوں بنی کھڑی تھی شاہ زر کے دماغ میں شیطانی خیال آیا تھا اور اس کے چہرے کی مسکراہٹ اور گہری ہوگئی ایسے ہے تو ایسے ہی سہی پریشے صاحبہ
“صنم تم سوچ بھی نہیں سکتی میں تمہارے یہاں آنے پر کتنا خوش ہو میرا بس نہیں چل رہا ایک ہفتے کی دوری کو پل بھر میں ختم کر دوں اور تمہیں اپنے رو بہ رو دیکھ سکوں ” شاہ زر کے لہجے میں بےقراری تھی پری کے دل کو کچھ ہوا اس میں واپس مڑ جانے کی ہمت بھی باقی نہیں رہی تھی نا جانے اس کی بات پر فون کے دوسرے سائیڈ موجود ہستی نے کیا جواب دیا تھا مگر شاہ زر کا قہقہہ پہلے سے بھی زیادہ بےسہتا تھا
“ہاہاہا نہیں وہ کیا کہ سکتی ہے میرا اس کا کوئی رشتہ نہیں ہے وہ یہاں بےکار چیزوں کی طرح ایک کونے میں پڑی رہتی ہے اس کا وجود بھی دیکھنا مجھے گوارا نہیں ہے تم تو جانتی ہو میں اس سے کتنی نفرت کرتا ہوں خیر اس کا یہاں کیا ذکر میرا موڈ خراب کرنے کا کوئی ارادہ نہیں اس لڑکی کا ذکر کر کے بس تم جلدی سے تیاری پوری کروں میں سارے کام ایک ہفتے میں حتم کرنے کی کوشش کرتا ہوں پھر میں اور تم دونوں مری کی خوب ساری سیر کرے کے ایک ایک جگہ تمہیں دیکھاؤ گا ” پری کی ہمت یہی تک تھی اس نے بھاگ کر سیڑھیاں طے کی اور کمرے میں آ کر وہی زمین پر بیٹھ کر زوروں قطار رونے لگی
“اللّٰہ جی کیوں آخر کیوں ہوا میرے ساتھ ایسا میں نے کیسی کا کیا بیگھارہ ہے میرے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا میں نے تو اسے تجھ سے مانگا ہے اسے مجھے دے دے اللّٰہ میں اس کے بنا مر جاؤ گی شاہ زر مت کرے میرے ساتھ ایسا میں کیسے آپ کی بےوفائی سہ پاؤ گی میں نے تو اپنا سب کچھ بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے آپ کے لیے صرف اور صرف آپ کی محبت میں مجھے خود سے دور مت کریں پلیز اللّٰہ جی شاہ زر کو مجھے دے دے ” وہ گڑگڑا کر اللّٰہ سے اپنے لیے شاہ زر کو مانگ رہی تھی
شاہ زر نے اس کے جاتے ہی فون کان سے ہٹایا شاہ زر نے پری کو سیڑھیوں سے نیچے آتے دیکھ لیا تھا صنم کا فون تو اس کے نیچے پہنچے کے بعد کب کا بند ہو چکا تھا یہ سب تو وہ پری کو دکھ دینے کے لیے کر رہا تھا جو زبردستی اس کے گھر میں اس کی زندگی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہی تھی اب شاہ زر کو یہی راستہ اسے اس گھر سے جانے کے لیے ٹھیک لگا تھا وہ اس کے وجود کو چاہ کر بھی مذید برداشت نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔۔ شاہ زر کے چہرے پر اس وقت بلا کی سنجیدگی تھی کچھ ٹائم پہلے کی ہنسی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔…۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“سنیے ”
شاہ زر نے موڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا
“کیا ہے ” ایک تو یہ لڑکی بھی نہ ناجانے کس مٹی کی بنی ہے روز منہ اٹھائے بےعزت ہونے آ جاتی ہے شاہ زر نے دل میں سوچا
“آپ کہی جا رہے ہے”
“نہیں کہی سے واپس آ رہا ہوں” اس نے دانت چبا کر کہا
” وہ میرا مطلب وہ نہیں تھا” پری نے شرمندگی اور جھجکتے ہوئے کہا
“جو بھی مطلب ہے جلدی کہو مجھے دیر ہو رہی ہے”اس نے ہاتھ پر باندھی گھڑی کو دیکھ کر کہا اسے واقعی دیر ہو رہی تھی
“وہ مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی اگر آپ کے پاس تھوڑا سا وقت ہے تو پلیز مجھے لے جائے” اس نے جلدی جلدی کہا کہی واقعی وہ اس کی بات سنے بغیر ہی نہ چلا جائے
“واٹ کیا کہا تم نے ویٹ آ منٹ تم نے ابھی ابھی جو کہا کیا وہ تم نے اپنے ہوش وحواس میں ہی کہا ہے نہ ” شاہ زر نے آنکھیں کھول کر پھر بند کی جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہوں پھر طنزیہ مسکراہٹ اس کے چہرے پر آ کر گزر گئی
“میں تمہیں شاپنگ پر لے کر جاؤ میں تمہارا ڈرائیور لگا ہوا ہو کیا صبح صبح آ گی میرا دماغ خراب کرنے ”
پری واپس مڑی ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تھا کہ شاہ زر اسے پکار بیھٹا
“پریشے اگر تم جانا چاہو تو میں ڈرائیور کو کچھ ٹائم میں بھیج دوں گا “اب کے اس کے لہجے میں تھوڑی نرمی تھی
“نہیں رہنے دے مجھے نہیں جانا”
“کیا کہا میں یہاں تمہارے باپ کا نوکر لگا ہوا ہوں جیسے تم آڈر سنا رہی ہوں” وہ پھر سے ایک دم آپے سے باہر ہوا اور فاصلہ تہ کرتے ہیں اس کے قریب آیا ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ کھینچ کر اپنے رو بہ رو کیا
“اب بولو کیا کہ رہی تھی مجھے سنائی نہیں دیا”
“شاہ زر میں نے صرف اس لیے کہا کیونکہ میرے پاس پیسے نہیں ہے میں اپنا کریڈٹ کارڈ گھر بھول آئی ہوں اس لیے آپ سے کہا “اس نے وضاحت دی
شاہ زر کا غصّہ ایک دم اور ذیادہ ہوا
“تمہیں کیا لگتا ہے میرے گھر میں رہ کر تم اپنے باپ کے پیسوں کے روب جماؤ گی ہاں ” پری حق دق رہ گئی یہ بندہ کچھ بھی ٹھیک نہیں سوچ سکتا تھا
شاہ زر نے اس کا ہاتھ چھوڑا ویلٹ سے اپنا کریڈٹ کارڈ نکال کر اس کے ہاتھ پر رکھا
“آئیندہ مجھے اس شخص کے پیسوں کا ذکر کرتی نظر نہ آؤ تم سمجھی یہ کریڈٹ کارڈ رکھو چاہے تو ساری اکاونٹ خالی کر دینا مگر اس پیسوں کا ذکر دوبارہ مت کرنا میں ڈرائیور کو بھجوا دوں گا” وہ کہ کر چلا گیا
“عجیب انسان ہے میں نے ایسا تو کچھ بھی نہیں کہا خیر اب میں بھی آپ کے کریڈٹ کارڈ کا ایسا استمعال کروں گی کہ آئندہ ایسی آفر دینے سے پہلے ہزار بار سوچھے گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی
آج صبح سے ہی موسم خراب تھا بارش کے ہونے کے امکانات زیادہ تھے ثانیہ صبح سے کچن میں لگی ہوئی تھی دانیال کے کچھ دوست آ رہے تھے رات کے کھانے پر اور دانیال نے خوب سارے مشکل مشکل کھانے بنانے کے لیے کہا تھا دوسری طرف اماں کو لگا تھا کہ سردی کا موسم ہے آج بارش ہوئی تو پھر کپڑے دھونا مشکل ہو جائے گا اس لئے سارے گھر کے کپڑے بیڈ شیٹ پردے سب ہی آج اتار کر دھونے کا حکم تھا
“اماں کل لگا لوں مشین آج دانیال بھائی کے دوست آ رہے ہیں نہ تو ان کے لیے کھانا تیار کرنا ہے “اس نے عاجزی سے کہا
“کیا کہا تم نے کمبخت تم اب مجھے سیکھاوں گی کیا کرنا ہے کیا نہیں “اماں جلال میں اگی انہوں نے اٹھ کر ثانیہ کو بالوں سے پکڑا
“پہلے میرے بیٹے کو مجھ سے چھین لیا پھر اس کے بعد میرے شوہر کو کھا گی اب مجھے اس گھر کے طور طریقے سیکھاوں گی تم “انہوں نے ایک جھٹکا دے کر اس کے بال اور مظبوطی سے پکڑے اور اس کے بعد موھکوں اور تھپڑوں کی بوچھاڑ کر دی
“اماں اماں خدا کا واسطہ ہے مجھ پر رحم کرے میں آپ کے بیٹے کے بچے کی ماں بننے والی ہو اتنا ظلم مت کرے ”
وہ گڑگڑئی روئی خدا کے واسطے دیے مگر اماں پر کوئی بھی بات عصر نہیں کر رہی تھی آج تو انہوں نے اپنے اندار کا سارا غبار نکال لیا
دانیال کب کا دروازے میں کھڑا تماشا دیکھ رہا تھا ثانیہ کی نظر اس پر پڑی تو اسے بھی مدد کرنے کے لیے پکارتی رہی وہ بےضمیر شحض واہی کھڑا اسے مار کھاتے دیکھتا رہا جب اماں مارمارکر تھک گی تو اسے وہی چھوڑ کر کمرے سے نکل گئی دانیال اس کے پاس آیا
“چچ چچ افسوس بہت مارا نہ اماں نے بہت لگی ہو گی تمہیں کہا تھا نہ مت کرو یہ شادی تب مان لیتی آج ایسا دن نہ دیکھنا پڑتا ” ثانیہ نے ایک دکھ بھری نظر سامنے کھڑے انسان پر ڈالی
“یہ تہسمے بعد میں بہا دینا ابھی آٹھ کر میرے دوستوں کے لیے کھانا تیار کرو کوئی کمی رہی تو اماں سے بھی زیادہ بری طرح پیش آؤ گا ” وہ وان کرتا ہوا لمبے لمبے ڈگ بھرتا اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا
ثانیہ نے اپنے دکھی جسم کو بہت مشکلوں سے سنبھالا پھر پورا ٹائم بےخس بنی کام میں مصروف ہو گئی وہ تو اپنے گھر کی اکلوتی بیٹی تھی اماں نے گھر کے سارے کام بہت سختی سے سیکھائے تھے مگر انہوں نے مار کھا کر اسے برداشت کرنا نہیں سیکھایا تھا
وہ رات گئے کمرے میں لوٹی اس نے ایک کاغذ پین لیا اور اس پر اپنے پر ہونے والے سارے ظلم لکھتی رہی وہ سب جو وہ کسی سے کہ نہیں سکتی تھی اکرام تو اس سے بہت دور تھا وہ چاہ کر بھی اسے یہ سب نہیں بتا سکتی تھی اس نے وہ کاغذ بہت اختیاط سے سنھبال کر الماری میں رکھا وہ نہیں جانتی تھی آنے والے وقت میں یہ سارے لفظ کسی کے لیے کتنے تکلیف دہ ہو گے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دن بے کیف سے گزر رہے تھے وہی صبح وہی راتیں وہ اس ساری روٹین سے اکتا گئی تھی صبح شاہ زر کے جانے کے بعد وہ بوا کو بتا کر باہر نکل گئ چلتے چلتے وہ بہت آگے نکل گئی تھی ابھی تو صبح ک آغاز ہوا تھا اس لئے وہ بےفکر ہو کر گھوم پیھر رہی تھی اس کا رح مخالف سمت تھا صبح سے دوپہر ہو گئی اس کا گھر جانے کا دل نہیں کر رہا تھا کل ہی اسے شاہ زر نے کچھ پیسے دیے تھے وہ ساتھ ہی چند نوٹ اٹھا لائی تھی
ابھی اس نے ایک ڈاھبے میں بیٹھ کر نان نہاری کھائی پھر مزےدار سی گرما گرم چائے پی اور پھر سے ان پہاڑی راستوں پر چلنے لگی اسے وقت کا خیال نہیں رہا تھا وہ ان حسین لمحوں کو اپنی مٹھی میں قید کرنا چاہتی تھی مری کی خوبصورتی کو اپنی آنکھوں میں قید کرنا چاہتی تھی پھر یہ وقت آئے نہ آئے
اس نے اس وقت خوبصورت سا کڑاہی والا پنگ سوٹ پہنا تھا ساتھ شال کو اچھے سے اوھڑ رکھا تھا بالوں کو نرم سے جوڑے کی شکل میں باندھا تھا دائیں ہاتھ پر پیاری سی گھڑی بندی ہوئی تھی دوسرے ہاتھ میں چھوٹا سا کلچ تھا جس پر موتی جڑے تھے
شاہ زر شام گئے گھر لوٹا بوا نے شاہ زر کو دیکھ کر پریشانی سے اسے دیکھا
“کیا ہوا ہے بوا آپ اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہے اور اس طرح دروازے پر کھڑے ہو کر کیا کر رہی ہے وہ بھی شام گئے” اس نے ایک نظر پریشان کھڑی بوا کو دیکھا
“بے ۔ بےیٹا بیٹا وہ۔ وہ۔ ”
کیا بات ہے بوا کھل کر کرے مجھے پریشانی ہو رہی ہے” اب کی بار شاہ زر کو بھی کچھ انہونی کا احساس ہوا
“”وہ بیٹا پری بیٹی تمہارے جانے کے بعد ہی نکل گئ تھی کہ رہی تھی میرا دل بہت تنگ ہے کچھ ٹائم باہر کی تازہ ہوا کھا کر آتی ہو مگر ابھی تک واپس نہیں آئیں” بوا نے روہنسی ہو کر کہا
“کیا مطلب کہا گئ ہے وہ بوا اسے تو یہاں کے راستے بھی نہیں پتا اور صبح سے شام ہو گئی اس کا کوئی آتا پتا نہیں ہے آپ نے مجھے بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا کہا گی ہو گئی وہ یہاں تو چاروں طرف جنگل ہی جنگل ہے مجھے آپ سے اس لاپرواہی کی امید نہیں تھی بوا ” شاہ زر نے ایک افسوس بھری نظر بوا پر ڈالی پھر اندار آ کر موبائل سے اس کا نمبر ملانے لگا جو بند جا رہا تھا اب سعی مانوں میں پریشان ہونے کی باری شاہ زر کی تھی اس نے کوٹ اتار کر صوفے پر اچھالا اس نے شرٹ کی آستینیں فولڈ کی اور شرٹ کے اوپری تینوں بٹن کھول دیے وہ بال کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہل رہا تھا بار بار فون ٹرائے کیا مگر وہ مسلسل بند جا رہا تھا
اس نے اجلت میں سائیڈ ٹیبل پر پڑی گاڑی کر چابی اٹھائی
“بوا میں پری کو ڈھونڈنے جا رہا ہوں اپ کو بھی کوئی اطلاع ملے مجھے فوراً بتا دیجیے گا
اس نے سارا آس پاس کا علاقہ ڈھونڈ دلا پری کا کوئی نام ونشان بھی نہیں ملا اس نے سائیڈ پر گاڑی روکی اور سر گاڑی کے سیٹ پر رکھا وہ اس وقت بہت پریشان تھا اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح وہ پری کو اپنے روبہ رو لے آئے اس نے ایک ہاتھ سے اپنا سر دبایا
“کہا چلی گئی ہوں پری میں کہا ڈھونڈوں تمہیں تم نہ ملی تو کیا جواب دوں گا میں خود کو تم تو میری زمیداری تھی پھر میں نے کیسے تمہارا خیال نہیں رکھا واپس آ جاؤ پری پلیز میرے دل کو قرار نہیں آ رہا لوٹ آؤ نہ”
اس کا فون بجا اس نے جلدی سے دیکھا انجان نمبر تھا اس نے سے کان سے لگایا آگے کی بات سن کر اس نے موبائل واپس رکھا اور گاڑی مین روڈ پر لا کر تیز رفتار سے چلائی وہ اس وقت اڑ کر وہاں پہنچ جانا چاہتا تھا
۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت رش ڈائیونگ کر کے وہ مطلوبہ جگہ پہنچا وہاں سے آگے کا سفر اسے پیدل کرنا تھا کیونکہ جو جگہ اسے بتائی گئی تھی وہ پہاڑ کے اوپر بنی تھی وہاں گاڑی کا جانا مشکل تھا وہ جلدی جلدی وہاں پہنچا گھر باہر سے ہی خستاحال تھا اس نے دستک دی تھوڑی دیر بعد کوئی ضعیف سی عورت باہر نکالی
“اسلام وعلیکم میں شاہ زر میری بیوی غالیبن آپ کے ہی گھر میں ہے شاید مجھے یہی پتہ دیا تھا اس نے ”
“ہاں ہاں بیٹا وہ یہی ہے آپ آؤ اندار بہت گھبرائی ہوئی تھی ابھی بھی رو رہی ہے شکر ہے بیٹا آپ گئے ”
وہ اسے لے کر اندار داخل ہوئی گھر اندار سے بھی چھوٹا سا تھا مگر صاف ستھرا تھا
پری نے اسے دیکھا تو خود پر اختیار نہ رکھ پائیں بھاگ کر شاہ زر کے چوڑے سینے میں میں منہ چھپا کر رونے لگی
شاہ زر اس حملے کے لیے بلکل تیار نہ تھا وہ تھوڑا سا لڑکاریا
“شاہ زر میں ۔ ۔می بہت ڈر گئی تھی شکر ہے آپ آ گئے مجھے گھر کا راستہ یاد ہی نہیں رہا”پری نے رو کر بتایا
شاہ زر نے اسے کندھے سے پکڑ کر دھیرے سے خود سے الگ کیا پری ایک دم ہوش میں واپس آئی اور شرمندگی سے شاہ زر کو دیکھا اس کا چہرہ کسی بھی قسم کے جذبات سے آری تھا بلکل سپاٹ ایک گہری اور چبتی ہوئی نظر پری پر ڈالی
پری نے اسے دیکھا جو ہمیشہ کی طرح آج بھی بہت ہینڈسم لگ رہا تھا چہرے پر ہلکی ہلکی ڈھاڑی اس کے چہرے کو ہمیشہ کی طرح خوبصورت بنا رہی تھی بال بکھرے ہوئے ماتھے پر پڑے تھے آنکھوں میں تھکن اتری ہوئی تھی شرٹ کے بازوں اوپر کو فولڈ کیے اوپری تینوں بٹن کھولے ہوئے تھے
شاہ زر نے اسے نا پسندیدگی سے دیکھا پری نے جلدی سے نظریں چرا لی
شاہ زر نے ان لوگوں کا شکریہ ادا کیا اور انہیں زبردستی کچھ پیسے تھمائےاور پری کو ہاتھ کے اشارے سے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا پری بھی سب سے مل کر اس کے پیچھے گی
پورا راستہ شاہ زر سپاٹ چہرے کے ساتھ ڈرائونگ کرتا رہا پری میں بھی ہمت نہیں تھی کہ وہ اسے پکڑ کر اپنی صفائی میں کچھ کہ سکتی اس نے نظریں اپنے ہاتھوں پر جما لی
گاڑی گھر کے گیراج میں پارک کی پھر اتر کر پری کے جانب گھوما جو دروازا کھول کر باہر نکل رہی تھی شاہ زر نے اس کا ہاتھ پکڑا کر باہر کھینچا پر اسے سوچنے کا موقع دیا بنا اپنے ساتھ کھسیٹ کر اوپر اپنے کمرے میں لے آیا اور صوفے کی جانب جھٹکا دیا وہ سیدھا صوفے پر جا کر گری
“تم کس کی اجازت سے نکلی تھی گھر سے اتنا بڑا رسک کس بل بوتے پر لیا ”
شاہ زر کا غصہ ساتویں آسمان کو پہنچا ہوا تھا
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...