چند دن بیتے اور اسے شاہ کی جانب سے کال موصول ہوئی۔۔ دھڑکتے دل سمیت اس نے کال رسیو کی مگر دوسری جانب سے کال منقطع ہو گئی۔۔ اس کا چہرہ بجھ گیا۔۔ وہ ابھی چند منٹ قبل ہی کھانے سے فارغ ہوتی کمرے میں آئی تھی۔۔ دفعتاً میسج ٹون بجی۔۔ لاک ہٹاتے اس نے سکرین کی جانب دیکھا تو شاہ کی جانب سے بھیجا گیا پیغام سکرین پہ جگمگا رہا تھا۔۔ “میں آ رہا ہوں۔۔ تم بلیک شلوار سوٹ میں ریڈی رہنا۔۔ اور ہاں ہو سکے تو مہندی بھی لگانا۔۔ تم جانتی ہو نہ مجھے تمھارے ہاتھوں پہ مہندی کتنی پسند ہے۔۔ میں تمھیں بلکل ویسے ہی دیکھنا چاہتا ہوں۔۔”
میسج لکھتے شاہ نے باقاعدہ اسے تصور کیا تھا۔۔ ایمان نم آنکھوں سمیت مسکرا دی۔۔ الٹے قدموں وآپس مڑتی وہ ڈائننگ ہال میں آئی۔۔”مما پاپا شاہان آ رہا ہے۔۔” وہ بلند آواز بولی یوں کہ لاؤنج میں بیٹھے احمد اور طاہرہ چونک پڑے تھے۔۔ انہیں حیرت میں گھرا چھوڑ وہ اپنے کمرے کی جانب آئی۔۔ وارڈروب کھولے سوٹ تلاش کرنے لگی۔۔ اسے شاہ کے مطابق تیاری کرنی تھی۔۔ آج ٹھیک ایک سال بعد وہ وآپس آئے گا۔۔ دونوں بظاہر ایک دوسرے سے ملیں گے۔۔ وہ اسے سن سکے گی۔۔ دیکھ سکے گی۔۔ اسکی قربت محسوس کر سکے گی۔۔ کیا دنیا میں اس سے خوبصورت احساس کوئی تھا؟؟؟ شاید نہیں۔۔
شاور لیتے وہ باتھ روم سے برآمد ہوئی۔۔ گیلے بالوں کو ٹاول سے رگڑتے’ ٹاول سائیڈ ٹیبل پہ رکھے بیڈ پہ آ بیٹھی۔۔ سائیڈ ڈراؤ سے مہندی نکالی۔۔ چند منٹوں میں خوبصورت ڈیزائن اسکے ہاتھ پہ سجا تھا،، وہ مسکراتی اپنی ہتھیلی پہ چڑھے گہرے رنگ کو دیکھ رہی تھی۔۔ وہ رنگ جو شاہ کی محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔۔ آنکھیں موندے اس نے حنا کی خوشبو کو سونگھا۔۔ خوشبو نتھنیوں سے ٹکرائی۔۔ ساتھ ہی شاہ کی موجودگی کا احساس ہوا۔۔
“وہ آ رہا ہے۔۔” ایمان سر تکئے سے ٹکائے آنکھیں موند گئی۔۔ چت لیٹی وہ دل ہی دل میں خود سے مخاطب تھی۔۔ “کب گزریں گے یہ لمحے؟؟؟ کب آئے گا وہ میری نگاہوں کے مقابل؟؟؟ میں کب اسے محسوس کروں گی؟؟؟ کب اس کی آواز میری سماعتوں سے ٹکرائے گی؟؟؟ اس کے لہجے میں حسرت کی آمیزش تھی۔۔ اسے اب محض اسی لمحے کا انتظار تھا جب وہ شاہ سے ملے گی۔۔ اک عرصہ بعد وہ اس کا چہرہ دیکھنے والی تھی۔۔ دل کی مرجھائی کونپلیں پھر سے ہری بھری ہونے لگی تھیں۔۔ انہیں خوراک مل گئی تھی۔۔ شاہ کی موجودگی کے احساس نے انہیں تروتازہ کر دیا تھا مگر اس خوشی کی رمق محض چند منٹوں کی مہمان تھی۔۔
* * * * * * *
شام کی نیلگوں سیاہی آسمان پہ پھیلنے لگی تو احمد صاحب اپنے شجرہ نصب کے ہمراہ قمرالحق صاحب کے گھر آن پہنچے۔۔ سب کے چہرے فرط جذبات سے ٹمٹما رہے تھے۔۔ قمر صاحب کا اکلوتا بیٹا آج ایک عرصے بعد لوٹ کر آ رہا تھا۔۔ فاطمہ بیگم پھولے نہ سما رہیں تھیں۔۔ انہیں لمحے بھر کی بھی فرصت نہ تھی۔۔ شاہ کی ہر پسند کی ڈش گول میز پہ سجی تھی۔۔
لاؤنج سے خوش گپیوں کی آوازیں ابھر رہیں تھیں۔۔ ایمان ان میں موجود ہونے کے باوجود اطراف سے غافل گیٹ کی جانب ٹٹکی باندھے دیکھ رہی تھی۔۔ اسے بےصبری سے شاہ کا انتظار تھا۔۔ بیتے پلوں کی یادیں ذہن کے پردے پہ رواں دواں تھیں۔۔
“آئی وانٹ یو ایز مائی لائف پارٹنر۔۔ ول یو بی؟؟؟؟”شاہ کے لبوں سے ادا ہوا یہ جملہ ایمان کے دل کے نہایت قریب تھا، گویا اس کے دل کے کورے پنوں پہ حرف با حرف پکی سیاہی سے درج کر دیا گیا ہو جسے کوئی شے نہ مٹا سکے۔۔
دفعتاً قمر الحق صاحب کے موبائل کی تواتر سے بجتی گھنٹی سن وہ ہوش کی دنیا میں وآپس لوٹی۔۔ نگاہیں موڑیں۔۔ ذہن البتہ اب تک گیٹ کی سمت الجھا تھا۔۔ سماعتوں سے شاہ کے کہے جملے گونج رہے تھے۔۔ وہ اس کا لمس محسوس کر سکتی تھی۔۔
“مائی ہارٹ بیٹس فار یو۔۔” قمر الحق صاحب کے ہاتھ ڈھلک گئے۔۔ سب ہی نے سہم کر ان کی جانب دیکھا تھا جو تقریبا صوفے پہ بےحس و حرکت ڈھے گئے تھے۔۔ احمد صاحب فورا سے بیشتر موبائل کی جانب لپکے۔۔ جوں جوں وہ سنتے گئے انکے چہرے کی رنگت فق ہوتی گئی۔۔ ایمان باپ کے تاثرات دیکھ مزید خوفزدہ ہوئی۔۔ احمد نے نگاہیں موڑیں تو ایمان کو اپنی جانب دیکھتا پایا۔۔ ضبط کا دامن توڑے دو آنسو ٹوٹ کر گالوں پہ بہہ نکلے۔۔ گردن خود با خود جھک گئی۔۔
* * * * * * *
حال
وہ خاموش ہو چکی تھی۔۔ سپاٹ چہرہ لئے چھت کی جانب دیکھے گئی۔۔ میں نے اسے پکارا نہیں وگرنہ شاید وہ پھر سے رونے لگتی۔۔ قریب کھڑے علی نے سر کے خم سے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا تھا۔۔
“امی۔۔ امی وہ چلا گیا تھا نہ؟؟؟؟” عقب سے آتی آواز پہ میرے قدم منجمد رہ گئے۔۔ وہ روئی نہ تھی، بس سادہ سے لہجے میں کہتے جیسے یقین دہانی کرنا چاہ رہی تھی۔۔ “وہ چھوڑ گیا تھا نہ مجھے؟؟؟؟” اس کے لہجے میں زخمی پن در آیا تھا۔۔ “وہ جھوٹ بولتا تھا۔۔ شاہان۔۔ مجھے۔۔ چھوڑ گیا تھا۔۔ انہوں نے(آسمان کی جانب اشارہ کیا) ہمیں۔۔ جدا کر دیا۔۔ ہم۔۔۔ ہم بچھڑ گئے تھے نہ؟؟؟”
طاہرہ آنٹی بلکنے لگیں۔۔ مجھے اپنا آپ مجرم سا لگا۔۔ میں نے انجانے میں ان کے زخم مزید ہرے کر دئے تھے۔۔ وہ ہنوز کہہ رہی تھی مگر علی مجھے لئے باہر آیا اور دروازہ بند کر دیا۔۔ آواز کی راہ گزر رک گئی۔۔
کرسی پہ بیٹھتے اسکے چہرے کی تھکن میں واضح دیکھ سکتی تھی۔۔ “کیا ہوا تھا شاہ کو؟؟؟” میں اس راز سے آشنا تھی مگر اپنی دلی تسکین کی خاطر دریافت کرنے لگی۔۔
“ہی ڈائیڈ۔۔” میری جانب دیکھتے وہ کہنے لگا۔۔ “ان آ کار ایکسیڈنٹ۔۔”
* * * * * * *