وہ دونوں روم میں ائے تو نور زمیں پر بیٹھی تھی بلال اس کے پاس ایا نور یہاں کیوں بیٹھی ہے آپ بلال نے پوچھا
بھائ آپ بیٹھ جاے نور نے جواب دیا تو نور درمیان میں تھی اور ایک سائیڈ پر بلال بیٹھ گیا اور دوسری پر شاہ
کچھ دیر روم میں خاموش رہی پھر نور نے آغاز کیا میں آپ لوگوں کو کچھ بتانا چاھتی ہوں جب تک میری بات پوری نہیں ہوتی کوئی
کہی نہیں جائے گا
“میرے بابا کی ایک بہن تھی یعنی میری پھوپھو ان کا ایک بیٹا تھا جو کہ مجھے سے سات سال بڑھا تھا اس کا نام طاہر تھا جب ماں اور بابا نے فصیلہ کیا کہ وہ مجھے اپنی بیٹی بنائے گیا تو پھوپھو نے بہت باتے کی کہ پتا نہیں میں کس کا خون ہو وغیر وغیر لیکن بابا اور ماں کو
خوش دیکھا کر وہ کبھی کبھی چپ بھی کر جاتی کیونکہ جیتنی محبت بابا پھوپھو سے کرتے تھے اتنی ہی محبت پھوپھو بابا سے کرتی تھی وقت کا کام ہے گزرانا اور وہ گزار میری اور طاہر کی کبھی بنی نہیں وجہ وہ بڑھ تھا اور مجھے ہر وقت مارتا تھا اور میں ڈدر جاتی تھی یہ بات میری ماں نے نوٹ کی وہ مجھے بہاد بنا چاھتی تھی
میں پانچ سال کی ہو گئی اور ایک دن طاہر کی اور میری لڑئی ہوئی تو طاہر نے مجھے مارنا شروع کر دیا لیکن اس بارے میں ڈدری نہیں اور اس کا مقابلہ کیا وہ حیران ہوا پھر پھوپھو آگئی اپنے بیٹا کو مجھے سے مار کھاتے دیکھ کر انہوں نے مجھے مارنا شروع کر دیا لیکن کچھ وقت بعد ہی بابا گھر آئے اور مجھے انہوں نے پھوپھو سے بچیا
کیونکہ پھوپھو ماں کی کوئی بات نہیں سن رہی تھی تو پھوپھو نے مجھے برا بھال کہا شروع کر دیے جاتے ہوے وہ بولی کہ میں” کیسی کی ناجائز اولاد ہو ”
رات کو میں نے بابا سے پوچھا کہ ناجائز کیا ہوتا ہے پہلے تو بابا خاموش رہے لیکن پھر انہوں نے کہا میں ان کی بیٹی نہیں ہوں ایک رات ایک پری ائی تھی ان کے پاس اس نے آپ کو مجھے دیے اور کہا ایک دن وہ واپس آگئی آپ کو یہاں سے لے جائے گئی
بابا نے ایک کہانی سنی جس کو سن کر میں خوش ہو گئی کہ میں ایک پری کی بیٹی ہو لیکن اداس بھی ہوئی ماں بابا کی وجہ سے اور آپ کو پتا انہوں نے مجھے یہ کہانی کیوں سنی کیونکہ ان کو پتا تھا کہ دنیا والے مجھے اس نام سے ہی پکارے گئے
کچھ سال اور گزراے میں ۱۲ سال کی ہو گئی اس دوران پھوپھو کبھی بہت اچھی بن جاتی تو کبھی مجھے پر غصہ کرتی لیکن ایک جملہ میں نے اس دنیا سے سنا کہ “میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو”
ایک دن میں سکول سے گھر ائی تو گھر پر تالہ لگا تھا مجھے حیرات ہوئی
بابا تو کام پر تھے لیکن ماں وہ کہاں جا سکتی ہے؟؟؟ تو میں ساتھ والے گھر چلی گئی جوکہ پھوپھو کا تھا گھر پر طاہر موجود تھا میں نے اس سے ماں کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ پھوپھو کی طعبیت اچانک خراب ہوئی اور ماں ان کو ہپستال لے کر گئی ہے طاہر سے میں نے اپنے گھر کی چابی مانگئی تو اس نے کہا کہ چابی اس کے پاس نہیں ہے
میں تھوڑی حیران ہوئی کہ ماں چابی کیوں نہیں دے کر گئی ؟؟؟ طاہر نے مجھے اندر انے کو کہا اور میں کشمش میں تھی اندر جاو کہ نہیں کیونکہ ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ طاہر کے ساتھ بیٹھنے کو طاہر مجھے پریشان دیکھا کر ہسنا اور اندر چلا گیا باہر بہت گرمی تھی سو
میں گھر کے اندر آگئی یہ جانے بغیر کے اندر ہونے کیا والا ہے اب میں روم میں تھی ابھی میں چارپئی پر بیٹھی ہی تھی کہ اچانک روم کا درواذ بند ہو گیا اور بند کرنے والا طاہر تھا طاہر یہ کیا کر رہے ہوں میں نے پوچھا تو وہ مجھے سے عجیب بے داہ باتے کرنے لگا
اب وہ آہستہ آہستہ میری طرف ارہا تھا میں نے اب وہ بات کر رہی تھی کہ بلال بولا بس بس نور ایک الفاظ اور نہیں جبکہ نور نے بلال کی طرف دیکھا میں نے کیا کہا تھا بھائ جب تک میری بات مکمل نہیں ہوتی کوئی کچھ نہیں کہ گا
تو بلال اس کی بات پر بے بس ہو گیا نور نے ایک بار بلال کو دیکھا اور ایک بار شاہ کو جس کہ چہرہ پر سنجیدگئی تھی
مجھے پہلے خیال پری کا ایا میں نے مدر کے لیے پری کو پکارا لیکن وہ ہوتی تو آتی پھر بابا پھر ماں سب کو پکارا میں نے طاہر سے کہا پلیز مجھے جانے دیے میں اس کے پاوں پری نہیں وہ کچھ سنے کو تیار نہیں تھا اس ہی وقت بابا روم میں ائے مجھے نہیں پتا کہاں سے لیکن وہ ائے میں بھاگ کر
بابا کے سینے لگئی بابا پریشان ہوے مجھے اس حالت میں دیکھا کر کچھ وقت میں ہی بابا کو سمجھ آگئی کہ یہاں ہو کیا رہا تھا تو بابا نے طاہر کو مارنا شروع کر دیا اس ہی وقت پھوپھو اور ماں گھر ائی ماں پریشان سی ان کو سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہاں ہو کیا رہا ہے لیکن پھوپھو دو منٹ
میں سمجھ گئی میں حالت دیکھا کر سو پھوپھو نے مجھے مارنا شروع کر دیا اور پھوپھو نے کہا یہ اس لڑکی کے خون کا اثر ہے جو آج یہ کر رہی ہے پتا نہیں یہ کس کا گندہ خون ہے ایسی لڑکیوں کو گھر میں نہیں رکھا جاتے اس کو کیسی کوٹھے پر ہونا چاہی
پھوپھو کے الفاظ مجھے پر کیسی بم کی طرح گرے اس ہی وقت طاہر پھوپھو سے بولا ماما میں نے اس کو اس کے گھر کی چابی دی تھی تو یہ بولی مجھے اپنے گھر میں اکیلے ڈدر لگتا ہے تو کیا میں اندر اجاو پھر یہ میرے قریب ائی میں نے کہا یہ سب غلط ہے تو یہ بولی کہ یہ مجھے
سے محبت کرتی ہے بس پھر کیا اس خود کی یہ حالت بنا لی اور پھر ماموں اگئے تو اس نے یہ ڈرامہ شروع کر دیا جبکہ پھوپھو نے طاہر کو سینے سے لگ لیا اور میں اپنی صافئ میں کچھ نہیں بول پائی بابا میرے پاس ائے انہوں نے مجھے دیکھا اور مجھے لگا کہ اب وہ مجھے پر یقین نہیں کرے گئے
بابا نے مجھے پر اپنا پرنا دیے اور طاہر سے کہا اگر یہ بات مجھے خود نور بھی کہ کہ یہ سب سچ ہے تو میں اس پر یقین نہیں کرو گا چلو نور بابا نے کہا جو کہ میں حیرات سے بابا کو دیکھ رہی تھی پھر رات کو میں نے بابا کو ساری بات بتائی میری بات سن کر ماں اور بابا دونوں رونے لگے
کچھ دیر ہم لوگ روتے رہے پھر بابا بولے نور مجھے معاف کر دو میں تمہاری حفاطت نہیں کر سکا ان کی بات سے سن کر میں تڑپ گئی
پھر یہ بات پورے محلہ میں پھپل گئی لوگ پہلے ہی مجھے پتا نہیں کیا کیا کہتے تھے اب ان کو اور مکا مل گیا باتے کرنا کو سو بابا نے وہ محلہ چھوڑ دیا پھر ہم نئے محلہ میں اگئے اس سے کا مجھے پر بہت اثر ہوا میں نے مسکرانے چھوڑ دیا میں زندگی جینا بھول گئی
لیکن ماں اور بابا کو میری حالت پر افسوس ہوتا وقت دنوں میں بدلہ اور دن ماہنوں میں بدلہ اور ماہ سالوں میں لیکن ایک چیز وہی رہی وہ تھا ایک جملہ کہ “میں کیسی کی ناجائز اولاد ہو ” جو اکثر مجھے سنے کو ملا تھا
لیکن اس جملہ کو میں نے اپنی طاقت بنایا نہ کہ کمزوری لیکن اس سب میں مجھے اس پری سے نفرت ہو گئی اور ان لوگوں سے بھی جنہوں نے مجھے پیدا کیا تھا پھر وارث نے مجھے اغوہ کیا مجھے سے نکاح کیا
آپ جانتے ہے وارث میں نے آپ سے نکاح کیوں کیا اب نور وارث سے مخاطب ہوئی اور وارث نے نفی میں سر ہلایا کیونکہ کہ میں نے آپ کی آنکھوں میں اپنے لیے غرت دیکھی احترام دیکھا تھا پھر توحید سر کا مجھے اغوہ کرنا
میرے لیے توحید سر طاہر جیسے تھے میں نے ان کی آنکھوں میں ہوس دیکھی تھی لیکن اپنی ضد کی وجہ سے ان سے منگنی کرنے کے لیے تیار ہوئی لیکن میں کبھی ان سے شادی نہیں کرتی
بابا نہیں رہے میں اس گھر میں ائی یہاں ہر وقت مجھے کچھ عجیب سا لگتا حاص کر جب میں آنٹی انکل اور بلال بھائ کو دیکھتی لیکن مجھے میرا وہم لگا پھر اس دن مجھے پتا کہ میں احمد شاہ کی اولاد ہو میں دل کیا کہ یہاں سے بھاگ جائے یا مر جائے جن لوگوں سے میں نفرت کرتی ہو
میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی لیکن اس دن میرے سر سے خون نکال رہا تھا اور بھائ رو رہے تھے بھائ کو دیکھ کر مجھے کچھ ہوا صرف بھائ کی وجہ سے میں نے اپنے دل کو سمجھیا اور پھر بابا کا وعدہ یاد ایا کہ مجھے آپ کو اپنا شوہر تسلم کرنے ہے آپ نے مجھے سچ نہیں بتایا وارث
لیکن پھر بھی میں نے آپ کو معاف کیا ایک اور مکا دیا لیکن اس دن میں نے بھائ اور آنٹی کی بات سن لی مجھے لگ اب سانس نہیں ائے گا اور وہی ہو وارث مجھے اس گھر میں نہیں رہنا میں جب بھی ان دونوں کو دیکھتی ہو مجھے وہ سب یاد آتا ہے میں مر جاو گئی وارث میں اس گھر میں نہیں رہنا نور نے کہا اور رونے لگئ اس کو روتے دیکھ
کر شاہ نے اپنے ساتھ لگیا اور بلال ضبظ کرتے روم سے باہر چلا گیا
__________________
وہ بہت دیر تک روتی رہی تو وارث۔ نے بھی اس کو رونے دیا لیکن خود سے وعدہ کیا کہ آج کے بعد وہ اس کو رونے نہیں دے گا لیکن جو انسان سوچتا ہے ویسا ہوتا نہیں ہے ہم اپنی طرف سے بہت پلین بناتے ہے مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے شائد نور کی قسمت میں ابھی بہت رونا تھا
وارث میں بہت بری ہوں میں اچھی بیوی ثابت نہیں ہوئی میں آپ کو آپ کے گھر والوں سے کبھی الگ نہیں کرنا چاہتی تھی لیکن میں نے بہت کوشش کی اور اب اس فصیلہ پر پوچھی ہوں مجھے اس گھر میں نہیں رہنا وارث میں نے کبھی بیوی ہونے کے حقوق و فرائض ادا نہیں کیے
نور وارث سے الگ ہو کر بولی جبکہ وارث اس کی بات سن کر حیران ہوا پتا نہیں یہ لڑکی کیا کیا سوچتی ہے پاگل وارث نے سوچا نور آپ کو پتا ہے میں نے آپ سے نکاح کیوں کیا وارث نے پوچھا تاکہ آپ مجھے سر توحید سے بچا سکے نور نے کہا نہیں نور میں نے جو آپ کو پہلی بارا دیکھا پتا نہیں کیوں آپ مجھے اچھی لگئی
جبکہ آپ نے مجھے سے بہت بدتیمزی کی تھی لیکن پھر مجھے پتا چلا کہ توحید نے راشتہ بیجا ہے تو مجھے بہت غصہ ایا جو کہ میں خود سمجھنے سے قاصر تھا اس لیے آپ کے پاس ایا کہ آپ توحید سے دور رہے جبکہ مجھے پتا تھا کہ آپ توحید کو منع کر چوکی ہے
لیکن آپ نے ضد میں اکر توحید کو ہاں کی اس ہی دن میں نے فصیلہ کیا کہ میں آپ سے نکاح کرو گا اس دن مجھے یہ بھی پتا چلا کہ آپ میری کزن ہو سو میں نے بلال سے کہ کر آپ کو اغوہ کرویا لیکن اس کو پتا نہیں تھا کہ آپ اس کی ڈول ہو بلال نے مجھے بہت رکا کہ میں کیسی لڑکی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہو
لیکن میرے سر پر بس ایک جنون تھا کہ مجھے آپ سے نکاح کرنا ہے لیکن اس دن آپ کا اکیسڈنٹ ہوا میں ڈدر گیا نور مجھے لگا میں نے آپ کو کھود دیا ہے تب مجھے احساس ہوا کہ مجھے آپ سے بہت محبت ہے
وقت کے ساتھ میری محبت بڑھ گئی شاہ اس سے اظہار محبت کر رہا تھا جبکہ نور شاک سی اس کو دیکھ رہی تھی شاہ اٹھا اس کو بھی اٹھیا وہ نور کو لیے کر آئینہ کے پاس ایا نور دیکھے وارث نے اس کو اپنا عکس دیکھنے کو کہا یہ تو نہیں ہے میری نور جس کی آنکھیں مجھے بہت پسند ہے جو مسکراتی ہے تو میری دنیا بدل جاتی ہے
جب وہ غصہ کرتی ہے تو اس کی چھوٹی سی ناک لال ہو جاتی ہے جو مجھے بہت پسند ہے شاہ نے نور کی ناک دانتے ہوے کہا جو کبھی کیسی کے سامنے روتی نہیں ہے نور آپ مجھے روتی ہوئی اچھی نہیں لگتی اور رہی بات اس حق کی جو میں نے ابھی تک استعمال نہیں کیا تو میں آپ کو وقت دیے رہا تھا
جس دن مجھے لگ کہ آپ نے یہ شادی دل سے قبول کر لی ہے اس دن میں اپنا حق وصول کر لو گا شاہ نے آنکھیں میں شرارت لاتے ہوے معنی خیز بات کی اس کی بات سن کر نور شرمندہ ہوئی اور اس کے چہرہ پر حیا کے زنگ ائے میرے کہنے کا وہ مطلب نہیں تھا نور نے جلدی سے کہا کیونکہ اس کو شاہ سے اتنی بے باکی کی امید نہیں تھی
لیکن میرے کہا نے کا یہ ہی مطلب ہے وہ ڈھٹی سے بولا اور اپنی پیشانی اس کی پیشانی سے کٹئی نور جب آپ کو لگئے کہ آپ کا سانس بند ہو جائے گا وہ میں آپ کا آکسیجن ماسک بنو گا جب آپ کو لگئے کہ آپ اپنے ماضی کو بھول نہیں رہی یا آپ کو وہ سب یاد ارہا ہے تو آپ مجھے سوچتے مجھے یقین ہے آپ سب بھول جائی گئی شاہ نے کہا
جو ہو گئے وہ ماضی تھے اب آپ مستقبل کے بارے میں سوچے جو کہ بہت رواشن ہے شاہ نے کہا اور اس کے ہونٹوں پر جھکا روم میں ایک معنی خیز خاموشی ہوئی پھر کچھ وقت کے بعد وارث اس سے الگ ہوا جاے اب منہ دھو کر ائے جلدی سے وارث نے کہا کیونکہ وہ بہت روئی تھی اس کی وجہ سے
نور کی آنکھیں لال تھی اور ابھی جو وارث نے حرکت کی اس سے اس کا چہرہ بھی لال ہو گیا
______________
بلال ضبط کرتا ہوا حریم کے روم میں ایا اس کے ذاہین میں ایک ہی بات گھم رہی تھی
مجھے یہاں نہیں رہنا میں مر جاو گئی
جو کہ نور بول رہی تھی وہ روم میں ایا تو حریم سو رہی تھی جبکہ احمد روم میں نہیں تھا ہمیشہ کی طرف سٹدی میں بلال چلتا ہوا حریم کے پاس ایا اور اس کے پاوں پر اپنا سر رکھا دیا اور بے آواز رونے لگا کچھ احساس کے باعث حریم کی آنکھ کھولی بلال کو دیکھا کر وہ
چونکی بلال کیا بات ہے حریم نے پوچھا اس کو اٹھتے دیکھ کر بلال نے اپنے آنسو صاف کیے کچھ نہیں ماما بس آیک برا خواب دیکھا تھا بلال کے خود پر کنٹرول کرتے چھوٹ بولا اللہ غیر اوپر او بلال حریم نے کہا تو بلال حریم کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا تو حریم مسکرائ دی اور اس کے سر پر ھاتھ پھیلنے لگئی کچھ وقت خاموشی رہی ان کے درمیان پھر بلال بولا
ماما ہماری آزمائش کب ختم ہو گئی کب ہم سب خوش رہے گئے کب ڈیڈ اور آپ کے درمیان سب ٹھیک ہو گا کب ڈول آپ کو ماما کہے گئی کب ہماری فمیلی مکمل ہو گئی بلال نے ایک ہی سانس میں اتنے سوال کر دیے اب حریم پریشان ہو گئی کیونکہ کبھی حریم اور احمد نے اس کو احساس نہیں ہونے دیا تھا کہ ان دونوں کے درمیان کچھ ٹھیک نہیں ہے
بلال یہ کسی باتے کر رہے ہو تم میرے اور آپ کے ڈیڈ میں سب ٹھیک ہے اور یہ فضول بات تم سے کیسی سے کی ہے ماما پلیز میں بچا نہیں ہو بلال اس کے جھوٹ پر کسا گیا اس ہی وقت سٹدی کا درواذ کھولا اور احمد باہر آیا وہ بلال کو دیکھ کر چوکا پھر اس کے پاس ایا بلال بیٹا طعبیت ٹھیک ہے آپ کی احمد نے اس کی سرخ ہوتی ہوئی
آنکھیں دیکھا کر پوچھا ائے مجھے آپ سے کچھ پوچھنا ہے بلال نے کہا ڈیڈ ماما کا کہاں قصور تھا کیا غلطی تھی ان کی بیس سال ہو گئے ڈیڈ بیس سال لیکن آپ کی ضد آپ کی آنا وہی ہے آپ نے بہت بڑی سزا کی دی ماما کو جبکہ ان کی کوئی غلطی نہیں تھی بلال نے کہا جبکہ حریم اور احمد شاکڈ تھے
بلال کیسی باتے کر رہے ہو وہ ڈیڈ ہے تمہارے اور تم ان سے کوئی سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے حریم نے کہا واہ واہ ماما آپ صیح مشرقع عورت کی طرف ہے بس شوہر جو مزی کرے اس سے کوئی سوال نہیں پوچھے آپ جو بیس سالوں سے ہیپی کپل ہونے کا ٹانک کر رہے ہے بس کر دیے
یہی احمد کی برداشت جواب دے گئی اور اس کا ہاتھ ہوا میں بلال احمد نے کہا جی رکے کیوں گیا مارے مجھے ڈیڈ یہ تو غلطی ہے میری کہ آپ کو میں نے آئینہ دیکھا ہے آج بلال نے کہا آج پہلی بار احمد نے بلال پر ھاتھ اٹھنے کی کوشسش کی تھی حریم اور احمد نے شروع سے ہی بلال کو بہت محبت دی
بس بہت سن لی میں نے تمہاری بکوس بند کرو یہ سب وارنہ مجھے سے برا کوئی نہیں ہو گا احمد نے کہا ڈیڈ آپ سے برا کوئی ہے بھی نہیں بلال نے کہا جبکہ اب کی بار حریم اور احمد پریشان ہوگئے آج سے پہلے بلال نے کبھی ایسے باتے نہیں کی تھی وہ تو شروع سے ہی اچھا بچا تھا کبھی کیسی سے بدتیمزی نہیں کی تھی
احمد چپ کر کے روم سے باہر چلا گیا جبکہ حریم پریشان کبھی بلال کو دیکھتی تو کبھی درواذ کو جس سے احمد باہر گیا تھا
______________
نور واپس ائی اور بیڈ پر بیٹھ گئی جبکہ وارث فریش ہونے چلا گیا واپس ایا تو نور زمیں کو گھور رہی تھی شاہ چلاتا ہوا اس کے پاس ایا نور شاہ نے اس کو مخاطب کیا وارث نور نے کہا جی میری جان وارث نے جواب دیا بھائ مجھے سے ناراض ہو گئے ہے نور نے اس کی جان والی بات کو نظراندرذ کرتے
ہوے کہا تو وارث نے گہرا سانس لیا اور نور کو بیڈ لیٹیا اور خود بھی لیٹ گیا ہاں یہ تو ہے نور آپ کو پتا ہے بلال نے پہلا لفظ کیا بولا تھا وارث نے پوچھا نہیں نور نے جواب دیا پھر بھی گریس کرے وارث نے کہا شائد ماں نور نے کہا کیونکہ بچا پہلا لفظ ماں ہی بولتا ہے
نہیں بلال نے پہلا لفظ ڈول بولا جب وہ اٹھ سال کا ہوا تو اس کو پتا چل کہ اس کی زندگی میں ایک ڈول انے والی ہے وہ بہت خوش ہوا لیکن جب وہ ۱۲ سال کا ہوا تو اس نے گھر میں کیسی سے سن لیا کہ اس کی ڈول دنیا میں تو ائی لیکن گم ہو گئی اس دن وہ بہت رویا چھوٹی ماں اور چھوٹے پاپا نے اس کو چپ کرونے کی بہت کوشش کی لیکن وہ چپ نہیں ہوا
پھر میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں اس کی ڈول کو واپس لائیں گا تو وہ چپ ہوا لیکن جس دن اس کو میں نے بتایا کہ جو لڑکی اس نے اغوہ کی تھی وہ اس کی ڈول تھی اس دن بلال نے مجھے بہت مارا اور بہت دن مجھے سے ناراض رہا
اور آج آپ کہ رہی ہو کہ آپ کو اس گھر میں نہیں رہنا تو ناراض ہونے کا تو اس کا حق بناتا ہے شاہ نے کہا جبکہ نور شاہ کی بات سن کر حیران ہوئی کیا اس کا بھائ اس یہ اتنی محبت کرتا ہے نور نے خود سے سوال کیا اس کا جواب ہاں میں آیا۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...