“حیا آپ آج کیوں آگئیں؟” عثمان اسکو حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا کتنی کمزور ہوگئی تھی وہ
“ایسے ہی طبیعت ٹھیک ہوگئی تھی میری” وہ نظریں چراتے ہوئے بولی
“اچھا واقعی۔۔۔۔لگ تو نہیں رہی” عثمان اسکا چہرہ بغور دیکھتے ہوئے بولا
“میں ٹھیک ہوں سر” وہ اکتائے ہوئے بولی اسکو بیمار رہ کر لوگوں کی ہمدردیاں سمیٹنا اچھا نہیں لگتا تھا
“اوکے کیری آن” وہ اسکا موڈ دیکھ کر اپنے روم میں چلا گیا
_________________________________________
“تمہاری اور حیا کی کوئی لڑائی ہوئی ہے کیا؟” ہادیہ اسکے آفس میں بیٹھی تھی جب عثمان نے پوچھا
“نہیں تو کیوں؟” وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی
“تم نے باہر اسکو نہیں دیکھا؟” وہ حیرت سے بولا اسکو یہ تک نہیں پتہ تھا کہ حیا ہاسپٹل گئی تھی اور نہ اسکے گھر آنے والی قیامت کے بارے میں پتہ تھا عثمان کیلئے حیران ہونا بجا تھا
“نہیں شاید وہ واشروم میں ہے” وہ کندھے اچکاتے ہوئے بولی
“تمہاری بات نہیں ہوئی اس سے” عثمان آج شاک میں تھا
“نہیں مانی بھائی پتہ نہیں اسکو کیا ہوگیا ہے بات ہی نہیں کرتی اب بس ہوں ہاں میں جواب دیتی ہے اور پتہ ہے کیوں کیونکہ میں منزہ سے بات کرتی ہوں اسکو برا لگتا ہے اب آپ خود بتائیں جب وہ ساتھ پڑھتی ہے تو بات کرنا تو لازمی ہے نا پھر ٹارچر کرتی ہے کہ میں کیوں بات کرتی ہوں عجیب زندگی عذاب بنادی ہے” ہادیہ شروع ہوئی تو بولتی ہی چلی گئی بنا یہ لحاظ کئے کہ اسکے الفاظ کسی نشتر کی طرح کسی کے دل کو چیر رہے ہیں باہر کسی کام سے آئی حیا آنکھوں میں دکھ درد آنسو لئے واپس پلٹ گئی
“تمہیں کیا ہوگیا ہے ہادیہ تم اور حیا ایک دوسرے کی جان تھے کیا تمہیں پتہ ہے کہ اسکے ساتھ کیا ہوا ہے؟؟؟ کل اسکو تمہاری ضرورت تھی پر تم نہیں تھی جاننا چاہوگی کل کیا ہوا ہے ہاں؟؟؟” عثمان جو اطمینان سے اسکی باتیں سن رہا تھا ایک دم آگے ہوتے ہوئے بولا
“کیا ہوا ہے؟” ہادیہ حیرت سے بولی یہ پہلا موقع تھا کہ۔اسکو حیا کی بات کسی اور سے پتہ چل رہی تھی اور پھر عثمان نے اسکو سب کچھ بتادیا کچھ نہیں چھپایا جسکو سن کر ہادیہ کا دماغ سائیں سائیں کرنے لگا
“کک کہاں ہے وہ ابھی؟” وہ کرسی سے اٹھتے ہوئے بولی
“گھر چلی گئی ہے تم اس سے کال پر بات کرلینا” حیا نے باہر جاکر عثمان کو میسج کیا کہ وہ ابھی ہادیہ سے ملنا نہیں چاہتی پلیز کوئی بہانہ کردیگا اور عثمان نے یہی کیا
“میں اسکے گھر چلی جاتی ہوں” وہ گاڑی کی چابی لیتے ہوئے بولی
“میرے خیال میں آج ایمان کے اسکول میں میٹنگ تھی حیا وہیں گئی ہے” عثمان لیپ ٹاپ کھولتے ہوئے بولا جبکہ ہادیہ ہونٹ بھینچ کر باہر چلی گئی
_________________________________________
ہادیہ کے جانے کی آدھے گھنٹے بعد حیا دھلے چہرے کے ساتھ عثمان کو فائل دینے آئی تو عثمان نے اسکو بیٹھنے کا کہا
“کیوں نہیں ملنا چاہتی تھی ہادیہ سے؟” وہ اسکے چہرے کو دیکھتے ہوئے بولا جہاں آنسو کے آثار اب بھی موجود تھے
“ایسے ہی میری طبیعت دیکھ کہ وہ پریشان ہوجاتی نا” اس نے رندھی آواز میں جھکی نظروں سے ایک بہانہ پیش کیا جسکو سن کر عثمان مسکرایا
“آج شام کیلئے تیار ہو؟” عثمان نے ابرو اچکاتے ہوئے کہا
“کسلئے؟” حیا نے حیرت سے کہا
“ہمیں میٹنگ کیلئے سائڈ ایریا جانا تھا حیا اگر تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تو میں کسی اور۔۔۔۔”
“نن نہیں میں چلوں گی” وہ اس ماحول سے نکلنا چاہتی تھی
“اوکے جیسے تم چاہو چار بجے تک جائیں گے چھ بجے تک واپسی ہوگی” وہ اسکو شیڈیول بتاتے ہوئے بولا حیا سر ہلا کر اٹھنے لگی
“آں سنو حیا” وہ اسکو روکتے ہوئے بولا
“جی” وہ پیچھے مرتے ہوئے بولی
“میں ایمان کو لینے جارہا ہوں تمہارے پاس دو گھنٹے ہیں ریسٹ روم میں آرام کرو یا چاہو تو گھر چھوڑ دوں؟” کتنی فکر کرتا تھا اسکی حیا مسکرادی
“نہیں میں یہیں رہ لوں گی” وہ مسکراتے ہوئے بولی
“لیکن میں نہیں چاہتا تم ادھر رہو شرافت سے اٹھو میں چھوڑ کر آرہا ہوں چار بجے لینے آجاوں گا” عثمان اسکو ڈپٹتے ہوئے بولا
“لیکن سر۔۔۔” اس سے پہلے حیا کچھ کہتی عثمان نے ہاتھ اٹھا کر۔اسکو روک۔دیا
“میں کہ رہا ہوں نا یو ہیو اونلی فائو منٹس ہری اپ بہت سن لی تمہاری” وہ بے تکلفی سے کہتا ہوا کام میں مشغول ہوگیا جبکہ حیا ناچارہ کار واپسی کی تیاری کرنے لگی
_________________________________________
“مانی بھائی ہم آئسکریم کھانے جائیں گے” ایمان گاڑی میں بیٹھتے ہی بولی
“کب؟” عثمان نے حیرت سے اسکو دیکھا
“ابھی اور کب اتنی گرمی ہورہی ہے نا کہ کیا بتاوں” وہ بالکل دادی اماں کی طرح بولی جسپر عثمان تو کیا حیا بھی ہنس دی
“اچھا آپی سے پوچھ لو پہلے” وہ حیا کی طرف دیکھتے ہوئے بولا جو ایمان کو پیار سے دیکھ رہی تھی
“آپی آپ نے منع تو نہیں کرنا نا ” وہ گول گول آنکھوں سے اسکو دیکھتے ہوئے بولی
“نہیں” وہ ہنستے ہوئے بولی
“آپی” ایمان ایک دم پیچھے سے حیا کے گلے میں بازو حائل کر کے پیار سے پکارنے لگی
“جی جانی” وہ اسکو دیکھتے ہوئے بولی جو حیا کے چہرے کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی
“آپ رو رہی تھیں کیا؟” وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی
“نہیں تو” حیا نے فورا آنکھیں چرائیں
“مجھے بتائیں آپکو کس نے کیا کہا ہے میں بتاؤں گی” وہ جوش سے بولتی ہوئی ہاتھ کا پنج بنا کر کہنے لگی حیا اسکی اس حرکت پر حیران تھی جبکہ عثمان نے ایک تنبیہی نظروں سے ایمان کو دیکھا جو فورا سیدھی ہوکر بیٹھ گئی
“کتنی دفعہ کہا ہے ایمان یہ تم ننجا کارٹونز دیکھنا چھوڑ دو” وہ اسکو ڈپٹتے ہوئے بولی جبکہ ایمان ڈھیٹ بنی مسکرا رہی تھی
وہ لوگ آئسکریم پارلر پہنچے ایمان بہت چہک رہی تھی اور حیا دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی اندر داخل ہورہی تھی تبھی اسکی نظریں سامنے ہادیہ اور منزہ پر گئیں جو بے تکلفی سے باتیں کر رہی تھیں اسکے دل میں کچھ زور۔سے ٹوٹا آنکھوں سے پانی بہنے کو بے تاب تھا پاؤں میں چلنے کی سکت نہ تھی کتنی مشکل مرحلے پر لے آئی تھی یہ زندگی عثمان کی آواز اور ایمان کے ہاتھ پکڑنے پر وہ ہوش میں آئی اور کرسی پر ڈھے سی گئی
“آپی میں بھی آپ کے ساتھ چلوں؟” حیا میٹنگ میں جانے کیلئے تیار ہورہی تھی جب ایمان بھاگتی ہوئی آئی اس سے لپٹ کر کہنے لگی
“نہیں گڑیا آفس کا کام ہے میں جلدی آجاونگی” وہ اسکو خود سے الگ کر کے اسکے پھولے گالوں پر پیار کر کے کہنے لگی
“آپ بہت اچھی لگ رہی ہیں آپی” ایمان کی نظروں میں پیار ہی پیار تھا۔ حیا اس وقت بلیک کرتا جسپر نفاست سے سفید کڑھائی ہوئی تھی سفید ٹراوزر اور سر پر وائٹ اسکارف جمائے بنا میکہ کے واقی بہت اچھی لگ رہی تھی اور جب بھی وہ کچھ بلیک کلر کا پہنتی ایمان کے منہ سے یہ جملہ ضرور سنتی تھی ابھی بھی اپنی تعریف سن کر مسکرادی
“اچھا آپی واپسی میں میرے لئے گڑیا لے کر آئیگا اچھا؟” وہ باقاعدہ انگلی اٹھا کر اسکو وارن کرنے لگی کیونکہ روز اسکو کہتی تھی اور روز حیا بھول جاتی تھی
“اچھا بابا لے آونگی” وہ مسکراتے ہوئے اسکو پیار کر کے بولنے لگی
کچھ ہی دیر میں زنیرہ مع عثمان کے روم۔میں داخل ہوئی حیا تیار ہی تھی
“چلیں؟” وہ ایک نظر حیا کو دیکھ کر واپس جھکاتے ہوئے بولا وہ کبھی بھی اسکو نظر بھر کے نہیں دیکھتا تھا
“جی چلیں” وہ بیگ پہن کر ایمان کے پاس آئی جو منہ پھلا کر بیٹھی تھی
“اب تمہیں کیا ہوا؟” وہ اسکے سر پر ایک چپت لگاتے ہوئے بولی
“آپ نے مجھے کیوں نہیں بتایا کہ مانی بھائی آئیں گے اور نہ انہوں نے بتایا اب مجھ سے بات نہیں کریگا آپ دونوں۔ خود گھومنے جارہے ہیں اپنی معصوم سی بہن کو چھوڑ کر” وہ بھر پور ناراضگی سے بولی حیا کی ہنسی چھوٹ گئی جبکہ عثمان تیزی سے اس کے پاس آیا ایک سر پر چپت لگا کر اسکو گھور کر دیکھنے لگا
“کیا ہے؟” وہ اسکے گھورنے پر بولی
“پہلی بات ہم گھومنے نہیں جارہے میٹنگ میں جارہے ہیں دوسری بات آئندہ اپنے آپکو معصوم بالکل بھی مت کہنا ورنہ مجھے ہارٹ اٹیک ہوجانا ہے” آخری بات پر حیا کے منہ سے بے ساختہ “اللہ نہ کرے” نکلا جسپر عثمان نے اسکو دیکھا تو وہ گڑبڑا کر رہ گئی
“چلیں” وہ بات بدلتے ہوئے بولی
“واہ میں ادھر ناراض ہوں آپی اور آپ جارہی ہیں” ایمان کسی گہرے صدمے سے بولی
“تمہیں تو میں” عثمان نے بے ساختہ اسکے پھولے گالوں پر پیار کیا جسپر وہ مسکرادی
“اب ختم ناراضگی؟” وہ اسکو دیکھ کر کہنے لگا جو اسکے پیار پر کھل اٹھی تھی
“ایسے کیسے واپسی میں آپی کو میرے لیے ڈول دلائیگا یہ روز بھول جاتی ہیں تب میں دوستی ہونگی” وہ گول گول آنکھوں سے دیکھتے ہوئے بولی
“افوہ ایمان کہا نا لے آونگی” حیا کو اسکا عثمان سے کہنا اچھا نہیں لگا تھا
“آپ چپ کر کے بیٹھیں میں اپنی گڑیا سے بات کر رہا ہوں” عثمان نے اس سے رعب سے کہا جسپر وہ جزبر ہو کر رہ گئی
“اوکے لے آونگا اداس نہیں ہونا ہم جلدی آئینگے” وہ اسکو پیار کر کے اٹھتے ہوئے بولا اور دونوں پورچ میں آگئے جبکہ ایمان کا شیطانی دماغ کچھ سوچنے لگا
________________________________________
حیا اور عثمان میٹنگ سے فارغ ہو کر واپسی پر رواں دواں تھے ایمان کیلئے گڑیا لینے کیلئے گاڑی روکی تو اچانک ایک بائیک انکی کار کے سامنے تیزی سے آئی عثمان نے بے ساختہ اپنا پیر بریک پر رکھا جس سے دونوں کو جھٹکا لگا
بائیک سے دو آدمی اتر کر گاڑی کے شیشے کے پاس آکر رکے اور شیشہ بجایا عثمان نے شیشہ نیچے کیا تو ایک آدمی نے گن اسکی کنپٹی پر رکھی حیا نے چیخ روکنے کیلئے ہاتھ منہ پر رکھا
“کیا ہوا؟” عثمان نے بنا ڈرے کہا
“پیچھے کا دروازہ کھول جہاں بولیں وہاں گاڑی کے چل” گن والے لڑکے نے بد تمیز لہجے میں بولا
“ٹھیک ہے مجھے انکو گھر چھوڑ کر آنے دو وعدہ کرتا ہوں یہیں ملوں گا”عثمان نے نرمی سے بات سنبھالنی چاہی
“ہاہاہاہاہا ہمیں اتنا پاگل سمجھ رکھا ہے تو نے” پیچھے والا لڑکا خباثت سے بولا
عثمان اب یہاں بے بس ہو رہا تھا وہ حیا کے معاملے میں ڈر رہا تھا انکے پاس گن تھی اور عثمان صرف کراٹے میں ماہر تھا
“وہ دونوں خود دروازہ کھول کر بیٹھ گئے اور ایک لڑکا مسلسل عثمان کی کنپٹی پر۔گن رکھے ہوئے تھا اور انکو راستہ بتا رہا تھا جبکہ حیا بت بنی اپنے حواس کھو رہی تھی
_________________________________________
“شہیرہ آپی” ایمان پریشان سی اسکے پاس آئی
“کیا ہوا؟” شہیرہ نے اپنے ناول سے سر اٹھا کر پوچھا
“آپی کو بہت دیر ہوگئی آپ کال کر کے پوچھیں نا ابھی تک کیوں نہیں آئیں؟” وہ تقریبا رو دینے کو تھی پہلی دفعہ آپی کے بغیر اتنی دیر رہ رہی تھی
“آجائیں گی ایمان پریشان مت ہو” وہ اسکو بہلا کر واپس سے ناول کی طرف متوجہ ہوئی
“آپ ایک دفعہ کال تو کریں: ایمان کال کرنے پر بضد تھی
“اچھا میرا موبائل دو” ایمان سے موبائل لے کر کال ملائی تو اسکا سیل فون بند تھا
“آپی کا فون بند ہے آتی ہونگی تم پریشان مت ہو” وہ ایمان سے زیادہ اپنے آپکو تسلی دے رہی تھی
“آپی کب آئیں گی” ایمان کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے
“آجائیں گی مان” وہ اسکو خود سے قریب کر کے اسکو تسلی دیتے ہوئے بولی جسپر ایمان نے رونا شروع کردیا
“ایمان ایمان” بڑی تائی خونخوار تیور لے کر شہیرہ کے کمرے میں آئیں
“تم نے میرا سوٹ جلا دیا” وہ گرجتے ہوئے بولیں ایمان نے کوئی جواب نہیں دیا اسکو ابھی صرف اپنی آپی کی فکر سوار تھی
“جواب دو ہاں” وہ اسکا سر بے دردی سے اوپر کرتے ہوئے بولیں
ایمان نے اب بھی کوئی جواب نہیں دیا
“تمہیں تو میں” تائی نے آگے بڑھ کر ایمان کے لمبے بال کھینچے
“تائی چھوڑیں وہ بچی ہے” شہیرہ بے اختیار آگے بڑھی
“تم چپ رہو چھوٹی ہے چھوٹی نہیں ہے آفت کی پرکالہ ہے یہ” تائی اسکے بال کھینچے ہوئے بولیں آہستہ آہستہ سب اسی کمرے میں جمع ہوگئے
“کیا کر رہی ہیں امی چھوڑیں بچی ہے وہ” سمرہ آگے بڑھ کر اسکے بال چھڑاتے ہوئے بولی حیرت کی بات یہ تھی کہ ایمان نے کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا
“اگر آپی کو کچھ ہوگیا اگر وہ واپس نہیں آئیں اگر مجھے انکے بغیر رہنا پڑا تو میں کیسے رہوں گی میں آپی کے بغیر نہیں رہ سکتی” وہ سوچ سوچ کر ایک دم رونے لگ گئی سب سمجھے تائی کی مار کی وجہ سے رو رہی ہے کوئی نہیں جانتا تھا اسکا ننھا دل اپنی آپی کیلئے رو رہا تھا تڑپ رہا تھا اسکی تو جان تھی آپی میں
“مان چپ ہوجاو” حسن آگے بڑھ کر اسکو گود میں اٹھاتے ہوئے بولا
“ارے رہنے دو میرا نیا سوٹ جلا دیا اس نے” تائی بھڑکے لہجے میں بولیں
” مما سوٹ سے زیادہ انسان کے احساسات قیمتی ہوتے ہیں ” سمرہ انکو ایک نا پسندیدہ نظروں سے دیکھتی ہوئی ایمان کو اٹھا کر کمرے میں لے آئی
ایمان نیم بے ہوشی حالت میں تھی
“آپی آپی میری گڑیا نہیں لائیں آپ واپس آجائیں آپی مجھے گڑیا نہیں چاہیئے” وہ رو رو کر نیم بے ہوشی کی حالت میں کہ رہی تھی سب بے حد پریشان تھے
“حسن حیا کو کال کریں پلیز” سمرہ ایمان کی حالت سے گھبراتے ہوئے کہنے لگی
“کی ہے اسکا سیل فون بند ہے” وہ ہونٹ بھینچتے ہوئے بولا
“عثمان بھائی کو کال کریں آپی انہیں کے ساتھ گئی تھیں” زنیرہ چونکتے ہوئے بولی
“اسکا بھی بند ہے” اب سب ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے
“اللہ میری آپی” شہیرہ صوفے پر ڈھے سی گئی
“شہیرہ سنبھالو خود کو تم تو بڑی ہو” سمرہ اسکو پکڑتے ہوئے بولی
“حسن میری بچی میری حیا کہاں ہے حسن” ایک دم شائستہ کمرے میں داخل ہو کر حسن کو جھنجھوڑ کر کہنے لگیں
“چچی آپ پریشان مت ہوں میں لے آتا ہوں اسکو آپ پلیز آرام سے بیٹھیں” وہ انکو صوفے پر بٹھاتے ہوئے بولا اور سمرہ کو اشارہ کر کے باہر چلا گیا
________________________________________
وہ دونوں ایک چوکور سے کمرے میں تھے یہ ایک پرانا سا کمرہ تھا خشکی دیواریں مٹی سے اٹی ہوئی تھیں کمرے میں ان دونوں کے علاوہ چار آدمی موجود تھے کر ایک کے ہاتھ میں گن تھی عثمان بالکل بے بس تھا حیا کا دماغ ماؤف کو رہا تھا
“میں کہ رہا ہوں مجھے انکو چھوڑ کر آنے دو تمہیں مجھ سے دشمنی ہے نا ان سے تو نہیں” وہ حیا کی حالت سے پریشان ہوتا ہوا بولا
“کیوں بڑی فکر ہورہی ہے تجھے اسکی عاشق کے کیا؟؟” انکا سردار اپنی مونچھوں کو تاڑتا ہوا بولا
“بکواس بند کرو” عثمان دھاڑا
“آواز نیچے لڑکے” قریب کھڑے ایک لڑکے نے بندوق اسکے سر پر ماری
“تیرے باپ کو اطلاع دے دی ہے وہ پیسے بھجوادیگا تو تجھے چھوڑ دیں گے”
“ویسے بچی بڑی پیاری ہھنسائی ہے” سردار خباثت سے بولا
“یو ایڈیٹ بکواس بند کرو” عثمان کا بس نہیں چل رہا تھا اسکے ہاتھ میں موجود گن کی ساری گولیاں اسکے اندر اتار دے
“او ہو بھئی پکا عاشق ہے” ساتھ ہی قہقہہ مارا
یو۔۔۔” عثمان سے برداشت نہیں ہوا اب اسکو اپنے سیکھے گئی کرتب دکھانے تھے اپنی جان کی پروا کئے بغیر
عثمان اپنی جان کی پروا کئے بغیر اٹھا اور ایک پنچ سردار کے منہ پر مارا۔سردار اس کیلئے تیار نہیں تھا اسلئے سیدھا زمین پر گر گیا عثمان نے فورا سے بیشتر اسکی گن اچک لی باقی تین ساتھی اس اچانک افتاد پر گھبرا گئے انکی ہمت بس انکے سردار کے ہی دم سے تھی عثمان ان تینوں کی طرف بڑھا اور ایک ہاتھ کا پنچ بنا کر ایک لڑکے کے پیٹ پر مارا وہ کراہ کر زمین پہ گرا دوسرے ساتھی نے فورا گولی چلا دی لیکن عثمان اسکیلئے تیار تھا فورا سر جھکا لیا گولی دیوار سے پار ہوگئی اور ساتھ ہی اپنی ٹانگ اس لڑکے کی ٹانگ پر اٹکا کر اسکو نیچے گرایا اور اسکی گن بھی اچک لی اب باری تھی چوتھے لڑکے کی جو ڈر کے مارے کپکپارہا تھا شاید اس نے نیا ہی یہ گروپ جوائن کیا تھا
“مارو اسکو چھوٹے” سردار درد سے چلایا لیکن وہ چھوٹا واقعی میں چھوٹا تھا عثمان نے اسکو ایک پنچ بنا کر مارا تو زمین بوس ہوا اب چاروں گن عثمان کے قبضے میں تھیں اب اسکو کسی بات کا ڈر نہین تھا
“عثمان” حیا کی چیخ پر اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو سردار اسی کی طرف بڑھ رہا تھا عثمان نے بھاگتے ہوئے ایک لات پوری طاقت اور نفرت سے اسکے پیٹ پر ماری ساتھ ہی وہ چیخ مار کر زمین بوس ہوگیا کہ اچانک ایک گولی عثمان کے بازو پر لگی وہ بے ساختہ پیچھے مڑا تو ایک لڑکا دانت نکالے ہنس رہا تھا اور اسکے ہاتھ میں ایک گن تھی
“اب اپنی جگہ سے ہلے بھی تو ساری گولیاں اتار دونگا” وہ لڑکا خباثت سے بولا عثمان کا خون مسلسل بہ رہا تھا
“پہلے تو ہل کر دکھا بیٹا” اچانک پولیس کی آمد پر وہ چاروں گھبرا گئے گن والے لڑکے کے ہاتھ سے ڈر کے مارے گن چھوٹ گئی اور عثمان پولیس کے آنے پر حیران کھڑا تھا
“سر آپ گاڑی میں بیٹھیں ہماری فورس آپکو ہاسپٹل لے جائیگی” ایک پولیس آفیسر اسکا زخمی ہاتھ دیکھ کر بولا تو عثمان نے فورا وہاں سے جانے میں عافیت جانی عثمان حیا کو لینے کیلئے پیچھے مڑا لیکن اسکے پیروں تلے زمین نکل گئی حیا بے سد زمین پر گری تھی اور اسکے منہ سے خون بہ رہا تھا شاید وہ اپنے حواس قابو نہیں رکھ پائی تھی عثمان اپنا زخمی ہاتھ بھول کر اسکی طرف بڑھا اسکو آرام سے اٹھایا اسکے اوپر دوپٹہ پھیلایا اور گاڑی کی طرف بڑھا
_________________________________________
“کیا ہوا حسن کچھ رابطہ ہوا؟” رات کے چار بج رہے تھے حیا کا کچھ اتا پتہ نہیں تھا تینوں بہنیں دادا دادی اور شائستہ کا برا حال تھا جبکہ تائی نے پورے خاندان میں حیا کی گمشدگی کی خبر پھیلادی تھی پھر وہ لوگ بھی آئے جو کبھی نہیں آتے تھے
“کوئی رابطہ نہیں ہورہا”حسن نے پریشانی سے سمرہ سے کہا
“ان سب کو کیوں بلایا ہے” حسن غصے سے بولا
“پتہ نہیں امی نے فون کردیا سب کو” سمرہ اپنے آنسو روکتے ہوئے بولی
“حد ہوگئی سفاکیت کی” حسن غصے سے بولتا ہوا باہر چلا گیا جبکہ سمرہ کمرے میں گئی جہاں ایمان بخار سے جل رہی تھی
“کم ہوا؟” اس نے زنیرہ سے پوچھا جو ایمان کا سر اپنی گود میں رکھے بیٹھی تھی
“نہیں” اس نے آنسو اپنے اندر اتارتے ہوئے کہا
“بس کیا بتاؤں بہن آج کل تربیت کا ہی مسئلہ ہے سارا کہا بھی تھا جاب نہیں کرو پر نہیں محترمہ کو اپنی کرنی تھی نا اب منہ پر کالک مل کہ آئیگی” تائی لوگوں کو داستان سنائے جارہی تھیں شائستہ کا بس نہیں چل رہا تھا اپنا آپ ختم کردیں لوگوں کی نظروں سے تنگ آکر وہ اٹھ کر اپنے کمرے میں آگئیں
_________________________________________
عثمان حیا کو ہاسپٹل لے کر آیا کچھ ہی دیر بعد اسکو ہوش آگیا عثمان نے اپنی پٹی کروائی اور حیا کو سہارا دیکر گاڑی میں آگیا
“گھر جاکر کچھ کھا پی لیگا” گھر کے باہر گاڑی روک کر عثمان نے کہا حیا بنا کچھ کہے دروازہ کھول کر اترنے ہی والی تھی جب عثمان کی آواز نے اس کے قدم روک لئے
“آئی ایم سوری” وہ ندامت سے کہ رہا تھا
“کس لئے؟” وہ حیران ہوتے ہوئے نحیف آواز میں بولی
“میری وجہ سے تم بھی مصیبت میں پڑی” وہ سر جھکائے کہ رہا تھا جانتا تھا ایک لڑکی کیلئے گھر سے ایک رات کیلئے غائب ہوجانا کسی اذیت سے کم نہیں خاص طور پر حیا جیسے گھر میں
“نہیں نہیں جو نصیب میں لکھا ہوتا ہے وہ ہوکر ہی رہتا ہے اسمیں آپ کی کوئی غلطی نہیں” وہ رندھی آواز میں بولی
“حیا گھر جاکر مشکلات کا طعنوں کا سامنا کرنا پڑے تو ڈٹ کر مقابلہ کرنا تم آج کی وہ لڑکی بننا جو اپنے حق کیلئے لڑنا جانتی ہے بزدلی انسان کو اور کمزور کردیتی ہے اور دشمنوں کو اور طاقت دیتی ہے اسلئے ہمت ہے کام لینا اور ڈٹ جانا” وہ نجانے اسکو کیا سمجھانا چاہ رہا تھا حیا سر ہلاتی ہوئی گاڑی سے اتر گئی اور خود کو گیٹ کے سامنے کھڑے ہوکر آنے والے وقت کیلئے تیار کرنے لگی
_________________________________________
“ہماری عزت تو چلی گئی نا” تایا کی آواز پر اسکے قدم زمین پر جم سے گئے ایک قدم بھی آگے چلنے کی ہمت نہیں تھی لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری آگے بڑھی ہمت تو وہ ہارتا ہے جو قصوروار ہوتا ہے ڈرتا تو وہ ہوتا ہے جو گناہ کرتا ہے قدم آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے ساتھ ہی دل کی دھڑکن بھی تیز ہوتی جارہی تھی جیسے ہی اس نے لاونچ میں قدم رکھا تو سامنے مہمانوں سے بھرا ہال دیکھ کر اسکے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگی
“کہاں تھی تو بے غیرت ذرا بھی ہماری عزتوں کے بارے میں نہیں سوچا” تایا اسکو دیکھ کر ہی بھڑک اٹھے
“مم میں نے کچھ نہیں کیا” حیا گھبراہٹ کے مارے بے انتہا کپکپارہی تھی لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنے آپکو سنبھال نہیں پارہی تھی اوپر سے سب کی عجیب نظریں اسکو اور گھبراہٹ میں مبتلا کر رہی تھیں
“اتنا سب کچھ کر کے کہ رہی ہے کچھ نہیں کیا بے غیرت اچھا ہوا باپ چھوڑ کر چلا گیا ورنہ ایسی بدکار اولاد کو دیکھ کر کہاں منہ چھپاتا” تایا کے الفاظ تھے یا چاقو جو اسکے سینے میں پیوست ہورہے تھے اسکی روح کو چھلنی کر رہے تھے شور کی آواز سن کر ایمان بھی آگئی اور آپی کی حالت دیکھ کر اپنا بخار بھول گئی
تایا غصے سے آگے بڑھے اور ایک چماٹ اسکے منہ پر دیا جو منہ سے زیادہ سب لوگوں کی موجودگی میں اسکی روح کو لگا تھا
“اٹھ بے غیرت دفع ہو اس گھر سے” تایا اسکے بال پکڑ کر اسکا سر زمین سے مار رہے تھے دور کھڑی ایمان کے اندر شعلے بھڑک رہے تھے
“بابا کیا کر رہے ہیں چھوڑیں اسکو” حسن اسکے ماتھے اور چہرے سے خون بہتا دیکھ کر برداشت نہیں کر پارہا تھا
“تم دور رہو اس سے اور یاد رکھو جو بھی اس سے ہمدردی کا اظہار کریگا یا اسکے پاس بھی بھٹکے گا وہ اس گھر سے اپنے آپکو خارج سمجھے” تایا گرجناک آواز میں بولے لوگ خاموش تماشائی بنے ہوئے تھے انکو اور کیا چاہیے تھا ایک بنی بنائی فلم دیکھنے کو مل رہی تھی
“تایا ابو چھوڑدیں میری آپی کو” ایمان طاقت سے چلائی اسکی آواز میں ایک بجلی تھی جو سننے والے کو سننے پر مجبور کردے
تایا نے اسکو ایک نفرت بھری نظر دیکھا
“تم چپ کرو لڑکی” وہ اسکو ایک ڈانٹ پلا کر حیا کی طرف متوجہ ہوئے
“کیوں چپ رہوں میں میری آپی کو آپ مار رہے ہیں میں بھی آپکو ماروں گی” وہ غصے سے کہتی ہوئی بھاگتے ہوئے تایا کے قریب آگئی زنیرہ شہیرہ حسن اور سمرہ کی حالت بری تھی نجانے تایا ایمان کے ساتھ کیا سلوک کریں
“ہاں مجھے ماریگی؟” تایا استہزائیہ انداز میں بولے
“ہاں ماروں گی” ساتھ ہی ایک بنچ بنا کر پورے زور سے انکے پیٹ پر مارا جو باقاعدہ کراہ کر رہ گئے وہ اس افتاد پر تیار نہیں تھے آخر اسکو بھی تو عثمان کی شاگردگی کا ثبوت دینا تھا
“اب میری آپی کو مار کر دکھائیں” ایمان انکو بیٹھتا دیکھ کر گویا ہوئی
“تیری تو میں” تایا غصے سے اٹھے اور اسکو پکڑنا چاہا پر ایمان نے آڑا ہاتھ انکے کندھے پر اس زور سے مارا کہ بے چارے تایا کراہ کر رہ گئے حسن سمرہ زنیرہ شہیرہ سب حیران نظروں سے دیکھ رہے تھے
“حسن بھائی میری آپی کو ہاسپٹل لے کر چلیں” وہ زور سے چلائی
“خبردار حسن جو قریب بھی آئے یاد رکھنا اس گھر سے بھی نکال دوں گا اور جائیداد میں سے ایک پائی بھی نہیں دوں گا” تایا نے سفاکیت کی حد ہی کر دی تھی
“مجھے نہیں چاہیئے ظالم کے مال سے کچھ ” حسن نے اپنی وفاداری کا ثبوت دیا اور حیا کو اٹھا کر پورچ کی جانب بڑھ گیا دادا دادی کو چپ لگ گئی تھی
تایا حسن کی اس بات سے شاق میں رہ گئے تھے
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...