شفیع عقیل (ش۔ع)نے داعیء اجل کو لبیک کہا۔علم و ادب کا وہ نیر تاباں جو لاہور کے مضافات میں واقع ایک تھینہہ(village)سے1930میں طلوع ہوا پوری علمی دنیا کو اپنی تابانیوں سے بقعہء نور کرنے کے بعد جمعہ 6۔ستمبر 2013کی رات گیارہ بجے کراچی کے افق سے غروب ہو کر عدم کی بے کراں وادیوں میں ہمیشہ کے لیے چھپ گیا۔ وہ زندگی کے آخری ایام میں پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلاہو گئے ،مرض میں شدت آتی چلی گئی ، اس بلند ہمت ادیب نے پوری استقامت کے ساتھ حالات کا سامنا کیا ۔آخر اس بیماری نے ان کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔وہ با کمال تخلیق کار جس نے اپنی پینتالیس وقیع تصانیف سے اردو اور پنجابی ادب اور فنون لطیفہ کی ثروت میں اضافہ کر کے تخلیق فن کی نئی تاریخ رقم کی اب تاریخ کا حصہ بن چکا ہے ۔خلوص و مروت ،انسانی ہمدردی ،علم دوستی ،ادب پروری ،فنون لطیفہ سے گہری دلچسپی وطن اور اہل وطن سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت اور وسیع النظر ی کی لائق صد رشک و تحسین صفات سے متمتع یہ لا فانی تخلیق کار جو لفظ کی حرمت کا پاسبان تھا اور تخلیق فن کے اعجاز سے خاک کو اکسیر بنانے پر قادر تھا پیوند خاک ہو گیا ۔شفیع عقیل کی وفات ایک بہت بڑا سانحہ ہے جس پر ہر آنکھ اشک بار او ر ہر دل سوگوار ہے ۔مسجد احسن العلوم کراچی میں ان کی نماز جنازہ میں ہر مکتبہء فکر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔شہر کا شہر سوگوار دکھائی دے رہا تھااور شخص کی آنکھیں پر نم تھیں ۔خاص طور پر بچے اپنے اس عظیم ادیب کی رحلت پر دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے جس نے چھ عشروں تک بچوں کے ادب کی تخلیق ،ترویج اور اشاعت پر اپنی توجہ مر کوز رکھی اور بچوں کے ادبی مجلے ’’بھائی جان ‘‘ کے مدیر کی حیثیت سے دلوں کو مسخر کر لیا ۔شفیع عقیل کی وفات مقصدی اوراصلاحی ادب کی تخلیق کی ایسی شام ہے جس کی صبح کبھی نہ ہو گی۔پاپوش نگر کراچی کے شہر خموشاں کی خاک نے علم و ادب کے اس افلاک کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا ۔ان کی وفات سے ادب اور صحافت کے ایک عہد کا چشم دید گواہ دائمی مفارقت دے گیا۔شفیع عقیل کی جنم بھومی بھی اب ماضی کی تاریخ بن چکی ہے ۔وہ گائوں (تھینہہ)جس میں اس لا فانی تخلیق کار کی آنول نال گڑی تھی وہ صدر بازار لاہور کی جانب جانے و الی شاہراہ سے کچھ فاصلے پر واقع تھا۔لاہور کی آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے مضافاتی گائوں رفتہ رفتہ اس تاریخی شہر کا حصہ بنتے چلے گئے اور اب تو یہ حال ہے کہ لاہور کی چاروں طرف لاہور ہی پایا جاتا ہے ۔ پہلے جہاں میلو ں تک کھیت اور کھلیان ہو ا کرتے تھے اب وہاں اس تاریخی شہر کی خود رو آبادیا ں سر اٹھارہی ہیں ۔ایل۔ڈی ۔اے کے قدیم نقشہ نویسوں کا کہنا ہے کہ جس مقام (تھینہہ ذیل داراں ) کو شفیع عقیل کا آبائی گائوں بتایا جاتا ہے ،اب وہاں لاہور کا جدید رہائشی علاقہ گل برگ IIIموجود ہے۔اہل نظر نے تازہ بستیاں آباد کر لیں لیکن شفیع عقیل نے اپنی بستی اس قدر دور بسا لی ہے کہ اب یاد رفتگاں اور دل حزیں کو ان کی دائمی مفارقت کے درد سے آباد رکھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا ۔
شفیع عقیل کا تعلق ایک خو د دار اور معزز خاندان سے تھا۔علمی و ادبی ذوق انھیں ورثے میں ملا تھا ۔ان کے بزرگوں نے تحریک پاکستان میں سر گرم حصہ لیا ۔ایک نو عمر طالب علم کی حیثیت سے شفیع عقیل مسلم لیگ کے جلسوں میںشرکت کرتے اور قائدین کی تقاریر بڑی توجہ سے سنتے اور آزادی کے حق میں پر جوش نعرے لگاتے ۔اس دور کی یادوں کو وہ اپنی زندگی کا یادگار اثاثہ قرار دیتے تھے ۔مالی مشکلات اور وسائل کی عدم دستیابی کے باعث شفیع عقیل با قاعدہ تعلیم تو حاصل نہ کر سکے لیکن انھوں نے بڑی محنت اور لگن سے اپنی دنیا آپ پید ا کرنے کی کوشش کی ۔انھوں نے اپنی ان اور خودی کا بھی تحفظ کیا اور غریبی میں نام پید ا کر نے کا عزم کر لیا۔وہ علوم شرقیہ کی جانب مائل ہوئے سب سے پہلے تو انھوں نے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا اس کے بعد انھوں نے ادیب فاضل کے ا متحان میں بھی شان دار کام یابی حاصل کی۔ ان کی پہلی ادبی تحریر 1948میں مولانا ظفر علی خان کے اخبار ’’زمیندار ‘‘ میں شائع ہوئی ۔مولانا ظفر علی خان نے اس جو ہر قابل کو پہچان لیا جو تخلیقی صلاحیتوں سے متمتع تھا۔ ان کی خوب حوصلہ افزائی کی اور یہ ہو نہار نو جوان محمد شفیع ’’زمیندار ‘‘میں اپنی پہلی تحریر کی اشاعت کے ساتھ ہی شفیع عقیل کے نام سے مستقبل کے صحافی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے لگا ۔ان کی زندگی میں کئی سخت مقام بھی آئے لیکن انھوں نے ہمیشہ حوصلے اور ہمت سے کام لیا اور طلوع صبح بہاراں کی امید میں سمے کے سم کے مسموم اثرات سے خود کو بچائے رکھا ۔اپنی روزی کمانے کے لیے وہ محنت مزدوری کرتے ۔لاہور میں شفیع عقیل نے نامور مصور اور دانش ور محمد حنیف رامے کے بڑے چچا زاد بھائی چودھری برکت علی کے ادبی مجلے ’’ادب لطیف ‘‘میں بھی مختصر مدت کے لیے کام کیا ۔انھوں نے لاہور شہر میں سائن بورڈ کے پینٹر کی حیثیت سے بھی کچھ عرصہ مزدوری کی ۔اس قسم کے مشقت طلب کام کرنے کے بعد ان کے بعد وہ ہر گز دل برا نہ کرتے بل کہ ان دل میں محنت کی عظمت کے نقوش مزید گہرے ہو جاتے ۔ان صبر آزما حالات میں وہ روکھی سوکھی کھا کر اللہ کریم کا شکر ادا کرتے ۔صبر اور استغنا ان کے مزاج کا حصہ بنتا چلا گیا انھیں یقین تھا کہ آزمائش کی یہ رات ضرور ڈھلے گی ۔1950میں انھوں نے کراچی جا کر قسمت آزمائی کرنے کا فیصلہ کیا۔مجید لاہوری نے انھیں اپنے مجلے ’’نمک دان ‘‘میں کام کرنے کا موقع دیا۔
معاشرتی زندگی میں پائی جانے والی شقاوت آمیز نا انصافیوں ،مظلوم طبقے کی محرومیوں اور مجبوریوں کے خلاف شفیع عقیل نے قلم بہ کف مجاہد کا کردار ادا کیا۔حریت فکر کے مجاہد کی حیثیت سے انھوں نے جبر کا ہر انداز مسترد کرتے ہوئے ہوائے جو رو ستم میں بھی حوصلے اور امید کی شمع فروزاں رکھی ۔مظلو م طبقے کے ساتھ انھوں نے زندگی بھر عہد وفا استوار رکھا اور اسی کو علاج گردش لیل و نہار قرار دیا۔حق گوئی اور بے باکی ان کا شعار تھا ۔وہ کسی مصلحت کے قائل نہ تھے الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنا ان کے ادبی مسلک کے خلاف تھا ۔1952میں ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’بھوکے ‘‘ شائع ہوا ۔اس افسانوی مجموعے کا رد عمل بھی اسی صورت میں سامنے آیا جو اس سے قبل 1936 میں ’’ انگارے ‘‘کی اشاعت کے بعد سامنے آ چکا تھا ۔سعادت حسن منٹو کو بھی اسی قسم کی پریشانیوں کا سامنا کر ناپڑا ۔ شفیع عقیل کے مخالفین سنگ ملامت لیے نکل آئے ،فرضی مقدمات اور جھوٹی شہادتوں سے یاس و ہراس کی فضا پیدا کر دی گئی اور اس افسانوی مجموعے کی اشاعت پر انھیں فحاشی کے مقدمے کا سامنا کر نا پڑا ۔انھیں تیس ماہ تک عدالتوں کے چکر لگانے پڑے تب کہیں جا کر گلو خلاصی کی نو بت آئی۔آزمائش کی اس گھڑی میں اس عہد کے ممتاز ادیبوں نے ان کے ساتھ مقدور بھر تعاون کیا ۔ اپنے قلم کو انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے استعمال کرنے والے ادیبوں نے ان کی صفائی میں اہم کردار ادا کیا ۔ان میں مولانا عبدالمجید سالک ،سعادت حسن منٹو ،اور شورش کا شمیری کے نام قابل ذکر ہیں جنھوں نے شفیع عقیل کو اس فرضی مقدمے سے بچانے کی خاطر ان کی صفائی پیش کی اور تاریخ کے اس اہم موڑ پر یہ گواہی فروغ ادب کا ایک معتبر حوالہ ثابت ہوئی ۔اس کے بعد شفیع عقیل کی ادبی فعالیت میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ۔
بچوں کے ادب پر شفیع عقیل نے بہت توجہ دی۔ان کی کتاب ’’نامور ادیبوں کا بچپن‘‘ بہت مقبول ہوئی ۔اسے قارئین ادب کی زبردست پذیرائی نصیب ہوئی ۔ ۔ان کا خیال تھا کہ بچوں میں تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کرنا ،ان کے ذوق سلیم کو نکھارنا اور ان کے فہم و ادراک کو صیقل کرکے انھیں تخلیق ادب پر مائل کرنا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔آج کے یہ کم سن بچے مستقبل کے معمار ہیں اس لیے انھیں مستقبل کی ذمہ داریوں سے عہدہ بر آ ہونے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا بہت ضروری ہے ۔شفیع عقیل کی ادارت میں شائع ہونے والا بچوں کا ادبی مجلہ ’’بھائی جان ‘‘ بچوں میں بہت مقبول ہوا۔یہ ادبی مجلہ بچوں میں پائی جانے والی خوابیدہ تخلیقی صلاحیتوں کی نشو و نما کے سلسلے میں ایک موثر پلیٹ فارم ثابت ہوا ۔شفیع عقیل کم سن لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کرتے اور ان کی تحریروں کی نو ک پلک سنوار کر انھیں معیار و وقار کی بلندیوں سے آشنا کرتے ۔اس طرح ان کی رہنمائی سے بچوں میں خود اعتمادی پیدا ہوتی چلی گئی جس کے اعجاز سے بچوں کے ادبی مجلے ’’بھائی جان ‘‘کے متعدد کم سن لکھاری وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس قدر مشاق اہل قلم ثابت ہوئے کہ افق ادب پر وہ مثل آفتاب ضو فشاں ہوئے اور اپنے افکار کی ضیاپاشیوں سے علمی دنیا کو منور کر دیا ۔
شفیع عقیل نے ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی اور روزنامہ جنگ کراچی میں طویل مختلف حیثیتوں سے طویل عرصہ تک خدمات انجام دیں۔روزنامہ جنگ میں ان کی خدمات کا عرصہ ساٹھ برس پر محیط ہے ۔اس عرصے میں انھوں نے میگزین کے مدیر اور ایڈیٹوریل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے جو اہم کردار ادا کیاوہ اس ادارے کی تاریخ میں ہمیشہ یا درکھا جائے گا ۔یہ بات بلا خوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ اس اشاعتی ادارے کو قارئین میں مقبول بنانے اور اسے معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے میں جن ادیبوں نے اپنی ذمہ داریاں بہ طریق احسن نبھائیں ان میںشفیع عقیل کا نام نمایاں ہے ۔روزنامہ جنگ میں شفیع عقیل نے اپنی جدت طبع کو بروئے کار لاتے ہوئے ہو نہار بچوں کو اپنے ما فی الضمیر کے اظہار کے لیے ’’نو نہال لیگ ‘‘کی صور ت میں ایک موثر فورم مہیا کر دیا ۔بچوں میں اس طرح لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی اور ’’نو نہال لیگ ‘‘کے گھر گھر چرچے ہونے لگے ۔پاکستان کے متعددنامور ادیب اپنے بچپن میں ’’نو نہال لیگ ‘‘سے وابستہ رہے اور اپنی تخلیقی فعالیت کا لوہا منوایا ۔ان میں انور شعور ،رام ریاض ،ظفر سعید ،مستنصر حسین تارڑ،شفیع بلوچ ،عبید اللہ علیم ،بشیر سیفی ،محمدفیروز شاہ ،ارشاد گرامی ،غازی صلاح الدین ،قمر علی عباسی ،سجاد بخاری ،غفار بابر اور غلام علی چین کے نام قابل ذکر ہیں ۔
تخلیق فن کے لمحوں میں جہاں و ہ جدت اور تنوع کا خیال رکھتے تھے وہاں انھوں نے اپنے فنی تجربات سے بھی اپنی ذہانت کی دھاک بٹھا دی ۔وہ اپنے فنی تجربات کے اعجاز سے تخلیق ادب میں نئے امکانات کی جستجو میں بڑے انہماک سے مصروف عمل رہے ۔ان کے فنی تجربات ان کی بصیرت اورذوق سلیم کا منہ بو لتا ثبوت ہیں۔ان کی مدد سے نہ صرف یکسانیت اورجمود کا خاتمہ ہوا بل کہ فکر و نظر کو مہمیز کرنے میںمدد ملی۔ جس طرح سید جعفر طاہر نے اردو شعری کو ایک نئی صنف ’’کینٹوز‘‘ سے متعارف کرایا بالکل اسی طرح شفیع عقیل نے اپنی پنجابی شاعری میں چار مصرعوں پر مشتمل ایک نئی صنف شاعری میں طبع آزمائی کی اور خوب رنگ جمایا ۔ان کی یہ شاعری اردو ترجمے کے ساتھ روزنامہ جنگ کی زینت بنتی رہی اور ان کے اس تجربے کو قارئین ادب نے پسند کیا۔اس کی مقبولیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسے کتابی صورت میں دو جلدوں میں شائع کیا گیا۔
پنجابی ادب کی روایات اوراقدار سے انھیں گہری دلچسپی تھی ۔پنجابی کلاسیکی شاعری اور لو ک داستانوں سے قلبی وابستگی ان کے ریشے ریشے میں سما گئی تھی ۔ان کا خیال تھاکہ کہانیاں تو ازل سے اسی طرح منصہ ء شہود پر آتی رہی ہیں ۔ان کے موضوعات ایک جیسے ہیں صرف انداز بیاں میں معمولی تبدیلی سے بات بدل جاتی ہے ۔شفیع عقیل نے بڑی محنت سے پنجابی لوک کہانیاں اکٹھی کیں ۔پنجاب کی مقبول لوک داستانیں (Popular Folk Tales of the Punjab) ان کی معرکہ آرا تحقیقی کتاب ہے ان داستانوں کا تعلق اس علاقے سے ہے جو گزشتہ کئی صدیوں سے تہذیب و ثقافت کا مرکز رہا ہے ۔جنوبی ایشیا کے اس علاقے کے بارے میںماہرین آثار قدیمہ اور مو رخین اس بات پر متفق ہیں لوک داستانوں کا خمیر یہیں سے اٹھاجس کی باز گشت پوری دنیا میں سنائی دی اور اسی کی اساس پر عالمی ادب میں لوک داستانوں کا قصر عالی شان تعمیر ہوا۔اپنے اس عظیم تحقیقی منصوبے میں انھوں نے اپنی تمام صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا اور ترتیب و تدوین میں اپنی خداداد صلاحیتوں کی اس طرح تجسیم کی کہ پوری دنیا نے ان کی محنت کو تسلیم کیا۔پنجابی لو ک کہانیوں پر مشتمل ان کی کتاب کو قارئین ادب نے جو شرف مقبولیت بخشا اس کے پیش نظر عالمی سطح پر اسے متعاف کرانے کے سلسلے میں یو نیسکو(UNESCO)نے اہم کردار ادا کیاجس کے تعاون سے پنجابی لوک کہانیوں کی اس کتاب کے تراجم اردو ،انگریزی اور دنیا کی کئی بڑی زبانوں میں شائع ہوئے ۔لو ک کہانیوں سے ان کی دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے دنیا کی تمام بڑی زبانوں کی لو ک کہانیوں کا عمیق مطالعہ کیا اور انھیں اکٹھا کر کے ان میں سے منتخب لوک کہانیوں کا اردو میں ترجمہ کیا،عالمی ادب کی یہ لو ک کہانیاں گیارہ جلدوں میں شائع ہوئیں ۔عالمی ادب کی لوک کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھال کر وہ مختلف تہذیبوں کے مابین ربط کی ایک صورت تلاش کرتے تھے۔ان تراجم کے وسیلے سے اردو داں طبقے کو اقوام عالم کی تہذیبی و ثقافتی میراث کے بارے میں مثبت شعور وآگہی نصیب ہوئی ۔اردو ادب کے قارئین شفیع عقیل کے ان تراجم کے اعجاز سے اقوام عالم کی تہذیب ،تمدن ،ثقافت ،معاشرت ،مزاج اور انداز فکر کے بارے میں تمام حقائق کا چشم تصور سے مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ان کے اسلوب کے معجز نما اثر سے وہ تاریخ اور اس کے مسلسل عمل کے احساس اور ادراک کے قابل ہو سکے ۔انھوں نے پنجابی ،فارسی ،اردو ،چینی ،جاپانی ،جرمن اورروسی زبان کی نمائندہ تخلیقات کو اردو کے قالب میں ڈھال کر اردو زبان کا دامن گل ہائے رنگ رنگ سے بھر دیا ۔ شفیع عقیل کو پاکستان کی علاقائی زبانوں کے ادب کے ساتھ بالعموم اور پنجابی ادب کے ساتھ بالخصوص دلی لگائو تھا۔ان کی دس تصانیف پنجابی زبان کے ادب سے متعلق ہیں ۔ان میں سے’’ سوچاں دی زنجیر‘‘ ،۔ ’’زہر پیالہ ‘‘ اور ’’میری پنجابی شاعری ‘‘قابل ذکر ہیں۔ان کی تمنا تھی کہ پاکستان کی علاقائی زبانوں میں تخلیق ہونے والے ادب کو نہ صرف پاکستان کی قومی زبان میں منتقل کیا جائے بل کہ دنیا کی بڑی زبانوں میں بھی ان کے تراجم شائع کیے جائیں۔اس طرح ہم اپنی تہذیبی و ثقافتی میراث کو اقوام عالم کے سامنے پیش کر سکتے ہیں ۔پنجابی کلاسیکی شاعری کے تراجم پر انھوں نے اپنی توجہ مر کوز رکھی ۔وہ سلطان باہو،شاہ حسین ،بلھے شاہ ، میاں محمد بخش اور وارث شاہ کے اسلوب کو بہت پسند کرتے تھے ۔ انھوں نے ان شعرا کے کلام کو اردو کے قالب میں ڈھال کر بہت بڑی قومی خدمت انجام دی ہے جب وہ پنجابی کلاسیکی شاعری اور پنجابی لوک داستانوں پر تحقیق کا م میں مصروف تھے تو انھوں نے پنجاب کے دور دراز علاقوں میں جا کر مآخذ تک رسائی حاصل کی۔ جھنگ میں وہ محمد حیات خان سیال ،ڈاکٹر سید نذیر احمد ،ڈاکٹر محمد ظفر خان ،صاحب زادہ رفعت سلطان ،مجید امجد ،محمد شیر افضل جعفری ، سمیع اللہ قریشی اور خیر الدین انصاری سے ملے ۔پنجابی کلاسیکی شاعری پر ان کا تحقیقی کام جو کئی ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے ، ان کی جگر کاوی اور محنت کا اعلا معیار پیش کرتا ہے۔اس کے مطالعہ سے پنجابی زبان کے کلاسیکی ادب کی افادیت کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ۔انھو ںنے پنجابی ،چینی ،جاپانی جرمن اور ایرانی ادبیات کے شاہ کاروں کو تراجم کے ذریعے اردو میں منتقل کرکے ید بیضا کا معجزہ دکھایا۔پنجابی زبان میں ان کا ایک اور اہم اور نا قابل فراموش کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے مرزا اسداللہ خان غالب اور قائد اعظم محمد علی جناح کی باتوں کو پنجابی زبان کے قالب میں اس خوش اسلوبی سے ڈھالا ہے کہ قاری چشم تصورسے ان ہستیوں کو پنجابی میں گفتگو کرتے دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتاہے ۔مترجم کی حیثیت سے وہ زبان و بیان کی اشنی سے سماں باندھ دیتے ہیںاور ترجمے میں تخلیق کی کشش پیدا ہو جاتی ہے ۔
فنون لطیفہ کے بارے میں اردو زبان میں بہت کم لکھا گیا ہے ۔آرٹ ،مصوری اور سنگ تراشی جیسے فن جو صدیوں سے اس خطے کی پہچان چلے آ رہے ہیں ان کی تاریخ پر ابلق ایام کے سموں کی گرد ایسے پڑ گئی ہے کہ کچھ سجھائی نہیں دیتا۔تمام حقائق خیال و خواب ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔شفیع عقیل نے فنون لطیفہ کی تاریخ اور اس خطے میں ان کے ارتقا پر خوب داد تحقیق دی ہے ۔فن مصوری پر شفیع عقیل نے جس اعتماد سے بصیرت افروز اور فکر پرور اندا ز میں اظہار خیال کیا ہے وہ اپنی مثا ل آپ ہے ۔پانچ جلدوں پر مشتمل ان کا یہ وقیع کام انھیں اپنے عہد کے مصوری کے نا قدین میں ممتاز مقام عطا کرتا ہے ۔ان سے پہلے فن مصوری پر اردو زبان میں ایسا معیاری کام کبھی نہیں ہو ا ۔فن مصوری پر ان کی تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے :
(1)دو مصور (2)چار جدید مصور (3)تصویر اور مصور (4)مصوری اور مصور (5)پاکستان کے سات مصور
پاکستان کے سات مصور شفیع عقیل کی مقبول اور اہم تصنیف ہے ۔فن مصوری پر اپنی اس کتاب میں انھوں نے پاکستان کے جن سات نامور مصوروں کے فن کو موضوع بنایا ہے ان میں محمد حنیف رامے
،غلام رسول ،احمد سعید ناگی ،صادقین ،اقبال مہدی ،ابرار ترمذی ،گل محمد کھتری شامل ہیں ۔ان مصوروں کے فن پر بحث کرتے وقت ان کے فن پاروں کا تفصیلی تجزیہ کرتے ہیں اور ان کے اسلوب میں پائی جانے والی ان کے شخصی اور انفرادی انداز کی جانب توجہ دلاتے ہیں ۔وہ نہایت خلوص اور بے تکلفی سے کام لیتے ہوئے قاری کو فن مصوری کے اسرار و رموز سے آگاہ کرتے ہیں ۔حیران کن بات یہ ہے کہ تصویر کے ظاہری اور باطنی حسن کا احوال بیان کرتے وقت شفیع عقیل کی شخصیت کا ظاہری حسن و دل کشی اور باطنی روشنی و رعنائی بے ساختہ انداز میں قاری کے سامنے آجاتی ہے اور وہ اس کے سحر میں کھو جاتا ہے ۔
’’تصویر اورمصور ‘‘شفیع عقیل کی فن مصوری پر ایک اور اہم تصنیف ہے ۔اس وقیع تصنیف میں انھوں نے اڑتالیس (48)نابغہء روزگار مصوروں کے فن کا ماہرانہ تجزیہ پیش کیاہے ۔ان کے فن کے جملہ اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتے وقت مصنف نے اپنے تبحر علمی کا ثبوت دیا ہے ۔اس کتاب کے مطالعہ سے مصنف کی مصوری ،خطاطی ،مجسمہ سازی ،سنگ تراشی اور رنگوں سے دلچسپی کے بارے میں وسیع معلومات کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتا ہے ۔فن مصوری پر شفیع عقیل نے جو عظیم الشان کام کیا ہے اردو ادب کی تاریخ میں یہ ہمیشہ یاد ر کھا جائے گا۔ن کی یہ فقید المثال خدمات تاریخ ادب میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ان کی خدمات کا علمی و ادبی حلقوں نے بر ملا اعتراف کیا۔ان کی علمی ،ادبی ،قومی ،ملی اور لسانی خدمات کے اعتراف میں انھیں حکومت پاکستان کی طرف سے تمغہء امتیاز عطا کیا گیا۔اس کے علاوہ انھیں دائود ادبی انعام اور خوش حال خان خٹک ایوارڈ سے بھی نواز گیا ۔
شفیع عقیل ایک ہفت اختر شخصیت تھے ۔انھوں نے کئی شعبوں میں اپنے کمال فن کا لوہا منوایا ۔ترجمہ نگاری ،تبصرہ نگاری ،تحقیق ،تنقید ،شاعری ۔افسانہ نگاری ،عالمی ادبیات ،لوک ادب ،پنجابی کلاسیکی شاعری ،اردو کلاسیکی شاعری ،علوم شرقیہ ،طب ،فلسفہ ،علم بشریات ،تاریخ اور نفسیات کے موضوعات پر کئی نادر تحریریں پیش کیں ۔مضامین ،مواد اور اسلوب کا یہ تنوع اور بو قلمونی انھیں منفرد اور ممتاز مقام عطا کرتی ہے ۔روزنامہ جنگ کی اتوار کی اشاعت میں شامل ا دبی ایڈیشن میں شامل ان کے لکھے ہوئے نئی کتابوں پر تبصرے ان کی تنقیدی بصیرت کے آئینہ دار ہوتے تھے ۔وہ کتاب کے محاسن و معائب کو کھل کر بیان کرتے اور کوئی لگی لپٹی نہ رکھتے ۔ وہ ہر قسم کی عصبیت سے بالا تر رہ کر زیرتبصرہ کتاب کے بارے میں اپنی رائے دیتے تھے ۔وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ عصبیت اور جانب داری نقاد کی دیانت اور رائے کی ثقاہت پر سوالیہ نشان لگا دیتی ہے ۔کتابوں پر ان کے عالمانہ تبصرے کتاب کے موضوع ،مواد ،ہیئت اور مشمولات کے بارے میں ان کے عمیق مطالعہ کے آئینہ دار ہوتے تھے ۔وہ قاری کو ان تمام حقائق کے بارے میں آگاہ کر دیتے جو ان کے علم میں آئے ۔ان تبصروں کے مطالعہ کے بعد قاری اس کتاب کے بارے میں جملہ حقائق کے احساس و ادراک کے قابل ہو جاتا ۔
اپنی عملی زندگی میں شفیع عقیل کو کئی بار کٹھن حالات کا سامنا کرنا پڑا ۔ان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آئے لیکن وہ ہر مر حلہء زیست میں ہنستے مسکراتے طوفان حوادث سے بچ نکلے ۔تقدیر ہر مر حلہ اور ہر گام انسانی تدبیر کے پر خچے اڑا دیتی ہے ۔شفیع عقیل کی زندگی میں ایک نشیب ایسا آیا جس سے وہ زندگی بھر نہ نکل سکے ۔ان کی بہن جس کے چھوٹے چھوٹے بچے تھے عین عالم شباب میں بیوہ ہوگئی ۔بیوگی کی چادر اوڑھے ان کی بہن نے اللہ کی رضا کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا اور لب اظہار پر تالے لگا کر اپنے غم کا بھید کبھی نہ کھولا ۔تقدیر کے چاک سوزن تدبیر سے کبھی رفو نہیں ہو سکتے ۔اس سانحے نے شفیع عقیل کو مکمل طور پر منہدم کر دیا ۔بہن کی بیوگی ،بہن کے کم سن بچوں کی گریہ وزاری اور مظلومیت نے اس حساس تخلیق کار کی روح کو زخم زخم اور د ل کو کرچی کرچی کر دیا۔شفیع عقیل نے فیصلہ کیا کہ وہ کبھی شادی کر کے اپنا الگ گھر نہیں بسائے گا بل کہ بہن کے کم سن بچوں کی تر بیت کرکے انھیں مفید شہری بنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھے گا۔بہن کی خوشیوں کی خا طر اس نے ا پنے ارمانوں کو سینے ہی میں دبا دیااور بہن کے چہرے پر خوشیاں دیکھنے کی تمنا میں اپنی خوشیوں کی پروا نہ کی ۔وہ اس بات پر مطمئن تھے کہ ان کی بیوہ بہن اور اس کے بچے آرام سے رہے اور عملی زندگی میں اپنا مقام بنانے میں کامیاب ہو گئے ۔ان کی زندگی کا مقصد دوسروں کے کام آنا تھا۔اس واقعے سے ان کے ایثار اور خدا ترسی کا ثبوت ملتا ہے ۔قحط الرجال کے موجودہ دور میں ایسے لوگ نایاب ہیں ۔
شفیع عقیل بہت خوش اخلاق اور مخلص ادیب تھے ۔ہر ملاقاتی کے ساتھ اخلاق اور اخلاص کے ساتھ پیش آنا ان کا شیوہ تھا۔اپنے عہد کے ممتاز ادیبوں اور دانش وروں کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات تھے ۔ان کے احباب میں خضر تمیمی ،مولانا عبدالمجید سالک ،مولانا ظفر علی خان ،چودھری بر کت علی ،محمد حنیف رامے ،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،سیدضمیر جعفری ،حفیظ جالندھری ،چراغ حسن حسرت ،اظہر جاوید ،رضا ہمدانی ،فارغ بخاری ،خاطر غزنوی ،عطاشاد ،محسن بھوپالی ،صابر آفاقی ،میرزا ادیب ،رحیم بخش شاہین ،رام ریاض ،کبیر انور جعفری ،پروفیسر عتیق احمد اور بشیر سیفی شامل تھے ۔
اپنے معاشرے میں رہتے ہوئے انھوں نے افراد معاشرہ کے ساتھ باہمی ربط و ارتباط اورافہام و تفہیم کی فضا کو پروان چڑھانے کے لیے سخت محنت کی ۔ان کے داخلی اور نفسیاتی تجربات ان کے اسلوب میں نمایا ں ہیں۔ایک زیرک تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے اپنے خارجی ماحول سے جو اثرات قبول کیے انھیںتخلیق فن کے لمحوں میں زاد راہ بنایا۔وہ چاہتے تھے کہ ادب کی مقصدیت کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے ۔ان کے اسلوب میں جدت او رتنوع کی جو کیفیت ہے اس کے اثرات دوررس ہیں۔وہ اپنی تحریروں کے ذریعے عصر ی آگہی کو پروان چڑھانے کے آرزو مند تھے ۔انھوں نے اپنی تخلیقی تحریروں میں ایک علمی شان پیدا کردی جب کہ ان کے تراجم میں پوری دنیا کا منظر نامہ دھنک رنگ سماں پیدا کر دیتا ہے ۔علم کو وہ ایک نعمت خداوندی سے تعبیر کرتے تھے۔ان کاخیال تھا کہ ادب کے وسیلے سے معاشرتی زندگی میں نکھار لایا جا سکتا ہے ۔
اپنے اسلوب میں شفیع عقیل نے فہم و ادراک ،جذبات و احساسات اور تکنیک کے تنوع سے جو سماں باندھا ہے وہ دھنک رنگ منظر نامہ پیش کرتا ہے ۔تخلیق فن کے لمحوں میں خون بن کر رگ سنگ میں اترنے کی صلاحیت سے متمتع اس نابغہء روزگار تخلیق کار نے اپنے اشہب قلم کی جو لانیوں سے ہر صنف ادب میںاپنی کا میابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ان کے سفر نامے قاری کو اسی دنیا میں لے جاتے ہیں جس میں شفیع عقیل انھیں لے جانے کا آرزو مند ہے ۔تعلیم ،تفریح اور مقصدیت سے لبریز شفیع عقیل کی تخلیقات قار ئین کے اذہان کی تطہیر و تنویر کا موثر ترین وسیلہ بن کر سامنے آتی ہیں ۔ان کا اسلوب قاری کے شعور کو واحد تاثر کی نعمت سے مالا مال کر کے فہم و ادراک کے لطیف جذبات و احساسات سے مزین کرتا ہے ۔ان کے اپنے احساسات اسی بے ساختگی کے ساتھ منصہء شہود پر آتے ہیں جس کا تعلق ان کے تخلیقی تجربات سے ہے ۔ان کی تصانیف جو ادیبوں ،مصوروں ،فنون لطیفہ کے ماہرین ،مجسمہ سازوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی ممتاز ہستیوں کے انٹرویوز پر مشتمل ہیں ،چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہیں ۔شخصیت نگاری میں شفیع عقیل کو کمال حاصل تھا ۔اپنے عہد کے نامور مزاح نگار مجید لاہوری کے وہ بڑے مداح تھے ۔مجید لاہور ی کی حیات اور ادبی خدمات پر شفیع عقیل کی کتاب اس لافانی ادیب کے شا یان شان ہے ۔اس کے علاوہ انھوں نے مجید لاہور ی کے اخباری کالم ’’حرف و حکایت‘‘ کے نام سے مرتب کیے جن کی اشاعت سے قارئین ادب کو اس مزاح نگار کے ادبی منصب کو سمجھنے میں مدد ملی جس کے تخلیقی عمل میں صبر و استقامت اور جہد مسلسل کی شان دل ربائی قاری کو ہجوم غم میں بھی دل کو سنبھال کر سوئے منزل رواں دواں رہنے پر آمادہ کرتی ہے ۔ معاشرتی زندگی کی نا ہمواریوں،بے اعتدالیوں ،بے ہنگم ارتعاشات اور تضادات کے ہمدردانہ شعور پر مبنی سوچ کو فن کارانہ انداز میں پیش کر کے مجید لاہور ی نے کئی چشم کشا صداقتوں کو اپنی شاعری میں بیان کیا ہے ۔ حاضر جوابی اور شگفتگی مجید لاہور ی کی جبلت میں شامل تھی ۔اپنی گل افشانیء گفتار سے وہ محفل کو کشت زعفران میں بدل دیتے تھے ۔ہر مزاح نگار کی طرح وہ مسائل زیست کی تلخی کے بارے میں اندر سے بہت سنجیدہ او رنجیدہ تھے ۔مجید لاہوری نے کہا تھا :
میں اپنے آنسو چھپا رہا ہوں ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں سزا ملی ہے یہ مجھ کو ایسی خدا کسی کو نہ یہ سزا دے
سوانح نگاری میں شفیع عقیل نے موضوع تحقیق کی افادیت اور اہمیت کو پیش نظر رکھا ہے ۔مجید لاہوری کی شخصیت کے متعلق مواد کے حصول کے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کیے ہیں اور کہیں بھی تشنگی کا احساس پیدا نہیں ہونے دیا۔اسلوب میں واقعات اور شہادتوں کی چھان پھٹک پر پوری توجہ دی گئی ہے ۔اس طرح وہ سوانح عمری کو ایک انسان کی حقیقی تصویر اور مستند تاریخ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ان کی تصانیف درج ذیل ہیں :
بھوکے (افسانے )،ڈھل گئی رات ،ایک آنسو ایک تبسم ،تیغ ستم ،سرخ سفید سیاہ،باقی سب خیریت ہے ۔
شفیع عقیل نے ادب کو ایک موثر سماجی عمل کی حیثیت سے رو بہ عمل لانے کی کوشش کی ۔اپنی تحریروں کو تحلیل و تجزیہ سے مزین کر کے اصلاح اور مقصدیت کی شمع فروزاں رکھنے والے اس عظیم ادیب کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر نہیں ہو سکتا انھوں نے ہر قسم کی عصبیت کو لائق استرداد ٹھہراتے ہوئے انسان دوستی اورروشن خیالی کی جو شمع فروزاں کی اس کی تابانیاں سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے میں اہم کردار ادا کریں گی اور آنے والی نسلوں کے لیے ان کے افکار خضر را ہ ثابت ہوں گے ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی کمی کا احساس شدت سے بڑھتا چلا جائے گا ۔با مقصد ادب ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور سلطانیء جمہور کے لیے انتھک جد و جہد کرنے والے اس نابغہء روزگار ادیب کا نام جریدہء عالم پر تا ابد ثبت رہے گا اور تاریخ ہر دور میں ان کے نام کی تعظیم کرے گی ۔ایک جری تخلیق کار کی حیثیت سے انھوں نے زندگی بھر روشنی کے جس سفر کو جاری رکھا ان شا اللہ وہ جاری رہے گا ۔بہ قول محسن بھوپالی:
ہم اندھیروں کی دسترس سے دور
روشنی کی طرح سفر میں ہیں
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...