ایک پیر کے گھٹنے اور دوسرے پیر کے پنجوں کے بل وہ فرش پر آرکا۔ اس کے اچانک نزول پر ہال میں موجود خواتین کی چینخ بے ساختہ نکلی۔وہ سرعت سے اٹھ کھڑا ہوا اور آگے بڑھ کر شفق اور عرفان بھائی کے درمیان دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔خان عرفان کا اٹھا ہوا ہاتھ پہلو میں آ گرا۔فرش پر نگاہیں جمائے آنسو بہاتی شفق نے اچانک وارد ہونے والے شخص کی پشت کو دیکھا۔
“دیکھ رہے ہیں سونی کے ابّا ،آج اس کم ذات کا عاشق ہمارے گھر میں گھسنے کی ہمت کر بیٹھا ہے۔فجر کی نماز کے دوران میرے ذہن پر یہ خیال وحی کی طرح نازل ہوا کہ یہ قصوروار ہے یا نہیں اس کے ثبوت اس کے کمرے سے یقیناً مل جائیں گے۔نماز سے فارغ ہو تے ہی میں نے اس کے کمرے کی تلاشی لی۔اول تو یہ بناؤ سنگھار کا سامان میرے ہاتھ لگا۔
سج سنور کر رہنے والی جوان جہان لڑکیوں کے دلوں میں یہ خواہش ضرور انگڑائی لیتی ہے کہ ان کے حسن کو سراہا جائے انھیں داد وتحسین ملے اور ایسی لڑکیاں داد دینے والے ڈھونڈ بھی لیتی ہیں۔ہم نے تو آج تک اسے بناؤ سنگھار کے سامان کو چھونے تک کی اجازت نہیں دی تو پھر یہ سب کہاں سے آیا ؟ یقیناً اس کے عاشق نے یہ چیزیں تحائف کی صورت میں دی ہونگی اسے اور اس کا ثبوت ہے یہ محبت کے پیغام جو اس کم ذات کی دراز سے برآمد ہوئے ہیں۔ اپنی چوری پکڑی جانے پر کمال ڈھٹائی سے اس بے غیرت نے اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا۔کل جو خوف و حراس کی تصویر بنی ہمارے سامنےاپنی بے گناہی کی قسمیں کھارہی تھی ، آج اس درجہ کی جرات کا مظاہرہ کررہی ہے یہ دیکھ کر میں حیران رہ گئی تھی ، اس کے اندر اتنی ہمت کہاں سے آگئی کہ میرے عین مقابل کھڑی ہو کر اپنی بے غیرتی کی داستان سنارہی ہے۔
مگر اب اندازہ ہورہا ہے کہ کس نے دی ہے اسے یہ ہمت ۔ کس نے کی ہے اس کی حوصلہ افزائی ۔اسی سڑک چھاپ عاشق نے شفق کو بے غیرتی کے درس دیے ہونگے۔ بے شرمی تو آفندی خاندان کے خون میں گردش کرتی ہے۔یہ خوبی تو اسے وراثت میں ملی ہوگی۔
ذلیل ، کم ذات ، بے غیرت کیا اسی لیے تو دینی کتابیں لیکر چھت پر جایا کرتی تھی۔اس خبیث کے ساتھ محبت کے پینگیں بڑھاتے ہوئے، اپنے بھائیوں کے آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے تجھے ذرا غیرت نہ آئی۔تیرے ماجائیوں کی برسوں کی محنت اکارت گئی۔ کیا نہیں کیا تیرے بھائیوں نے تیری خاطر اعلٰی تربیت دی ، دینی تعلیم دی ، سات پردوں میں تجھے چھپاکر رکھا تاکہ تو اس خاندان کی بیٹی کے نقش و قدم پر نہ چل پڑے جو باپ بھائی کی غیرت کو نیلام کر گئی تھی۔مگر ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں بڑے بزرگ، خون بولتا ہے۔تو بھی اسی خاندان کی بیٹی نکلی۔مجھے تو گماں ہورہا ہے کہ اس
پر کوثر کی روح کا سایہ پڑگیا ہے۔وہ ہم سے اپنی موت کا انتقام لینا چاہتی ہے۔ ہماری تذلیل کرنا چاہتی ہے۔ہمیں معاشرے کے سامنے رسوا کرنا چاہتی ہے۔اسی لیے وہ شفق سے یہ سب کروا رہی ہے”۔
منجھلی بھابھی مغلظات بکتی ہوئی جارحانہ انداز میں شفق کی سمت بڑھی تھیں۔
حیدر جو شفق سے ایک قدم کی دوری پر کھڑا تھا، منجھلی بھابھی کو اس کی سمت بڑھتا دیکھ شفق کے دفاع کے لئے بے ساختہ پیچھے ہٹا تبھی اس کا بازوشفق کے جھکے ہوئے سر سے ٹکرایا نتیجتاً وہ بدک کر چار قدم پیچھے ہٹی تھی۔شفق کی طرف بڑھتی رخسانہ بھابھی کے راستے میں اپنا بازو حائل کر حیدر نے ان کا راستہ روکا۔
“کسی نے بھی شفق کو ہاتھ لگانے کی جرات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔
یہ لڑکی اس حویلی میں میری امانت ہے۔اس پر مزید ظلم ڈھانے کا حق آپ سب کھوچکے ہیں۔”
وہ با آواز بلند بولا۔
الفاظ تھے کہ قیامت ،اس لڑکے کی جرات پر خان زادے ششدر رہ گئے۔
“اے کاش! ہم تجھے اسی وقت دفنادیتے جب تو پیدا ہوئی تھی”۔
حیدر کے الفاظ نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ پھٹی ہوئی آواز میں غراتے ہوئے عرفان بھائی نے حیدرکو پرے دھکیل کرشفق کی گردن دبوچ لی۔حیدر اس غیر متوقع حملے کے لیے تیار نہیں تھا ۔بمشکل اس نے خود کو زمین بوس ہونے سے بچایا اور شفق کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے ان کی آہنی گرفت سے اسے آزاد کرایا۔وہ بے طرح کھانس رہی تھی۔گو محض چندہی سیکنڈ کے لئے عرفان بھائی نے اس کی گردن کو دبوچا تھا لیکن ان کی گرفت مضبوط تھی ۔اسے اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا تھا۔اس کی صراحی دار گردن پر اس کے بھائی کے ہاتھوں کی آہنی گرفت کے نشان واضح تھے۔
“کچھ تو شرم کریں عرفان بھائی۔ جس لڑکی کا گلا آپ گھونٹ رہے ہیں وہ آپ کی سگی بہن ہے۔ وہ دینی مدارس میں جن سے آپ نے تعلیم حاصل کی ہے ، کیا یہی سیکھا ہے آپ نے کہ اپنی ہی بہن کا گلا گھونٹ کر اسے قتل کردیا جائے۔ وہ دینی مجالس جن میں باقاعدگی کے ساتھ آپ لوگ حاضری لگاتے ہیں ، کیا یہی درس دیے جاتے ہیں کہ بغیر اس کے رضامندی جانے اپنی بہن کی شادی کم صورت اور عمر رسیدہ شخص سے کردی جائے جو کسی لحاظ سے اس کے قابل نہیں ہے۔
یہ کس دین پر چل رہے ہیں آپ جو اس دین سے ذرہ برابر میل نہیں کھاتا جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سونپ گئے ہیں۔ ویسے آپ نے ٹھیک ہی کہا ،شفق کی پیدائش کے وقت اسے زندہ دفنا دینا بہتر ہوتا کیونکہ وہ پہلا اور آخری موقع تھا آپ کے پاس اسے قتل کر دینے کا ۔اب آپ چاہ کر بھی اس کا بال بیکا نہیں کر پائیں گے۔آج تک اسے جانور سمجھ کر آپ سبھی اس پر ظلم ڈھاتے آئے ہیں نا ؟ تو ٹھیک ہے، آئندہ بھی اسے جانور سمجھتے رہیے گا۔البتہ میری ایک بات ذہن نشین کرلیں ، اب آپ کی بہن وہ احمق جانور نہیں رہی جو رسی توڑنے کی کوشش میں خود کو زخمی کر لیتے ہیں۔ یہ وہ جانور بن چکی ہے جو کھونٹا اکھاڑنے کی خواہش رکھتے ہیں۔انہی کو فتح ملتی ہے ، انہی کو رہائی نصیب ہوتی ہے۔
یقین جانئے یہ لڑکی اس گھر سے ضرور جائے گی زندہ یا مردہ، مگر اس حویلی کی بنیادیں ہلا کر۔اب وہ زمانہ نہیں رہا جب خان خاندان کے مرد اپنی بیٹی کو غیرت کے نام پر ناحق قتل کرکے اپنی غیرت کے قصے فخریہ سنایا کرتے تھے۔اب وقت بدل چکا ہے۔نسلیں بدل چکی ہیں ۔نہ تو آپ لوگ اس قابل ہے کہ ہمیں قتل کر سکے نہ ہی ہم اتنے بزدل ہیں کہ گھر سے فرار ہوجائیں۔میں اتنا ڈرپوک نہیں ہو کہ رات کی تاریکی میں آپکی بہن کو لیکر فرار ہو جاؤں۔پوری شان اور عزت کے ساتھ خان حویلی سے رخصت کرکے لے جاؤنگا میں اسے۔
وعدہ کرتا ہوں میں آپ چاروں خان زادوں سے،میں ایسے حالات پیدا کردونگا کہ شفق کا نکاح کرنے کےلئے پورے شہر میں آپکو کوئی اور لڑکا دستیاب نہیں ہوگا سوائے میرے۔میں آپ لوگوں کو اس قدر بےبس و مجبور کردونگا کہ جلد یا بدیر بذات خود آپ لوگ شفق کا ہاتھ میرے ہاتھوں میں دینگیں۔”
خان عرفان کے عین مقابل کھڑا ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر وہ با آواز بلند بولا۔مرکزی ہال کی دیواروں سے ٹکرا کر اس کی بے لچک اور بلند آواز کی بازگشت ہال میں موجود ہر ایک نفس کے ذہن میں پیوست ہو گئی۔ خان زادوں کی زبان گویا تالوں سے چپک گئی۔سارا طنطنہ جیسے ہوا میں تحلیل ہو گیا۔آفندی خاندان کے چشم و چراغ نے مستقبل کا وہ نقشہ کھینچا کہ خان زادے دہل اٹھے۔
کئی ساکت وجودوں کے درمیان دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا وہ جالیدار سفید ٹوپی کے نزدیک آرکا جو ہاتھاپائی میں فرش پر جاگری تھی۔جمعہ کے مبارک دن کے اہتمام میں وہ سفیدکرتا اور کالی جینز میں ملبوس تھا۔ٹوپی اٹھاکر وہ مرکزی ہال کی چوکھٹ کے نزدیک پہنچا ،دہلیز کو عبور کرنے سے قبل وہ مڑا۔
“آج رات بھر کی مہلت ہے آپ سب کے پاس، اگر اسے قتل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو بخوشی کردیں مگر میری ایک بات ذہن نشین کرلیں۔ خان شفق کے خون کا بدلہ میں اس پورے خاندان کے خون سے لونگا۔آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟ میں آپ کے ممکنہ گناہ کی پاداش میں آپ سب کو قانون کے حوالے کردونگا جہاں سے سو کالڈ خان زادے با آسانی باعزت بری کردیے جائیں گے ، قطعاً نہیں۔اگر آپ لوگوں نے شفق کو قتل کرنے کی کوشش کی تو اس حویلی کے ہر ایک مرد کو موت کی گھاٹ اتار کر خود جیل کاٹنے کا ارادہ ہے میرا۔ لہذا سوچ سمجھ کر قدم اٹھائے گا۔ ویسے بھی کل کا سورج نئے تماشے کے ساتھ طلوع ہوا چاہتا ہے۔کمر کس لیجئے ، محلے داری نبھانے کا وقت آپہنچا ہے۔دوست و احباب کے سوالوں کا جواب نامہ تیار کر لیجیے”۔
طنزیہ مسکراہٹ خان زادوں کی طرف اچھال کر سر پر ٹوپی پہنتا ہوا وہ گویا ہوا اور وہ جو افراتفری اور جانکنی کے عالم میں اپنے محافظ کا چہرہ تک نہ دیکھ سکی تھی اس کی نگاہ اس شخص کے چہرے پر جارکی۔شہابی رنگت ستواں ناک ، بڑھی ہوئی شیو جو فی الوقت داڑھی ہی معلوم ہورہی تھی۔سر پر ٹوپی پہنے سفید کلف دار کرتا میں ملبوس اس شخص کو اپنے عین سامنے ایستادہ دیکھ یک لخت اس کی ذہن کی پلیٹ پر ان افراد کی شبیہہ روشن ہوئی جنھیں اس نے حریم کے اسمارٹ فون میں نعت خوانی و قرآن خوانی کرتے دیکھا اور سنا تھا۔اس پل اسے حیدر بالکل اللہ کے ان بندوں جیسا لگا۔
خوبصورت چہرہ ،روشن پیشانی،نرم دل کے مالک مسلم ایمان والے اللہ کے نیک بندے۔
“آج آپ سبھی کا غیر انسانی سلوک دیکھ کر خان خاندان کا ہمسایہ ہونے کے ناتے، ایک مسلمان ہونے کے ناتے ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں ۔ انسانوں والی تو کوئی خوبی نہیں ہے آپ لوگوں میں ، کم ازکم یہ منافقت چھوڑ کر اچھا اور سچا مسلمان بننے کی کوشش کریں۔انسانیت کے تقاضے کیا ہوتے ہیں سمجھ آجائے گا”۔
متاسفانہ لہجے میں اپنی بات کہہ کر وہ چلا گیا۔اس بار بھی وہ دروازے کے راستے باہر گیا تھا۔
خان حویلی کا ہر ایک فرد بے حس و حرکت کھڑا رہ گیا۔کسی کی طرف سے مزید کسی رد عمل کا اظہار نہ ہوتا دیکھ وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی اپنے کمرے میں چلی آئی۔دروازہ مقفل کرتے ہی اپنی پشت دروازے سے ٹکائے وہ زمین پر بیٹھتی چلی گئی۔
“کوئی شخص اپنی بہن کی خوشی کے لئے اس حد تک کیسے جاسکتا ہے؟کوئی اتنا اچھا کیسے ہو سکتا ہے؟
اس حویلی میں وہ واحد تھی جو اس حقیقت سے واقف تھی کہ حیدر آفندی کے لبوں سے ادا ہوئے لفظوں میں صداقت نہیں تھی۔اس کا ہر ایک لفظ محبت کے جذبہ سے عاری تھا۔وہ اس کی محبت میں مبتلا نہیں تھا۔وہ تو اپنے حصے کی اداکاری کر رہا تھا۔ باوجود اس کے اس حویلی کے دوسرے مکینوں سمیت وہ خود بھی اس کے لفظوں کے سحر میں کیوں گرفتار ہوگئی؟ کیوں اسے اس کی اداکاری پر حقیقت کا گمان ہونے لگا؟
کیا تھا وہ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کون تھا وہ؟۔۔۔۔۔۔
کوئی ساحر۔۔۔۔۔۔۔
اب کہ یہ دشت میرے پاؤں پڑا ہے ورنہ
اس کا میرا تو تعلق تھا حریفوں جیسا
*******
اپنی بہترین کارکردگی پر نازاں وہ مرکزی ہال میں داخل ہوا ۔حسب توقع اس کے والدین اور حریم منتظر تھے۔
“یہ سب کیا ہے حیدر؟ تم کیا کر رہے ہو؟”
بمشکل اپنا غصہ ضبط کرتے ہوئے افتخار صاحب نے استفسار کیا۔
ان کے سوال پر ٹھنڈا سانس فضاء کے سپرد کرتا ہوا وہ صوفے پر ڈھے گیا۔آمنہ بیگم صوفے کے نزدیک کھڑی متوحش دکھائی دیتی تھیں تاہم حریم کے چہرے سے کسی بھی قسم کے تاثرات کااندازہ لگانا مشکل تھا۔وہ ساکت کھڑی حیدر کو دیکھے جا رہی تھی۔
قریباً پندرہ منٹ بعد حقیقت اپنی فیملی کی گوش گزار کر وہ خود کو قدرے ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔اس کی بات کے اختتام پر حریم دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی اس کے قریب چلی آئی۔
“آپ نے یہ سب کیوں کیا بھائی؟ اب کیا ہوگا؟یہ سب کچھ میری وجہ سے ہوا ہے نا ؟”
وہ حیدر کے شانے سے لگی باآواز بلند روتے ہوئے بولی۔
اس کے معصوم ردعمل پر وہ مسکرا دیا۔
” یہ سب کچھ تمھارے وجہ سے ہوا نہیں ہے۔یہ سب کچھ تمھارے لیے کیا ہے میں نے حریم اور ان دو باتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے ۔میں نے اس جنگ کا آغاز اسی لیے کیا ہے،تاکہ تم خود کو بزدل ،بےبس یا کمزور نہ تصور کرنے لگ جاؤ۔کیونکہ اگر دوستی تمھاری کمزوری ہےتو تم اس دنیا کے تمام انسانوں میں سب سے زیادہ مضبوط انسان ہو۔
تم فکر مت کرو اب کچھ برا نہیں ہوگا انشا اللّٰہ سب بہتر ہوگا۔وعدہ کرتا ہوں میں تم سے ،آج کے بعد تمھاری دوست کے ساتھ مزید کوئی زیادتی نہیں ہوگی ۔تم اپنی دوست کے غم میں مزید آنسو نہیں بہاؤگی۔
وہ بلکل ویسی ہی زندگی جیےگی جس کا خواب تم نے اسے دیکھایا تھا۔خان شفق کو رہائی ملکر رہےگی ۔رہائی تو اسی دن اس کے نصیب میں لکھ دی گئی ہوگی جس دن حریم آفندی نے اسکی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا۔ حق تلفی،ناانصافی اور بے جا بندیشوں سے حریم آفندی کو سخت نفرت ہے ،پھر یہ کیسے ممکن ہوتا کہ وہ اپنی عزیز ترین دوست کو ایک قفس سے نکل کر دوسرے قفس میں جانے دیتی ۔لہذا اس نے کوشش کی اپنی دوست کے حق میں آواز اٹھانے کی اسے رہائی دلانے کی مگر وہ کامیاب نہ ہوسکی۔ وہ اپنی دوست کو انصاف نہ دلا سکی اور اسکی ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے ہمارا یہ معاشرہ، یہ گھٹن زدہ ماحول جس میں سانس لیتی ایک لڑکی چاہے وہ کتنی ہی لبرل وخود اعتماد کیوں نہ ہو ،اس کے ہر احتجاج کی اس کی ہر تحریک کی حد بندی کر دی جاتی ہے۔ نتیجتاً حریم آفندی کی ہمت جواب دے گئی ،اس کے حوصلے پست ہوگئے ۔وہ خود کو شکستہ تصور کرنے لگی ۔
فرسودہ روایات کے مسکن معاشرے کے سامنے اس نے گھٹنے ٹیک دیئے مگر اسوقت حریم یہ کیسے بھول گئی کہ دوہرے معیار کے اس معاشرے میں مرد اور عورت کی حدیں یکساں نہیں ہوتیں۔رہتی دنیا میں مردوں نے ایک عورت کے لیے ایسے ایسے کارنامے انجام دیے ہیں، جو انجام کو پہنچنے سے قبل دنیا والوں کے لیے ناممکن تھے اور اب حیدر آفندی بھی ایک عورت کی خوشی کے لئے ہر حد پار کر جائے گا۔وہ عورت اس کی عزیز ترین بہن جو ٹھہری۔ خود کو بے بس اور شکستہ تسلیم کرتے وقت تم یہ کیسے فراموش کر بیٹھی کہ جو صورت حال حریم آفندی کے قابو میں نہیں آتی، اسے حیدر آفندی قابو کرتا ہے۔کسی بھی قیمت پر۔”
حریم کے رخسار پر بہتے آنسوؤں کو اپنی انگلیوں کی پوروں سے سمیٹتے ہوئے وہ گویا ہوا۔
اپنے بھائی کی بات پر وہ بھیگی آنکھوں سےمسکرادی،تاہم صوفے پر ایستادہ ان جڑواں بھائی بہن کے والدین اب بھی صدمہ کی کیفیت میں تھے۔
*******
سہ پہر کا وقت تھا۔افتخار صاحب آفس سے گھر لوٹے تھے ۔جوں ہی وہ اپنی کار سے باہر نکلے فاروقی صاحب کسی جن کی مانند وارد ہوئے تھے۔
“حال کا حال سنائیں جناب خیر تو ہے؟
سچ کہوں تو ہمسائے کم حریف کی بیٹی سے محبت کرکے آپ کے بیٹے نے خاصی بہادری کا مظاہرہ کیا ہے۔یقین جانیے پورے محلے میں بس حیدر ہی کی چرچے ہیں۔ آپ بے فکر ہو جائیں ،ہم سب آفندی خاندان کے ساتھ ہیں ۔
دھیان رہے اس دفعہ دو ہمسائیوں کے درمیان محبت کی داستان کا انجام خوشگوار ہوا چاہتا ہے۔برسوں پہلے خان خاندان کے وارث نام ونہاد خان زادوں نے غیرت کے نام پر اپنی ہی بہن کو قتل کر دیا ۔خدا ان ظالموں کے اس قبیح فعل پر اس قدر ناراض ہوا کہ اس خاندان سے بیٹی جیسی نعمت ہی چھین لی ۔ سارا محلہ واقف ہے کہ گزشتہ تین نسلوں سے خان خاندان میں بیٹی پیدا نہ ہوئی تاہم اتنے عرصے بعد اس خاندان میں بیٹی کی پیدائش اور اس خاندان کی بیٹی کا آپ کے بیٹے کے ساتھ محبت کے معاملہ سے واضح ہوتا ہے کہ خدا بھی آفندی خاندان کو ایک اور سنہری موقع دینا چاہتا ہے۔اس بار آفندی خاندان کی فتح ہونا درکار ہے افتخار صاحب”۔
فاروقی صاحب اپنے نادر خیالات کا اظہار کر اپنی راہ ہو لیے۔ آفندی صاحب سر جھٹک کر صحن میں داخل ہوئے تھے۔
“حیدر کے ابا ،میرے لیے تو بازار تک جانا دشوار ہوگیا ہے۔تمام واقف کار خواتین کو اسی قصہ میں دلچسپی ہے جس کے تصور سے تک میں گریز کرتی ہوں ۔خدا جانے یہ کیسی مصیبت ہمارے گلے ڈال دی ہے ہمارے بیٹے نے۔جب بھی حیدر کے منصوبہ کا خیال آتا ہے میرا تو ذہن ماؤف ہونے لگ جاتا ہے۔ حیدر کو لگتا ہے کہ خان خاندان کی بیٹی کو آفندی خاندان کی بہو بنانے کا منصوبہ کارگر ثابت ہوگا۔اتنا احمق تو وہ کبھی نہ تھا ،منصوبہ وہ بھی فرضی نکاح کا ۔مجھے سمجھ نہیں آتی خان حویلی کی بیٹی کی آزادی کی تحریک میرے بچے لڑنے پر کیوں مصر ہیں”۔
پانی کا گلاس اپنے شوہر کو تھماتی ہوئیں آمنہ بیگم دلگرفتہ لہجے میں بولیں۔
آفندی صاحب ٹھنڈی آہ بھر کر رہ گئے۔ان کی حالت بھی ان کی بیگم سے مختلف نہ تھی۔فی الوقت وہ دونوں بے بس تھے۔
دفعتاً حریم صحن کی دہلیز عبور کرتی صحن میں داخل ہوئی۔آج کافی دنوں بعد وہ کالج گئی تھی۔
“مام ۔۔۔۔۔ڈیڈ۔۔۔۔۔آپ یقین نہیں کرینگے آج کیا ہوا۔
جوں ہی میں کالج پہنچی تو انکشاف ہوا کے پورے کیمپس میں بھائی کی بہادری کا قصہ مشہور ہوچکا ہے۔جسے دیکھو وہ بھائی اور شفق کے متعلق بات کر رہا تھا۔پہلے پہل تو میں جی بھر کر حیران ہوئی کہ یہ معجزہ کیونکر وقوع پذیر ہوا۔پھر شرمین کی زبانی معلوم ہوا کہ یہ نیک فعل ردا نے انجام دیا ہے۔کیا خوب محلے داری نبھائی ہے اس نے۔صبح کیمپس میں پہلا قدم رکھتے ہی اس نے یہ خبر اپنی دوستوں کو سنائی پھر کیا تھا دیکھتے دیکھتے ہی یہ قصہ جنگل کی آگ کی مانند پورے کیمپس میں پھیل گیا۔
ہائے اللّٰہ ! میں نے تو خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ شفق میری بھابھی بھی بن سکتی ہے۔حیدر بھائی نے شفق کی آزادی کا وہ حل نکالا ہے کہ کیا کہوں؟ کسقدر احمق ہوں میں، اس سے قبل کبھی مجھے یہ خیال کیوں نہیں آیا؟خیر جو ہوا اچھا ہوا۔میں تو اس مبارک گھڑی کی منتظر ہوں جب خان زادے شفق کا ہاتھ بھائی کے ہاتھ میں دیں گے اور وہ میری بھابھی بنکر اس گھر میں آئے گی”۔
اپنے والدین کے عین برعکس وہ ازحد مطمئن اور خوش تھی۔اپنے آپ کو حجاب اور عبایہ سے آزاد کرکے وہ پنجوں کے بل دائرے کی صورت میں سارے صحن میں گھومنے لگی۔خوشی اس کے چہرے سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔
“تمہیں اسقدر خوش دیکھکر مجھے تمہاری ذہنی حالت پر شبہ ہورہا ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے، حیدر کے اس ڈرامہ کے مثبت نتائج نکلیں گے؟ یہ سب کچھ اتنا آسان معلوم ہو رہا ہے تمہیں؟ تو میری ایک بات لکھ لو، خان زادے اپنی بہن کو قتل کردینگے مگر اسکا ہاتھ آفندی خاندان کے وارث کے ہاتھ میں کبھی نہیں دینگے۔ شفق کو اپنی بھابی کے روپ میں دیکھنے کی تمہاری خواہش کو سن ایسا لگ رہا ہے جیسے تم بھول رہی ہو کہ یہ نکاح صرف ایک ڈرامہ ہے۔
باالفرض تم لوگ اپنے منصوبہ میں کامیاب ہو بھی گئے تب بھی شفق تمہاری بھابھی نہیں ہوگی کیونکہ یہ نکاح جھوٹا ہوگا۔فرضی ہوگا۔ لہٰذا تم خیالی پلاؤ نہ پکاؤں اسی میں تمہاری بہتری ہے۔اس لڑکی اور حیدر کا کوئی جوڑ نہیں ہے۔
ویسے بھی،ابھی عمر ہی کیا ہے میرے بیٹے کی۔۔۔۔ اکیس سال۔۔۔۔ابھی تو میں نے تمہارا رشتہ تک طے نہیں کیا ہے اور تم اپنے بھائی کی شادی کے خواب دیکھ رہی ہو”۔
آمنہ بیگم نے درشت لہجے میں اسے حقیقت کا آئینہ دکھایا۔
“یہ نکاح کھیل ہے۔۔۔۔۔یا ڈرامہ ۔۔۔۔۔ فی الوقت میں اسی میں خوش ہوں تو براہ مہربانی مجھے خوش ہی رہنے دیں۔ایک بار شفق اس گھر میں آجائے تو پھر میں اسے کہیں نہیں جانے دونگی۔آپ تو جانتی ہیں
بھائی میری بات نہیں ٹالتے”۔
اس نے پر اعتماد لہجے میں کہا۔
” اوہ! تو تم اپنی دوست کے بہتر مستقبل کے لیے میرے بیٹے کو بلی کا بکرا بناؤگی۔اپنے بھائی کی قربانی دوگی۔اس پر جبر کروگی۔ اسے ایک ایسی لڑکی کے ساتھ پوری زندگی گزارنے پر مجبور کروگی جسے وہ جانتا تک نہیں۔جو کسی لحاظ سے میرے بیٹے کے لائق نہیں ہے۔ایک بات ذہن نشین کرلو حریم وہ دقیانوسی لڑکی اس گھر کی بہو کبھی نہیں بنے گی۔”
اپنی بیٹی کی بات پر آمنہ بیگم کو غصہ چڑھا تھا۔
“شفق دقیانوسی نہیں ہے مام۔خان زادے دقیانوسی ہیں۔ان کی بیویاں فرسودہ ذہن کی مالک ہیں۔ وہ تو بہت پیاری ،معصوم اور نیک دل لڑکی۔میں دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں، حیدر بھائی کے لیے شفق سے بہتر لڑکی آپ کو پوری دنیا میں کہیں نہیں ملےگی۔ اور رہی بات بھائی پر جبر کرنے کی تو آپ جانتی ہیں کہ آج تک میں نے اپنی کوئی مرضی بھائی پر نہیں تھوپی اور اس معاملے میں بھی میں یہی کرونگی۔
میں بس اپنی خواہش کا اظہار کروگی باقی وہ اپنی مرضی کے مالک ہیں۔آپ بخوبی واقف ہیں بھائی اپنے فیصلوں میں خود مختار ہوتے ہیں اور شفق کی رہائی کا پلان بھی بھائی نے بنایا تھا میں نے نہیں۔”
خفگی بھرے لہجے میں کہتی وہ واک آؤٹ کرگئی۔آمنہ بیگم نے سر ہاتھوں میں گرا لیا۔تاہم آفندی صاحب خاموش تماشائی بنے رہے ،ماں بیٹی کی بحث میں ٹانگ نہ اڑانے میں ہی ان کی عافیت پوشیدہ تھی۔
*******
رات ڈیڑھ بجے کے قریب حریم اپنے کمرے میں جانے پر بمشکل رضامند ہوئی تھی۔اس کے والدین کے برعکس حریم اس صورتحال سے ازحد خوش اور مطمئن تھی۔ اس کی باتیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اس کا بس چلتا تو وہ ساری رات باتوں میں گذار دیتی۔
پیاس کے احساس کے زیر اثر وہ پانی پینے کی غرض سے سائیڈ ٹیبل کے نزدیک چلا آیا۔ پانی کے جگ کو اٹھانے کے لیے وہ جھکا دفعتاً اسکی نگاہ سنگھار میز کے قد آور آئینہ میں نظر آتے اپنے عکس پر پڑی۔آج بھی وہ اسی ہلکے نیلے رنگ کی ٹی شرٹ میں ملبوس تھا،جو اس نے اس رات شفق سے ملاقات کے وقت زیب تن کر رکھی تھی۔یک بیک اسے اپنے سینے پر دو لرزتے ہوئے ہاتھوں کا دباؤ محسوس ہوا تھا۔
“اس وسیع و عریض حویلی میں کیا میرا ہی کمرا نظر آیا آپکو چوری کے لائق۔؟۔۔۔۔۔ آپکو ذرہ برابر بھی شرم نہیں آتی ۔۔۔۔۔۔۔ رات کے اس پہر لڑکیوں کے کمروں میں چوری چھپے گھستے ہوئے۔۔۔۔۔۔”
اس کے کانوں میں شفق کی بھیگی ہوئی مترنم آواز گونجی۔
اس کے لب بے اختیار مسکرادیے وہ غیر ارادتاً ہی اسے سوچے جارہا تھا۔
سر جھٹک کر وہ بستر پر چلا آیا۔ سونے کی نیت سے اس نےجوں ہی آنکھیں موندیں خان حویلی کے ہال میں برپا تماشہ کا منظر آنکھوں کے سامنے روشن ہوا۔
ذلیل۔۔۔ کم ذات ۔۔۔۔۔۔۔۔ بے غیرت ۔۔۔۔۔۔
اس خبیث کے ساتھ محبت کے پینگیں بڑھاتے ہوئے
تجھے ذرا غیرت نہ آئی۔۔۔۔۔۔
وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھا۔
“یہ کیا ہورہا ہے مجھے؟ حریم کی طرح میں بھی اسکی دوست کو لیکر اسقدر حساس ہورہا ہوں؟ یقیناً یہ حریم کی صحبت کا اثر ہے۔وہ بخیریت سو رہی ہوگی وہ لوگ شفق کو تکلیف پہنچانے کی ہمت نہیں کریں گے۔ جب ان خان زادوں کے عین مقابل کھڑے ہوکر میں انھیں دھمکیاں دے رہا تھا۔ ان کی انا کو للکار رہا تھا۔اسوقت تو غیرت و بہادری کے علمبردار نام و نہاد خان زادوں کی زبان گویا تالوں سے چپک گئی تھی۔مستقبل میں انکی ممکنہ تذلیل و بےبسی کا میں نے وہ خوفناک نقشہ کھینچا کہ خوف و حراس انکی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ہاں، میری دھمکی اثر انداز ثابت ہوئی ہوگی۔وہ لوگ شفق کے ساتھ مزید زیادتی کرنے کی جرات نہیں کرپائیں گے”۔
اس نے خود کو دلاسہ دیا۔مگر دل تھا کہ مضطرب ہوا جا رہا تھا ۔اس اضطراب کی کوئی توجیہہ اسے نہیں مل رہی تھی۔
“کیا چیز ہے حریم کی دوست؟ اول تو حریم کی پکی دوست بنکر اس کے دل دماغ پر قابض ہوگئی اور اب محض چند دنوں میں وہ لڑکی میرے حواسوں پر سوار رہنے
لگی ہے۔ میرے خدا! یہ لڑکی کوئی ساحرہ تو نہیں ہے؟”
دل و دماغ کی جنگ میں دماغ نے ایک توجیہہ پیش کی۔
خان حویلی میں وقوع پذیر ہوئے تماشے کے بعد سے بارہا وہ منظر اس کے ذہن کی پلیٹ پر روشن ہوا تھا۔ حیرانی کی بات تھی کہ پورے آدھے گھنٹے تک جس لڑکی کا محافظ بنکر وہ خان زادوں کے مقابل ڈھال بن کر کھڑا رہا تھا۔ اس لڑکی کا چہرہ وہ نہیں دیکھ سکا تھا۔یہ کیونکر ممکن تھا۔وہ متحیر تھا۔
غالباً کسی نامحرم کے سامنے خدا اپنی نیک باپردہ بندی کی بے پردگی نہیں ہونے دینا چاہتا تھا ۔اس کے اس قدر نزدیک ہوتے ہوئے بھی میں اس کا چہرہ نہیں دیکھ سکا یہ ایک معجزہ ہی تو ہے ۔”
وہ خود سے مخاطب مسکرا دیا۔
اپنے کمرے کی کافی چکر کاٹ لینے کے باوجود جب اضطراب کم نہ ہوا تو چھت پر چلا آیا۔غیر ارادتاً ہی وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتا ہوا درمیانی دیوار کے نزدیک آگیا۔اسے کامل یقین تھا، رات کے اس پہر شفق کی یہاں موجودگی ناممکنات میں سے ہے۔جو تماشہ خان حویلی میں ہوا تھا۔ اس کے بعد شاید ہی شفق کو چھت پر آنے کا موقع نصیب ہو۔ باوجود اس کے بلاارادہ اس نے دیوار کے اس پار جھانک کر دیکھا۔رات کی تاریکی میں دیوار سے لگ کر اکڑوں بیٹھا ایک ہیولا نظر آیا تھا۔
شفق۔۔۔۔۔۔
مارے حیرت کے اس کی آواز بلند ہوگئ۔
” جی ،میں ہی ہوں۔۔۔۔۔رات کے اس پہر خان حویلی کی چھت پر میرے علاوہ کون احمق موجود ہوسکتا ہے۔میں شام کو چھت پر آئی تھی۔ میرا خیال تھا حریم مجھ سے ملنے ضرور آئے گی ،اب تک تو اس کی خفگی بھی دور ہو چکی ہوگی ۔خلاف توقع وہ نہیں آئی البتہ موقع پاتے ہی منجھلی بھابھی نے چھت کا دروازہ بند کر دیا۔اس روز آپکے حویلی سے واپس جانے کے بعد سے کسی نے مجھ سے بات تک نہیں کی۔گھر کا ہر فرد مجھے نظر انداز کر رہا ہے۔یہاں تک کہ بچوں کو بھی میرے پاس آنے سے روکا جارہا ہے۔چاروں بھائی بیٹھک میں ڈیرہ جمائے جانے کون سی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں”۔
دیوار کے اس پار سے آواز آئی تھی ۔آج اس کی آواز میں نہ تو نمی تھی نہ لرزش۔خلاف توقع اس کا لہجہ پرسکون تھا۔
“آج حریم بہت خوش تھی لیکن ساتھ ہی اسے تمھاری بہت فکر بھی ہورہی تھی مگر مام ڈیڈ اور میں نے اسے اوپر آنے سےمنع کر دیا۔ ہمارا خیال تھا اب تمھیں چھت پر آنے کا موقع نہیں ملےگا لیکن ہمارا اندازہ صد فی صد غلط ثابت ہوا۔ غالباً تمھارے بھائیوں اور بھابھیوں کو میری کہی باتوں پر یقین آگیا ہے تبھی تو انہوں نے تمھیں چھت پر یوں تنہا چھوڑ دیا۔ چاہے تم ساری رات چھت پر تنہا رہو میں تمھیں بھگا کر نہیں لے جاؤنگا، اسقدر اعتماد ہے انھیں مجھ پر۔ اس سے ثابت ہوا کہ انھیں میری اداکاری پر یقین آگیا ہےاور خان حویلی جاکر میری لفاظی کرنے کے مثبت نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ البتہ رات کے اس پہر تمھاری یہاں موجودگی منفی نتائج کا ثبوت بھی دے رہی ہے۔تاہم مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ حسب عادت تم رو نہیں رہی نہ ہی خوفزدہ ہو”۔
حیدر نے پر ستائش لہجے میں کہا۔
“اس روز خان حویلی میں آپ کی کہی کوئی بات میری زندگی پر کسی بھی لحاظ سے منفی طرح سے اثر انداز نہیں ہوئی اور رات کے اس پہر چھت پر میری موجودگی بھی مثبت تبدیلی کا ہی ثبوت ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ دن کے چوبیسوں گھنٹے میری نگرانی پر معمور خان حویلی کے مکین اب اپنی اس زمہ داری سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔کل سے ایک بھی اذیت ناک جملہ ،ایک بھی تکلیف دہ طعنہ میری سماعت میں نہیں اترا۔
اب میں آزاد ہوں اس مسلسل ذہنی اذیت سے جسے گزشتہ کئی سالوں سے میں برداشت کرتی رہی ہوں۔اب نہ تو میں پہلے کی طرح روؤنگی نہ ہی خوفزدہ ہوں گی۔میرے اندر ایک سکون سرایت کر چکا ہے۔ میں خود کو پراعتماد محسوس کرنے لگی ہوں۔اب مجھے مستقبل میں درپیش خطرات کا خوف لاحق نہیں ہے۔خدانخواستہ اس کھیل کے آخر میں فتح ہمارا مقدر نہ ہوئی، تب بھی میں ٹوٹونگی نہیں،ہمت نہیں ہارونگی۔
میں لڑونگی اپنے حق کے لیے۔آزادی کے راستے میں رہائی کے سفر کی جانب پہلا قدم اٹھانا ہی سب سے مشکل مرحلہ ہوتا ہے۔وہ پہلا قدم اٹھانے کے لیے بے انتہا ہمت درکار ہوتی ہے،چٹانوں سا حوصلہ چاہیے ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے میں اپنی آزادی کے لیے وہ پہلا ازحد ضروری اور مشکل ترین قدم اٹھانے سے گریزاں تھی ۔مگر کل آپ کے اور حریم کے ساتھ کی بدولت میں نے وہ مشکل ترین قدم اٹھالیا اور اب میں کسی قیمت پیچھے نہیں ہٹونگی۔ایک عورت کو جب یہ احساس ہوجاتا ہے کہ وہ بہتر کے قابل ہے تو اس کے بعد اسے روک پانا ناممکن ہوتا ہے۔وہ بہتر کو پاکر ہی دم لیتی ہے”۔
وہ پرعزم لہجے میں گویا ہوئی۔
“واؤ۔۔۔تم فلسفیانہ باتیں بھی کر لیتی ہو۔۔۔۔۔۔۔
Thats impressive”
وہ داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
” مجھے مطالعہ کا بہت شوق ہے۔اردو ادب کی تقریباً مشہور کتابیں میں پڑھ چکی ہوں لہٰذا تھوڑی بہت فلسفیانہ باتیں کرلیتی ہوں”۔
وہ بے ساختہ مسکرائی۔اسے اندازہ نہیں تھا کہ اس شخص کے لبوں سے اپنی تعریف سننا اسقدر خوش کن احساسات سے دوچار کرسکتا ہے۔
“خیر خدا کا شکر ادا کرو کہ مجھے نیند نہیں آرہی تھی اسی لیے میں چھت پر آگیا نتیجتاً تمھیں اتنی اچھی کمپنی مل گئی ،ورنہ ساری رات اپنے فرشتوں سے گفت و شنید کرنا پڑتی تمھیں”۔
اپنے دل کے حال کے عین برعکس اس نے جتانے والے انداز میں کہا۔
وہ مسکرادی۔اس کی بات کے جواب میں وہ خاموش رہی۔ وہ اسے نہیں بتاسکتی تھی کہ اس لمحے اس کا دل اس ذات برتر کا کسقدر شکرگزار ہے۔اظہار نہیں کرسکتی تھی کہ پچھلے کچھ گھنٹوں سے وہ کتنی شدت سے اس کی آمد کی منتظر تھی ۔کہہ نہیں سکتی تھی کہ اس کے انتظار میں چھت پر بیٹھے ہوئے اس سے قبل اسے کوئی رات اسقدر ویران وتاریک نہیں لگی تھی۔
یہ دونوں بھائی بہن ایسے کیوں تھے ۔بس ایک ملاقات میں مقابل کو اپنا عادی بنا جاتے تھے۔وہ بس سوچ کر رہ گئی ۔رات دھیرے دھیرے صبح کی طرف بڑھ رہی تھی۔وہ دونوں درمیانی دیوار سے ٹیک لگائے ایک دوسرے کی مخالف سمت میں رخ کیے محو گفتگو تھے۔جن دو نفوس کی عشق کی داستان پورے محلے میں مشہور ہوچکی تھی ان دونوں کی باتوں میں ایکدوسرے کا ذکر قطعاً نہیں تھا۔گفتگو کا موضوع حریم تھی ۔
حریم کا عزیز ترین بھائی اور حریم کی عزیز ترین دوست محو گفتگو تھے۔ تاریک رات کو روشن کرتا چاند انھیں دیکھ کر مسکرا دیا۔
*******
خان حویلی میں ہوئے ہنگامے کے بعد سے آفندی خاندان کے مکینوں کی زندگی میں سکون در آیا تھا۔خان حویلی کے مکینوں نے شفق کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کا عہد کرلیا تھا۔وہ خان حویلی میں حاضر ہوتے ہوئے بھی گویا غیرحاضر تھی۔طعنوں اور اعتراضات کا سلسلہ اختتام کو پہنچا تھا۔
حریم اور شفق کی ملاقاتیں پہلے کی طرح جاری تھیں۔ دونوں سہیلیوں کی شامیں ایک دفعہ پھر خوبصورت ہوگئی تھیں۔محلے والوں کو آفندی خاندان کی طرف سے مثبت تو اس کے عین برعکس خان خاندان کے افراد کی طرف سے منفی جواب موصول ہو رہے تھے۔دوست اور احباب منتظر تھے فیصلے کی گھڑی کے۔ ہمسائے منتظر تھے کہ فاتح کے نام کا اعلان کیا جائے مفتوح کی بےبس صورت دیکھی جائے۔ظالم اپنے انجام کو پہنچے ۔ایک دفعہ پھر تاریخ رقم ہو۔ جس کا اختتام خوش گوار ہو ۔
حیدراس صورتحال سے مطمئن تھا۔اس کی توقع کے برعکس خان زادے خاصےبزدل واقع ہوئے تھے ۔ اب اسے منصوبہ کے آخری حصہ پر عمل پیرا ہونا تھا۔جماعت میں بات اٹھانی تھی۔ حریم کی دوست کو دائمی رہائی دلوانا تھی۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا اپنے اس دوست کے گھر کی سمت بڑھ رہا تھا جو آج ہی انگلینڈ سے لوٹا تھا۔ فرسٹ سیمسٹر ختم ہوچکا تھا ۔ گو وہ بذریعہ فون کے اس سے رابطے میں تھا مگر اس سے باضابطہ ملاقات کرکے اپنے تعلیمی حرج کے متعلق تفصیل جاننا مقصود تھا۔ وہ قدرے سنسان گلی کےاختتام تک پہنچا تبھی قدموں کی آہٹ پر وہ چوکنا ہوا۔چھٹی حس نے اسے خطرے کا احساس کرایا۔
اس قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتا چار کسرتی جسم اور درازقد کے حامل دیوہیکل آدمی چاروں سمتوں سے اس پر ٹوٹ پڑے۔ اس غیر متوقع اور قدرے شدید حملے سے بمشکل ہی وہ خود کو سنبھال پایا۔وہ بلیک بیلٹ تھا لیکن فی الوقت ان دیو قامت پیشہ ور بدمعاشوں کے مقابل اس کا کوئی پینترا کارگر ثابت ہوتا معلوم نہیں ہو رہا تھا۔ چنانچہ اٹیک کرنے کی بجائے وہ خود کوڈفینڈ کرنے کی تگ ودو میں تھا۔ پورے دس منٹ تک وہ تنہا ان بدمعاشوں کے مقابل ڈٹا رہا۔لیکن آخر کب تک وہ خود کو بچا پاتا ایک بدمعاش کامنہ پر پڑا گھونسہ گویا اس کےلیے آخری حد ثابت ہوا اور وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...