(Last Updated On: )
(۱) شفق کا ایک اور رنگ (۲) دوسرا بھورو خاں
(۱) شاعر : نور پرکار
(۲) افسانہ نگار: نور پرکار
ناشر: قلم پبلی کیشنز ۱۷ / ۱۷ا، ایل آئی جی کالونی، کر لا (مغربی) ممبئی۔ ۷۰
نور پرکار کا نام ہندستان کے جدید اردو ادب کے اہم ناموں میں سے ایک ہے۔ جہاں تک مجھے یاد آتا ہے میں غالباً ۱۹۷۰ء۔ ۱۹۷۱ء اردو ادب کے زمانہ میں ان کے نام سے رو شنائس ہوا، ان دنوں ہندستان میں اہم رسائل جو ادب کے فن پر جگمگا رہے تھے ان میں آج کل، کتاب، لکھنو، تحریک، دہلی، شب خون، الہٰ آباد، صبا، حیدرآباد، پیکر، حیدرآباد، مریخ، پٹنہ، صبح، امید، شاعر اور نقش کوکن ممبئی کا نام یاد آ رہا ہے۔ نور پرکار کا نام بھی شاید کتاب لکھنو اور شاعر ممبئی کے ذریعے میرے حیطۂ علم میں آیا۔ یہ نام بذاتِ خود اور پُر کشش لگا، پرکار سے واقفیت ریاضی پڑھنے اور پھر ناسخ کا وہ شعر جس میں دائرہ شاہ اجمل کی مدح میں انھوں نے کہا تھا کہ:
ہر پھر کے دائرہ ہی میں رکھتا ہوں میں قدم
آئی کہاں سے گردشِ پرکار پانوں میں
تک محدود تھی۔ نئے ادیبوں نے عموماً تخلص سے سادگی کی طرف سفر کیا ہے، بہت سے ادیبوں اور شاعروں نے تو (جن میں میں بھی شریک ہوں) صرف اپنے نام پر اکتفا کر لیا ہے۔ نور پرکار کے نام سے ایسا لگتا ہے کہ جیسے ایک روشنی کا خط تصورات پر مستوی ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ نور صاحب سے ملاقات (بلکہ ۵ یا ۶، ملاقاتیں جو اب تک ہوئی ہیں) وہ بھی ۱۹۸۹ء میں (میرے کویت آنے کے بعد) پر یہ ضرور لگا ہے کہ وہ ادب جی رہے ہیں اور ادب تحریر کر رہے ہیں۔ ان کی متذکرہ بالا کتابوں کا تنقیدی تجزیہ پیش ہے۔
(۱) شفق کا ایک اور رنگ: نور پرکار کا شعری اسلوب نثر کے بے ربطی، استعاراتی فکر سے بے نیازی، شعری آہنگ سے مبرا، لیکن کبھی کبھی صیغہ واحد متکلم میں صوت و صدا از یر و بم، کبھی مکالمے کے یک رخی کردار کی زبان اور کبھی حرفِ حق کہہ جانے کی جسارت پر مشتمل ہے اردو کی نثری شاعری میں اس طرح کا تجربہ کم ہوا ہے احمد ہمیش نے نثری آہنگ تو منتخب کیا لیکن استعارات، علامات اور الفاظ کے تحرک سے ایک تحیر کن شعری فضا بھی پیدا کی۔ قمر جمیل کی نثری شاعری کی زیریں رو میں آہنگ تیرتا نظر آتا ہے۔ بلراج کومل، عزیز قیسی اور شہریار نے نثری آہنگ میں امیجری اور شعری اظہار کی فضا کے تار و پود پر خاص توجہ دی ہے۔ نور پرکار نے شاعری کو سراسر اظہارِ ذات کا واسطہ بنا دیا ہے، ان کی استعمال کی ہوئی تشابیہ اور علامات جزوی طول رکھتی ہیں۔ پوری نظم پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کرتیں۔ یہ ان کا ممیز اسلوب بیان ہے اور حساس عناصر کے سبب انتہائی مرتکز ہے۔ ان کی نظموں میں کئی کردار ابھرتے اور ڈوبتے رہتے ہیں جو اپنے عمل کو مکمل کر کے منظر سے ہٹ جاتے ہیں۔ ان کی فکری فضا میں طلسم خانہ و جسم و جاں، نا آسودگی اور نامکمل تمناؤں کی پیش رفت ملتی ہے۔ نور پرکار نے اپنی شعری قوت اظہار کو زمانہ حال کے تناظر میں پیش کیا ہے۔ ان کی زبان عمومی ہے انھوں نے خصوصی لفظیات اور اصطلاحات کا کم تر استعمال کیا ہے۔ ان کی نظموں تک چند منتخب حصے پیش ہیں:
ابھی تو جسم مرور ایام کے درد سے بے خبر ہے اور من سے تن تلک۔ پھیلا ہوا راستہ کتنا لمبا ہے۔ کسی دن آنسو بہائے چپکے سے بستر کی خواہشوں سے پرے۔ میری طرح۔۔ ۔ (شاعری کرے تو۔۔ ۔) کٹھن سفر کی اذیتوں سے۔ کسی دن جو تھک جاؤں گا۔ گہرے پانی میں چپ چاپ اتر جاؤں گا۔۔ ۔ (۲۶ ؍ فروری۔۔ ۔)۔ جو کبھی آنکھ سے آنکھ ملے۔ تو گفتگو نہ کروں۔ جو لب ہلیں۔ اور سوالوں کی دھند چھٹے۔ تو جوابوں کی جستجو نہ کروں۔۔ ۔ (بین السطور)
نور صاحب کی نظموں میں کئی الفاظ اور مناظر متواتر آئے ہیں، سفر، دن، رات، شب و روز، سمندر، یاد، اور ایسے ہی الفاظ روپ بدل بدل کر نظموں میں تکرار کے ساتھ آئے ہیں۔ ان سب نظموں میں دست داری، دنیا سے بے پروائی، یاسیت اور ہلکی ہلکی لذت پرستی زبان بیان یا پس منظر میں اپنی سی جھلک دکھا کر چھپ جاتی ہیں۔
نور پرکار نے جس ڈکشن کو استعمال کیا ہے وہ اردو نقاد کو نثری نظموں کے مکالماتی اسلوب کی طرف ضرور راغب کرے گا۔ اب مکالماتی اسلوب میں شعریت کے تلازمہ کا تعین اب مرحلہ دشوار ہے کہ گزشتہ بیس برسوں سے ان پر بحث کے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ میں نور پرکار کو اس خوب صورت کتاب کی صوری اور معنوی خوبیوں پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
(۲)۔ دوسرا بھورو خاں: یہ چوں کہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن ہے۔ امید ہے کہ یہ کتاب اربابِ ادب کی نظر سے گزری ہو گی اوراس پر تبصرے بھی ہوئے ہوں گے۔ اس کتاب میں ۱۷ افسانے ہیں اور ہر افسانہ مختصر طوالت کا ہے۔ نورپرکار نے ان افسانوں کے لیے جو اسلوب منتخب کیا ہے وہ سہل زبان و بیان پر مبنی ہے۔ ان کے افسانوں کی فضا بیدی اور جوگندرپال کے درمیان اور منٹو اور سریندر پرکاش کے خلط ملط سے ایک علاحدہ وجودی اکائی بن کر وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ان کے افسانوں میں شدت کا احساس بھی ملتا ہے۔ دوسرا بھورو خاں، نورن، لہو لہو گلاب، میری ٹری زا، اسی شدید لب و لہجے کے نرم زبان میں عکس ہیں۔ ان کے افسانوں میں عموماً ایک مرکزی کردار کو پورے موضوع پر محیط بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
نور پرکار نے جس اسلوبِ بیان کو استعمال کیا ہے وہ بے ربط سے ربط، سیناریو کی اچانک تبدیلی، زبان کا متوازن برتاؤ، کہانی پن میں شکست و ریخت، تخیل کی درونی دھوپ چھانو، بین تشابیہ کا نیم علاماتی استعمال اور کچھ کہہ دینے اور کسی خبر عام کرنے کی جستجو پر منحصر ہے نور کے افسانوی کردار اپنے اندر منجمد کرداری احساسیوں کے ربط و ضبط سے بلا واسطہ اپنے ماحول کی صورتِ حال کو منکشف کرتے ہیں۔ نور نے جدید افسانہ کی زبان سے عملاً احتراز کیا ہے نہ اس میں پُر اسراریت ہے نہ عجبت ہے۔ سلیس اور بیانیہ قصہ گوئی جیسی زبان ان کے افسانوں میں ملتی ہے۔ وہ کئی مناظر کو ایک مقام سے دیکھ کر ان کو مختصر فصل کے ساتھ کہانی کی زمین پر منتشر کر دیتے ہیں لیکن مربوط طور پر۔ اس طرح بیش قلمونی مناظر (یا واقعات) گڈمڈ ہو کر ایک کہانی کی شکل میں افسانہ نگار کے مقصود کو پیش کرتے ہیں۔ نور پرکار کی کہانی کاری میں دانائی کا کرب، انسانی رشتوں کی شدت اور خود غرضی کی بے رحمی اہم موضوعات ہیں۔ وہ اپنے طرزِ ترسیل میں خاصے کامیاب نظر آتے ہیں اور ان کے افسانوں کو نئے اردو ادب میں نمائندگی ضرور ملے گی۔ نور پرکار کے افسانوں کا یہ مجموعہ ان کی ادبی دیانت داری کا اہم دستاویز کہا جا سکتا ہے۔
٭٭٭
تشکر: مصنف جنہوں نے اس کی فائل فراہم کی
ان پیج سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید