سنہری آسمان پر پرندوں نے پر پھیلا لیے تھے۔ سورج دور سے آنکھ مچولی جاری رکھے ہوئے تھا۔ شہیر نے تسبیح کے دانے ختم کرکے ذرا سا رخ سفید چادروں سے ڈھکے پیشنٹ بیڈ کی طرف نگاہ کی۔ جہاں عشال آنکھیں بند کیے بے سدھ پڑی تھی۔ موٹے کمبل نے اسے سینے تک ڈھانپ رکھا تھا۔
شہیر نے جاءنماز کی تہہ لگائی اور اسے سامان والے کاؤنٹر پر رکھ دیا۔ وہ فجر کے بعد نفل پڑھتا رہا تھا اور تسبیح پڑھ کر ابھی فارغ ہوا تھا۔
شہیر آہستہ سے عشال کے قریب آیا۔ اور اس کا سرد ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اسے نمونیا کا شدید اٹیک ہوا تھا۔ لیکن ہوش میں نہ آنے کی وجہ شدید جذباتی کشمکش تھی۔ صارم نے اس بری طرح اسے توڑا تھا کہ اس کی قوت مدافعت جواب دے گئی تھی۔
شہیر نے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔ جو ابھی بھی تپ رہا تھا۔
“کب تک خود کو یوں سزا دیتی رہو گی عشال!”
“کوئی یقین کرے نہ کرے، میں جانتا ہوں تم ہمارے گھر کا سب سے شفاف آئینہ ہو۔ مجھے تمہاری پاکیزگی پر کوئی شک نہیں جیسے پانی کی طینیت پر نہیں۔ خود کو صارم کے لفظوں کے آئینے میں مت دیکھو۔ میری آنکھوں کے یقین میں دیکھو۔ بے شک اس کی آنکھ چھ سو فٹ کی بلندی سے خطرہ دیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن اس کی نگاہ انسان کو پرکھنے سے اندھی ہے۔
مت پرکھو خود کو صارم کی نظر سے۔ مجھے دیکھو۔ میں گواہی دیتا ہوں تمہاری پاکیزگی کی۔ خدا کے لیے آنکھیں کھول دو۔ میں نے بہت پکارا ہے تمہیں۔”
وہ عشال کا ہاتھ اپنے ہاتھوں کی گرفت میں لے کر جیسے منت کررہا تھا۔ مگر اس کی کسی منت کا کوئی جواب نہیں آرہا تھا۔
اسی وقت دروازے پر دستک ہوئی تھی۔ شہیر چونک کر اٹھا۔ سامنے نورین کھڑی تھی۔
“کیسی ہے عشال؟”
نورین نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
شہیر نے خاموشی سے نورین کو اندر داخل ہونے کا راستہ دیا۔
“اسے ابھی تک ہوش نہیں آیا؟”
نورین نے عشال کا ماتھا چھوا۔
“وہ سوال مت پوچھو جس کا جواب میرا جنون بن جائے۔”
شہیر نے تلخی سے کہا۔
نورین نے خود کو زمین میں گڑتے ہوئے پایا۔
“کیا کہہ رہے ہو شہیر؟ تم اور جنون؟ میں یقین نہیں کرسکتی۔”
نورین کے چہرے پر حیرت تھی۔
“بات عزت کی ہو تو جنون بن ہی جاتی ہے۔”
شہیر کے لہجے میں تلخی تھی۔
“تمہارے منہ سے ایسی باتیں عجیب لگتی ہیں شہیر۔”
نورین نے اچھنبے سے اسے دیکھا تھا۔ جو ابھی ابھی امریکہ سے لوٹا تھا۔
کیوں؟ میں انسان نہیں ہوں یا میرے احساسات نہیں ہیں؟ آج سے پہلے تک تو میں نے بھی خود کو نہیں جانا تھا۔ بلکہ شاید انسان کبھی خود کو صحیح طور سے نہیں سمجھ پاتا۔ یہ تو بنتے بگڑتے حالات اس کی درست حقیقت طے کرتے ہیں۔ ابھی تو میں خود کو خود سمجھ نہیں پا رہا نورین۔ تمہیں کیا سمجھ آؤں گا۔”
“شہیر!”
نورین نے کچھ کہنا چاہا۔
“عشال کا خیال رکھو۔ میں کیفے ٹیریا جارہا ہوں۔”
شہیر نے کڑوے لہجے کے ساتھ بات بدل دی تھی۔ نورین محض سر اثبات میں ہلا کر رہ گئی۔
“سو سوری عشال!! معاف کردو مجھے۔پلیز ٹھیک ہوجاؤ۔”
شہیر کے جانے کے بعد نورین عشال کا ہاتھ تھام کر رودی تھی۔
*****************
شہیر ولا میں ابھی اوائل پت جھڑ جیسی خاموشی طاری تھی۔
مسٹر اینڈ مسز عثمانی ایک بار پھر شہیر ولا میں موجود تھے۔
“اگر آپ پہلے ہی ہماری بات سمجھ لیتے تو بچوں کو یہ قدم نہ اٹھانا پڑتا۔”
عائشہ نے ہمدردانہ لہجے میں ضیاءالدین صاحب سے کہا تھا۔
“آپ معاملے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کررہی ہیں میم! وہ عشال کو زبردستی لے گیا تھا۔ میری بہن اپنی مرضی سے اس کے ساتھ نہیں گئی تھی۔ اپنے بیٹے سے کہہ دیجیے گا۔ تھوڑا سا انتظار کرے۔ پشت کے بل کورٹ میں گھسیٹوں گا اسے۔”
شہیر اس وقت آپے میں نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے عشال کا زخم زخم وجود تھا۔ صارم کے لفظ تھے۔ شافعہ بیگم کی حقارت بھری نظریں تھیں۔ لوگوں کے سوال تھے۔
“شہیر! ہم ابھی بات کرنے کے لیے زندہ ہیں۔ ہم نہ رہے تو اپنے سارے ارمان پورے کرلینا۔”
ضیاءالدین صاحب نے درشت لہجے میں اسے خاموش کرایا تھا۔ اور وہ خون کے گھونٹ لے کر رہ گیا تھا۔ وہ ابھی ہی اسپتال سے لوٹا تھا۔ اور مسٹر اینڈ مسز عثمانی کی آخری بات سن کر سیدھا لاؤنج میں چلا آیا تھا۔ دو دن اور تین راتوں سے عشال ہوش وحواس کے بغیر فقط سانسیں لے رہی تھی۔ اور یہاں اس کے مجرم شہیر کے ضبط کا امتحان لے رہے تھے۔
“ہمیں سوچنے کا کچھ وقت چاہیے زبیر صاحب! یہ فیصلہ ہمارے لیے اتنا آسان نہیں ہے۔”
آغا جان نے سنبھل کر جواب دیا۔
شہیر کی پیشانی کے بلوں میں اصافہ ہوا۔
“آغا صاحب! فیصلہ کرنا تو ہمارے لیے بھی آسان نہیں۔ خاص طور پر موجودہ حا لات میں، لیکن ہم نے بھی کامپرومائز کیا ناں؟ آپ کو بھی صورتحال کو سمجھنا چاہیے۔ بہتر ہے یہ سوچنے ووچنے کی فارمیلیٹیز تو اب آپ رہنے دیجیے۔”
عائشہ نے بہت معنی خیز انداز اختیار کرتے ہوئے جیسے بہت کچھ جتایا تھا۔ ان کی نظریں شہیر کو تول رہی تھیں۔
“معاف کیجیے گا۔ لیکن فوری یہ فیصلہ ممکن نہیں۔”
آغا جان کے ایماء پر ضیاءالدین صاحب نے کہا تھا۔
“دراصل۔آپ کی آمد ہمارے لیے غیر متوقع حادثہ ہے۔ اسے برداشت کرنے کے لیے کچھ وقت تو لگے گا ہی۔”
آغا جان نے اپنے مخصوص نپے تلے لہجے میں جواب دیا۔
شہیر کی برداشت جواب دے چکی تھی۔ وہ ایک ناپسندیدہ نظر سارے ماحول پر ڈالتا احتجاجا لاؤنج کی دہلیز چھوڑ گیا تھا۔
“آغا صاحب! انتظار تو ہم نے بھی بہت کیا ہے لیکن آپ کے لیے کچھ اور سہی۔ امید ہے اس بار آپ زیادہ انتظار نہیں کروائیں گے۔ ویسے بھی جن دروازوں کی طرف انگلیاں اٹھ جائیں وہاں ڈولیاں نہیں اٹھا کرتیں۔”
زبیر صاحب نے نشست چھوڑتے ہوئے کہا تھا۔ اور ضیاءالدین صاحب صرف کھول کر رہ گئے۔
**************
“آپ کیا سوچنا چاہتے ہیں؟ ان کا سوال ان کے منہ پر کیوں نہیں دے مارا آپ نے؟”
مسٹر اینڈ مسز عثمانی کے جاتے ہی شہیر پھٹ پڑا تھا۔
“اب ہم اس پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہت آسان ہوتا ہے جذبات کی رو میں بہہ کر سب کچھ تہس نہس کر دینا۔ لیکن صدیاں لگتی ہیں سر پر صافہ جمانے میں۔ تم کیا چاہتے ہو برسوں کی دستار قدموں میں رول دیں؟ ہمارے سروں میں خاک ڈالنا چاہتے ہو شہیر؟”
ضیاءالدین صاحب نے ترش لہجے میں اسے مخاطب کیا تھا۔
“یہ کیسی عزت ہے بابا! کل تک اس گھرمیں جو نام بھی لینا گناہ تھا۔ آج آپ ان لوگوں کے ساتھ رشتہ جوڑ رہے ہیں؟”
شہیر کچھ سمجھنے کو تیار نہیں تھا۔
“شہیر!”
آغاجان نے جھکا سر اٹھایا اور اس کے مقابل آکر اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولے۔
“ہمارے زخم ابھی ادھڑے ہوئے ہیں شہیر! تم کیا چاہتے ہو؟ عشال کا نام زبان زبان کی داستان بن جائے؟ جو کہانیاں اس کی ذات سے منسوب ہوچکی ہیں۔ انھیں ختم کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے۔ اسے رخصت کردیا جائے۔”
ان کی آنکھوں میں ہلکورے لیتے کرب نے شہیر کو جیسے یخ کردیا۔
“آغا جان! پلیز سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ داستانیں، یہ قصے کہانیاں لوگ صرف اس وقت تک یاد رکھیں گے۔ جب تک ہم انھیں اہمیت دیتے رہیں گے۔ آج اگر ہم اس بلیک میلنگ کے خلاف ڈٹ گئے تو بہت کچھ مزید بگڑنے سے بچ جائے گا۔”
وہ آغا جان کی منت کررہا تھا۔
“عشال عورت ذات ہے۔ اور عورت ذات کے دامن پر لگا کیچڑ کا داغ بھی دنیا فراموش نہیں کرتی۔ اور اس کے دامن پر تو پوری ایک سیاہ رات چپکی ہے۔”
آغاجان جو اسے سمجھانا چاہتے تھے۔ وہ ابھی اس مقام پر نہیں تھا۔
“یہ عشال کے ساتھ ظلم ہے آغا جان! میں صرف اتنا جانتا ہوں۔ وہ لوگ اپنے جرم پر نکاح کا پردہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ اور ان کی بات مان کر آپ لوگ بھی اس میں شریک مجرم ہوں گے۔ عشال کی زندگی تباہ کررہے ہیں آپ لوگ۔”
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختا وہاں سے ہٹ گیا تھا۔
****************
“صارم م م م!”
عشال کی چیخ نورین کے دل میں ترازو ہوگئی تھی۔ اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں تھیں۔ اور سراسیمگی کے عالم میں ایک ہی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید ابھی تک اسی سیاہ لمحے میں جی رہی تھی۔
“عشال عشال!”
پلیز ریلیکس ہوجاؤ!”
نورین نے اسے گلے سے لگا لیا تھا۔
جیسے ہی عشال کے حواس نے حقائق کو درک کیا وہ بے جان ہوکر بستر پر گری تھی۔ اسے ایکدم چپ لگ گئی تھی۔ نورین نے پریشان ہوکر اسے ٹٹولا۔
“عشال عشال! میری جان! تم ٹھیک ہو؟”
نورین نے گھبرا کر اسے جھنجھوڑ ڈالا مگر وہ ایک بار پھر پتھر ہو چکی تھی۔ فرق صرف اتنا تھا اب اس کی آنکھیں کھلی تھیں اور حواس کام کرنے لگے تھے۔
نورین نے گھبرا کر ڈاکٹر کو کال کی تھی۔ اور شہیر کو۔
***************
“ان کا شاک ٹوٹ چکا ہے۔ بخار بھی کچھ کم ہے۔ انھیں نارمل ہونے میں شاید کچھ ٹائم لگ جائے یہ ان کی ول پاور پر ہے۔”
ڈاکٹر شہزاد نے شہیر کو عشال کی طبیعت کے بارے میں بتاتے ہوئے واضح کیا تھا۔
“ول پاور؟ لیکن آپ نے تو کہا تھا۔ عشال ٹھیک ہے؟”
شہیر فکر مند تھا۔
“وہ جو کچھ سہہ چکی ہیں تم اسے چھوٹی بات سمجھتے ہو؟ یہ سیدھا سیدھا اٹیمپ ٹو ریپ کا کیس تھا۔ لیکن صرف تمہاری وجہ سے میں نے پولیس کو انوالو نہیں کیا۔ عشال کے جسم پر ابھی کئی ایسے زخم ہیں جنھیں بھرنے میں وقت لگے گا۔ ”
ڈاکٹر شہزاد نے شہیر کو باور کرایا تھا۔
شہیر نے بمشکل اپنی آنکھوں کی سرخی چھپائی تھی۔
جانتا ہوں۔ آپ نے میرے خاندان پر بہت بڑا احسان۔۔۔”
“آں آں! بیکار باتیں مت کرو۔ تم خود ایک ڈاکٹر ہو۔ معاملات کی سنگینی کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہو۔ تم سے یہ سب میں نے اس لیے نہیں کہا کہ تم فضول باتیں کرنے لگو۔”
ڈاکٹر شہزاد نے درمیان میں ہی اسے ٹوکا۔
تھینک یو شہزاد!”
شہیر نے ڈاکٹر شہزاد کا بھرپور شکریہ ادا کیا اور عشال کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ ڈاکٹر شہزاد سے شہیر کاتعارف یونیورسٹی میں گروپ ڈسکشن کے درمیان ہوا تھا۔ وہ شہیر سے سینئر تھے اور ایک سال پہلے ہی اپنی ڈگری مکمل کرچکے تھے۔ شہیر اور ان کے درمیان دوستانہ تعلقات تھے۔
شہیر نے آہستگی سے کمرے میں قدم رکھا اور نورین کو عشال سے بات کرنے کا اشارہ کیا۔
“عشال؟ کیسا محسوس کررہی ہو؟”
نورین نے اسے دھیمے سے مخاطب کیا۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس خالی خالی نظروں سے سفید چھت کو گھورتی رہی۔ شاید وہ اپنے ہر زخم سے سمجھوتہ کرچکی تھی۔
“کچھ کھاؤ گی عشال؟”
نورین نے مسکرا کر دوبارہ کوشش کی۔
“ہاں! زہر!”
اب کے اس کے ہونٹوں نے جنبش کی تھی۔ مگر اس کا انداز اسقدر سرد و سپاٹ تھا کہ نورین کا دل کٹ کر رہ گیا۔ شہیر اپنی جگہ سے اٹھا اور دھیرے سے اس کے پاس آکھڑا ہوا۔
نورین مجرم سی بنی پیچھے ہٹ گئی۔ لیکن عشال کی نظروں کا زاویہ نہ بدلا۔ وہ شاید کچھ دیکھنا نہیں چاہتی تھی۔
“کسی بھی چیز کے ختم ہونے سے زندگی ختم نہیں ہوجاتی۔ ہر بار کسی چیز کے ختم ہونے پر اللہ سے شکوہ کرنے کی بجائے اس کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ اس نے ہم سے صرف ایک چیز واپس لی، سب کچھ واپس نہیں لیا۔”
شہیر نے آہستہ سے کہا تھا۔ اس کی بات پر عشال کے وجود میں جنبش ہوئی۔ اس نے شہیر کی طرف دیکھا۔
“کیوں؟ میرے ساتھ ہی کیوں؟ کیا میں نے کبھی اس کی شکرگذاری میں کمی کی تھی؟ یا اس کی عبادت میں۔۔۔؟ اس کا حق ادا کرنے میں کبھی سستی کی۔۔۔؟ یا اس کا حکم بجا لانے میں کوئی کوتاہی۔۔۔۔؟ پھر کیوں۔۔۔۔؟ اللہ نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟”
عشال نے سسکتے ہوئے کروٹ بدل لی تھی۔ شہیر کے پاس کہنے کے لیے بہت کچھ تھا۔ لیکن نورین نے ہاتھ جوڑ کر اسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا تھا۔ مجبورا وہ لہو رنگ آنکھیں لیے وہاں سے اٹھ گیا تھا۔
شاید یہ وقت کچھ بھی کہنے کے لیے مناسب نہیں تھا۔
****************
“تمہیں تو بہت غرور تھا اپنی طاقت پر۔۔۔؟ لیکن ایک پرپوزل تک ایکسیپٹ نہیں ہوا تمہارے بیٹے کا! یہ اوقات ہے تمہاری زبیر عثمانی!”
عائشہ نے طنز سے زبیر عثمانی کے فکرمند چہرے کی طرف دیکھا تھا۔
“حیرت ہے اتنے سال میرے ساتھ گذار کر بھی تم مجھے نہیں سمجھ سکیں۔ عائشہ! میرے ہاتھ میں کھیلنے کے لیے ابھی کئی پتے ہیں۔ وہ بڈھا اور اس کی اوقات ایک ٹکے سے زیادہ نہیں ہے میری نظر میں۔ فی الحال مجھے شامی کو سنبھالنا ہے۔”
زبیر نے سیل فون کھول لیا تھا۔
“کیا کرنا چاہتے ہو ان کے ساتھ؟”
عائشہ نے مشکوک ہو کر زبیر صاحب سے پوچھا۔
“کچھ خاص نہیں۔ صرف نکاح!”
زبیر کے چہرے پر بہت معنی خیز سی مسکراہٹ تھی۔
“جی ملک صاحب! آپ کا بہت شکریہ۔ ارے یہ بھی کہنے والی بات ہے؟ آج تک آپ کو شکایت کا موقع ملا ہے؟ بس آپ کو فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں۔ میں ہوں ناں! آپ کا اصل شکریہ تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر ادا کروں گا۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ جی جی! عائشہ کے بغیر تو پارٹی ممکن ہی نہیں۔(اچٹتی سی نگاہ عائشہ پر ڈالی۔ عائشہ نے منہ پھیرا۔) اجازت؟ اللہ حافظ۔”
اور رابطہ منقطع کردیا۔
“رات تک شامی آجائے گا۔ اس کا بیگ پیک کردو۔”
“زبیر! تمہارے دماغ میں آخر چل کیا رہا ہے؟”
عائشہ کو اب فکر لاحق ہونے لگی تھی۔
“بہت ہی ناشکری عورت ہو تم عائشہ! میں تمہارے بیٹے کی آزادی کی کوشش کر رہا ہوں اور بس! لیکن تمہیں پھر بھی سکون نہیں۔”
زبیر صاحب عائشہ پر بگڑے۔
“کیونکہ تم کوئی بھی کام سیدھی انگلی سے کرنے والوں میں سے نہیں ہو۔ تم کتے کی وہ دم ہو۔ جس کے ساتھ میں نے اکیس سال گذارے ہیں۔”
عائشہ نے زبیر کے منہ ایک بار پھر طنز مارا۔
زبیر صاحب نے ایک جاندار قہقہہ لگایا۔
“تو پھر سمجھ لو۔ میں نے انگلی ٹیڑھی کر لی ہے۔ لیکن اب مجھے گھی نہیں چاہیے۔”
اور عائشہ کو الجھا ہوا چھوڑ کر لاؤنج کی سیڑھیاں چڑھ گئے۔
*************
چڑیاں درختوں پر چہلیں کررہی تھیں۔ عشال کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہی۔ اسے اسپتال سے ڈسچارج ہوئے تیسرا دن تھا۔ عشال نے کھڑکی سے رخ پھیر لیا اور آنکھیں موند لیں۔ سطوت آراء ضیاءالدین صاحب کا ناشتہ لیے بیڈروم کی طرف ہولیں۔ آج کسی نے بھی ناشتہ ڈائننگ ٹیبل پر نہیں کیا تھا۔ آبریش کی چھٹیاں ختم ہوچکی تھیں۔ وہ بھی منہ بسور کر اسکول جاچکی تھی کہ بڑے اسے اپنے معاملات میں شامل نہیں کررہے تھے۔ وہ اتنا جانتی تھی کہ عشال کی شادی کینسل ہوچکی ہے۔ اسے برے حالوں میں بھی وہ دیکھ چکی تھی۔ لیکن شہیر کیوں پاگل ہوا پھر رہا تھا۔ آغا جان اور ضیاءالدین صاحب نے مسجد جانا کیوں چھوڑ دیا تھا۔ گھر آنے والے مہمانوں کے جانے کے بعد سطوت آراء کا موڈ کیوں خراب ہوجاتا تھا۔ اور عشال سے انھیں کیا شکایت تھی؟ یہ وہ سوال تھے۔ جن کے جواب وہ خود ہی خود کو سمجھارہی تھی۔ اگرچہ نو سال کی عمر میں وہ کوئی بہت چھوٹی بچی نہیں تھی۔ مگر بہت سی باتیں ابھی اس کے نئے نئے سے شعور کے لیے الجھے ریشم جیسی تھیں۔ اور وہ اسی کو سلجھانے کی کوشش میں تھی۔
“ضیاء مجھے آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔”
سطوت آراء نے تمہید باندھی۔
“اگر عشال کے بارے میں کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ تو اس بارے میں آغا جان کا فیصلہ حتمی ہوگا۔ان شاءاللہ!”
ضیاءالدین صاحب نے اخبار تہہ کرکے ایک طرف رکھ دیا۔
“آپ آغا جان سے بات کریں۔ عشال کے معاملے میں دیر کرنا کسی طرح سود مند نہیں۔ ہمارے حق میں تو ہرگز نہیں۔”
سطوت آراء کے انداز میں محسوس کی جانے والی پریشانی تھی۔
“دیر کیسی؟ سوچنا تو پڑے گا۔ آخر لڑکی کا معاملہ ہے۔”
ضیاءالدین صاحب نے سطوت آراء کی بات نظرانداز کرنا چاہی۔
“یہی میں بھی کہنا چاہتی ہوں۔ لڑکی کا معاملہ ہے۔ طلاق کا داغ نہیں ہے صرف اس کے دامن پر۔ جتنی دیر کریں گے۔ مسئلے اتنے ہی سر اٹھائیں گے۔ آخر کس چیز کا انتظار کررہے ہیں آپ لوگ؟”
ضیاءالدین صاحب نے نگاہ اٹھا کر سطوت آراء کو دیکھا وہ زیادہ ہی جذباتی ہورہی تھیں۔
“اب کیا سوچنے لگے؟ میں کیا غلط کہہ رہی ہوں؟”
ضیاءالدین صاحب کو سوچتا پاکر سطوت آراء نے الجھن محسوس کی۔
“نہیں! لیکن میں آغا جان پر زور نہیں ڈالنا چاہتا۔ مبادا وہ خیال کریں۔ عشال ہم پر بوجھ ہے۔”
ضیاءالدین صاحب نے سوچتے ہوئے جواب دیا۔
“بن بیاہی بیٹی والدین کے سینے کا بوجھ ہی ہوتی ہے۔ اور عشال کے دامن پر تو طلاق کا داغ بھی ہے۔ کب تک بٹھا کر رکھیں گے اسے؟”
سطوت آراء کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کھڑے کھڑے عشال کو چلتا کردیں۔
“طلاق کوئی جرم نہیں ہے۔ سطوت بیگم! اللہ نے عقد ثانی کا راستہ اسی لیے کھلا رکھا ہے۔”
ضیاءالدین صاحب کو نہ جانے کس بات پر غصہ آیا تھا۔
“کس دنیا میں رہ رہے ہیں؟ ضیاءالدین! لوگ طلاق کی وجہ پوچھتے ہیں۔ ان پندرہ دنوں میں پندرہ سو بار مری ہوں میں، لوگوں کو جواب دیتے دیتے۔ سب عشال کی طلاق کی وجہ جاننا چاہتے ہیں۔ دہلیز پر آئی بارات لوٹی ہے اس کی۔ ایک رات اور پورا ایک دن گھر سے غائب رہی ہے وہ۔۔۔۔۔! کچھ خیال ہے آپ کو؟ دنیا کس طرح کی باتیں بنارہی ہے؟ میری بھی ایک بیٹی ہے ضیاء! مجھے اس کے بارے میں بھی سوچنا ہے۔ عشال رخصت ہوگی تو اس کا مقدر کھلے گا۔ آپ عشال کو رخصت کیوں نہیں کردیتے اسی لڑکے کے ساتھ؟”
سطوت آراء نے انھیں ہوش دلانے کی کوشش کی تھی۔
“کیسی باتیں کررہی ہیں آپ؟ آبریش کا یہاں کیا ذکر؟”
ضیاءالدین صاحب کو سطوت آراء کی بات سخت کھلی تھی۔
“ذکر کیوں نہیں! میں ماں ہوں ضیاء! بیٹیوں کے معاملات باپ کی نسبت ماں زیادہ بہتر سمجھتی ہے۔ بیٹی بہت حساس رشتہ ہوتا ہے۔ ضیاء! ان کے بارے میں سوچ بھی اتنی ہی حساس رکھنی پڑتی ہے۔ آپ نے اگر آج آبریش کے بارے میں نہ سوچا تو کل لوگ بھی نہیں سوچیں گے۔ یاد رکھیے گا۔ ضیاء! عشال کا آج آبریش کا کل طے کرے گا۔ بچی نہیں ہے وہ۔ اب بڑی ہورہی ہے۔ ان سارے حالات کا اس کے ذہن پر کیا اثر پڑرہا ہے۔ سوچا ہے آپ نے؟ نہیں سوچا تو ان سوچ لیں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گی۔”
سطوت آراء ضیاءالدین صاحب کو سوچتا چھوڑ کر کمرے سے باہر چلی گئیں۔ ویسے بھی وہ چوٹ لگا چکی تھیں۔
****************
ضیاءالدین صاحب سوچتے قدموں کے ساتھ آغاجان کے کمرے کی جانب بڑھ رہے تھے کہ،
“بابا! اگر پ عشال کا نکاح شامی کے ساتھ کرنے کا سوچ رہے ہیں تو شوق سے کیجیے لیکن میں اسی لمحے خود کو گولی مار لوں گا۔ اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے۔”
شہیر اچانک ہی ان کے راستے میں حائل ہوا تھا۔ اور انھیں آندھیوں کی زد میں چھوڑ کر جیسے آیا تھا ویسے ہی لوٹ گیا۔
ضیاءالدین صاحب ششدر سے اس کی چوڑی بےنیاز پشت کو تکتے رہ گئے۔
****************
“کیا کہا تم نے؟ گولی مار لو گے خود کو؟ تم خودکشی کروگے؟ اس عمر میں یہ دن دکھاؤ گے والدین کو؟ شرم نہیں آئے گی تمہیں یہ کرتے ہوئے؟”
ضیاءالدین صاحب نے اسے گریبان سے جھنجھوڑ ڈالا۔
“نہیں!اگر آپ لوگ عشال کا قتل کرسکتے ہیں تو میں بھی خود کو گولی مار سکتا ہوں۔”
شہیر کے رواں رواں اس وقت ایک چیخ بنا نظر آ رہا تھا۔
ضیاءالدین صاحب ہکا بکا اسے دیکھ کر رہ گئے۔
****************
“الحمدللہ رب العالمین!”
آغا جان نے سلام پھیر کر دعا کے لیے لرزتے ہاتھ اٹھا لیے تھے۔ ان کے بوڑھے لبوں میں دعا تھر تھرا رہی تھی جب ضیاءالدین صاحب کی آمد ہوئی۔ انھیں مصروف پاکر وہ خاموشی سے ایک جانب بیٹھ گئے۔
“پریشان لگتے ہو، ضیاءالدین!”
آغاجان نے تسبیح ایک طرف رکھتے ہوئے ضیاءالدین صاحب کے چہرے کو بغور دیکھا۔
“جوان اولاد کو جھیلنا کسی بھی بڑے امتحان سے کم نہیں ہوتا آغاجان! آخر یہ بچے ہم بڑوں کی مجبوریاں کیوں نہیں سمجھتے؟”
ضیاءالدین صاحب کے لہجے میں شکست خوردگی تھی۔
“جو کہنا چاہتے ہو کھل کر کہو ضیاءالدین!ہم تمہاری مجبوریوں کو تم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔”
آغاجان نے مستحکم لہجے میں کہا۔ اور تسبیح پر اللہ اکبر کا دانہ رولا۔
“مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آرہا آغاجان، ایک طرف شہیر ہے دوسری طرف عشال۔ دونوں کو ہی کھونے کا حوصلہ نہیں۔”
ضیاءالدین صاحب کے چہرے پر پریشانی رقم تھی۔
“اس مسئلے کا ہم نے ایک تیسرا حل سوچا ہے۔ امید ہے تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔”
آغاجان نے تؤقف کیا۔
“کیسا حل؟”
ضیاءالدین صاحب نے پوچھا۔
“ہم عشال کو اپنے ساتھ لے جارہے ہیں، فی الحال اس کا منظر سے ہٹ جانا ہی بہتر ہے۔”
ضیاءالدین صاحب نے حیرت سے انھیں دیکھا۔
“ابھی یہ واقعہ تازہ ہے۔ تم جوان اولاد کے باپ ہو۔ ہم نہیں چاہتے عشال کا وجود تمہارے لیے امتحان بن جائے۔ سب کی اسی میں بہتری ہے۔ تم بس اتنا کرو۔ جدہ کے لیے عشال کی سیٹ بک کرادو۔ باقی سب اللہ پر چھوڑ دو۔ ہم نے بھی چھوڑ دیا ہے۔”
ضیاء الدین صاحب سر جھکا کر رہ گئے۔ اس سے زیادہ وہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔
=========================
آخری حصہ:-
“تو یہ تمہارا آخری فیصلہ ہے؟”
وہ ریکٹ ہاتھ میں لیے نظریں مقابل کے چہرے پر گاڑے پوچھ رہی تھی۔ اور مقابل کوئی بھی جواب دیئے بغیر اس کی آنکھوں میں جھانکتا رہا۔ شاید کوئی امید سابقہ رفاقت کی کوئی پرچھائیں، لیکن وہاں فقط سرد مہری باقی رہ گئی تھی۔
“اوکے فائن!”
کہہ کر وہ واپس پلٹ گئی اور اسکواش کی بال کو زور سے دیوار سے مارا اور مارتی چلی گئی۔ دوسری طرف دو بھوری آنکھیں ٹوٹے تعلق کی کرچیاں سمیٹتی آس سے جھلملائیں۔
“میں نے تم سے کچھ نہیں چھپایا تھا۔”
“میرا خیال تھا وقت اور حالات شاید تمہیں مجھ تک لے آئیں۔”
اس کے تابڑ توڑ شاٹس کے درمیان اس کی بے مہر صدا سنائی دی۔
“اور وہ بھوری آنکھیں مسکرا دیں۔
“مجھے تمہاری امیدوں کا افسوس رہے گا۔”
“میں تمہیں خود پر ترس کھانے کی اجازت نہیں دوں گی۔”
وہ پلٹ کر اس تک آئی تھی۔ اور حسب عادت ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال دی تھیں۔
“خدا حافظ!”
جوابا وہ ایک بار پھر آنکھوں سے مسکرایا تھا۔ اور وہ پلکیں جھپکنے پر مجبور ہوئی تھی۔
“بائے فور ایور!”
وہ کہہ کر مڑ گئی۔ اور وہ بھی اپنا بیگ شانے پر جما کر لوٹ گیا۔
“اسے روک لو غنائم ہادی!”
اس کے چوڑے مغرور شانوں کو دیکھ کر دل نے ایک بار بغاوت کی تھی۔ لیکن اس نے دل کی پکار کا گلا گھونٹ دیا۔
“انا اور تعلق کی جنگ میں محبت ہمیشہ ہار جاتی ہے۔”
*****************
“لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا”
ترجمہ: بےشک اللہ نے ہر نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دی۔
ضیغم نے جونہی چہرے پر ہاتھ پھیرے آغاجان نے کے منہ سے بے اختیار نکلا۔
“بے شک!”
ضیغم چونک کر مڑا۔ آغاجان اس کے فارغ ہونے کے منتظر تھے۔ وہ فورا جاءنماز سمیٹتا ہوا کھڑا ہوگیا اور فورا ان کے گلے سے لگ گیا۔
“السلام علیکم دادو!”
پھر ان کے عقب میں کھڑی عشال کی طرف دیکھ کر اسے بھی سلام کیا۔
ارے آپ لوگ کھڑے کیوں ہیں؟ بیٹھیے ناں!”
آغاجان اور عشال وہیں لاؤنج میں بیٹھ گئے۔
“بڑی پیاری آیت کی تلاوت کی تم نے۔”
آغاجان نے کھوئے سے لہجے میں کہا۔
دراصل آج ممی بابا کی برسی تھی تو اس لیے تھوڑی تلاوت کررہا تھا۔
ضیغم نے یوں کہا جیسے یہ معمول کی بات ہو۔ جبکہ عشال کے ذہہن میں پاکستان کی برسیاں گھوم گئیں۔ جہاں ایصال ثواب کو بھی لوگوں نے نمودونمائش کا ذریعہ بنا ڈالا تھا۔ جبکہ یہاں ہر طرف خاموشی کا راج تھا۔ وہ تنہا ہی تلاوت کررہا تھا۔ اور وہ بھی زبانی۔ وہ حافظ قرآن تھا۔ عشال کو یاد آیا اور خود بخود اس کے احترام میں نظریں جھک گئیں۔ ہوتے ہیں دنیا میں کچھ لوگ ایسے جنھیں دیکھتے ہی دل ونظر ان کے احترام پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ضیغم بھی شاید انھی میں سے تھا۔
اور یہ پہلا موقعہ تھا، جب عشال ضیغم سے متاثر ہوئی تھی۔
“ضیغم! تم ٹھیک ہو؟”
پتہ نہیں آغاجان نے یہ سوال کیوں پوچھا تھا۔
“بالکل ٹھیک ہوں! آپ پریشان نہ ہوں۔”
“مجھے کیوں لگ رہا ہے جیسے تم اس آخری آیت پر اٹک کر رہ گئے ہو۔”
آغاجان نے اس کے چہرے کو کھوجتے ہوئے پوچھا۔
“ایسی کوئی بات نہیں دادو! بس حضرت انسان کی کم ظرفی کا خیال آگیا تھا کہ جب تک نعمتوں میں کھیلتا رہتا ہےاسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس نے کیسے کیسے نواز رکھا ہے لیکن ذرا سی آزمائش گھیر لے تو فورا شکوہ کناں ہوجاتا ہے۔”
“تمہیں کس آزمائش نے گھیر لیا؟”
آغاجان نے مسکراتے ہوئے ہلکے پھلکے لہجے میں پوچھا۔
“جانے دیجیے۔ کچھ خاص نہیں۔ آزمائشیں تو زندگی کا حصہ ہیں آتی جاتی رہتی ہیں۔ میں فی الحال صبر کرنا سیکھ رہا ہوں۔”
اس کے چہرے پر بڑی الوہی سی مسکراہٹ تھی۔ ایک لمحے کو عشال کو اس شخص پر رشک آیا۔ عجب مکمل شخصیت تھی اس کی۔
“ایسا کرتے ہیں باقی باتیں چائے پر۔”
ضیغم نے ایک مشترکہ نظر ان دونوں پر ڈالتے ہوئے رائے لی۔
آغا جان نے فقط سر ہلا دیا۔ جیسے بہت تھک چکے ہوں۔
“چائے میں بناتی ہوں۔”
عشال فورا کھڑی ہوگئی۔ اسے مناسب نہیں لگ رہا تھا کہ ضیغم اس کے لیے چائے بنائے۔
“بالکل نہیں۔ آج کی شام اور رات آپ لوگ میرے مہمان ہیں۔”
مگر”
عشال نے اسے روکنا چاہا مگر وہ چوکس فوجی کی طرح الرٹ ہوگیا۔
“تسلی رکھیں۔ میں بہت اچھی چائے بناتا ہوں۔ اور کھانا بھی۔”
وہ عشال کو موقع دییے ںغیر وہاں سے غائب ہوچکا تھا۔
عشال حیران سی کھڑی رہ گئی۔
کچھ دیر قبل والی سنجیدگی یکسر عنقا ہوچکی تھی۔ اب وہ ایک خوش مزاج میزبان دکھائی دے رہا تھا۔ پل پل رنگ بدلتا یہ مہربان شخص عشال کے دل میں اتر رہا تھا۔
*****************
“شادی مذاق نہیں ہوتی شامی! پوری زندگی کا سوال ہوتا ہے۔ اس سو کالڈ محبت سے باہر آؤ اور اپنے فیوچر کو سیو(save) کرنے کا سوچو!”
زبیر عثمانی لاؤنج میں کھڑے کڑے تیوروں کے ساتھ شامی سے مخاطب تھے۔ وہ ابھی ابھی جیل کسٹڈی سے باہر آیا تھا۔ اور زبیر صاحب کے سارے لیکچر کو بہت بیزاری و بے دلی سے برداشت کررہا تھا۔
“آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، پلیز ٹو دی پوائنٹ بات کریں گے؟”
شامی نے پہلو بدلتے پوچھا۔
“آج رات شیما سے تمہارا نکاح ہے۔”
زبیر صاحب نے آرام سے کہا۔
“کیا؟ آپ مذاق کررہے ہیں؟”
شامی نے بے یقینی سے زبیر صاحب کی طرف دیکھا۔
“بالکل بھی نہیں۔ اور تم نے جو یہ اپنی زندگی کے ساتھ مذاق لگا رکھا ہے چاہتا ہوں یہ سلسلہ بھی اب ختم ہوجانا چاہیے۔ کن جتنوں کے ساتھ ہم نے تمہیں باہر نکالا ہے، صرف ہم جانتے ہیں۔ اور اگر دوبارہ یہ سب کچھ نہ ہو، اس لیے شیما سے نکاح کر لو۔”
زبیر صاحب نے کڑے لفظوں میں اسے حکم سنایا تھا۔
“ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ یہ میری لائف ہے۔ ااس کے ساتھ کھیلنے کی اجازت نہیں دوں گا میں آپ کو۔”
شانی نے ایک ایک لفظ چبا کر انھیں جتانا چاہا۔ عائشہ ٹانگ پر ٹانگ چڑھائے خاموش تماشائی بنی بیٹھی تھیں۔
“تمہاری یہ لائف ہماری دی ہوئی ہے۔ خود کیا ہو تم؟ جس دن یہ سارا لائف اسٹائل خود سے سیٹ کرسکو تو لائف بھی اپنی مرضی کی گذار لینا۔”
زبیر صاحب ایکدم ہی کھڑے ہوئے تھے اور ٹھنڈے سے لہجے میں اسے باور کروایا۔
فی الحال تمہیں وہی کرنا ہوگا جو ہم چاہیں گے۔ اس تھرڈ کلاس لڑکی سے شادی کا شوق بھی پورا کر لینا لیکن صحیح وقت آنے پر۔ اس وقت تمہارا انکار ہم افورڈ نہیں کرسکتے۔”
زبیر صاحب نے اسے فیصلہ سنایا اور وہاں ٹھہرے نہیں۔
شامی نے آہستہ سے گردن موڑے پہلو میں بیٹھی شیما پر نظر ڈالی۔ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت اور فریش دکھائی دے رہی تھی۔ شامی کے دیکھنے پر مسکرائی اور اس کے بازو سے سر ٹکا دیا۔ محبت کے حصول کی جگمگاہٹ اس کے چہرے کو روشن کررہی تھی۔
وہ آسٹریلیا جانے والی فلائٹ میں ابھی ہی بیٹھے تھے۔
“کسی نہ کسی موڑ پر زندگی تمہیں میرے سامنے لے ہی آئے گی۔ عشال! ایک اور ملاقات تو تم سے طے ہے۔”
شامی نے خود سے کہا تھا۔
*******************************
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...