“کہاں رہ گئے تھے تم دونوں، شادی والا گھر ہے،دن میں سو کام ہوتے ہیں،لیکن تم لوگوں کے سیر سپاٹے ہی نہیں ختم ہوتے”
عالیہ بیگم نے سالار اور فاطمہ کو دیکھتے ہوۓ کہا
“اوہو،میرے پیاری امی غصہ کیوں کرتی ہیں،کام ہو جائیں گے سارے،آپ مجھے بتائیں کیا کام کرنا ہے”سالار نے شاپنگ بیگز فاطمہ کو پکڑاتے ہوۓ کہا
“سیکھو کچھ اپنے بھائی سے،کتنی فکر ہے اس کو میری،اور ایک تم ہر دن کام چوری کی نئی مثالیں کھڑی کرتی ہو”
عالیہ بیگم نے مصنوعی ناراضگی سے فاطمہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
“امی آپ ہر وقت میرے ہی پیچھے کیوں لگی رہتی ہیں،میں نے کیا کیا ہے”فاطمہ نے منہ بناتے ہوۓ کہا
“اچھا ناراض نہ ہو، مذاق کر رہی تھی امی،یہ شاپنگ بیگز اندر رکھو اور میرے لیۓ چاۓ بنا کر لاؤ”سالار نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا
یہ سنتے ہی فاطمہ جلدی سے کچن میں بھاگ گئی۔جیسے وہ فرار ہو نے کے لیۓ موقعے کی تلاش میں ہو۔
“اتنا غصہ مت کیا کریں امی آپ،آپ کو پتا ہے نہ کہ
زیادہ غصہ کرنے سے آپ کا بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے”
“کیسے غصہ نہ کرو میں،تم نے اس کی حرکتیں دیکھی ہیں”
“اف امی،ابھی چھوٹی ہے ،جب بڑی ہوگی تو سیکھ لے گی”
“اتنی بھی چھوٹی نہیں ہے،اسی کی عمر میں میری شادی ہوئی تھی ”
“ہاہاہاہا امی، وہ زمانہ اور تھا”
ابھی عالیہ بیگم اس کی بات کا جواب دینے ہی والی ہوتی ہیں کہ اتنی دیر میں فاطمہ چاۓ لے کر آجاتی ہے۔
“چاۓ کتنی اچھی بنا لیتی ہو ویسے تم”سالار نے چاۓ پیتے ہوۓ کہا
“شکریہ بھائی”
“تائی امی کو ان کی چیزیں دے آئی ہو نہ”
“جی بھائی دے آئی ہو،تائی امی آپ کو بلا رہی تھی”
“اچھا میں جاتا ہوں،چاۓ پی کر،تم حیا سے پوچھو کہ وہ آج فکشن میں آئی گی یہ نہیں”سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
“یہ حیا کون ہے”عالیہ بیگم نے کہا
“امی،فاطمہ کی دوست ہے”سالار نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا
“ابھی تو آۓ ہے بھائی ہم گھر،تھوڑی دیر بعد پوچھو گی”
“اچھا میں چلتا ہوں تائی امی کی طرف،اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
“تم جلدی جلدی چاۓ پیو،اور پھر میرے ساتھ آکر کچن میں کام کرو”عالیہ بیگم نے کچن میں جاتے ہوۓ کہا
“اچھا آتی ہوں”
جمشید صاحب کے تین بچے ہیں۔سب سے بڑے بیٹے فرقان صاحب ہیں جن کی اکلوتی بیٹی ارم کی شادی ہے جبکہ اُن کا چھوٹا بیٹا زوہیب امریکہ پڑھنے کے لیے گیا ہوا ہے۔اس کے بعد سالار اور فاطمہ کے ابو آفتاب صاحب ہیں۔اور سب سے چھوٹی بیٹی رضیہ ہیں جو اپنی شادی والے دن ہی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔
_________________
حیا نے کمرے میں آتے ساتھ ہی دروازہ زور سے بند کر لیا۔لائٹ آف کر کے بیڈ پر لیٹ گئی۔بیڈ پر لیٹتے ساتھ ہی اس نے سب سے پہلے فون آن کیا۔فاطمہ کا میسچ آیا ہوا تھا۔اس کا دل ٹوٹ گیا۔اسے پورا یقین تھا کہ شہریار اسے ضرور معاف کر دے گا۔اس نے شہریار کو پورے بیس میسچ کیۓ تھے۔لیکن شاید اس نے جواب دینا ضروری نہیں سمجھا۔اس نے شہریار کو کال کی۔فون پہلی ہی رنگ میں اٹھا لیا گیا۔جیسا فون اٹھانے والا کال کے ہی انتظار میں ہو
“کیا اب تک ناراض ہو آپ،یار میں نے جان بوجھ کر نہیں کیا،وہ رانیہ ان لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئی تھی تو مجھے مجبوراً ان لوگوں کے ساتھ بیٹھنا پڑا”
“ناراض ہونا بنتا ہے،کوئی انسان اتنے پیار سے آپ کو ٹریٹ دینے کے لیے بلاۓ اور آگے سے دوسرا انسان یہ کرے،غصہ تو آۓ گا نہ”
“اچھا غلطی ہوگئی ،معاف کردو،پلیز”
“حیا،میں ابھی بہت غصے میں ہوں،آپ مجھ سے نہ ہی بات کریں تو بہتر ہے”
یہ کہنے کے بعد شہریار نے کال کاٹ دی۔حیا تو حیران رہ گئی۔اسے پتا تھا کہ شہریار کو برا لگا ہوگا۔لیکن اتنا برا، لگا ہوگا،اتنا تو اس نے سوچا ہی نہیں تھا۔ابھی وہ موبائل بیڈ کے ساتھ رکھے ٹیبل پر رکھنے کی والی تھی کہ رانیہ کی کال آگئی
“حیا ہم چل رہے ہیں نہ آج”
“تمھیں جانے کی پڑی ہے،ادھر شہریار اتنا ناراض ہوا ہے مجھ سے،ابھی بھی اسنے میرے بیس میسچز کرنے کے بعد کال پک کی،اور وہ بھی ایک منٹ بعد کاٹ دی”
“تمھیں اس کی اتنی فکر کیوں ہورہی ہے،اس کو چھوڑو،اس کو ہم بعد میں منالیں گے،تم ابھی انکل آنٹی سے پرمیشن لو،میں نے مام سے پرمیشن لے لی ہے،میں تمھارے ہی گھر آتی ہوں تھوڑی دیر تک،پھر وہی سے اکٹھے تیار ہونگے”
“میں کبھی بھی نہ جاؤں شادی میں،انکی وجہ سے شہریار ناراض ہوا ہے مجھ سے”
“کیا ہوگیا ہے یار،فاطمہ نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ حیا آکر مجھ سے ملو،تم نے خود ہی کہا تھا کہ آؤ اس سے ملتے ہیں،وہ تو اس کا اخلاق تھا کہ اس نے ہمیں بیٹھنے کے لیۓ کہ دیا”
” اچھا چھوڑو نہ،میرا موڈ بھی نہیں ہے،تمھیں جانا ہے تو جاؤ”
“کیا ہوگیا ہے،میں اکیلی جاؤ گی،تم چل رہی ہو بس،مجھے اور کچھ نہیں سننا”
“میں ایک شرط پر چلوں گی تمھارے ساتھ”
“کیا شرط، ملکہ عالیہ”
“تم کل کالج میں شہریار کو ایکسیوز کرو گی”
“اتنی سی بات،کر لوں گی یار، یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے”
“ہممم،اچھا ہے،اب میں ذرا فاطمہ کو میسچ کر لوں کہ ہم آج آئیں گے٬اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
کال کاٹنے کے بعد اس نے فاطمہ کو کال کی،لیکن شاید فاطمہ کام میں مصروف تھی کہ سالار نے کال پک کی
“السلام علیکم”
“وعلیکم السلام،فاطمہ سے بات ہوسکتی ہے،میں اسکی دوست حیا بات کر رہی ہوں”
” میں اسکا بھائی سالار ہوں،فاطمہ ابھی تو گھر پر نہیں ہے،آپ کو جو بھی کام تھا اس سے، مجھے بتا دیں،میں اسے بتا دوں گا”
“آپ اس سے بتا دیجیئے گا کہ ہم آج اس کی طرف آئیں گے”
“یہ تو بہت خوشی کی بات ہے،کیا آپ اپنا ایڈریس بتا سکتی ہیں”
“میں آپ کو میسچ کر دیتی ہوں”
“اوکے،اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
کال کاٹنے کے بعد وہ اپنا ایڈریس سالار کو میسچ کر دیتی ہے۔اس کام سے فارغ ہونے کے بعد وہ موبائل ٹیبل پر رکھ کر بال باندھتے ہوۓ بیڈ سے اٹھتی ہے۔اور ماما بابا سے پرمیشن لینے کے لیۓ کمرے سے باہر نکل جاتی ہے۔
_________________
“ابھی کچھ دیر پہلے ہی تمہاری کزن حیا کا فون آیا تھا۔ویسے وہ دکھنے میں جتنی مغرور لگتی ہے،اصل میں اتنی ہے نہیں ،بہت ہی بیوقوف ہے، بےچاری نے مجھے منانے کے لیۓ بیس میسچز کر ڈالے”شہریار نے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا
“ایک نمبر کی لوفر انسان یے، بالکل اپنی ماں پر گئی ہے”
“کیا مطلب ماں پر گئی ہے”
“نہیں کچھ نہیں،تم مجھے یہ بتاؤ کہ تم نے اسے معاف کر دیا”
“نہیں یار ابھی کہا”شہریار نے گھڑی میں ٹائم دیکھتے ہوۓ کہا
“اچھا کیا،بہت اڑتی تھی نہ ہواؤں میں،بس مجھے ایک بات کا ڈر ہے کہیں تمھیں اس سے یہ پیار کا ناٹک کرتے ہوۓ پیار نہ ہوجاۓ”سدرہ نے سیب کاٹتے ہوۓ کہا
“او نہیں یار،کیا ہوگیا ہے،وہ کہاں اور میں کہاں،تم کہتی ہو تو یہ پیار کا ناٹک ابھی ختم کردیتے ہیں”
“نہیں، نہیں ایسا نہ کرنا”
“ہاہاہاہاہاہا، جو حکم ملکہ عالیہ،اچھا ابھی میں فون رکھتا ہوں،مجھے واک پر جانا ہے”
“اوکے باۓ”
کال کاٹنے کے بعد سدرہ نے ٹی۔وی آن کر لی۔اور سیب کھاتے ہوۓ اپنا پسندیدہ ڈرامہ ملکہ عالیہ دیکھنے لگ گئی۔
__________________
“ماما مجھے آپ سے پرمیشن لینی ہے،میری فرینڈ کی کزن کی شادی ہے،اس نے مجھے انوائٹ کیا ہے،وہ ہی مجھے اور رانیہ کو گھر سے پک اور ڈراپ کرۓ گی،آپ کی اجازت ہو تو چلی جاؤں،وہ بہت انسسٹ کر رہی تھی،ورنہ شاید میں خود ہی نہیں جاتی”
“چلی جاؤ،لیکن رات کو پھر جلدی گھر آنا”آسیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
“لگتا ہے آج بیگم بہت اچھے موڈ میں لگ رہی ہیں،ورنہ تو ہر وقت منع کرتی تھی کہ حیا یہاں نہ جاؤ، وہاں نہ جاؤ”سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
“شادیوں میں جاۓ گی تو،کچھ طور طریقے آئیں گے”
“تھینک یو سو مچ ماما”
ابھی وہ بات ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ رانیہ ٹی۔وی لاؤنچ میں قدم رکھتی ہے
“السلام علیکم انکل آنٹی”
وعلیکم السلام،کیسی ہو بیٹا آپ ،آپ کے ماما بابا کیسے ہیں”
“الحمدللہ ہم سب ٹھیک ہیں،آپ کیسے ہیں ”
“الحمدللہ، ہم بھی ٹھیک ہیں، بیٹا”
“تم اتنی جلدی آگئی”حیا نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“کس زمانے میں رہ رہی ہو،شادیوں کے فکشن بہت جلدی شروع ہوجاتے ہیں”
“ہممم اچھا آؤ تیار ہوتے ہیں پھر”
یہ کہنے کے بعد وہ دونوں حیا کے کمرے کی طرف چلی جاتی ہیں۔
_________________
“یار تمھیں کیا لگتا ہے،شہریار مان تو جاۓ گا نہ”حیا نے کمرے کا دروازہ بند کرتے ہوۓ کہا
“تمہارے لیۓ وہ کب سے اتنا اہم ہوگیا ہے کہ تمھیں اس کی ناراضگی سے فرق پڑتا ہے”
“مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا،مگر ایک دوست ہونے کے ناطے اس کو منانا میرا فرض ہے”
“لیکن تم جس طرح برتاؤ کر رہی ہو اس سے تو مجھے یہی لگ رہا ہے کہ وہ تمہارے لیۓ دوست سے بڑھ کر ہے”رانیہ نے شاپنگ بیگ سے کپڑے نکالتے ہوۓ کہا
“نہیں، یار ایسی کوئی بات نہیں ہے” حیا نے نظریں چراتے ہوۓ کہا
ابھی رانیہ اس کو کچھ کہنے ہی والی ہوتی ہے کہ دروازے پر دستک ہوتی ہے۔حیا دروازہ کھولتی ہے۔باہر سلیمہ ہاتھوں میں ٹرے پکڑے کھڑی ہوتی ہے۔ٹرے میں چاۓ کے ساتھ دیگر لوازمات بھی ہوتے ہیں۔حیا اس سے ٹرے لے کر کمرے میں آکر دروازہ پھر بند کر دیتی ہے۔
“اوہو، یار ابھی کون کھاۓ گا،ابھی تو ہم نے تیار ہونا ہے”رانیہ نے ٹرے کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
“کھا لو یار ، پتا نہیں، وہاں کھانا کس ٹائم ملے”
حیا کے کہنے کی دیر تھی کہ رانیہ نے ہاتھوں میں اٹھاۓ ہوۓ کپڑے بیڈ پر رکھے اور صوفے پر بیٹھ کر چاۓ اور دیگر لوازمات سے بھرپور انصاف کرنے لگی۔
“یار قسم سے آسیہ آنٹی کے ہاتھوں میں کتنا ذائقہ ہے،کیا مست کباب بنائیں ہیں”رانیہ نے تیسرا کباب کھاتے ہوۓ کہا
” ہاں نہ یار،تمھیں تو پتا ہے کہ مجھے گوشت کا سالن نہیں پسند تو ماما خصوصاً میرے لیۓ بناتی ہیں”
“اب جلدی جلدی کھاؤ، ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہوچکے ہیں” رانیہ گھڑی دیکھتے ہوۓ کہا
” ہاں میں جاکر کپڑے پہنتی ہوں،اس کے بعد تم میرا میک اپ کر لینا”
“ہاں جلدی جاؤ”رانیہ نے کپ ٹرے میں رکھتے ہوۓ کہا
دس منٹ بعد حیا نے کپڑے پہن لیۓ تھے۔ گھٹنوں تک آتی گہرے سبز رنگ کی قمیض اور پنک کلر کے تنگ چوڑی دار پاجامے میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔اس نے پنک کلر کا ڈوپٹہ گلے میں لیا ہوا تھا۔اس کے کمر تک آتے ہوۓ بال بہتی ہوئی آبشار کی طرح لگ رہے تھے۔
“تم نے لہنگا کیوں نہیں پہنا”رانیہ نے حیا کے کپڑوں کی طرف دیکھتے ہوے کہا
” میرے چاچو کی شادی تو نہیں تھی کہ لہنگا پہنتی ”
” اچھا،پھر میں بھی لہنگا نہیں پہنتی، میں بھی فراک پہن لیتی ہوں”
“ہاں ٹھیک ہے،دونوں ایک ہی جیسے لگے گے ، چلو تم جاکر چینچ کر آؤ، پھر میک اپ بھی تو کرنا ہے نہ” حیا نے مسکراتے ہوئے کہا
” ہممم ٹھیک ہے، تم میرا ویٹ کرو، میں خود تمھیں تیار کروں گی”
یہ کہ کر رانیہ واشروم چلی گئی۔دس منٹ بعد وہ باہر آگئی۔ اورنج کلر کی فراک اور گرین کلر کے چوڑی دار پاجامے میں وہ بھی بہت اچھی لگ رہی تھی۔بےشک وہ خوبصورتی میں حیا سے تھوڑا پیچھے تھی۔مگر وہ بھی بہت پیاری تھی۔اور آج تو وہ بالکل حیا کی طرح نازک سی کلی لگ رہی تھی۔بال اس نے بھی کھلے چھوڑے تھے۔اس کے بال کندھوں تک آتے تھے۔اس پر بھی اس نے براؤن کلر کا رنگ کروایا ہوا تھا۔
حیا اس کو باہر آتا دیکھ کر ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے بیٹھ گئی۔دس منٹ بعد وہ حیا کا میک اپ کر چکی تھی۔اس نے حیا کے بالوں کی فرینچ بنائی۔پنک کلر کی لپسٹک، کاجل اور مسکارے نے حیا کی خوبصورتی کو چار چاند لگ دیے۔اب وہ اپنا میک اپ کرنے میں مصروف تھی۔کچھ دیر بعد وہ بھی تیار ہوچکی تھی۔اس نے اپنے بالوں کو کھلا چھوڑا تھا۔اوپر کے کچھ بالوں کو سٹریٹ کیا ہوا تھا جبکہ کچھ بالوں کو رول کیا ہوا تھا۔
” یار ہم دونوں کتنے پیارے لگ رہے ہے نہ، کاش حیا تم بھی بال کھول دیتی، تمہارے تو بال ہے بھی بہت بڑے”
” یار کل کھول دوں گی ، جب فراک پہنوں گی”
“ہمم چلو اچھا ہے، ابھی باہر چلتے ہیں ، فاطمہ بھی آنے والی ہوگی”
” ہاں چلو ، ٹائم تو ہوگیا ہے، بس آنے ہی والی ہوگی” حیا نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
حیا نے کمرےکی لائٹ آف کی ، اپنا فون اٹھایا اور رانیہ کے ساتھ کمرے سے باہر آگئی۔
___________________________
” تم آج حیا کو کال کرو گے، اور اسے پھر ملنے کا کہو گے”
“نہیں یار ابھی کچھ دیر ناراض ہی رہنے دوں ، بےچاری کو صیح طریقے سے منتیں تو کرنے دو میری” شہریار نے لیپ ٹاپ آن کرتے ہوۓ کہا
” اگر یہی کچھ کرو گے، تو وہ تمھیں بھول ہی جاۓ گی”
” میں کوئی بھولنے والی چیز تھوڑی ہی ہوں، میں شہریار خان ہوں، ہاہاہاہاہاہا” شہریار نے موچھوں کو تاؤ دیتے ہوۓ کہا
” اس میں کوئی شک نہیں ، پھر بھی تم اسے میسچ کرو گے، آخر کو وہ میری کزن ہے، اتنا تنگ نہیں کرنا چاہیے اسے ” رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
” جو حکم ملکہ عالیہ، ابھی تو مجھے تھوڑا کام ہے ، حیا سے بات کرنے کے بعد تمھیں کال کروں گا”
” ہممم ، ضرور کرنا، میں انتظار کروں گی”
” باۓ میری جان” شہریار نے مسکراتے ہوئے کہا
” باۓ”
_________________________
“کیسے لگ رہیں ہیں ہم دونوں، ماما بابا”
“ماشااللہ ، آج تو میرے بچے بہت پیارے لگ رہیں ہیں” سلیم صاحب نے حیا اور رانیہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوے کہا
” آیتہ الکرسی پڑھ کر نکلنا گھر سے باہر ” آسیہ بیگم نے حیا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
” ہاہاہاہاہاہا آنٹی ضرور”
اچانک فون پر فاطمہ کا میسچ آیا” ہم آپ کے گھر کے ہیں، جلدی آئیں”
“اچھا ماما بابا ، میں اور رانیہ چلتے ہیں ، فاطمہ آگئی ہیں ”
” اوکے بچوں ، اللہ کے حوالے”سلیم صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا
” گھر جلدی واپس آنا حیا ، اور موبائل آن رکھنا، اللہ حافظ”
” اللہ حافظ”
__________________
یہ کہ کر وہ دونوں گھر سے باہر نکل گئی۔گیٹ کے بالکل باہر سالار اور حیا اپنی کلٹس میں بیٹھے ہوۓ تھے۔ ان کو باہر آتا دیکھ کر سالار گاڑی سے نکلا اور گاڑی کا دروازہ ان کو کھول کر دیا۔سالار گہرے سبز کی قمیض اور وائٹ شلوار میں بےحد خوبصورت لگ رہا تھا۔اس نے بال سیٹ کی ہوۓ تھے۔حیا اور رانیہ نے دل ہی دل میں اس کی خوبصورتی کی داد دی۔
” ماشااللہ ، آپ دونوں بہت پیاری لگ رہی ہیں”فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا
” شکریہ، پر آپ بھی کسی سے کم نہیں لگ رہی”رانیہ نے فاطمہ کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا
“میری بھی کوئی تعریف کر دے”سالار نے سامنے والے شیشے سے حیا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
“بھائی آپ بھی بہت پیارے لگ رہے ہیں” رانیہ نے مسکراتے ہوئے کہا
“آج پھر آپ کو چپ کا روزہ لگ گیا ہے، مس حیا”سالار نے مسکراتے ہوئے کہا
” جی نہیں، مجھے اجنبیوں سے بات کرنے کی عادت نہیں” حیا نے سالار کو دیکھے بغیر کہا
“تعلق بنانے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے مس حیا” سالار نے آگے دیکھتے ہوئے کہا
سالار نے کہ تو دیا تھا مگر حیا کے چہرے کے تاثرات کو بدلتے ہوئے دیکھ کر اس نے ریڈیو لگا دیا۔جبکہ حیا اس کی بات سن کر سوچنے لگ گئی کہ واقعی میں کسی سے تعلق بنانے میں ٹائم ہی کتنا لگتا ہے۔ابھی دن ہی کتنے ہوۓ ہیں ،اسے اور شہریار کو ملے ہوۓ مگر یوں لگتا ہے کہ کافی عرصے سے جانتے ہیں ایک دوسرے کو، کہیں یہ محبت تو نہیں، ہاں یہ محبت ہی ہے شاید، چلو ٹھیک ہے اگر آج شہریار کا میسچ آیا تو اس کے دل میں میرے لیۓ فیلنگز ہونگی۔کیونکہ جن سے محبت کی جاتی ہے ان سے ناراض نہیں ہوا جاتا۔
یہ سوچ کر حیا مسکرانے لگی۔مگر ساتھ میں ہی اسے ٹھکرا جانے کا ڈر تھا۔ کہیں کچھ ایسا نہ ہو جاۓ کہ اس کا دل ٹوٹ جاۓ۔
ابھی وہ یہی کچھ سوچ رہی ہوتی ہے کہ فاطمہ کا گھر آجاتا ہے۔فاطمہ کا گھر ڈبل سٹوری گھر ہے۔اگرچہ یہ گھر حیا کے گھر جتنا بڑا نہیں ہے مگر پھر بھی کافی پیار لگ رہا تھا۔نیچے والی سٹوری میں اسکے تایا ابو رہتے ہیں جبکہ اوپر والی سٹوری میں فاطمہ کی فیملی رہتی ہے۔
آج چونکہ اس گھر میں شادی ہوتی ہے تو پورے گھر کو روشنی سے سجایا ہوا ہوتا ہے۔گھر کے باہر کچھ بچے پٹاخوں سے لطف اندوز ہو رہے ہوتے ہیں۔
“اتریں”سالار نے گاڑی کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا
فاطمہ حیا اور رانیہ کا ہاتھ پکڑ کر اندر جاتی ہے، جبکہ سالار باہر ہی کچھ لوگوں سے بات کرنے میں مصروف ہو جاتا ہے۔
لان میں مہمانوں کے بیٹھنے کے لیے کرسیاں لگائی ہوئی ہوتی ہیں۔فاطمہ کو ایک کونے میں عالیہ بیگم مہمانوں سے بات کرتے ہوئے دیکھائی دیتی ہیں۔وہ رانیہ اور حیا کو عالیہ بیگم سے ملوانے کے لیۓ لے کر جاتی ہے۔
” امی یہ میری دوست حیا اور رانیہ ہیں”
“السلام علیکم ، کیسے ہو بچوں”
“وعلیکم السلام، الحمدللہ ہم دونوں ٹھیک ہیں ، آپ سنائیں ،آپ کیسی ہیں “رانیہ نے کہا
” میں بھی ٹھیک ہوں ، ابھی کچھ مہمانوں سے مل لوں، آپ سے بات میں بات ہوتی ہے”
حیا ابھی ان کے گھر کا جائزہ ہی لے رہی ہوتی ہے کہ شہریار کا میسچ آتا ہے۔
____________________
“کیا ہم تھوڑی دیر بات کرسکتے ہیں”شہریار نے صوفے پر بیٹھتے ہوۓ کہا
“ہاں کیوں نہیں”حیا نے اپنا ڈوپٹہ ٹھیک کرتے ہوۓ کہا۔
اس کی کہنے کی دیر تھی کہ شہریار کی کال آگئی۔حیا نے پہلے ہی رنگ میں فون اٹھا لیا۔رانیہ کو فاطمہ کے پاس چھوڑ کر لان کے اس کونے میں جاکر شہریار سے بات کرنے لگی جہاں لوگ کم تھے۔
“شہریار، سوری یار آئندہ ایسا نہیں ہوگا، پکا”حیا نے مسکراتے ہوۓ کہا
“اوہو، حیا کچھ نہیں ہوتا”
” اب ناراض تو نہیں ہو نہ ”
“نہیں یار، غلطی تمہاری نہیں تھی، تمھیں کیا پتا تھا کہ تمہاری دوست وہاں آجاۓ گی، آئی ایم سوری، اگر تمہیں میری کوئی بات بری لگی ہو تو”
” نہیں، یار تمہارا غصہ ہونا بنتا تھا”
“چلو یہ بتاؤ پھر کب مل رہیں ہیں ہم”
“کل کالج میں، ہاہاہاہاہاہا”
“تو کیا پھر بریانی کھانے کا ارادہ ہے”شہریار نے صوفے سے اٹھتے ہوۓ کہا
“نہیں، اس بار کھلانے کا ارادہ ہے”حیا نے مسکراتے ہوۓ کہا
اس نے رانیہ کو دیکھا جو کب سے سالار سے بات کر رہی تھی۔اب حیا کو بھی بلا رہی تھی۔
“مطلب”شہریار نے بیڈ پر لیٹتے ہوتے کہا
“مطلب یہ کہ کل کی بریانی میری طرف سے”
” ہاہاہاہاہاہا چلو سہی ہے”
“شہریار،ابھی میں شادی میں آئی ہوں، آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں”
“ہممم، بعد میں بات کرتے ہیں،اللہ حافظ”
“اللہ حافظ”
حیا نے دیکھا کہ رانیہ اس کے پاس آرہی تھی۔شاید جب حیا اس کے بلانے پر ان لوگوں کے پاس نہیں آئی تھی۔تو وہ خود حیا کو لینے آرہی تھی۔رانیہ تو بےصبری میں حیاکا نمبر بھی کراس کرتی تھی۔
___________________________________
“کس سے بات کر رہی تھی تم”رانیہ نے آتے ساتھ ہی سوال پوچھا
“شہریار سے”حیا نے سٹیچ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
“ہممم ، تو ناراضگی دور ہوئی اس کی”
“ہممم، اب دور ہوچکی ہے، بلکہ مجھے بھی سوری بول رہا تھا”
“تمھیں کیوں سوری بول رہا تھا”
“مجھے اس لیے سوری بولا اس نے، کہ مجھے اس کی کوئی بات بری نہ لگی ہو”
” یار کتنا اچھا ہے نہ شہریار”
“اچھا تو وہ واقعی میں بہت ہے،آخر کو دوست کس کا ہے”
“اوہو” رانیہ نے حیا کو آنکھ مارتے ہوۓ کہا
“ہاہاہاہاہاہا”حیا نے ہنستے ہوۓ کہا
“اچھا چلو ابھی، وہاں پر سالار اور فاطمہ کب سے تمہارا انتظار کر رہیں ہیں”
“ہاں چلو”
___________________________________
حیا فاطمہ کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔جبکہ رانیہ سالار کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گئی۔اب وہ چاروں ایک دوسرے کے سامنے بیٹھ تھے۔
“آپ یہاں کیوں بیٹھ گئی ہیں ، ادھر بیٹھے نہ”سالار نے رانیہ کی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا
“دوست میں فاطمہ کی ہوں، آپ کی نہیں”حیا نے غصے سے انگلی دیکھاتے ہوۓ سالار کو کہا۔جبکہ اس کی بات سن کر وہ تینوں ہنسنے لگے۔
” ہاہاہاہاہاہا ، آپ تو ناراض ہوگئی، میں تو صرف مذاق کر رہا تھا۔ویسے ہر لڑکی کو آپ کی طرح ہی ہونا چاہیےکہ ہر کسی کو منہ نہ لگاۓ” سالار نے حیا کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا
” اف بھائی، آپ اس موقعے پر بھی اسلامی باتیں لے کر بیٹھ گے، آئیں ہم سب تصویریں بناتے ہیں”فاطمہ نے پرس سے موبائل نکالتے ہوئے کہا
” اف ایک تم سلیفی کی دیوانی”سالار نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا
اس کے بعد وہ چاروں تصوریں بنانے لگے۔حیا بھی تصوریں بنانے میں ان کا مکمل ساتھ دے رہی تھی۔شہریار سے بات کرکے وہ کافی خوش تھی۔وہ کافی حد تک ریلیکس ہوچکی تھی۔ ابھی وہ تصوریں ہی بنا رہے تھے کہ دلہن آگئی۔دلہن کی دوستوں نے دلہن کو سٹیج پر بٹھایا۔حیا مسکراتے ہوۓ یہ منظر دیکھ رہی تھی۔جبکہ سالار کافی دلچسپی سے حیا کو دیکھ رہا تھا۔دلہن کو سٹیج پر بیٹھاتے ہوۓ ہی مہندی کی رسمیں شروع ہوگئی۔حیا اور رانیہ نے بھی مہندی کی رسم کی۔اور دلہن کے ساتھ تصویریں بھی بنوائی۔
آدھے گھنٹے بعد کھانا لگ گیا۔ کچھ لوگ کھانے کو دیکھتے ہی کھانے کی طرف بھاگے۔ کھانے میں چکن کا سالن اور پلاؤ تھا۔کچھ لوگ دوسرے لوگوں کی نظروں سے چھپ کر شاپر میں کھانا بھی ڈال رہے تھے۔کچھ بچے تو ماں باپ سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔پلیٹوں میں پلاؤ کا پہاڑ بنا رہے تھے۔وہ تینوں اپنی کرسیوں پر ہی بیٹھی رہی۔البتہ سالار مہمانوں کو کھانے کا پوچھنے لگا۔کچھ ہی دیر بعد سالار ان تینوں کے لیۓ کھانا لے آیا۔
“اچھی سے کھائیے گا، تکلف نہیں کیجیئے گا” سالار نے مسکراتے ہوئے رانیہ اور حیا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
“فکر نہ کریں سالار بھائی، ہم کھانے سے انصاف کرنے والے لوگ ہیں”رانیہ نے ہنستے ہوئے کہا
” حیا کو بھی کھلائیے گا اپنے ساتھ، مجھے تو یہ کھانے کے معاملے میں کافی چوزی لگ رہی ہیں”
“آپ کو میری فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کھا لوں گی میں کھانا” حیا نے غصے سے کہا
سالار اسے ابھی کچھ کہنے ہی والا ہوتا ہے کہ ایک آنٹی اس کو آواز دیتی ہیں اور وہ چلا جاتا ہے
کھانا کھانے کے بعد حیا اور رانیہ فاطمہ کی امی ، تائی امی ،دلہن سے سٹیج پر جاکر ملتی ہیں۔
“بیٹا کل بھی آنا آپ لوگ”عالیہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا
“جی آنٹی کوشش کریں گے”
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...