وہ دونوں ہاتھ اْٹھائے جائے نماز پر دعا مانگنے میں مشغول تھی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسوں گررہے تھے اسکے لب آہستہ آہستہ ہل رہے تھے
وہ دروازے کی چوکھٹ پر کھڑا اسکا بغور جائزہ لے رہا تھا اسنے اپنی نظروں کے حصار میں ازلفہ کو قید کیا ہوا تھا اسکے زہن میں بہت سے خیالات گردش کررہے تھے۔۔۔
وہ اسے ایسے ہی دیکھنے میں مصروف تھا جب وہ دعا مانگنے سے فارغ ہوئی اور اپنے ہاتھوں کو چہرے پر پھیر کر اٹھنے لگی۔۔
وہ اسکی طرف پلٹی تو وہ اپنی جھینپ چھپانے کے لیے ارد گرد نظریں دوڑانیں لگا۔۔۔
ازلفہ نے آج اونچی سی پونی ٹیل باندھی ہوئ تھی جو چہرے کے گرد لپٹے ہوئے دوپٹے کے کھلنے سے گردن پر جھولنے لگی جسے وہ نوٹس میں لے رہا تھا۔۔۔
آج میری ممّا کی برسی ہے۔۔
اسنے اسکے قریب آکر کہا جس پر وہ تھوڑا سہ چونکا۔۔
تمھارے پاس اس فوجی کا کوئ نمبر ہے؟؟ اسنے بھویں چڑھا کر اس سے پوچھا۔۔۔
تم زمان کی بات کررہے ہو؟؟ ازلفہ یکدم چونکی۔۔۔
ہاں وہی۔۔ اسنے منہ بسور کر کہا۔۔
جو نمبر مجھے یاد ہے اسکا وہ بند ہے۔۔ شاید اسنے نمبر چینج کر لیا ہے۔۔
وہ ہاتھ میں پکڑی جائے نماز بیڈ پر رکھتی ہوئ بولی۔۔۔
اسکا ایڈریس تو معلوم ہوگا تمھیں۔۔ وہ شاید تمھارے گھر کی طرف ہی رہتا تھا۔۔۔ اسنے سوچتے ہوئے کہا۔۔
ہاں۔۔ مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟؟
اسنے بڑی بڑی آنکھیں پھاڑیں۔۔۔
تمھیں اسکے حوالے کرنا ہے۔۔ زلان نے نہ چاہتے ہوئے بھی نظریں چرالیں۔۔۔
تمھیں لگتا ہے کہ وہ مجھے اپنائے گا؟؟ اسنے تیوریاں چڑھایں وہ حیرت میں ڈوبی ہوئ تھی اسکا یقین کرنا مشکل تھا کہ زلان ملک اسے آزاد کررہا ہے۔۔۔
یہ میرا مسلئہ نہیں ہے۔۔۔ اسنے لاپرواہی سے بولا۔۔۔
یہ تمھارا ہی مسلئہ ہے سمجھے۔۔۔ وہ اونچی آواز میں بولی۔۔
آواز نیچے رکھ کر بات کرو۔۔
وہ چلّایا۔۔
تم سے میری اونچی آواز برداشت نہیں ہورہی اور تم نے میری زندگی برباد کردی میں کیسے برداشت کروں؟؟
اسکی آواز اس دفعہ زیادہ اونچی تھی۔۔۔
تم نے ایک سال سے مجھے اغواہ کیا ہوا ہے اور تمھیں لگتا ہے کہ مجھے میرا شوہر اپنائے گا؟؟
وہ لوگ مجھے پہچاننے سے بھی انکار کردیں گے۔۔
اسکی آواز آنسوؤں کے باعث رندھی ہوئی تھی۔۔۔
تو میں کیا کروں؟؟ وہ اس پر چینخا۔۔
تم مجھے موت دے دو۔۔
کیونکہ واپسی کے تمام دروازے بند ہوچکے ہیں۔۔۔
کوئی مجھے نہیں اپنائے گا کیونکہ میں ایک غیر مرد کے ساتھ پچھلے ایک سال سے رہ رہی ہوں۔۔۔
وہ زور زور سے چلّا چلّا کر جب تھک گئ تو گھٹنوں کے بل گر کر رونے لگی۔۔
زلان سے اسکے آنسوں برداشت نہیں ہورہے تھے اسے روتا دیکھ اسکو بےچینی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
وہ زیادہ دیر وہاں کھڑا نہ رہ سکا اور چلا گیا۔۔۔
جبکہ وہ اپنی تقدیر پر آنسوں بہاتی رہی۔۔۔
_____________________________________
یہ کیا حالت بنا رکھی ہے آپ نے صوفیا۔۔ اشرف انکے کمرے میں آئے تو انکو صوفیا بیمار کمزور سی لگیں۔۔
وہ بیڈ پر لیٹی ہوئ تھیں۔۔
جبکہ سارا کمرا تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔۔
آپکو تو بخار ہو رہا ہے۔۔۔ چلیں ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں۔۔
انہوں انکی پیشانی کو چھو کر کہا۔۔
نہیں مجھے بس پین کلر دے دیں میں ٹھیک ہوجاؤں گی سارا جسم درد کررہا ہے۔۔
وہ بمشکل اٹھ کر بیٹھیں۔۔۔
پین کلر سے کچھ نہیں ہوگا آپ ڈاکٹر کے پاس چلیں۔۔
وہ بھی بذد تھے۔۔۔
زمان دو دن سے گھر نہیں آیا کچھ پتا کرایا آپ نے اسکا؟؟ صوفیا نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔۔۔
اسکا نمبر آف ہے اسکے دوست سے بات ہوگئ تھی میری وہ ٹھیک ہے بلکل آج شام تک گھر آجائے گا۔۔
اشرف نے انہیں اطمینان دلایا تو انکی جان میں جان آئی۔۔۔
اب آپ اٹھیں چینج کرلیں میں ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کا کہتا ہوں۔۔۔
وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور انکو ہدایت دیتے ہوئے چلے گئے۔۔۔
____________________________________
وہ ڈرائیور کے ہمرا گاڑی میں بیٹھا عجیب کشمکش کا شکار تھا اسے سکون نہیں مل رہا تھا دماغ بھی ماؤف ہونے لگا تھا سارے گناہ ایک ایک کرکے اسکے سامنے آرہے تھے اوپر سے ازلفہ کی فکر اسکو کھائے جارہی تھی۔۔
وہ اسموکنگ کرتا ہوا انہیں خیالات میں الجھا ہوا تھا جب اسکی گاڑی ایک مسجد کے برابر سے گزرنے لگی۔۔۔
ڈرائیور گاڑی روکو۔۔
اسنے ہاتھ کے اشارے سے ڈرائیور کو ہدایت دی جس پر گاڑی رک گئ۔۔
وہ گاڑی کا دروازہ کھول کر نیچے اترا اور سگریٹ کو زمین پر پھینک کر جوتے کی نوک سے مسلنے لگا۔۔
وہ ٹکٹکی باندھ کر کافی دیر سے مسجد کو دیکھ رہا تھا۔۔
بڑی مشکل سے ہمت کرکے وہ مسجد کی جانب بڑھا مسجد میں داخل ہونے سے پہلے اسنے اپنے جوتے اتارے اور آہستہ آہستہ قدموں کے ساتھ مسجد کے اندر جانے لگا آج اسے اپنا ہر ایک قدم بے حد بھاری محسوس ہورہا تھا ساتھ ہی اسے لگا جیسے اسکے پیر کانپ رہے ہیں ناجانے کس دھن میں وہ یہاں تک آگیا تھا اسے خود اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیسے اور کیوں اسنے مسجد کا رخ کرلیا۔۔
سپاٹ چہرے کے ساتھ وہ ایک کونے میں ایک ضعیف آدمی کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔۔
مسجد بہت خوبصورت اور نفیس تھی وہ نظریں گھما کر ارد گرد کا جائزہ لے رہا تھا۔۔۔
کہاں سے آئے ہو بیٹا۔۔ پہلے کبھی یہاں دیکھا نہیں۔۔
وہ بزرگ ہاتھ میں تسبیح کے دانے گھماتے ہوئے بڑے غور سے اسے دیکھ رہے تھے اپنی پرکشش شخصیت اور قیمتی کپڑوں کی وجہ سے وہ وہاں کافی نمایاں ہورہا تھا۔۔
میں شاہ زیب ملک کا بیٹا ہوں۔۔ اسنے دل میں سوچا شاید وہ یہ جواب دینا چاہتا تھا مگر کسی خیال نے اسے روک لیا۔۔۔
میرا نام زلان ہے۔۔
اسنے بیزاری سے کہا
آج اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس میں کوئ تکبر یا جوش نظر نہیں آرہا تھا۔۔۔
اچھا اچھا۔۔ بہت اچھا نام ہے۔۔
مجھے رؤف چاچا کہتے ہیں۔۔۔ اس آدمی نے اسکے نام کی تعریف کرنے کے ساتھ ہی اپنا بھی تعارف اسے کروایا۔۔۔
زلان بلکل خاموش بیٹھا تھا۔۔۔
میرا اپنا تو کوئ ٹھکانہ نہیں ہے۔۔ یہیں رہتا ہوں میں مسجد کی دیکھ بھال کرلیتا ہوں۔۔
رؤف چاچا کا چہرہ کافی پررونق تھا وہ مسجد میں نظریں گھما کر بولے تو وہ انہیں دیکھنے لگا۔۔۔
نماز کا وقت ہونے کے باعث بہت سے نمازی مسجد میں آرہے تھے۔۔
کچھ دیر میں اذان بھی شروع ہوگئ مسجد میں خاموشی چھاگئ صرف اللّہ کا نام چاروں طرف گونجنے لگا۔۔
اذان ختم ہوتے ہی رؤف چاچا اٹھنے لگے۔۔۔
نماز کا وقت ہوگیا وضو کرلو۔۔
انہوں نے اٹھتے ہوئے اس سے کہا جس پر اسکے ماتھے پر بل پڑگئے۔۔
تمھیں نماز نہیں پڑھنی؟؟ اس کی خاموشی کے باعث انہوں نے اس سے پوچھ ہی لیا۔۔
وہ۔۔۔ مجھے۔۔
وہ Actually۔۔ مجھے نماز پڑھنی نہیں آتی۔۔
اسنے جھجھکتے ہوئے نظریں جھکا کرکہا جس پر رؤف چاچا حیرت سے اسکا منہ تکنے لگے۔۔۔
تم مسلمان ہو؟؟ انہوں نے قدرے حیرت سے اس سے پوچھا۔۔
ج۔۔ جی۔۔ وہ ہچکچانے لگا اسے شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔۔۔
کتنے عرصے سے نماز نہیں پڑھی۔۔
وہ پنجوں کے بل اسکے سامنے بیٹھے تھے۔۔۔
اسنے ادھر ادھر نگاہیں دوڑائیں پھر کہا۔۔۔
بچپن میں فادر کے ساتھ عید کی نماز پڑھ لیا کرتا تھا۔۔
اسکی ہمت نہیں تھی انسے نظریں ملانے کی اسے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ گویا مسجد میں موجود ہر شخص اسے ہی دیکھ رہا ہو اور اسکا مزاق اڑا رہا ہو۔۔
اسے آج سے پہلے کبھی اتنی شرمندگی محسوس نہیں ہوئی۔۔۔
آہ۔۔۔ تو کیا اب تم نماز پڑھنا چاہتے ہو؟؟ انہوں نے گہری سانس بھری اور کہا۔۔
ہاں۔۔ مگر میں نماز پڑھنا بھول چکا ہوں۔۔۔
اسنے پھر وہی بات دھرائی۔۔
کوئی بات نہیں میں تمھیں اس وقت کی نماز میں پڑھی جانے والی رکعتیں بتادیتا ہوں باقی نمازوں کا طریقہ اور سب کچھ بعد میں مجھ سے سیکھ لینا۔۔
رؤف چاچا کے لہجے میں بے حد شفقت تھی۔۔
وہ ان کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اسکے پیر کانپ رہے تھے وہ بمشکل اپنے وجود کو قابو کررہا تھا وہ نہیں چاہتا تھا اسکی گھبراہٹ کسی پر بھی ظاہر ہو اسنے پہلی دفعہ ایک قدم اٹھایا تھا جو اسے بہت بھاری محسوس ہورہا تھا۔۔۔
اسنے رؤف چاچا کو دیکھ دیکھ کر وضو کیا اور جماعت کے ساتھ ایک صف میں کھڑا ہوگیا اسکے ماتھے پر پسینوں کی بوندیں صاف عیاں تھیں۔۔۔
اسکا دل چاہا کہ وہ یہاں سے بھاگ جائے وہ کیوں یہاں آگیا تھا۔۔
اللّہ اللّہ کرکے اسنے نماز مکمل کی مگر جب دعا مانگنے کا وقت آیا تو وہ خالی ہاتھوں کو اٹھا کر خالی خالی نگاہوں سے انہیں دیکھنے لگا اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا مانگے۔۔
خاموش لبوں کے ساتھ بیٹھا وہ ادھر ادھر باقی نمازیوں کو دیکھ رہا تھا جب سب اٹھنے لگے تو اسنے جلدی سے بس ایک ہی جملہ ادا کیا۔۔۔
اللّہ ازلفہ کی مشکلیں آسان کردے اور۔۔ اور اسے ہر خوشی دے دے۔۔
اسنے فوراً دعا مانگی اور چہرے پر ہاتھ پھیر کر کھڑا ہوگیا اسنے زندگی میں پہلی دفعہ دعا مانگی تھی وہ بھی کسی اور کے لیے۔۔۔
_____________________________________
وہ فارم ہاؤس پر گھانس پر ٹہل رہی تھی۔۔
اسے زلان ملک کی طرف سے اجازت مل چکی تھی کہ وہ اپنے کمرے کی چار دیواری کی قید سے باہر نکل سکتی ہے۔۔
ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اسکے چہرے کو چھو رہے تھے جس سے اسکو سکون محسوس ہورہا تھا۔۔
ٹھنڈی ٹھنڈی گھانس پر وہ ٹہلتی ہوئی آسمان کی طرف نگاہ کی ہوئ تھی۔۔
اسنے اپنے ہاتھ میں پکڑی پرفیوم کی بوتل کو غور سے دیکھا پھر اپنے بدن پر اسے اسپرے کرنے لگی۔۔
وہ لمبے لمبے سانس لیتی ہوئ اسکی خوشبو کو اپنے اندر انڈیل رہی تھی۔۔۔
_____________________________________
کیا کسی کی زندگی کو برباد کرنے کے بعد آباد کیا جاسکتا ہے؟؟
اسنے ہچکچاتے ہوئے سوال کیا جس پر رؤف چاچا چونک کر اسے دیکھنے لگے۔۔
وہ دونوں واپس اسی جگہ بیٹھے تھے۔۔۔ برباد کرنے کے دیگر طریقے ہیں تم کونسے طریقے کی بات کررہے ہو لڑکے؟ انہوں نے اس سے پوچھا۔۔
اگر۔۔
اگر کوئ لڑکا کسی شادی شدہ لڑکی کو اغواہ کرلے لیکن اسکی عزت برقرار رہے۔۔
اور پھر وہ اسکو واپس اسکے گھر بھیجنا چاہے تو؟
اسنے ٹیڑے میڑے طریقے سے سوال کیا جس پر وہ مزید چونکے۔۔۔
کچھ دیر کی خاموشی کے بعد وہ بولے۔۔۔
دیکھو برخوردار ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا۔۔
مرد ہی عورت کو برباد کرتا ہے اور مرد ہی اسکو آباد کرتا ہے۔۔
مرد ہی اسکی عزت کو داغدار کرتا ہے اور مرد ہی اسکی عزت بھی کرتا ہے۔۔
تو بات یہ ہوئ کہ مرد ہی عورت کی خوشی یا غم کا زمہ دار ہوتا ہے۔۔
وہ بڑے غور سے انکی باتیں سن رہا تھا۔۔۔
اور اگر کوئی مرد جیسا کہ تم کہہ رہے ہو۔۔ ایسی گھٹیا حرکت کرے کہ کسی شادی شدہ عورت کو اغواہ کرلے تو پھر تو اس عورت کی زندگی آباد نہیں ہوسکتی۔۔
انکی بات پر وہ فوراً بولا۔۔
لیکن وہ عورت پاک دامن ہوئی تب؟؟
دیکھو یہ بات وہ عورت جانتی ہے وہ اغواہ کرنے والا مرد جانتا ہے مگر اس عورت کا شوہر تو نہیں جانتا نا؟؟
اب وہ عورت لاکھ جتن کرلے وہ اپنی پاک دامنی کا کسی کو یقین نہیں دلا سکتی۔۔۔
رؤف چاچا کی باتیں سن کر اسکا دماغ پھٹنے لگا وہ شرمندگی اور پچھتاوے کے گڑھے میں گر رہا تھا۔۔۔
ایک بات کہوں؟؟ رؤف چاچا نے اسکے کندھے کو چھوا تو اسنے انکی آنکھوں میں جھانکا۔۔
گناہ کرنا بہت آسان ہے مگر گناہوں سے واپسی بے انتہا مشکل کا سفر ہے۔۔
اس سفر میں انسان کا ایمان ہزاروں دفعہ ڈگمگاتا ہے اور وہ اس راستے سے پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کرتا ہے۔۔
مگر آسانی بھی اسی راستے پر چلنے میں ہے۔۔
انسان جتنے گناہ کرتا ہے اسکی واپسی کا سفر اتنا ہی مشکل ہوتا جاتا ہے۔۔
بس یہ سمجھلو کہ انسان خود اپنے لیے گڑھے کھودتا ہے پھر جب تک اسے ہوش آتا ہے تب تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔۔ رؤف چاچا شاید سمجھ چکے تھے اسی لیے وہ آہستہ آہستہ اسے سمجھا رہے تھے اسکا دماغ انکی باتوں سے مزید پھٹے جارہا تھا۔۔
تو کیا میں کبھی سیدھے راستے پر نہیں چل سکتا؟؟
اسکی آنکھوں میں خوف اور بے بسی سے نمی اترنے لگی تھی۔۔۔
آسکتے ہو بس شرط یہ ہے کہ تمھارے قدم نہ ڈگمگائیں۔۔۔
خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جنہیں اللّہ ہدایت دے دے ورنہ اللّہ جس سے نظر پھیر لے وہ شخص کبھی سدھر نہیں سکتا۔۔۔
اگر تمھیں واقعی اس راستے پر چلنا ہے تو ثابت قدم رہنا پڑے گا امتحان دینے ہوگے ساتھ ہی اپنے تمام گناہوں کو قبول کرکے اسکی سزہ بھگتنی ہوگی۔۔۔
انہوں نے بڑے غور سے اسے دیکھ کر کہا تو وہ سوچ میں پڑ گیا اپنے سارے گناہوں کو یاد کرکے اور انکی سزاؤں کے متعلق سوچ کر اسکی روح کانپ رہی تھی
اسکا دل چاہا وہ اپنے بال نونچے چینخ چینخ کر روئے اسے پچھتاوا ہوتا جارہا تھا۔۔
بس اب اسے اپنے سارے گناہوں کی سزا بھگتنے کے لیے خود کو تیار کرنا تھا۔۔۔