(Last Updated On: )
چمکیلے برقع میں ملبوس، دبلی پتلی، سانولی سی 19 سالہ کاظمہ میرے روبرو موجود تھی۔ اس کے ساتھ ایک ساٹھ سالہ خاتون بھی موجود تھی، جس نے بوسیدہ کاٹن کی ساڑی پہن رکھی تھی۔ سر پر سیاہ چادر، پاؤں میں آدھے سے زیادہ گھسی ہوئی ہوائی چپل، اور آنکھوں پر موٹے عدسہ کا چشمہ لگا رکھا تھا، حالات اور خیالات نے اس کی کمر خم کر دی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں ان دونوں سے کوئی سوال کرتی کاظمہ کی والدہ نے خود ہی کہنا شروع کر دیا: ’’میں ایک بیوہ ہوں، کارخانہ میں کام کر کے گھر چلاتی ہوں، ایک بیٹا ہے جو شادی کے بعد اپنی بیوی کے ساتھ علیحدہ رہنے لگا ہے، میں اپنی بیٹی کی شادی کو لے کر بہت پریشان تھی، اور اللہ تعالیٰ سے ہروقت دعا گو رہتی کہ اس کی شادی کی کوئی صورت نکل آئے۔ اللہ نے میری دعا سن لی۔ اسی دوران لائنس کلب کی ایک ممبر سے میرا رابطہ ہوا، انہوں نے کچھ مالی تعاون کیا، کچھ رقم میں نے بطور قرض لیا اور بیٹی کی شادی کر دی۔ سوچا ایک اہم فریضہ انجام دے کر اپنی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو گئی ہوں، لیکن یہ میرا بھرم تھا۔ کاظمہ کی شادی کو چار ماہ کا عرصہ بھی پورا نہیں ہوا اور یہ دوبارہ میرے گھر واپس آ گئی۔‘‘ اس نے ٹھنڈی آہ بھری۔ …….
’’شادی مبارک!‘‘
’’مطلب؟‘‘
’’میرے شوہر شادی مبارک اسکیم کی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ انہیں جیسے ہی اس بات کا علم ہوا کہ امّی کو شادی مبارک اسکیم کے تحت ایک لاکھ سولہ ہزار روپے منظور ہوئے ہیں، تب سے وہ مجھ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ میں امّی کے پاس سے وہ رقم انہیں لا کر دوں۔‘‘ کاظمہ نے بتایا۔
’’وہ ایسا کیسے کہہ سکتا ہے؟ یہ پیسے تو لڑکی کے والدین کے لیے ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے استفسار کیا۔
’’اس کا کہنا ہے کہ اس نے مجھ سے شادی کی، جس کی وجہ سے یہ رقم منظور ہوئی۔ اگر وہ مجھ سے شادی نہیں کرتا تو ہمیں یہ رقم ملتی ہی نہیں۔ لہٰذا اس رقم پر اس کا حق ہے۔‘‘ کاظمہ نے اپنے شوہر کا نظریہ پیش کیا۔
’’اس نے تم سے شادی کی ہے، کوئی احسان نہیں کیا۔ اس کو بھی تو بیوی کی ضرورت تھی۔‘‘ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’یہ آپ کہہ رہی ہیں میڈم جی! وہ اور ان کے افراد خاندان تو ہمیشہ مجھے یہی طعنہ دیتے ہیں کہ انہوں نے مجھ جیسی یتیم اور غریب لڑکی سے شادی کر کے ہمارے خاندان پر احسان کیا ہے۔ وہ اگر شادی نہ کرتے تو گویا میں زندگی بھر کنواری ہی رہ جاتی۔‘‘ اس کی آواز میں اداسی جھلک رہی تھی۔
یہ مرد بھی عجیب ہوتے ہیں۔ بات بات پر احسان جتلانا ضروری سمجھتے ہیں۔ شادی کر کے احسان، بچے پیدا کر کے احسان، اچھا کھلایا تو احسان، کچھ دلا دیا تو احسان، کہیں گھمانے لے گیا تو احسان، وہ جو بھی کرے گا اس کے ہر کار خیر کا شمار احسان میں ہو گا۔ اور عورت؟ وہ بے چاری اپنے والدین، اپنا گھر بار چھوڑ کر شوہر کے گھر اس کے طور طریقوں کو اپنا کر جو کچھ کرے اس کا کوئی احسان نہیں، بلکہ اس کے ہر کام کو ذمہ داری کے پائیدان تلے روند دیا جاتا ہے، اور اس کے حقوق کا دم وہیں گھٹ کر رہ جاتا ہے۔
’’اس نے تم سے شادی کر کے کوئی احسان نہیں کیا، بلکہ ڈھیر سارا ثواب کمایا ہے۔ تم اس کے لیے ثواب کمانے کا ذریعہ بنی ہو، اس بات کا احساس اسے ہونا چاہیے۔‘‘ میں چاہتی تھی کہ وہ اپنی اہمیت کو سمجھے۔
’’احساس؟ کہاں کا احساس!؟ اس نے تو مجھے اپنی ماں کے گھر بھیج دیا کہ جب تک میں ایک لاکھ روپے اپنے ساتھ نہیں لاتی، وہ مجھے گھر میں داخل بھی نہیں ہونے دے گا۔‘‘ وہ مایوس تھی۔
’’تم مایوس مت ہونا، کیوں کہ مایوسی سے بڑھ کر کوئی شے ہمارے لیے قاتل اور مہلک نہیں۔ آزمائشیں اور مصیبتیں ایک مومن کو مایوس نہیں بلکہ ہوشیار اور مضبوط کرتی ہیں۔ اس رقم پر صرف اور صرف تمہاری ماں کا حق ہے، اور کسی کا نہیں۔ میں تمہارے شوہر سے اس بارے میں بات کروں گی۔‘‘ میں نے اسے بتایا۔
’’آپ اس کو کاؤنسلنگ سینٹر بلا کر بات کریں گی تو بات بگڑ سکتی ہے۔ وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ گھر کی بات کو باہر والوں کے سامنے نہیں لانا چاہیے تھا، اور پھر اس بات پر بھی جھگڑا شروع ہو گیا تو میں کیا کروں گی؟ کہیں وہ کاظمہ کو چھوڑ دینے کی دھمکی تو نہ دے گا؟‘‘ کاظمہ کی والدہ اس بات سے بہت خوف زدہ ہو گئی تھیں۔ اس بات کا خوف نہ جانے کتنی خواتین کو ظلم سہنے پر مجبور کرتا ہے کہ ظلم کے خلاف آواز اٹھانے پر شوہر انہیں طلاق دے گا یا پھر ان سے قطع تعلق کر لے گا، اور اکثر ایسا ہوتا بھی ہے، کیونکہ ظالم صرف ظلم کرنا جانتا ہے، وہ مظلوم کی کیفیت، اس کے جذبات و احساسات سے بالکل غافل ہوتا ہے۔
’’آپ سب سے پہلے یہ خوف دل سے نکال دیں، کیونکہ حق کے لیے لڑنا جائز ہے، اور لڑنے کے لیے حوصلہ درکار ہے۔ بزدلی سے کوئی بھی جنگ جیتی نہیں جا سکتی۔‘‘ میں نے ماں اور بیٹی دونوں کو حوصلہ دیا۔ ایک انسان کسی دوسرے انسان کے لیے اگر کچھ بھی نہ کر سکے، لیکن حوصلہ ہی بڑھا دے تو وہ اپنی جنگ خود لڑ سکتا ہے۔ میں نے جتنی خواتین کو ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا ہے، اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ کسی نے ان کو یہ نہیں کہا تھا کہ حوصلہ رکھیں اللہ بڑا کریم ہے، وہ کرم کرے گا۔ اس چھوٹے سے جملے میں بہت طاقت ہوتی ہے۔
چار دن بعد کاظمہ کا شوہر باسط میرے سامنے موجود تھا۔ دراز قد، دبلا پتلا جسم، چھوٹی سی داڑھی۔
’’کیسی چل رہی ہے تمہاری شادی شدہ زندگی؟‘‘ میں نے اسے بلانے کا مقصد بیان کرنے کے بعد پوچھا۔
’’ویسے تو ٹھیک ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ شادی کے بعد بیوی کو اپنے شوہر کا ہر حکم ماننا چاہیے ناں؟‘‘ اس نے استفہامیہ انداز میں کہا۔
’’جی بالکل ماننا چاہیے، بشرطیکہ حکم شریعت کے مطابق ہو، اور جس سے کسی اور کو کوئی تکلیف بھی نہ پہنچے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’لیکن کاظمہ میری کوئی بات مانتی ہی نہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں شکایت تھی۔ ’’مثال کے طور پر؟‘‘ میں نے دلیل مانگی۔
’’کاظمہ یتیم ہے، اس لیے شادی کا سارا خرچ ہم نے ہی اٹھایا۔ ہم نے ان سے پھوٹی کوڑی بھی نہ مانگی۔ اب جب کہ ’’شادی مبارک‘‘ نامی اسکیم کی رقم منظور ہو گئی تو میری ساس مجھے رقم دینے سے انکار کر رہی ہیں۔ کاظمہ سے اس بارے میں بات کی تو وہ کہتی ہے کہ شادی کے وقت اس کی امّی نے کسی سے قرض لیا تھا، وہ ادا کرنا ہے۔ اب آپ بتائیں! بیٹی کے پیسوں سے ماں اپنا قرض ادا کرے، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ جس کا پیسہ ہے اسے دینا چاہیے ناں؟‘‘ اس کا انداز جارحانہ تھا۔
’’تم شادی مبارک اسکیم کے بارے میں کیا جانتے ہو؟‘‘ میں نے اس سے جاننا چاہا۔
’’یہی کہ تلنگانہ میں کے سی آر (وزیر اعلیٰ) نے غریب گھروں کی لڑکیوں کی شادی کے لیے مالی مدد فراہم کرنے کی خاطر اس اسکیم کا آغاز کیا ہے، اور اس کے تحت شادی کے لیے لڑکی کو ایک لاکھ سولہ ہزار روپے ملتے ہیں۔‘‘ اس نے تفصیلی جانکاری دیتے ہوئے کہا
’’تم نے بالکل ٹھیک کہا، لیکن منظور شدہ رقم لڑکی کو نہیں بلکہ راست لڑکی کی ماں کے اکاؤنٹ میں جمع کر دی جاتی ہے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’رقم چاہے کسی کے بھی اکاؤنٹ میں جمع ہو، ہے تو کاظمہ کی ہی ناں؟‘‘ اس نے فوراً جواز پیش کیا۔
’’باسط! شادی مبارک، یہ ملک کی ایک با وقار اسکیم ہے، کیونکہ دور حاضر میں غریب ماں باپ کے لیے لڑکیوں کی شادی بہت بڑا بوجھ بن گئی ہے۔ شادیوں کو آسانی سے انجام دینے اور والدین کو قرض کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے ہی اس اسکیم کو متعارف کروایا گیا ہے، اور اس رقم پر لڑکی کا نہیں بلکہ لڑکی کے والدین کا حق ہوتا ہے۔‘‘
میں نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا۔ یہ جان کر اس کے چہرے کا رنگ پھیکا پڑ گیا تھا۔
’’حال ہی میں میرے ایک دوست کی شادی ہوئی۔ اس نے تو بتایا تھا کہ اس کی بیوی نے اس اسکیم سے ملنے والی رقم سے اس کے لیے بائک خریدی۔‘‘ وہ گردن اکڑا کر کہہ رہا تھا۔
’’باسط! اس رقم کے اصلی حقدار لڑکی کے والدین ہوتے ہیں جو اپنی بیٹی کی شادی پر پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ وہ چاہیں تو اپنی مرضی سے یہ رقم بیٹی کے حوالے کر سکتے ہیں، جس کے بعد بیٹی اپنی ضرورت کے مطابق خود خرچ کرے یا اپنے شوہر کو دے، یہ اس کا اختیار ہے، لیکن خود بیٹی بھی اس رقم کے حصول کے لیے اپنی ماں کو مجبور نہیں کر سکتی۔‘‘ میں نے مزید وضاحت کی۔
’’لیکن میں نے کافی لوگوں سے سنا ہے کہ اس رقم پر لڑکی کا حق ہوتا ہے۔‘‘ وہ بحث کرنے لگا۔ اپنی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ کی ذمہ داری تو ہم لے سکتے ہیں، لیکن سامنے والے کی سوچ کی نہیں۔ کالا چشمہ لگا کر دنیا کو کالا کہنا کچھ لوگوں کی تربیت میں شامل ہوتا ہے۔
’’اگر تمہاری بات مان بھی لی جائے تو اس رقم پر کاظمہ کا حق ہے۔ تمہارا تو نہیں؟ پھر وہ اس رقم کو جیسے چاہے خرچ کرے۔ تم اس پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کہ وہ تمہیں اپنی رقم سونپ دے۔ تم اس بات پر غور کرو کہ جو اسکیم لڑکیوں کی شادی کے مالی اخراجات کو پورا کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے، جس سے والدین کا قرض ادا ہو سکتا ہے، لیکن تمہاری زیادتی کی وجہ سے ایک تو کاظمہ کی والدہ کا قرض ادا نہیں ہو گا، دوسرے رشتوں میں دراڑ بھی پڑ جائے گی، سکون برباد ہو گا، محض اس لیے کہ تم حق تلفی کر رہے ہو۔ کیا تم یہی سب کرنا چاہتے ہو؟‘‘ میں نے قدرے سخت لہجے میں اس سے سوال کیا۔
’’نہیں میڈم! مجھے یہ معلومات نہیں تھیں۔ میں نے سوچا رقم میری بیوی کی ہے، اور میاں بیوی کا معاملہ ایک ہی تو ہوتا ہے۔ میرا سب کچھ اس کا، اور اس کا سب کچھ میرا۔ اسی گمان پر کاظمہ کو اس کے امّی کے گھر بھیجا تھا کہ وہ رقم لائے گی تو میرا بھی قرضہ ادا ہو جائے گا۔‘‘ اس کا مقصد عیاں ہو گیا تھا۔ تمہارے ذریعہ لیے گئے قرض کی ادائیگی تمہاری ذمہ داری ہے۔ تمہاری بیوی کی نہیں!‘‘ میں نے تنبیہ کی۔
’’جی سمجھ گیا میڈم! اجازت دیجیے! وہ کرسی سے اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔‘‘
’’کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’اپنی بیگم کو لینے۔‘‘ اس کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
سوالات
(1) ہمارے سماج میں ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو سماجی و فلاحی کام انجام دیتی ہیں، عوام کا ایسے اداروں سے واقف ہونا کیوں ضروری ہے؟
(2) کیا ’’شادی مبارک‘‘ اسکیم کے بارے میں صحیح معلومات عوام الناس تک پہچانا ضروری ہے؟
(3) شادی سے پہلے لڑکوں کو بیوی کے حقوق اور بحیثیت شوہر ان کی ذمہ داریوں سے واقف کروانا کیوں ضروری ہے؟
٭٭٭