انجبین اور جبین دونوں کو ہی بازار جانے کی جلدی تھی۔لیکن ماں کے حکم کے مطابق گھر کے کام
جب تک ختم نہیں ہو جاتے تب تک مارکیٹ جانے کا کوئی سوچے بھی نہیں۔ امی مارکیٹ کس کے ساتھ جاؤں گی۔انجبین نے پوچا لگاتے ہوئے ماں سے پوچھا۔
ماں جو اس وقت جبین کو کچھ ضروری حدایات دینے میں مصروف تھی اس لیے انجبین کو کوئی جواب نہ دیا۔ انجبین کا پارہ ہائی ہو رہا تھا کہ اتنے میں ڈور بیل بجنے لگی۔
انجںین کام کی جلدی میں دروازہ کھول کر واپس لوٹ آئی، بنا دیکھے کہ کون آیا ہے۔ جب اپنے پیچھے کسی کے قدموں کی آہٹ نہ پا کر انجبین واپس دروازہ کے قریب آئی تو دروازہ تب بھی اتنا ہی کھلا ہوا تھا جس قدر وہ کھول کر گئی تھی۔ انجبین یہ دیکھ کر جھنجلا اٹھی۔
انجبین: کیا مصیبت ہے؟ اندر آنا بھی ہے کہ نہیں؟
انجبین نے دروازہ کھول کر باہر دیکھا تو وہاں زیان کھڑا تھا۔ سر جھکائے ہوئے دروازہ کی جانب پشت کئے ہوئے۔
زیان کو دیکھتے ہی انجبین بھاگتی ہوئی اندر آگئ،
انجبین: امی وہ باہر۔ انجبین سانس درست کرنے کو رکی۔
ماں: باہر کیا؟۔ماں نے نہ سمجھتے ہوئے انجبین کی طرف دیکھا۔
انجبین: باہر زیان آیا ہے امی۔ میں دوپٹہ کے بغیر ہی چلی گئی تھی شکر ہے اس نے دیکھا نہیں۔ انجبین کا سانس ابھئ تک تیز چل رہا تھا۔
مس یاسمین: چلو تیار ہو جاؤ تم دونوں زیان آگیا ہے۔ بازار لے کے جائے گا تم دونوں کو اور خبردار اسے خواہ مخواہ تنگ نہ کرنا۔ سن رہی ہو نا تم انجین۔”ماں نے خاص طور پہ انجبین کو سمجھاتے ہوئے کہا”۔
پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد اب تینوں گاڑی میں بیٹھ کر پنڈی شہر کی مشہور و معروف شاپنگ سنٹرز کی جانب رواں دواں تھے۔ رابی سنٹر، موتی بازار اور نہ جانے کدھر کدھر اور کہاں کہاں جانے کا پلان تیار تھا اور وہ بھی ایک ہی دن میں۔
انجبین: زیان آپ نے شمائلہ باجی کا لہنگا کہاں سے لیا تھا؟
زیان: موتی بازار سے۔۔ زیان نے مختصر سا جواب دیا۔
دن بھر شاپنگ کرنے کے بعد واپسی کے لیے لے جانے کے لیے پھر سے زیان پارکنگ ایریا میں موجود تھا۔ زیان کے ساتھ گاڑی میں کوئی اور بھی موجود تھا۔دور سے دیکھنے پر سمجھ نہیں آیا کہ گاڑی میں کون کون موجود ہے لیکن یہ دیکھائی دے رہا تھا کہ گاڑی تو زیان کی ہے مگر ڈرائیونگ سیٹ پہ کوئی اور ہے۔زیان اس کے ساتھ دوسری سیٹ پہ بیٹھا ہوا ان دونوں کو آتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔
جبین: “انجو ایک بات کہوں برا نہ لگے تو”۔ جبین نے بیگز کو گھسیٹتے ہوئے سوال کیا۔۔۔
انجبین: ہاں بول نا۔ انجبین کی نظریں مسلسل گاڑی میں موجود لوگوں کی شناخت کرنے میں مصروف تھیں۔
جبین: “آئی تھینک ہی لوز یو!”۔ جبین نے انجبین کے چہرے کی طرف دیکھا اور بات مکمل کر کے انجبین کے ریکئشن کا انتظار کرنے لگی۔
ا جبین:”کس کی بات کر رہی ہو تم”۔ بنا کسی تاثر کے انجبین نے جواب دیا۔
وہ دونوں گاڑی کے بہت قریب پہنچ چکی تھی۔ جبین نے آنکھوں کے اشارے اور ہاتھ کی جنبش سے سمجھایا کہ گاڑی میں بیٹھ کر ٹیکسٹ کرتی ہوں۔۔۔
________________
گاڑی میں ڈرایئونگ سیٹ پہ وہاب بیٹھا ہوا تھا۔اس کے ساتھ زیان تھا جس کی گود میں سلسبیل سو رہی تھی، پیچھے نائلہ اور پلوشہ تھی۔یہ سب لوگ آج ہی آئے تھے۔اور ابھی تک گھر بھی نہیں گئے تھے۔
نائلہ:”کیوں دیورانی صاحبہ کیسی رہی شاپنگ؟”۔
نائلہ کی آواز پہ انجبین چونک اٹھی اور جواب میں بس مسکرا دی۔
گاڑی میں باتیں جاری تھی اور وہاب کی نظریں انجبین کے لیے الجھن کا باعث بن رہی تھی، اس کی نظریں زیان جیسی شفاف نہیں تھیں۔ ان میں کچھ ایسا تھا جو انجبین کے لیے نیا تھا۔
موبائل نے وائبریٹ کیا، اور مسلسل کیے جس رہا تھا،آخر تنگ آکر انجبین نے فون کو دیکھا۔جہان جںین کے نام کے ساتھ دس نئے ایس ایم ایس موصول ہونے کا بتایا جا رہا تھا۔۔۔
دونوں دوستوں کی نظریں ملی، اشارہ سمجھتے ہی انجبین نے ان باکس اوپن کیا۔
دس کے دس مسیج میں ایک ہی نام لکھا ہوا تھا۔
“زیان لوز یو”
_____________
گھر آکر انجبین نے عشاء کی نماز ادا کی اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ہی تھے کہ اچانک سے جبین کا میسج خیالات میں گردش کرنے لگا۔ “نہیں یہ میں کیا سوچ رہی ہوں، کیوں اس پاگل کی بات میرے ذہن میں آرہی ہے بار بار”۔ انجبین زیر لب بول رہی تھی۔
انجبین نے بمشکل دعا مکمل کی اور جلدی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔اور جلدی سے اپنا موبائل اٹھایا تاکہ جبین کو کال کر کے اس کی خبر لے کہ وہ ایسی باتیں سوچ بھی کیسے لیتی ہے۔یہ کیا؟ اتنی مسڈ کالز؟ یہ کس کا نمبر ہے۔
موبائل سائلنٹ لگا ہوا تھا، جس کی وجہ سے بیل کی آواز سنائی نہیں دی۔ انجبین ابھی انہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی کہ فون دوبارہ سے وائبریٹ کرنے لگا۔ انجبین نے بنا دیر کئے کال رسیو کرلی۔
انجبین: جی کون؟۔۔۔ انجبین کے لہجے میں بلا کی سختی تھئ جو عمومی طور پہ انجبین کا خاصہ تھی۔اسی سختی کی وجہ سے ہی تو آج تک کسی لڑکے میں اتنی جرعت پیدا نہیں ہوئی تھی کہ وہ انجبین کو ایسے کال کرے یا کبھی سامنے آکر بات کرے۔
انجبین کے سوال کے جواب میں دوسری جانب سے جو آواز سنائی دی وہ وہاب کی تھئ۔
وہاب: اٹس می وہاب۔ کیسی ہیں آپ؟
انجبین: میں ٹھیک؟ آپکو میرا نمبر کہاں سے ملا؟ انجبین نے بنا وقت لیے سوال داغ دیا۔
وہاب: ایزی میڈم بندہ پہلے حال احوال پوچھتا ہے پھر ایسے سوالات کرتا ہے۔ وہاب نے آواز کو ملائم رکھتے ہوئے جواب دیا۔
انجبین: حال آپکا اچھا ہے تب ہی تو آپ کال کر رہے ہیں۔ انجبین کی آواز میں خود اعتمادی جھلک رہی تھی۔
وہاب: بہت خوب! اگر میں کہوں کہ یہ نمبر میں نے چوری کیا ہے تو؟ وہاب کے بات کرنے کے انداز سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ مزاق کے موڈ میں ہے۔
انجپںین: “ہوں” تو میں یہ کال کاٹ دوں گی سمپل”۔ انجبین نے لاپروائی سے جواب دیا اور اپنی چپل تلاش کرنے لگی۔۔۔” مجھے چوروں سے بات کا کوئی شوق نہیں ہے۔۔
جوتے پہن کر وہ کچن میں آگئی تا کہ کھانے کو کچھ تلاش کرے۔۔۔۔بھوک سے پیٹ میں چوہے اور بلیاں دونوں ہی ناچ رہی تھیں۔
اس پہ وہاب کی باتیں وہ بھی ایسا انداز کہ سن کر ہی انسان پہ غنودگی طاری ہو جائے۔
وہاب: نہ پلیز یہ ظلم مت کیجئے گا۔ یہ نمبر تو میں نے تب نوٹ کیا جب آپ پلوشہ کو لکھوا رہی تھیں۔
وہاب نے سچ بولنے میں ہی عافیت جانی۔
انجبین: اچھا لگا۔
وہاب: کیا؟ نمبر نوٹ کرنا یا کال کرنا۔ وہاب چہک کر بولا۔
انجبین: نہیں دونوں نہیں!
وہاب: تو پھر؟ کیا اچھا لگا۔
انجبین: آپکا سچ بولنا۔۔۔ انجبین نے کچن میں مایوسی سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے جواب دیا۔۔
اس کے بعد انجبین وہیں کرسی پہ بیٹھ گئی اور وہاب سے باتیں کرنے لگی۔
رات عشاء کی نماز سے صبح فجر تک وہ دونوں باتیں کرتے رہے۔
——_-_——–_–__—
ناشتہ کی میز پہ زیان سوچوں میں کھویا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں اٹھایا ہوا جوس کا گلاس ویسے کا ویسا تھا اس میں سے ایک بھی گھونٹ نہیں لیا گیا تھا اب تک۔
نائلہ: زیان وہاب کو بھی جگا دیتے نا، ناشتہ کر لیتا۔آج تو اس کی فجر بھی رہ گئی۔ نائلہ چائے ڈالتے ہوئے بولی۔
زیان نے بہن کی بات سنی اور ایک نظر بہن کو اور پھر اپنے کمرے کے دروازے کو دیکھا، جہان وہاب اس وقت سو رہا تھا۔وہاب زیان کے ساتھ کمرہ شیئر کر رہا تھا۔جہاں وہ رات بھر جاگتا رہا تھا انجبین سے بات کرنے کے لیے۔
_______________
دیور جی کچھ کھلا پلا ہی دو صبح سے بس شاپنگ ہی کروائے جا رہے ہو۔. نائلہ نے اپنے دیور کو بازو سے پکڑ کر روک لیا۔
وہاب: بھابی جی چلیں گئے نا زیان کو آنے تو دیں، اور گاڑی آپ نے مجھے لانے ہی نہیں دی۔ وہاب خفا ہوتے ہوئے بولا۔
جبین جل بھن کر بولی،
جبین: “آپکو چلانی جو نہیں آتی اس لیے ہی تو آپی نے لانے نہیں دی”۔
جبین منہ بسورتی ہوئی بچوں کی طرح روٹھ کر ایک طرف کو بیٹھ گئی۔
وہاب اپنے بارے میں جبین کے یہ رمارکس سن کر تیش میں آگیا۔غصہ ہوتے دیکھ کر انجبین نے اپنی دوست کو گھور کر دیکھا۔ انجبین کے ایسے دیکھنے پر جبین نے فوری طور پر معافی مانگ لی اور خاموش ہو گئی۔
اس سب کے دوران نائلہ بھی فون کال سے فری ہو گئی تھی۔
نائلہ: لٹس گو ٹو پارکنگ بچو۔
اور سب پارکنگ کی جانب چلنے لگے۔
________________
انجبین: تمھیں وہاب سے ایسے نہیں کہنا چاہئیے تھا۔یہ بات ان کو ناگوار بھی گزر سکتی تھی۔ لیکن شکر ہے انہوں نے بات مزاق میں ٹال دی۔ انجبین فون کانوں سے لگائے لان میں چہلقدمی کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ پاپکارن کھائے جا دہی تھی۔
جبین: مزاق میں ٹال دی؟ جب کیا ہی مزاق تھا تو ٹالنے کی بات کہاں سے آگئی؟ الٹا تم نے مجھے کہا میں معافی مانگ لوں۔ بہت خود انجو۔ جبین کی آواز میں غصے اور دکھ کی آمیزش تھی۔اسے اپنی دوست کا ایسے معافی مانگنے کا کہنا اور اب یہ سب باتیں کرنا سخت ناگوار گزر رہا تھا۔۔۔
انجبین: تو؟ کیا کرتی؟ ساتھ دیتی بدتمیزی میں تمھارا؟ بولو۔۔ انجبین چلتے چلتے ایک دم سے رک گئی اور انتہائی کرخت لہجے میں بولی۔
جبین: بعد میں بات کریں انجو؟ پلیز۔۔ جبین کو انجبین کا ایسا لہجہ برداشت نہیں ہوا وہ رو دیتی اگر ایک بھی منٹ مزید بات کرتی۔اسی لیے اس نے کال کاٹ دی۔
انجبین نے فون میز پہ پٹخ دیا اور پھر سے لان میں چکر لگانے لگی۔
__________________
گھر میں اس وقت بہت رونق لگی ہوئی تھی۔شادی کی تیاریوں کی گہما گہمی اور آج تو دن بھی چھٹی کا تھا جس کی وجہ سے سب لوگ گھر پر ہی تھے۔زیان اور اس کی امی بھی صبح سویرے ناشتہ لے کر آگئے تھے، سب نے مل بیٹھ کر ایک ساتھ ہی ناشتہ کیا۔
ناشتہ کے بعد جبین بھی آگئی تھی۔ جبین کو انجبین کی امی نے خاص طور پر بلوا لیا تھا اپنے ساتھ ہاتھ بٹانے کے لیے۔ عینی جو کے امید سے تھی اس لیے زیادہ دوڑ دھوپ سے ڈاکٹر نے روک دیا تھا،اور یوں بھی مس یاسمین اب کی بار اس آنے والی خوشی کو کھونا نہیں چاہتی تھیں اس لیے انہوں نے اپنی بہو کو کام کاج سے بلکل ہی دور رکھا ہوا تھا۔ انجبین کی والدہ کلثوم انجبین کی اماں یاسمین زیان کی ماں شاہدہ یہ تینوں عورتیں شادی کے کپڑوں اور زیورات وغیرہ کو دیکھ رہی تھیں۔ عابد بھائی بھابھی کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گئے تھے۔کاشف ابا کے ساتھ باہر کے انتظمات دیکھ رہا تھا۔
فاریہ: بھائی آئیں سٹیج سجاتے ہیں۔ فاریہ بہت سے ڈبے اٹھائے ٹی وی لاونج میں داخل ہوئی اس کے پیچھے جبین بھی نقلی پھولوں کے گلدستے اور دیگر ساز و سامان اٹھائے ہوئے اندر آگئی۔
زیان: یہ سب کہاں سے اٹھا لائی فاری؟ اور یہ کون ہے بھوت نما انسان۔ زیان جبین کا چہرہ نہیں دیکھ سکا تھا۔
جبین اپنے بارے میں زیان کی رائے سن کر جل بھن کر رہ گئی اور تمام سامان اٹھا کر میز پر پٹخ دیا۔
جبین: مم میں اگر انسان نما بھوت ہوں، تو آپ بھوت نما انسان ہو۔ اور اب یہ اٹھاؤ نا اپنا سامان اور شروع ہو جاؤ چلو بچے۔
جبین کی باتیں سن کر زیان مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔ اور سامان اٹھا کر اگلے حکم کے انتظار میں کھڑا ہو گیا۔
فاریہ ان دونوں کو لے کر باہر لان میں آگئی جہاں پہ سٹیج پہلے سے ہی تیار تھا، بس سجاوٹ باقی تھی۔ اب یہ تھری ایڈیٹس سجانے میں مصروف ہو چکے تھے۔
کام کرتے ہوئے دیکھ کر انجبین بھی باہر آگئی اور جبین سے مخاطب ہوئی۔
انجبین: کیوں جبو کیا چل رہا ہے؟ اور ساتھ ساتھ اس کے ہاتھ میسج ٹائپ کرنے میں بھی مصروف تھے۔
جبین تاروں کو دانتوں سے چھیلتے ہوئے بولی۔
جبین: آپکی خدمت کر رہے ہیں آپکے غلام بی بی جی۔ جبین نے ایسے جواب دیا جیسے وہ کوئی سچ مچ کی ماسی ہے۔” آپ اس منحوس کو چھوڑ بھی دیں اور کچھ کام میں ہاتھ بٹا دیں”۔ جبین شرارتی سے انداز میں بولی اور زمین پہ آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔۔۔
انیجبین گرج کر بولی،
انجبین: شٹ اپ جبین تم اپنی حد میں رہو سمجھی نا؟ انجبین کی آواز سن کر زیان اور فاریہ بھی دوڑتے ہوئے ان دونوں کے پاس آگئے۔
جبین پھٹی پھٹی نگاہوں سے انجبین کو دیکھنے لگی۔اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ اس کی دوست آخر کس بات سے اس قدر تیش میں آگئی ہے۔
جبین: کیا ہوا انجو میں نے کیا کیا ہے؟ تم ڈانٹ کیوں رہی ہو مجھے ایسے۔
انجبین: تمھیں یہ حق کس نے دیا کہ وہاب کے لیے ایسے الفاظ استعمال کرو۔ انجبین گرجی۔۔۔
جبین: میں نے کیا بولا ہے ان کو انجی میں تو۔ جبین کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی انجبین نے جبین کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا اور پاؤں پٹختی وہاں سے چلی گئی۔
میں نے منحوس تو موبائل کو بولا تھا، اور یہ۔۔۔جبین آنسو پونچھتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔زیان ان دونوں کو جاتے چپ چاپ دیکھتا رہا۔
________________
“آپ رو رہی ہو”؟ زیان ہاتھوں میں پانی کا گلاس لیے جبین کے قریب سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا اور جبین کو دیکھنے لگا، زیان کو افسوس ہو رہا تھا اس سب پر جو ابھی ابھی جبین کے ساتھ ہوا تھا۔
جبین:”نہیں ہنس رہی ہوں” آئیں مل کر ہنستے ہیں۔ جبین نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
ایسا جواب اور وہ بھی روتے ہوئے، زیان کو ہنسی بھی آرہی تھی مگر موقع ایسا نہیں تھا کہ وہ ہنسنے لگتا۔
زیان: آپکی دوست نے آپ پہ غصہ کیا اس لیے رو رہی ہیں؟ زیان نے پانی کا گلاس جبین کو دیتے ہوئے سوال کیا۔
جبین: نہیں وہ کون سا پہلی بار ڈانٹ رہی تھی، اس پاگل کو تو عادت ہے مجھے ڈانٹنے کی۔ میں تو بس ایسے ہی وہ دور جا رہی ہے نا مجھے تب ہی رونا آگیا۔
زیان: اوہ تو آپ جھوٹ بھی بولتی ہیں؟ زیان نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔ زیان کی مسکراہٹ ہمیشہ ہی بہت دل آویز ہوا کرتی تھی۔
جبین: آپ کیسے کہ سکتے ہیں کہ میں جھوٹ بول رہی ہوں؟ جبین نے گلاس لیا اور ایک ہی گھونٹ میں غٹاغٹ پی گئی۔
زیان: آنکھیں! انسان کی آنکھیں دل کا حال بتا دیتی ہیں۔ آپ لاکھ جھوٹ بول لو زبان سے مگر آپکی آنکھیں سب سچ سچ بتا دیں گی۔کسی کے دل کی بات جاننا ہو تو آپ اس کی آنکھوں میں جھانک لیں۔
جبین اس جواب کو سن کر نہ جانے کن خیالوں میں کھو گئی۔
زیان اور جبین کے درمیان ہونے والی اس گفتگو کو انجبین کچن کی کھڑکی سے سن رہی تھی۔ اسے جبین کا جواب بہت اچھا لگا تھا اسے اپنی دوست کو اس وقت بے پناہ پیار آرہا تھا۔
شام کے کھانے کے بعد مس یاسمین کے لاکھ روکنے کے باوجود جبین نے رکنے سے انکار کر دیا اور ماں کے ساتھ گھر جانے کے لیے تیار ہو گئ۔
انجبین نے بھی اسے روکنا چاہا لیکن وہ نہیں مانی۔ نکاح کے دن ملتے ہیں اسی روز مہندی بھی تو ہے نا۔۔۔۔ جبین مسکراتے ہوئے زیان کے قریب آئی،
جبین: چلیں زیان؟
زیان: ہاں چلیں۔
ان دونوں کو ایسے باتیں کرتے ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ کر انجبین جیسے بجھ سی گئی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...