احتشام اور سعد روہینہ اور واجد کی ہمراہی میں دیگر افراد اور مخالف پارٹی کی موجودگی میں جج کے منتظر تھے۔۔۔ مخالف گروہ سیٹھ رفیق نیازی اور اسکا اکلوتا بیٹا کورٹ میں انکی بائیں جانب تشریف فرما تھے ۔۔۔ احتشام کی زندگی اس وقت تلخ عیش تھی۔
جج کے آتے ہی سب احتراما اٹھ کھڑے ہوئے۔
“عدالت کی کاروائی شروع کی جائے”۔ جج اپنی مخصوص جگہ سنبھالتے با آواز بلند مخاطب ہوا۔
“جج صاحب میرے معقل ایس پی احتشام شامیر نے گزشتہ دنوں ایک گیسٹ ہاؤس پہ ریڈ مارتے زنا اور فحاشی جیسے جرائم سے پردہ فاش کیا تھا ۔۔۔ جس گیسٹ ہاؤس میں ریڈ ماری گئی تھی وہ ایس پی احتشام شامیر کی بہن مس روہینہ واجد کی ملکیت میں ہے ۔۔۔ انکے پاس گیسٹ ہاؤس کے اوریجینل ڈاکومنٹس نہیں یہ ایک ڈپلیکیٹ فائل ہے جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں”۔ کاروائی کا آغاز کرتے ایڈووکیٹ ہمایوں نے ٹیبل پہ رکھی فائل جج کے سپرد کی۔ ” اس بات کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں کہ یہ گیسٹ ہاؤس میرے معقل کی بہن کی ملکیت میں ہے آجکل جعلی کام کروانا کوئی مشکل نہیں ۔۔۔۔ اس بات کو بنیاد بنا کر میرے معقل کی سنسیڑیٹی پہ شک نہیں کیا جا سکتا”۔
“اوبجیکشن یور آنر”۔ سیٹھ رفیق نیازی کا مقرر کردہ وکیل میدان میں اترا۔ “جج صاحب یہ ہم میں سے ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈپلیکیٹ فائل ہے تو یقینا اسکی اصل بھی موجود ہو گی ۔۔۔ اس کیس میں بھی ایسا ہی ہے ان ڈاکومنٹس کی اصل کاپی موجود ہے جو کہ میرے پاس ہے ۔۔۔ آپ دیکھ لیجیئے”۔ بولتے ہی اسنے ہاتھ میں پکڑی فائل کو جج تک رسائی دی جسے جج نے ڈپلیکیٹ سے موازنہ کرتے چشم گزار کیا۔
“معذرت کیساتھ مسٹر جاوید اگر وہ گیسٹ ہاؤس مس روہینہ کے نام ہے تو اسکی اوریجینل آپ کے پاس کہاں سے آئی؟؟ اصولا یہ فائل تو مس روہینہ کی دسترس میں ہونی چاہیئے”۔ ہمایوں جو چیئر پہ بیٹھا تھا فورا سے اٹھ کھڑا ہوا۔ “ایسا اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کیونکہ یہ فائل سیٹھ رفیق نیازی کے اکلوتے صاحب زادے نے خود بنوائی ہے ۔۔۔ یہ گیسٹ ہاؤس بھی انہی کے نام تھا مگر گزشتہ سال انہوں نے بڑے عمدہ طریقے سے اپنی دوست مس روہینہ کے نام کر دیا تھا ۔۔۔ ایم آئی رائٹ مسٹر بلال؟؟”۔ تفصیل دیتے اس نے بلال کی جانب دیکھا جو سیٹھ رفیق نیازی کے برابر میں اسکی بائیں سائیڈ پشت پہ بیٹھا تھا۔
“کیا بکواس ہے یہ؟؟”۔ آپے سے باہر ہوتے اسنے نشست چھوڑ دی تھی۔
“بکواس نہیں مسٹر بلال یہ ایک سچ ہے جو آپکے کان سننے سے قاصر ہیں”۔ طنز کرتے ہمایوں نے ایک نظر جاوید کو دیکھا جو بلال کے مقابل تھوڑا فاصلے پہ بیٹھا تھا۔
“اوبجیکشن یور آنر ۔۔۔۔ یہ میرے معقل پہ بے بنیاد الزامات لگا رہے ہیں میرے معقل مسٹر بلال نیازی ایک نہایت شریف اور معزز انسان ہیں ۔۔۔ عورتوں کی عزت کرنا انکا شیوہ ہے ایسے میں بھلا یہ کسی لڑکی سے تعلقات کیوں استوار کرنے لگے؟؟”۔ چیئر سے اٹھتے جاوید نے بازی پلٹنے کی کوشش کی پھر نشست سنبھال لی جس پہ ہمایوں دلیل پیش کرنے کی غرض سے چیئر سے اٹھا۔
“لیکن مسٹر جاوید میں نے تعلقات کو تو ہدف بنایا ہی نہیں میں نے صرف اور صرف اتنا کہا کہ اپنی دوست کے نام کیا تھا آخر کوئی تو وجہ رہی ہو گی جو انسان دوستی سے سیدھا تعلقات تک جا پہنچا”۔ ہمایوں کی ٹوک نے گہرا وار کیا تھا جس پہ جاوید کے چھکے چھوٹے۔
“اوبجیکشن یور آنر”۔ بولتے ہی وہ سیٹ سے اٹھا۔
“اوبجیکشن اوور ڑولڈ”۔ جج کے انکار پہ جاوید مجبورا بیٹھ گیا تھا۔ “مسٹر ہمایوں آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں کیا آپ اس کو ثابت کر سکتے ہیں؟؟”۔ جج نے اسے مخاطب کرتے مزید کہا۔
“جی جج صاحب مگر اس کے لیئے میں مس روہینہ کو کٹہرے میں بلانے کی اجازت چاہتا ہوں”۔ ہمایوں نے اثبات میں سر ہلایا۔
“اجازت ہے”۔
جج کے اجازت دینے پہ روہینہ ہمایوں کی دائیں جانب کٹہرے میں آ کھڑی ہوئی۔
“مس روہینہ آپ مسٹر بلال کو کتنے عرصے سے جانتی ہیں؟؟”۔ روہینہ کے قریب جاتے ہمایوں نے سوالات کا سلسلہ شروع کیا۔
“چار سال سے”۔
“مس روہینہ آپ کورٹ کو ذرا کھل کر بتائیں گیں کہ آپ دونوں کے درمیان دوستی کی کیا نوعیت تھی؟”۔ ہمایوں نے مزید کہا۔
“بلال اور میں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے ۔۔۔ ہم دونوں شادی کرنا چاہتے تھے”۔ بلال کی جانب دیکھتے اسنے آہ بھری۔
“وٹ دا ہیل از دس؟؟ ۔۔۔ کون ہے یہ لڑکی میں تو اسے جانتا تک نہیں”۔ آگ بگولہ ہوتے بلال دوبارہ سے چیئر سے اٹھا مگر سیٹھ رفیق کے اشارے پہ مجبورا صبر کا گھونٹ بھرا۔
“تو مس روہینہ بتائیے گا کہ مسٹر بلال نے وہ گیسٹ ہاؤس آپکے نام کیوں کیسے اور کب کیا؟؟”۔ ہمایوں نے پے در پے سوال کرتے کہا۔
“سر مجھے نہیں معلوم تھا کہ وہ ایک گیسٹ ہاؤس ہے اور وہاں جوان نسل زنا جیسے گناہوں کی مرتکب ہوتی ہے ۔۔۔ ایک دن بلال کی کال آئی تھی کہ میں تم سے ملنا چاہتا ہوں میں اس سے یونیورسٹی کے سامنے ہوٹل میں ملنے گئی تھی”۔ روہینہ نے روتے ہوئے کہا۔
“اوبجیکشن یور آنر”۔ جاوید نے دوبارہ سے مداخلت کی۔
“اوبجیکشن اوور ڑولڈ”۔ جج کے کہنے پہ اسنے سیٹ سنبھال لی۔
“تھینکس یور آنر۔۔۔ تو مس روہینہ بتائیے گا کہ اسکے بعد کیا ہوا؟؟؟ مسٹر بلال نے آپ سے ملنے کی خواہش کیوں ظاہر کی؟؟”۔ بولتے ہی وہ دوبارہ سے روہینہ کی جانب متوجہ ہوا۔
“میری برتھ ڈے گزر چکی تھی اور بلال نے مجھے تحفہ نہیں دیا تھا اس وجہ سے بلال نے مجھے بلایا تھا اور مجھے یہ فائل دی تھی ۔۔۔ بلال نے مجھ سے کہا کہ یہ بنگلہ آج سے میرا ہے چاہے تو میں یہ فائل دیکھ سکتی ہوں”۔ بولتے ہی اسنے سر جھکا لیا۔
“تو کیا آپ نے اس وقت یہ فائل نہیں دیکھی تھی؟؟”۔
“میں نے فائل پہ سرسری نگاہ ڈالی تھی کیونکہ میں بلال پہ اعتماد کرتی تھی”۔ روہینہ نے تاسف سے کہا۔
“تھینک یو مس روہینہ ۔۔۔۔ جج صاحب یہ بات شیشے کی طرح صاف ہے کہ مسٹر بلال نے بڑی چالاکی سے گیسٹ ہاؤس مس روہینہ کے نام کروانے کے بعد انہیں ڈپلیکیٹ فائل دی تھی اور اصل اپنے پاس رکھی”۔ روہینہ کے بعد ہمایوں نے جج کا رخ کیا تھا۔
“آئی اوبجیکٹ۔۔۔۔ جج صاحب اگر آپکی اجازت ہو تو میں مس روہینہ سے کچھ سوالات کرنا چاہتا ہوں”۔ چیئر سے اٹھتے اسنے اجازت طلب کی جبکہ ہمایوں اپنی جگہ پہ آ بیٹھا تھا۔
“اجازت ہے”۔
“مس روہینہ جیسا کہ آپ نے بتایا کی مسٹر بلال نے آپکو کال کر کے ملنے کی خواہش ظاہر کی ۔۔۔ کیا آپ ان سے پہلے بھی مل چکی ہیں جو یوں ملنے کی حامی بھری آپ نے؟”۔ روہینہ کے قریب جاتے جاوید نے سوال کیا۔
“جی سر میں بلال سے ملنے جاتی تھی جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں کہ بلال اور میں شادی کی خواہش رکھتے تھے”۔
“تو پھر انہوں نے آپ سے شادی کیوں نہیں کی؟؟”۔
“اس بات کا مجھے علم نہیں”۔ روہینہ نے آنسو صاف کرتے کہا۔
“میں بتاتا ہوں کیونکہ آپ مسٹر بلال سے نہیں گیسٹ ہاؤس میں آنے والے ہر شخص سے ملتی تھیں اور ایک ملاقات کے بعد ملاقات کا سلسلہ لگا رہتا تھا”۔ جاوید نے سلگتے لہجے میں کہا۔
“نہیں یہ سچ نہیں ہے”۔ روہینہ چلائی۔
جاوید کی بات پہ واجد طیش میں آیا مگر احتشام کے اشارہ کرنے پہ اسنے جبرا خود کو پرسکون کیا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
احتشام کے متعاقب روہینہ اور واجد انصاری ہاوس میں داخل ہوئے ۔۔۔ بغیر صحن میں قیام کیئے احتشام سیڑھیاں چڑھتا روم میں چلا گیا تھا جہاں سندس ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑی اسی کی راہ دیکھ رہی تھی۔
“تم، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟؟”۔ روم میں اسکا وجود دیکھتے احتشام نے اپنی آنکھیں تیز دھار خنجر کی مانند اس پہ فکس کیں پھر پرواہ نا کرتے وارڈ روب کی جانب بڑھا۔
“تم سے ملنے آئی ہوں ۔۔۔ تمھارے لیئے فکر مند تھی بہت اس لیئے”۔ بولتے ہی سندس نے اپنے اور احتشام کے درمیان فاصلہ قدرے کم کیا۔
“کیوں فکر ہو رہی تھی تمھیں میری؟؟ ۔۔۔ میری بہن ہو؟؟ ۔۔ تائی ۔۔۔ ممانی ۔۔۔ چچی یا بیوی؟؟”۔ کپڑوں کی چھان بین کرتے اسنے کراہت سے کہا۔
“ان میں سے کچھ نہیں مگر بیوی بن سکتی ہوں اگر تم چاہو؟”۔ دل آویزی سے اسنے لٹوں کو سنوارا۔
“لگتا ہے جو واقعات رونما ہو چکے ہیں ان سے تم نے عبرت نہیں پکڑی ورنہ تمھارے لب یہ بات کرنے کی ہرگز جسارت نا کرتے”۔ وارڈ روب سے سوٹ نکالتے احتشام اس جانب گھوما۔
“کیا غلط کہا احتشام؟؟ ۔۔۔ نین تارا اس گھر سے جا چکی ہے جو تم نے خود نکالی ہے ۔۔۔ اب میرے ساتھ شادی کرنے میں کیا قباحت ہے؟؟”۔ احتشام کے مزید قریب ہوتے اسنے احتشام کا ہاتھ تھامنا چاہا جسے احتشام نے جھٹک دیا تھا۔
“نین تارا کا وجود بھلے اس گھر میں نہیں مگر اس دل میں اسکی خوشبو روز ازل سے قید ہے”۔ احتشام کے تنے ہوئے نقوش سندس کیلیئے اسکی نفرت عیاں کر رہے تھے۔
“بھول جاو اسے ایسا بھی کیا ہے اس میں؟؟”۔ سندس نے چڑ کر کہا۔
“وہ میرا تلخ ماضی نہیں جسے میں بھلا دوں ۔۔۔۔ میرا پر رونق آج ہے ۔۔۔۔۔ اور میرا درخشاں مستقبل”۔ احتشام نے سرد مہری سے کام لیا۔
“اتنی محبت وہ بھی ایک بد چلن ۔۔۔۔”۔
“چٹاخ”۔ اسکے بائیں گال پہ تھپڑ جڑتے احتشام نے اسکا چہرہ دوسری جانب لگا دیا تھا ۔۔۔ رخسار پہ ہاتھ رکھتے سندس نے اسکی تپش محسوس کرتے احتشام کی جانب غصیلی نظر اچھالی۔ “دفع ہو جاو یہاں سے اس سے پہلے کہ تمھارے یہ جبڑے بھی میرے ہاتھوں ٹوٹ جائیں”۔ غصے میں دھاڑتا وہ واش روم کی جانب بڑھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
پتہ نہیں اس گھر کو کس کی کالی نظر کھا گئی جو ایک کے بعد ایک مصیبت اس گھر کو اپنی گرفت میں لیئے ہوئے ہے ۔۔۔ نجانے کن گناہوں کی سزا مل رہی ہے یااللہ تو ہی میرے بچوں کے آنے والے کل میں آسانی پیدا کر”۔ ممتاز صحن میں بیٹھی عجیب کشمکش میں گھری تھی اسی دوران سندس غصے میں سیڑھیاں اترتے انٹرنس کی جانب بڑھی۔
“ارے سندس کہاں جا رہی ہو؟؟ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی تو آئی ہو”۔ چیئر سے اٹھتے ممتاز نے اسے پکارا۔
“جس گھر میں عزت نا ملے اس گھر میں رہنا بے کار ہے”۔ بولتے ہی وہ ممتاز کی جانب سرعت سے پلٹی۔
“کیا ہوا ہے سندس؟؟ احتشام نے کچھ کہا ہے؟؟”۔ قدم اٹھاتے وہ سندس کے قریب آئی۔
“کہا۔۔۔ آپکے بیٹے نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔۔۔۔ میں اتنے پیار سے اس سے بات کرنے آئی تھی اور وہ ۔۔۔۔۔ اس نے میرا ذرا لحاظ نہیں کیا اس نین تارا کی محبت نے اسے معرفت سے محروم کر دیا ہے کہ اسے کوئی رشتہ نظر ہی نہیں آتا”۔ احتشام کی انگلیوں کی مہر اسکے رخسار پہ نمایاں تھی ۔۔۔ پر زور تھپڑ کے انگاڑے اسکے رخسار پہ دہک کر اسکے غصے کو مزید ہوا دے رہے تھے۔
“ارے نہیں سندس میرا احتشام ایسا نہیں ہے ابھی وہ تھکا ہوا ہے اس وجہ سے اسے کوئی چیز اچھی نہیں لگ رہی ۔۔۔ اور کوئی وجہ نہیں ہے”۔ ممتاز نے متبسم انداز میں کہا۔
“پلیز خالہ بند کریں یہ ڈرامہ ۔۔۔ اپنے بیٹے کو پڑھا لکھا لیا مگر یہ نا سکھا سکیں کہ عورتوں کے ساتھ پیش کیسے آتے ہیں ۔۔۔۔ خیر یہاں تو آوے کا آوہ ہی بگڑا ہے جب ماں جھوٹ پہ جھوٹ بول سکتی ہے بیٹا بھی تو ایسا ہی کرے گا ۔۔۔ اس سے اچھے کی امید رکھنا بیکار ہے “۔ سندس نے سلگتے لہجے میں کہا۔
“سندس یہ تم ماما سے کس لہجے میں ہم کلام ہو؟؟”۔ سندس کی گرجتی آواز سنتے روہینہ اس جانب آئی۔
“اسی لہجے میں جسکی یہ حقدار ہیں ۔۔۔ اگر احتشام کی شادی میرے ساتھ نہیں کروانی تھی تو مجھے اور میری ماں کو اندھیرے میں کیوں رکھا تھا آپ نے؟؟ ۔۔۔ وہ آپکے ہر جھوٹ کو سچ سمجھ بیٹھیں اور میرے دل میں محبت کی اٹھتی چنگاڑی کو آپکی جھوٹی باتوں نے ہوا دے کر آگ میں بدل دیا”۔ سندس مزید برہم ہوئی۔
“سندس اپنی حد میں رہو”۔ روہینہ کی آنکھوں میں غصے کا سمندر تیرنا شروع ہوا۔
“حد میں ہی ہوں میں ۔۔۔ تم روہینہ ۔۔۔ تم نے میرے ساتھ کیا کیا؟؟ تم بھی تو آخر دھوکے باز ہی نکلی”۔ غیض و غضب میں بولتی وہ انٹرنس پار کر گئی تھی۔
سندس کے نئے روپ نے ممتاز کی پیشانی پہ اوس کے قطرے متعارف کرائے تھے۔
“اچھا ہوا ماما جو بھائی کی شادی اس ڈائن سے نہیں ہوئی ورنہ یہ تو ہماری گردنوں پہ تلوار بن کر لٹک جاتی”۔ سندس کا نظروں سے اوجھل ہونا تھا کہ روہینہ نے ممتاز کو مخاطب کیا۔
بے رنگ زندگی،، غم اور محرومی کی علامت ۔۔۔ کالے رنگ میں ملبوس احتشام روم سے نکلتا سیڑھیاں اترنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ روہینہ اور ممتاز سے بے اعتنائی برتتے اسنے انٹرنس کا رخ کیا۔
“احتشام بیٹا نین تارا ملی؟؟”۔ نین تارا کا نام اسکے کانوں کے پردوں پہ عطر کی مانند چھڑکا گیا تھا جس پہ اسکے پیروں میں زنجیر ڈلی۔
“بیٹھے بٹھائے آپکے ذہن میں نین تارا کا خیال کیسے گردش کرنے لگا؟؟”۔ حیرت سے وہ ممتاز کی جانب پلٹا۔
“بیٹا وہ تمھاری بیوی ہے ۔۔۔ تمھاری عزت۔۔ اس گھر کی اکلوتی بہو۔۔۔۔ کافی دن ہو گئے اسے دیکھا نہیں”۔ بولتے ہی وہ چیئر سے اٹھی۔
“بڑی جلدی خیال نہیں آ گیا؟ جب وہ آپکی نظروں کے سامنے تھی تب آنکھوں میں کھٹکتی تھی ۔۔۔ اب یاد آ رہی ہے آپکو کہ وہ میری عزت ہے۔۔ میری بیوی”۔ طنز کرتے احتشام نے تالیاں بجاتے اسے سراہا۔ “میری اس حالت ۔۔۔ بربادی اور بدنامی کی ذمہ دار صرف اور صرف آپ ہیں”۔
“احتشام بھائی وہ بی جان۔۔۔۔”۔ نازلی حواس باختہ اس طرف آئی۔
“کیا ہوا نازلی تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟؟”۔
“وہ بی جان بے ہوش ہو گئیں ہیں”۔
نازلی کی آگاہی پہ احتشام فورا سے قدسیہ بیگم کے روم کی جانب لپکا جبکہ ممتاز اور روہینہ بھی اسکے متعاقب تھیں۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے کمزوری کی بنا پہ ایسا ہوتا ہے ۔۔۔ آپ ان کی ڈائٹ کا مکمل خیال رکھیں انشاءاللہ جلد ہی صحت یاب ہو جائیں گیں”۔ قدسیہ کا معائینہ کرنے کے بعد ڈاکٹر واجد کے ہم قدم روم سے نکل گیا تھا۔
“نازلی جاو بی جان کیلیئے دلیہ بنا لاو”۔ نازلی کو مخاطب کرتے وہ قدسیہ کے قریب ہو بیٹھا۔
“احتشام میری نینی کدھر ہے؟؟ تم نے اسے تنہا کیوں چھوڑ دیا؟؟ اسے ڈھونڈا کیوں نہیں تم نے؟؟”۔ نین تارا کی کمی قدسیہ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی۔
“آپ فکر نا کریں بی جان نین تارا انشاءاللہ ضرور مل جائے گی”۔ قدسیہ کے قریب آتے ممتاز نے ہنس مکھ جواب دیا جبکہ احتشام نے لب بھینچ لیئے تھے۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
“درد میں بھی یہ لب مسکرا جاتے ہیں
بیتے لمحے ہمیں جب بھی یاد آتے ہیں
چند لمحات کے واسطے ہی سہی
مسکرا کے ملی تھی مجھے زندگی
تیری آغوش میں دن تھے میرے کٹے
تیری بانہوں میں تھیں میری راتیں کٹیں
آج بھی جب وہ پل مجھ کو یاد آتے ہیں
دل سے سارے غموں کو بھلا جاتے ہیں”
روم میں داخل ہوتے اسنے تاریک روم کو مصنوعی روشنی سے روشن کیا پھر قدم اٹھاتا وارڈ روب کی جانب بڑھا ۔۔۔ نین تارا کی دسترس میں مخصوص خانہ کھولتے احتشام نے اسکے کپڑوں کو ہاتھ لگاتے اسکی قربت کو محسوس کرتے اسکی خوشبو کو اپنے اندر سمونا شروع کیا تھا جہاں احتشام کی نظر بلیک جینز اور ریڈ شرٹ پہ گئی جنہوں نے اسے ماضی کی سنہری یادوں کی جانب دھکیلا۔
“احتشام آپ جانتے بھی ہیں کہ میں جینز نہیں پہنتی تایا ابو گھر پہ ہوتے ہیں کتنا آکورڈ لگے گا”۔
“نین تارا اب تم میری بیوی ہو تمھیں باقی سب کی پرواہ کرنے کی قطعا ضرورت نہیں ۔۔۔ تم پہ صرف اور صرف ایک انسان کی تابع داری فرض ہے اور وہ ہے ۔۔۔۔ احتشام شامیر”۔ بولتے ہی اسنے نین تارا کے شانوں کے گرد بازو حائل کیئے۔
بے ساختہ چاہت بھری مسکراہٹ نے اسکے لبوں کا احاطہ کیا ۔۔۔ وارڈ روب بند کرتے وہ بیڈ کی دائیں جانب آیا جو کبھی نین تارا کے سائے سے گھری رہتی تھی۔
“میرے کاندھے پہ سر کو جھکانا تیرا
میرے سینے میں خود کو چھپانا تیرا
آ کے میری پناہوں میں شام و سحر
کانچ کی طرح وہ ٹوٹ جانا تیرا
آج بھی جب وہ منظر نظر آتے ہیں
دل کی ویرانیوں کو مٹا جاتے ہیں
درد میں بھی یہ لب مسکرا جاتے ہیں
بیتے لمحے ہمیں جب بھی یاد آتے ہیں”
کشن سینے سے لپیٹے اسنے پشت بیڈ سے ٹکائی پھر وہیں فرش پہ بیٹھ گیا تھا اور آنکھیں موند کر یادوں کی کتاب سے صفحات تلاش کرنے لگا تھا۔
“احتشام میں نے آپکو کتنی بار منع کیا ہے کہ میرے پیروں پہ پیار نا دیا کریں”۔ وہ بیڈ پہ آنکھیں مینچے لیٹی تھی جب احتشام نے اسکے پیروں پہ جھکتے انکا بوسہ لیا جس سے وہ ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھی۔
“نین تارا جب میں تمھارے پیروں کو چومتا ہوں تو تمھیں عجیب کیوں لگتا ہے؟؟”۔ اسکے سامنے بیڈ پہ بیٹھتے احتشام نے لاپرواہی سے کہا۔
“بس مجھے اچھا نہیں لگتا کہ آپ میرے پیروں پہ پیار کریں”۔ نین تارا نے الجھن سے کہا۔
“اور جب میں تمھیں منع کرتا ہوں کہ میرے جوتوں کو ہاتھ نہیں لگاو گی تو بارہا کیوں انکی ترتیب سیٹ کرتی رہتی ہو”۔ احتشام نے بائیاں آبرو قدرے اوپر کو کیا۔
“احتشام آپ میرے شوہر ہیں اور یہ میرا فرض”۔ نین تارا نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
“اور یہ میرا حق ۔۔۔۔۔ جو میں وقتا فوقتا استعمال کرتا ہوں”۔ اسکا چہرہ ہاتھوں کی اوک میں لیتے احتشام مسکرا دیا تھا۔
☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...