گھر پہنچ کر رات کو سونے سے پہلے میں نے سر ربانی کی دی ہوئی فائل کا تسلی سے مطالعہ کیا
لڑکی کا نام سپنا تھا کسی پروفیسر سبحان کی بیٹی تھی گھر سے اکیڈمی ٹیویشن پڑھنے گئی تھی اور پھر واپس نہ آئی کسی نے راستے میں اغوا کر لیا یا خود چلی گئی گھر والوں کو کچھ پتہ نہ تھا
ساتھ میں لڑکی کی سابقہ سٹوڈنٹ حلیے میں بھی تصویریں موجود تھیں اور حالیہ طوائف کے حلیے میں بھی تصویریں لگی ہوئی تھیں اس کا موجودہ نام روبی بائی تھا پتہ بھی موجود تھا
اس لیے صبح سب سے پہلے اسی کیس پہ کام کرنے کا سوچ لیا تھا تاکہ اسے جلد سے جلد حل کیا جا سکے
_________________
جب سے اماں جان کی طبیعت خراب ہوئی تھی میں سر ربانی سے اجازت لے کے ان کے بنگلے سے اماں کے ساتھ سرکاری رہائش گاہ میں ان کے ساتھ رہتا تھا
مگر اماں کو اپنی صحت سے زیادہ میری شادی کی فکر لگی رہتی
آج بھی وہ پتہ نہیں کس سے چار پانچ لڑکیوں کی تصویریں لے کر آئیں تھی تاکہ میں ان میں سے اپنے لیے دلہن پسند کر لوں
ایک لڑکی نے بالکل ہانی کی طرح دوپٹہ سر پہ لے رکھا تھا سر کے پیچھے کے حصے پہ آگے سے سر ویسا ہی کھلا تھا وہ بھی ایسے ہی کرتی تھی
دوسری لڑکی نے بالکل اس جیسا میک اپ کیا تھا بہت سلیقے اور نفاست سے تیسری نے لائٹ گرین شرٹ پہن رکھی تھی بالکل ویسی ہی جیسی
ہانی نے اس برسات والے دن پہن رکھی تھی
پتہ نہیں کہاں سے خرید کے لائی تھی بس صبح سے میرے پیچھے ایک ہی بات کے لیے ہاتھ دھو کے پڑی تھی کہ میں اس کی تعریف کروں
بلکہ اس مقصد کے لیے مجھے چھت پہ زبردستی روک کے کھڑی تھی میں نے کہا بھی کہ اچھی لگ رہی ہو
ٹس سے مس نہ ہوئی بولی ویسے تعریف کرو جیسے فلموں میں ہیرو ہیروئن کی کرتا ہے
سیاہ کالے بادل آسمان پہ گرج رہے تھے موسم بہت خراب ہو رہا تھا کسی بھی وقت بارش شروع ہو جاتی
میں نے جان چھڑانے کے لیے کہہ دیا کہ
صبر کرو بارش ہونے والی ہے میک اپ اتر کر جب اصلی چہرہ مجھے نظر آئے گا پھر دل سے جی بھر کے تعریفیں کروں گا
برا منا کر چلی گئی اس دن کے بعد پھر کبھی ضد نہ کی
جبکہ سچ تو یہ تھا کہ میں تمام عمر اس کی تعریفیں کرتے گزار دیتا تو عمر ختم ہو جاتی لیکن اس کے حسن کے قصیدے ختم نہ ہوتے لیکن پتہ نہیں اس وقت کیوں مجھے اتنی جھجک محسوس ہو رہی تھی کہ اسے اتنا ہی کہہ دیتا
تم پریوں سے بھی زیادہ حسین لگ رہی ہو مگر شاید قسمت کو ہمارا بچھڑنا ہی منظور تھا اسی لیے ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب نہ آ سکے اور اسے بھی
اعجاز کی شکل میں اس کی پسند کا لڑکا مل گیا اس لیے وہ اس کے ساتھ چلی گئی
اور مجھے یقین تھا کہ وہ بے حد خوش بھی ہو گی
اسی لیے تو کبھی پلٹ کر نہ کسی سے ملنے کی کوشش کی نہ اپنی خیریت کی کوئی اطلاع دی
اگر وہ خوش ہے تو مجھے بھی اس کی خوشی میں خوش رہنا چاہیے ضروری تو نہیں ہر محبت کی منزل پہ ملن ہو
کبھی کبھی کہانیاں ادھوری بھی رہ جاتی ہیں
جنھیں ہم چاہ کر بھی مکمل نہیں کر سکتے اور میری اور ہانی کی کہانی بھی شاید ان میں سے ایک تھی
میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑی تمام تصویریں سائیڈ ٹیبل پہ رکھیں کیونکہ میں جتنی بھی کوشش کروں
ہانی مجھ سے الگ نہیں ہو سکتی تھی وہ مجھے ہر جگہ نظر آ تی ہر وقت ہر لمحہ میرے پاس رہتی
میں چاہ کر بھی خود کو اس سے جدا نہیں کر سکا تھا
وہ تو اپنی زندگی میں آگے بڑھ چکی تھی
اور میں وہیں کھڑا تھا
لیکن کیوں کھڑا تھا
ہانی کے انتظار میں جو کہ اب کبھی واپس نہیں آنی والی تھی
تو پھر میں وہاں کیوں رکا تھا
میرے پاس اپنے اس پاگل پن کا کوئی جواب نہ تھا
——————-
سر کے حکم کے مطابق ایک بار خود سپنا موجودہ روبی بائی سے خود ملنے کا فیصلہ کیا تاکہ اصل بات معلوم ہو سکے
دوسرے دن شام کو ایک اچھا سا سوٹ نکال کے زیب تن کیا اور روبی کے کوٹھے کی طرف چل دیا
بازار میں گاہکوں کی آمدورفت شروع ہو چکی تھی
میں اس کا پتہ پوچھتا اس کے کوٹھے پہ جا پہنچا دروازہ کھلا تھا اور تماشائی آ جا رہے تھے اندر سے گانے اور گھنگروں کی جھنکار باہر تک سنائی دے رہی تھی میں اندر داخل ہوا روبی سامنے سرخ قالین پہ ایک ماہر رقاصہ کی طرح محو رقص تھی اور تماش بین اس پہ پانی کی طرح نوٹ بہا رہے تھے میں بھی ایک کو نے میں بیٹھ کر تماشہ دیکھنے لگا
جتنا پیسہ اس کے قدموں میں بکھرا پڑا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ روبی اس کوٹھے کے لیے سونے کا انڈا دینے والی مرغی تھی جو کہ وہ آسانی سے کسی کے حوالے نہیں کرنے والے تھے
روبی کے پاس ہی اس کی مالکن نشیلی بائی بھی بلیو ساڑھی پہنے بیٹھی اپنی ڈھلتی جوانی کو میک اپ کی تہوں میں چھپانے کی پوری کوشش کر رکھی تھی
رات بارہ بجے تک رقص کی یہ محفل جمی رہی اس کے بعد روبی کے ساتھ رات گزارنے کے لیے بولی شروع ہو گئی
بیس ہزار جی پہلی بولی سیٹھ شمشاد نے لگائی
تو مہربان قدر دان
بیس ہزار ایک بیس ہزار دو
پچیس ہزار ،
تیس ہزار ،
اور آخر کار ساٹھ ہزار میں یہ بولی میرے نام ہو گئی
یعنی اب صبح تک روبی میری تھی
میں کمرے میں پہنچا
کمرے کے سامنے دیوار کے ساتھ جدید طرز کا قیمتی بیڈ سہاگ رات کی دلہن کی طرح سجا ہوا تھا
کلیوں اور تازہ گلاب کی خوشبو نےماحول کو خطرناک حد تک مسحور کن بنا دیا تھا
کمرے میں ٹیبل پہ جلتی کینڈلز اپنے رہنے والوں کے ذوق کا منہ بولتا ثبوت تھے میں نے
اپنے شوز اتارے اور آرام سے
کمبل لپیٹ کے بیڈ پہ لیٹ کے ارد گرد کے ماحول سے لطف اندوز ہو نے لگا
اچانک دروازہ کھلا اور روبی اپنے تمام تر حشر سامانیوں سے آ راستہ خراماں خراماں چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی بیڈ کی جانب چلی آ رہی تھی
نائٹ سوٹ میں اس کا جسم صاف جھلک رہا تھا
بلاشبہ وہ کسی بھی مرد کے ہوش اڑا سکتی تھی
جونہی اس نے پاؤں بیڈ پہ رکھے نازک پاؤں میں پہنی
پائل چھن چھن بجنے لگی
جیسے اس حسینہ سے محبت بھرے شکوے کر رہی ہو
میں نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا وہ شاید منتظر بیٹھی تھی کہ میں کب اس پہ چیل کی طرح جھپٹتا ہوں
میں اٹھ کے بیٹھ گیا
اور اس کے قریب آ گیا
اس کی سبز بڑی بڑی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے
کہا
سپنا روبی کیسے بنی ؟
روبی کو جیسے کرنٹ لگا وہ بیڈ سے اچھل کر کھڑی ہو گئی
کیا کہا تم نے؟اسے اپنی سماعتوں پہ یقین نہ آیا
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...