میر حیدر علی اور صائمہ بیگم عمرے کرنے جانے والے تهے حیدر علی سکندر کو اهم بزنس ڈیلز کے متعلق بتارهے تهے تب ہی صائمہ بیگم عنایہ کے کمرے میں آئیں
“میں نے اپنی بیٹی کو ڈسٹرب تو نہیں کیا”
دروازے پہ کهڑی صائمہ بیگم نے پوچها
“ارے مما. بالکل بهی نہیں…. آئیں”
وہ جو ارام سے لیٹی هوئی تهی انہیں دیکھ کر ایک دم اٹهی بیٹهی
وہ انہیں اپنی ماں کے جیسی هی عزت دیتی تهی جبکہ صائمہ بیگم بهی اسے اپنی بیٹی جیسا هی پیار دیتی تهیں
“جیتی رهو….”
اسکے سر پہ ہاتھ پهیر کراسکے برابر آ بیٹهیں..
“عنایہ.. تم خوش هو نا بیٹا سکندر کے ساتھ”
انکے لہجے میں نجانے ایسا کیا تها کہ عنایہ چونک کر انہیں دیکهنے لگی
“بتاؤ بیٹا”
“جی مما میں خوش هوں. ”
مضنوعی مسکراهٹ سجا کر بولی
“دیکهو بیٹا… تم سکندر کا خیال رکهنا اب تمہیں هی اسکا خیال رکهنا هے اسکے کام اپنے ہاتھوں سے کرو اسکے لئے کهانا بنانا اسے ٹائم دو”
پیار سے بولیں
“جی مما”
“اور دیکهو شوہر تب هی خوش هوتا هے جب اسکی بیوی خوش هو تم سمجھ رهی هو نا بیٹا”
“جی مما آپ فکر مت کریں میں پوری کوشش کروگی میری طرف سے انہیں کوئی شکایت نہیں هوگی”ایک پل کو عنایہ کا دل چاها انہیں بتا دے کہ آپکا بیٹا کسی اور سے پیار کرتا هے کسی اور سے شادی کا خواہش مند تها مگر پهر نجانے کیا سوچ کر نہ بول پائی
“جیتی رهو..”
“بس مما وہاں جاکر میرے لئے دعا ضرور کرنا آپ”
“بیٹا ماں کا دل تو هر وقت اپنی اولاد کے لئے دعاگو رہتا هے”
اسے گلے لگا کر بولیں
.
.
اور پهر اگلے دن بارہ بجے حیدر علی اور صائمہ بیگم عمرے کے مبارک سفر پہ روانہ هوۓ
.
.
.
“هیلو عنایہ”
دونوں کو ائیر پورٹ چهوڑ کر اس نے عنایہ کو کال کی اسکے سر میں درد تها اس وجہ سے وہ ائیر پورٹ نہ آسکی تهی
“جی”
وہ بس اتنا هی کہہ پائی
“سنو میں ضروری کام سے آفس جارہا هوں ایک میٹنگ هے تم اپنا بہت خیال رکهنا اور اگر طبعیت زیادہ خراب هوجاۓ تو مجهے کال کرنا یا تو پهر ڈرائیور کیساتھ ڈاکٹر کے پاس چلی جانا اوکے”
جلدی سے بولا
“اوکے”
عنایہ نے یہ کہہ کر کال کاٹ دی
“اونہہ. ضروری کام….
ملنا هوگا اپنی اسی معشوقہ سے… پہلے مما پاپا کا ڈر تها نا اب تو وہ بهی نہیں اب تو کهلی چهوٹ هے اپنی اس منحوس عاشقی سے پیار جتانے کی”
جل کر سوچا
“دلہن بی بی”
ملازمہ کی پکار پہ اپنے حسین خیالات سے باهر آئی
“ها… ہاں کیا ہوا؟”
“وہ دلہن بی بی آج کیابناؤں کهانے میں”
“اج…. یوں کرو چکن کڑاهی بنا لو”
کچهه سوچ کے بولی
“اور هاں.. سنو!!”
ملازمہ جو جانے کے لئے پلٹی هی تهی اسکی پکار پہ اسے سوالیہ نظروں سے دیکهنے لگی
“آج صاحب نہیں آئیں گے کهانے پہ تو تم یوں کرو کہ ان کا کهانا پیک کر دینا… بلکہ جب پیک کرنے لگو تو مجهے بلا لینا”
اسے هدایات دیتے هوۓ بولی
“جی دلہن بی بی”
کہہ کر ملازمہ کچن کی جانب بڑھ گئی
“بہت شوق هے نا شوهر صاحب آپکو عشق عاشقی کا جسٹ ویٹ اینڈ واچ”
سامنے لگی سکندر کی مسکراتی تصویر کو انگلی دکهاتے هوۓ بولی اور فریش هونے واش روم کی جانب بڑھ گئی
.
.
.
“دلہن بی بی کهانا تیار هے پیک کر دوں؟”
اس وقت وہ اپنے کپڑوں درست کر رهی تهی جب ملازمہ نے آکر اطلاع دی
“نہیں… میں پیک کر دوں گی. تم یوں کرو یہ کپڑے سمیٹ کر رکهه دو”
بیڈ پر بکهرے کپڑوں کی جانب اشارہ کرتے هوۓ بولی اور خود کچن کی طرف چل دی
کهانا پیک کرنے سے پہلے ایک چمچ بهرکے لال مرچ پاوڈر ڈالا
“کریں عاشقی اب…. خود بهی نوش فرمانا اور اپنی اس چڑیل محبوبہ کو بهی ٹهوسوانا”
مرچیں مکس کرتے هوۓ بڑبڑائی
“کچهه چاهیۓ دلہن بی بی آپکو”
“نن…. نہیں… اچها میں صاحب کے آفس جا رہی ہوں تهوڑی دیرمیں آ جاؤں گی”
ٹفن اٹهاتے هوۓ بولی.
.
.
.
“ایکسکوزمی.. سکندر صاحب هیں آفس میں”
عنایہ نے اسکی سکریٹری سے پوچها چونکہ وہ ولیمہ میں اس سے مل چکی تهی سو اسے پہنچان گئی تهی
“جی میم.. وہ اپنے آفس میں هیں آئیں میں آپکو لے چلتی هوں”
خوشدلی سے بولی اور عنایہ بهی مسکرا کر اسکے پیچهے هولی
“یہ آفس هے سر کا میم”
ایک شاندار کمرے کیطرف اشارہ کرتے هوۓ بولی
“تهینک یو”
مسکرا کر اسکا شکریہ ادا کیا
.
“مے آئی کم ان”
“یس پلیز”
بنا نظر اٹهاۓ فائل میں سر دیئے بولا
“یہ کهانا لائی تهی”
وہ ٹفن ٹیبل پہ پٹختی هوئی بولی
“ارے عنایہ تم… تم کب آئی… تمهاری طبعیت خراب تهی نا تو یہ سب لانے کی کیا ضرورت تهی… بیٹهو تم”
اسے آفس میں دیکھ کر سکندر کو خوشگوار سی حیرت هوئی تهی
ابهی عنایہ نے کچھ کہنے کو منہ کهولا هی تها کہ
ایک بے حد ماڈرن کپڑوں میں ملبوس قدرے سانولی سی لڑکی بے تکلفی سے دروازہ کهول کر اندر داخل هوئی
“آؤ سکندر چلیں…..”
سکندر کو مخاطب کرتے هوۓ بولی تبهی عنایہ کو دیکھ کر اسے بریک لگا
“هو از شی؟”
ناک چڑها کر عنایہ کو دیکها اور سکندر سے پوچها
“مائی وائف عنایہ… اور عنایہ یہ ثانیہ هے منیجر انکل کی بیٹی اور میریبہت بہت اچهی دوست”
سکندر نے دونوں سے ایک دوسرے کا تعارف کروایا
“نائس… خوشی هوئی آپکو یہاں دیکهکر”
عنایہ نے مسکراتے هوۓ یہاں لفظ پہ زور دیتے هوۓ کہا جبکہ سکندر نے چونک کر اسے دیکها
“سیم ٹو یو”
“اب جب تم کهانا لے آئی هو تو یہیں کها لیتے ہیں. آؤ تم بهی بیٹهو”
سکندر نے ثانیہ کو آفر کی جو منہ بنا کر بیٹھ گئی
“آپ لوگ کهانا کهائیں میں چلتی هوں”
اٹھ کر کهڑی هوگئی
“نہیں میں گهر سے کها کر آئی تهی آپ کے لئے پیک کرکے لائی هوں اچها چلتی هوں”
کہہ کر اپنی مسکراهٹ دباۓ دروازے کیطرف مڑی
اور باہر جاکر کهڑی هوگئی
“کیسی نک چڑهی بیوی هے تمهاری”
ثانیہ کی آواز سنائی دی عنایہ کا دل چاها اسکا سر پهوڑ دے مگر کنٹرول کر گئی
“اب ایسی بهی بات نہیں هے … تم چهوڑو باقی باتیں اور کهانا کهاؤ”
ٹفن کهولتا هوا بولا
“هاں هاں کهاؤ پهر تمهیں نانی کی کہانی یاد آئی گی کہ پرائی چیز کیطرف آنکھ اٹها کر بهی نہیں دیکهتے”
دانت پیستے هوۓ سوچا
اور اگلے هی لمحے اسے ثانیہ کی چیخ سنائی دی
“او ایم جی اتنی مرچیں افف… پانی سکندر پانی”
“سکندر تو جیسے پانی کی ٹنکی کهول کر بیٹها هے نا جو سکندر پانی کر رهی هے اونہہ”
جل کر سوچا اور مسکراتی هوئی باهرکی جانب بڑهی وہ چشم تصور سے اسکا برا حال هوتا دیکھ رهی تهی
“کهانی پڑتی هیں عشق میں مرچیں کیسی کیسی”
مسکرا کر سوچتی گاڑی کی طرف بڑهی جہاں ڈرائیور اسکا منتظر تها
~ ~ ~ ~ ~
“پلیز اللہ جی معاف کر دینا مجهے پتہ هے میں نے غلط کیا پلیز معاف کر دیں”
اس وقت وہ نماز سے فارغ هوکر دعا مانگنے میں مگن تهی
“مگر اس ثانیہ کی بچی نے بهی تو غلط کیا میرے شوهر پہ ڈورے ڈالنے کی کیا ضرورت تهی اسے اور تو اور مجهے نک چڑهی بهی بولا”
خشوع خضوع سے اللہ سے شکوہ کرنے میں لگی هوئی تهی اور سکندر نجانے کب کا آکر دروازے سے ٹیک لگاۓ دلچسپی سے اسے سن رہا تها
“اور آپ نے دیکها نا کتنی بے شرمی سے ان کا نام لے رهی تهی اچها هوا جو مرچیں لگی… مگر پلیز آپ مجهے معاف کر دینا اور اس منحوس عورت کو واش روم میں پهسلا دینا ٹانگ وانگ توڑ دینا اسکی اللہ جی آمین”
سکندر کے لئے اپنی هنسی کنڑول کرنا مشکل هو رها تها سو وہ جلدی سے لاونج میں آ بیٹها
“تو میڈم جی جل رهی تهی…. چلو تهوڑا سا اور جلا لیتے هیں”
مسکرا کر سوچا
“چاۓ لاؤں آپکے لئے”
اسکے سر پر کهڑی پوچهه رهی تهی
بلیک اینڈ وائٹ ڈریس میں همیشہ کیطرح بہت حسین لگ رهی تهی
“هاں پلیز ایک کپ چاۓ لادو”
اس پر سے نظریں هٹاتے هوۓ بولا
.
.
.
“ابهی اسکے لاۓ چاۓ لا هی رهی تهی جب اسکے کانوں میں سکندر کے فون کی بیل پڑی
اور وہ جو صوفے سے ٹیک لگاۓ آنکهیں موندے بیٹها تها چونک اٹها
“هاۓ ثانیہ کیسی هو ابهی تمهارے بارے میں هی سوچ رها تها”
کن اکهیوں سے عنایہ کیطرف بهی دیکها
اور چاۓ لاتی عنایہ جی جان سے سلگ اٹهی
“هاهاها…. نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں هے”
دوسری طرف سے نجانے کیا کہا گیا کہ سکندر کا قہقہہ بلند هوا
چاۓ کا کپ اسے پکڑا کر سامنے پڑا میگزین اٹها کر اسکے پیچهے کرسی پہ بیٹھ گئی
“هاں تو ایسا کرو کہ تم گهر آجاؤ کل تو ویسے بهی آفس کا آف هے آنکل سے میں بات کرلوں گا”
گهر آنے کی بات پہ عنایہ نے بری طرح پہلو بدلا
“اوکے تو پهر کل کا پورا دن ساتهه میں سپینڈ کریں گے”
“منحوس عورت افس میں آرام نہیں آیا جو اب گهر تک بهی پہنچ گئی آللہ کرے ٹانگ ٹوٹ جاۓ اسکی”
دل هی دل میں اسے کوستے هوۓ بولی
جبکہ سکندر سامنے لگے آئینے میں اسکے چہرے کے اتار چڑهاؤ دیکهکر انجواۓ کر رها تها
“عنایہ بات سنو!!”
مزید برداشت نہ هوا تو اٹهه کرجانے لگی تبهی سکندر نے کال بند کر کے اسے پکارا
وہ مڑ کر سوالیہ نظروں سے اسے دیکهنے لگی”کل ثانیہ آرهی هے تو ذرا کهانے کا انتظام کر لینا اچهے سے….. اور پلیز مرچوں پہ ہاتھ هولا رکهنا”
بظاهر سنجیدہ لہجے میں بولا ورنہ تو اسکے تاثرات دیکهکر اسکا دل قہقہے لگانے کا چاہ رها تها
“کیوں اسکے اپنے گهر میں کهانا پانی نہیں ملتا”
بے ساختہ زبان سے نکلا اور سکندر مسکرا دیا
“ملتا هے یار…. مگر کل سنڈے هے نا تو همارے ساتهه گزارے گی”
هنسی ضبط کرتا هوا بولا
اور وہ”اوکے” کہہ کر روم کیطرف بڑهه گئی
“هاۓ اللہ یہ جلتا هوا انگارہ….. ”
هنستے هوۓ سوچا
دوسری طرف عنایہ روم میں جاکر آنسو روکنے کی ناکام کوشش کرنے لگی
“چڑیل منحوس”
اس وقت اسے صائمہ بیگم شدت سے یاد آئیں
“مما دیکهیں اپنے بیٹے کے کرتوت…. میری تو کوئی ویلیو هی نہیں”
غائبانہ طور پہ صائمہ بیگم کو مخاطب کرتے هوۓ رو دی
¤ ¤ ¤ ¤ ¤ ¤
“ناشتے سے فارغ هوکر وہ لان میں بیٹهی تهی جب سکندر ہاتھ میں شرٹ تهامے اسکے قریب آیا
“عنایہ پلیز یہ جلدی سے پریس کردو”
شرٹ اسکی طرف بڑهاتے هوۓ بولا
“رضیہ کو بول دیں”
ملازمہ کا نام لے کر بولی
“ارے یار اسے تم نے خود تو مارکیٹ بهیجا هے”
اسے یاد دلاتے هوۓ بولا
“اوکے کر دیتی هوں”
شرٹ کهنچ کر بولی اور اٹھ کر اندر کی جانبروانہ هوگئی
جبکہ سکندر اسے محبت پاش نظروں سے جاتے دیکهتا رها
“آئی لو یو عنایہ”
مسکرا کر بولا
.
.
.
“اففف… کیا مصیبت هے”
زندگی میں کبهی استری کو ہاتھ نہ لگانے والی عنایہ کو جب استری کرنا پڑی تو جهنجهلا گئی
اور پهر اپنے ہاتھ پہ چار پانچ استری کے نشان لگوا کر وہ ایک شرٹ پریس کرنے میں کامیاب هوئی تهی
“عنایہ…. یہ کیا کر دیا یار”
اسے شرٹ پکڑاتے هوۓ جونہی سکندر کی نگاہ اسکے دودهیا ہاتهوں پہ پڑی وہ چونک گیا
“کچهه نہیں…. جائیں جاکر تیار هوجائیں… آپکی مہمان آنے والی هے”
ہاتھ کهنچتے هوۓ بولی
“چپ چاپ یہاں بیٹهو تم….”
اسے بیڈ پہ بیٹها کر خود دوا لے آیا
“ایم سوری عنایہ…. میری وجہ سے تمهیں اتنا درد ہورها هے”
دوا لگاتے هوۓ بولا
جبکہ عنایہ ضبط کے باوجود بهی آنسو نہ روک پائی
“عنایہ یار پلیز رو تو مت….. اتنا پانی کہاں سے لے آتی هو”
اسکے آنسو صاف کرتا هوا بولا
“چهوڑیں…. جاکر ریڈی هو جائیں آپ”
اٹهتے هوۓ بولی اور وہ جلدی سے اٹھ کر اسکے سامنے آگیا
“ناراض هو کیا”
ہاتھ باندهتے هوۓ بولا
“نہیں….. مجهے کام هے”
آنکهیں رگڑتی باهر نکل گئی جبکہ سکندر ٹهنڈی سانس بهر کر واش روم کی طرف بڑها……
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...