اشعر آپ مجھے کہاں لےجا رہے ہیں – تم چُپ نہیں بیٹھ سکتی بیا کے پوچھنے پر اشعر نے گھور کر کہا
پھر بھی اشعر پتا تو چلے خالہ لوگ پریشان ہو رہے ہوں گے آپ نے بتانے بھی دیا پتا نہیں کس بات کی جلدی تھی
میں تمہیں اغواء کر کے لےجا رہا ہوں اور تمہاری خالہ لوگوں سے جب فون کر کے توان مانگو گا تو پتا لگ جائے گا اُنہیں
لیکن اشعر- – –
بس کر دو یار میں یہاں تمہارے ساتھ کچھ ٹائم سپینڈ کرنا چاہتا ہوں اور تمہارے کب کہاں کیوں کے سوال ہی ختم ہو رہے
اشعر کے کہنے پر بیا منہ بسور کر بولی ٹھیک ہے اب نہیں بولو گی اور گھر جا کر جواب بھی خود دیجیے گا
دےدوں گا اور بیا کا ہاتھ پکڑ لیا
اشعر یہ کیابتمیزی ہے
لو میں تو ابھی کچھ کیا ہی نہیں (بیا کا اشارہ ہاتھ پکڑنے کی طرف تھا جیسے اشعر نے سرے سےاگنور کرتے ہوئے کہا)
اور بیا اشعر کی معنی خیزی پر کھڑکی کی طرف منہ کر گئی
بیا ڈو یو لو می
نہیں منہ سیدھا کیے بنا کہا
بٹ آئی لو یو اینڈ لو یوالاٹ اشعر نے بُرا مانے بغیر کہا
تمہیں پتہ ہے بیا میں تمہیں پتہ نہیں کب سے پسند کرتاہوں اور یہ پسند محبت میں پتہ کب بدلی
اور بیا نے بلش ہوتے ہوئے نہ چاہتے ہوئے بھی نفی میں سر ہلایا
جب ایک بار میں پیپرز سے فری ہو کے لاہور گیا تھا اور خالہ نے تمہیں کسی بات پر ڈانٹا تو تم کمرہ بند کر کے بیٹھ گئی تھی اور میرے منانے پر میرے گلے لگ کر روئی تھی اور مجھے اپنی رام کہانی سُنائی یقین کرو بیا میں نے ایک لفظ نہیں سُنا میں تو تمہارے چہرے کے اُتار چڑھاؤ میں کہیں کھو گیا تھا
اشعر ہنسا جیسے کچھ یاد کر کے مسکرایا ہو
اور بیا بھی کیسے بھول سکتی تھی وہ دن کیونکہ اُسے امی اور زاور بھائی سے ایک ہی بات پر دونوں کی پہلی بار ڈانت پڑی تھی کیونکہ بیا نے ساتھ والوں کے کتے کو چوہے مار دوائی کھلا کر ہسپتال پہنچا دیا تھا آوے تجربہ کے لیے کے چوہوں کی دوائی سے کتوں کو کیا ہوتا ہے
اور اشعر کے گلے لگنے پر بھی امی نے بعد ازاں اس کی الگ کلاس لی تھی
بیا تب تم مجھے اتنی اپنی لگی تھی کہ دل کیا تمہیں خود میں سمو لو اور کبھی رونے نہ دوں
اور بعد میں جب امی ابو نے مجھ سے پوچھا کہ تم مجھے کیسی لگتی ہو کیونکہ وہ خالہ سے تمہیں میرے لیے مانگنا چاہیتے ہیں تو میرے دل کی کلی کھل گئی اور تم ہمیشہ کے لیے میری ہو گئی
بیا اشعر کے چہرے پر اپنے لیے محبت دیکھتی رہی تھی
کیا بہت ڈیشنگ لگ رہا ہوں اشعر نے بیا کا ہاتھ پکڑ کر کھنچا اور بیا کی طرف جھکتے ہوئے کہا(اشعر نے بیا کی محویت پر چوٹ کرتے ہوئے کہا) بیا نظرے چراتے ہوئے پیچھے ہوئی
ابھی کوئی کہہ رہا تھا کہ اُْسے مجھ سے محبت نہیں اور ابھی ٹکٹکی باندھ کر دیکھا جا رہا ہے کیا نظر لگانی ہے یا یقین نہیں آ رہا کہ اللہ نے یہ خوبصورت ڈیشنگ بندہ تمہارے نصیب میں لکھ دیا ہے اشعر نے بیا کی طرف مزید جھکتے ہوئے کہا
بیا نے اشعر کو پیچھے کیا اور آنکھیں بند کرکے اپنی گھبراہٹ پر قابو پایا
اور جب گھڑی پر نظر پڑ ی تو احساس ہوا کہ دو گھنٹے گزر گے
اشعر چلے واپس چلے دیکھے کتنا ٹائم گزر گیا
اور اشعر نے بھی گاڑی واپسی کے لئے موڑ دی اور سوچنے لگا کے دو گھنٹوں کا پتا بھی نہیں لگا زندگی بھی ایسے ہی بیا کے سنگ ہنستی مسکراتی گزر جائے گی
تیرے پہلو میں سر ہو
ہاتھوں میں ہاتھ اور
موت آجائے
خدارا ایسی موت ہو تو
ہزاروں موت مر جاؤں
_+_+_+_+_+_
اگلے دن آفس آنے پر زوباریہ نے آفس بوائے سے اسفند کا پوچھا اور غیر حاضری کا سُن کر فکرمند ہونے لگی
کیا ہوا تمہارے منہ پر کیوں 12 بجے ہیں سارا نے اسفند کے کیبن میں آکر اُس کے چہرے کا ملاحظہ کرتے ہوئے کہا
کچھ نہیں یار سوچ رہی تھی ہوں اسفند سر تو آئے نہیں آج اپنے کیبن میں چل کر کام کر لوں
اوئے سر سے یا آیا تمہیں باس نے یاد کیا ہے سارا سر ہر ہاتھ مار کر بولی اور نکل گئی
زوباریہ باس کے آفس میں دستک دے کر اجازت ملنے پر اندر گئی
بیٹھیے زوباریہ اور ایسا ہیں کی اسفند ابھی کچھ دن آفس نہیں آئے گے تو پیچھے آپ کو کام سنبھالنا ہے اسفند فون کے ذریعے آپ سے انٹچ رہے گے ٹھیک ہے نا
جی سر
I hope you manage everything
Insha Allah sir
Good اب آپ جا سکتی ہیں
اینی پرابلم زوباریہ کے کھڑے رہنے پر باس بولے
نہ نہیں سر اور اسفند کی کیبن میں آ گئی ابھی آ کر پوری طرح بیٹھی بھی نہیں تھیکہ فون کی گھنٹی نے اُٹھنے پر مجبور کیا
ہیلو
مس خان اسفند بات کر رہا ہوں
جی سر
میں کچھ دن آفس نہیں آ سکوں گا آپ ایسا کریں سیلری والی فائل اور دوسری جو میں نے کل آپ کو دی تھی دونوں کو ایڈ آپ کر کے بیلنس شیٹ کا ایک رف ڈرافٹ بنا کر مجھے میل کر دیں – ٹھیک ہے
جی سر
اوکے اور اگر کوئی پرابلم ہو تو میرے پرسنل سیل رابطہ کر لیجیے گا اور فون بند کر دیا
زوباریہ جو سوچ رہی تھی کہ آفس نا آنے کی وجہ پو چھے فون کان سے لگائے ٹو ٹو کی آواز سُنتی رہ گئی
_+_+_+_+_+_+_
ارم کی بچی تم جان بوجھ کر مجھے واک کے لیے لے کر گئی تھی نہ نیچے
بیا نے گھر آ کر ارم کی کلاس لینی چاہی تھی لیکن ارم کی دبی دبی ہنسی کی وجہ سے وہ صحیح سے ڈانٹ بھی نہیں پا رہی تھی- پھربیا نے گھور کے ارم کو دیکھاتم نے مجھے کیوں نہیں بتایا اور ایک کشن ارم کو دے مارا. ارم نے کشن کیچ کرتے ہوئے کہا تم بتاؤ مزا نہیں آیا میرے بھائی ساتھ – بیا نے جھینپ کر سر جھکایا تو ارم نے بیا کی طرف جھک کر کہا لگتا بہت مزا آیا جو شرمایا جا رہا ہے تو بیا نے اپنی جھینپ مٹانے کو پاس پڑے سب کشن ارم کی طرف اُچھالنے شروع کر دیےتو ارم زور سے ہنسنے لگی اور تھوڑی دیر بعد کمرہ دونوں کے قہقہوں سے گونج رہا تھا
_+_+_+_+_
دوسرے دن بھی زوباریہ اسفند کی غیر موجودگی میں ہی کام کر رہی تھی جب فون کی بیل پر فون اُٹھایا تو دوسری طرف اسفند ہی تھا جو کام کی بات کر کے فون رکھنے ہی لگا تھا کہ زوباریہ بول پڑی
ایک منٹ سر
جی مس خان کہیے اینی پرابلم
وہ سر
جی میں سُن رہا ہوں
وہ سر آپ ٹھیک ہیں نہ آئی مِین آپ آفس کیوں نہیں آرہے زوباریہ نے فوراً بات بنائی کے کہیں وہ کچھ اور نہ سمجھ لیں
اسفند نے خوشگوار حیرت سے کہاجی میں ٹھیک ہوں بس گھر میں تھوڑی پرابلم ہو گئی ہے
سر اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو کیا آپ کی پرابلم جان سکتی ہوں نہ چاہتے ہوئے بھی زوباریہ پوچھ بیٹھی
دوسری طرف اسفند نے سوچا کہ یہ زوباریہ ہی ہے جو سامنا ہونے پر حال نہیں پوچھتی آج پرابلم پو چھ رہی اور بولا
وہ دراصل میرے بھتیجے ساتھ چھوٹا سا حادثہ ہو گیا ہے
اینی تھنگ ایلس مس خان
نہ نہیں سر
اوکے میں رکھتا ہوں اپنا خیال رکھیں گا
_+_+_+_
جب سب فائل ریڈی ہو گئی تو زوباریہ سوچنے لگی اب کیا کریں کیونکہ وہ اتنی لمبی چوڑی تھی کہ اسفند کو میل بھی نہیں کی جا سکتی تھی
بہت سوچنے کے بعد زوباریہ نے اسفند کو فون ملایا جو ایک دو بیل کے بعد رسیو کر لیا گیا
جی مس جان کہیے سلام دُعا کے بعد اسفند نے پوچھا
ایکچولی سر فائل کا رف ڈرافٹ ریڈی ہیں تو کیا ایسا نہیں ہو سکتا آپ آدھے گھنٹے کے لئے آفس آ کر چیک کر لیں
دیکھے مس خان میں آسکتی تو ضرور حاضر ہوتا لیکن نائل ایک منٹ کے لئے مجھے اُٹھنے نہیں دیتا تو ایسا ہے کہ آپ فائل لے کر میری طرف آ جائے
وہ جو غور سے اسفند کی باتیں سُن رہی تھی ایک دم چونک گئی
سر میں – – –
جی آپ
لیکن سر میں کیسے آسکتی ہوں
دیکھیے مس ہمیں یہ رپورٹ اسی ماہ تیار کرنی ہیں اور میں مزید ایک یا دو دن حاضر نہیں ہو سکتا کام ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ فائل لے آئے
ٹھیک ہے سر میں فائل ڈرائیور کے ہاتھ بھیج دیتی ہوں
مس خان یہ اڈیٹ رپورٹ ہیں اور اس کا ڈیٹا مکمل ہونے سے پہلے لیک آؤٹ نہیں ہونا چاہئے اور میں ڈرائیور تک پر بھروسہ نہیں کرسکتااور دوسری بات میرے گھر میری امی موجود ہیں کہتی ہیں تو اُن سے بات کروا دیتا ہوں
نہیں سر ایسی تو کوئی بات نہیں میں آجاتی ہوں
گوڈ میں ذوالفقار صاحب سے کہہ کر گاڑی ارینج کروا دیتا ہوں اور فون بند کر دیا
وہ فون ہاتھ میں پکڑے ابھی تک حیران تھی کہ اُس کے دل کی بات اسفند کو کیسے پتا لگی کیا وہ میرے دل تک رسائی حاصل کر چکا ہے
کس سے بات ہو رہی ہے جو فون رکھنے کو دل نہیں کر رہا
سارا نے اندر آ کر اسے جاموشی سے فون کان سے لگائے دیکھا تو پوچھ لیا
بکو نہیں اور جلدی جلدی فائل اکٹھی کرنے لگی اور لیپ ٹاپ بھی شٹ ڈاؤن کیا
کہیں جا رہی ہو سارا نے پوچھا
ہاں اسفند سر کے گھر یہ ڈیٹا چیک کرانا
اوووووو سارا نے سیٹی کی طرح ہونٹوں کو گول کیا اور آنکھیں گمائی
زوباریہ نے دھیان نہیں دیا پتا تھا اُسے کے کچھ کہے گی تو وہ اور پھیل جائے گی
تبی آفس بوائے نے گاڑی تیار ہونے کا کہا تو وہ ڈوپٹہ درست کرکے چیزیں پکڑتی باہر نکل گئی
_+_+_+_+_
گھر میں شادی کے ہنگامے کیا شروع ہوئے ہر بندہ مصروف ہو گیا
بیانےکافی دنوں سے ڈھلک کا کہا تھاجو آج مہندی سے ایک دن پہلے آئی
اور اب صبح سے اطہر اظہر کے ساتھ مل کر گانوں کو برباد کر رہی
ٹپے گاتے ہیں اظہر نے کہا
مجھے نہیں آتے بیا نے کہا
گانے تو جیسے بہت آتے نہ تم لوگوں کو ارم نے پیچھے سے ہانک لگائی
ابھی نیٹ سے نکال لیتے ہیں اظہر نے چٹکی بجا کر حل پیش کیا
اطہر نے بھی سر ہلایا تو دونوں موبائل پر نیٹ کھول کر بیٹھ گئے
ارم یار تمہاری کزنز کب آئے گی بیا نے بور ہوتے ہوئے کہا
کل کی ڈیٹ سے جی نہیں بھرا جو ابھی بور ہو رہی ہو اطہر نے بیا کی طرف جھکتے ہوئے کہا
بیا نے فوراً گھبرا کر خالہ کی طرف دیکھا لیکن وہ متوجہ نہیں تھی تو شکر کا سانس لیا اور اطہر کے مکا مارا تو وہ ہائے ہائے کرنے لگا
بیا کتنا بھاری ہاتھ ہیں تمہارا اشعر بھائی کی تو خیر نہیں
تمہاری اُس انعم سے ہلکا ہی ہے اب سٹپٹانے کی باری اطہر کی تھی اورادھر اُدھر دیکھا کہ کسی نے سُنا تو نہیں پر سب اپنے کاموں لگے تھے
کو کو کون انعم
اطہر نے ہکلاتے ہوئے پوچھا تو بیا نے آنکھوں میں شرارت لیے کندھےاچکائے
بیا نے کل اُس کے موبائل سے گھر بات کی تھی بعدکسی انعم کا میسج آنے پر سیل اطہر کو واپس کر دیا لیکن آج اُس کےچھڑنے ایوے ہوا میں تیر چلایا جو نشانے پر لگا
تم نے کل میرا سیل اس لیے تھا آج کے ہاتھ تو لگاناپھر بتاؤ گا
اوو بھائی اب تو ہوگیا جو ہونا تھااب تو تم دیکھو میں کرتی کیا ہوں بیا نے اسکےچڑنے پر اورچڑایا تو وہ جھنجھلاتے ہوئےنہ صرف لاؤنج بلکہ گھر سے باہر نکل آیا
_+_+_+_+_
گاڑی جیسے ہی اسفند کے گھر گرا ج میں آ کر رکی اور زوباریہ باہر نکلی اتنی دیر میں اندر سے اسفند اور ایک نفیس سی خاتون باہر آئیں جو یقیناً سر کی مدر ہو گی لیکن چالیس سے زیادہ نہیں لگ رہی تھی
آئیے مس خان
زوباریہ جھجکتے ہوئے آگےبڑھی اور دونوں کو مشترکہ سلام کیا
اسفند نے سر ہلا کر سلام کا جواب دیا تعارف کی رسم نبھاتے ہوئے کہا یہ میری ماں ہیں اور امی یہ مس خان ہی جبکہ مسز ہمدانی نے آگے بڑھ کر خود گلے لگایا اور ماتھا چومتے ہوئے جواب دیا
اور زوباریہ اسفند کے سامنے اسیے استقبال پر گال شرمندگی سے لال اور آنکھوں نم ہو گئی پھر خود کو سنبھالتے ہوئے اُن کے حال اور نام پوچھنے پر جواب دینے لگی اور اسفند اس کے رنگ بدلتے چہرے سے نظریں نہ ہٹا سکا
آؤ بیٹا اندر چلےاور زوباریہ کو لے کر اندر چلی گئی اور اسفند نے سر جھٹکتے ہوئے اندر کی طرف قدم بڑھائے
امی کوئی چائے پانی پوچھا مس خان لائیے فائل مجھے دیں میں دیکھ لیتا ہوں
اسفند نے دونوں کو بیک وقت مخاطب کرتے ہوئے کہا
نہیں سر کچھ نہیں لوں گی میں بس آپ یہ فائل چیک کر لیں
میں نے آپ سے تو نہیں پوچھا اسفند نے فائل لیتے ہوئے کہا تو وہ جو شرمندہ تھی اب مزید شرمندگی سے آنکھیں نہ اُٹھا سکی
ارے بیٹا اسکی تو عادت ہے تم بُرا نہ مانو اور بیٹھومیں کچھ لاتی ہوں مسز ہمدانی کے کہنے پر چاہنے کے باوجود انکار نہ کر سکیں تو اسفند اُسکے تاثرات دیکھ کر اپنی مسکراہٹ فائل کے پیچھے چھپا گیا-
_+_+_+_+_
اسفند نے فائل چیک کرتے زوباریہ کودیکھا جو صوفے کے کنارے پر سر جھکائے ایسے بیٹھی تھی جسے ابھی بھاگ جائےگی
مسز ہمدانی نے اندر آتے ہوئے اسفند کا زوباریہ کو نظر بھر کر دیکھنا نوٹ کیااور سمجھ گئی کہ یہی وہ لڑکی ہے جس کا ذکر اسفندنے کیا تھا
اتنی دیر میں میڈ نے ٹیبل چائے سنیکس سے بھر دیا اور چائے بنانے لگی
بیٹا تم ایسے کیوں بیٹھی ہو ایزی ہو کر بیٹھو اورچائے پکڑانے پر کچھ اور لینے کو کہا جب اُس نے کسی بھی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تو وہ سمجھ گئی کہ وہ اسفند کی وجہ سے جھجک رہی ہے
اسفند چلو اُٹھو اور اسٹڈی میں جاؤ تمہاری وجہ سے بچاری بچی پریشان ہو رہی ہیں
اس سے پہلے کے اسفند اُٹھ کر جاتا کسی کے چلانے کی آواز آئی اور اسفند اوپر کی طرف بھاگا اور پیچھے مسز ہمدانی بھی گئی
_+_+_+_+_
آج مہندی تھی اور خالہ نے صبح ہی بیا کو ایک سوٹ دیا کے وہ یہ پہنے گی مہندی پر بیا نے انکار کرنا چاہا لیکن امی کے کہنے پر رکھ تو لیالیکناب کھولا تو دیکھا وہ پِنک انڈین لہنگاتھا جس پر ریڈ کڑاہی ہوئی تھی سیلور کُرتی ساتھ ریڈ نیٹ کا ڈوپٹہ جس کے چاروں طرف باڈر پرپِنک ویلوٹ کی ایپلک کے اوپر سلور کڑاہی ہوئی تھی
بیا تیار ہوکر باہر آنے کی بجائے ارم پاس آ گئی واہ بیا تم تو گڑیالگ رہی ہو اور بیا جھینپ گئی
بیا کی بچی باہر سب تمہارا پوچھ رہے ارم کی کزن ماہانے اندر آ کر کہا
کیوں میں سب سے اُدھار لے کر بھاگی ہوں مجھکو کیا پتا. تائی امی پوچھ رہی گجرے اور ارم کا زیور منگوا لیے
ہاں وہ فریج میں ہیں
اچھا باہر آ ؤاطہر بھائی بھی بُلا رہے
کہاں ہے اطہر بیا نے لہنگا سنبھالتے ہوئے پوچھا اور اطہر کے پاس باہر لان میں آ گئی جہا ں مہندی کا ارینجمینٹ تھا کمال ہے تم مریض مارنے کے علاوہ ڈیکلریشن بھی اچھی کر لیتے ہو
اطہر جواپنے ہمم عمر کزنز ساتھ سٹیج کو گیندے کے پھولوں اور سبز ڈوپٹوں سے سجا رہا تھا بیا کی مشکوک تعریف پر موڑا اور آنکھوں میں ستائش لیے بولا اور تم زندگی میں پہلی بار اچھی لگ رہی ہو
شکریہ زندگی میں پہلی بار تعریف کے لیے اور موڑیں تبی باہر سے آتے اشعر بیا کو دیکھ کر رُکا اور دیکھتا ہی رہ گیا
ایک لڑکے نے دوسرے اور دوسرے نے تیسرے کویوں سب نے مل کر اشعر کی طرف اشارہ کیا اور مل کر زور سے اووووووکی آواز نکالی کے ارد گرد کے مہمانوں نے بے ساختہ کانوں پر ہاتھ رکھے اور اشعر اور بیا کی طرف دیکھنے لگے تو بیا گھبرا کر پاؤں سر پر رکھ کر بھاگی اور اشعر اپنی جھینپ مٹانے کو بالوں پر ہاتھ پھیرتا اندر بڑھ گیا
جب ارم کو لال ڈوپٹے جس میں ہری اور پیلی چوڑیاں لٹک رہیں تھیں کے سائے میں سٹیج تک لائے تو سب نے ایک ایک کر کے رسم کی
بیا سٹیج کے سامنے بیٹھی عائشہ بھابھی سے شادی بھابھی اور زمان بھائی کے نا آنے کا پوچھ رہی تھی جب نظر اشعر پر پڑی جو سفید کلف لگا شلوار سوٹ پہنے سٹیج کی طرف بڑھ رہا تھا
نظر لگانی ہیں میرے بھائی کو اطہر نے بیا کے پاس آکر کہا
یار یہ رسم ختم ہونے کے بعد کیوں تیار ہوئے ہیں کیونکہ وہ بیا کے ساتھ وہی صبح والے ٹروزر شرٹ میں ارم کی رسم کر چکا تھا
بیا ڈیر میرے بھائی کی آج منگنی ہے
کیا منگنی لیکن مجھے تو کسی نے نہیں بتایا اور نظرے جھولے پر بیٹھتے اشعر پر گاڑ دی
تمہیں کیوں بتاتے تم سے تھوڑی منگنی
اطہر مذاق کر تو بیٹھا لیکن بیا کی آنکھوں میں چمکتے آنسو دیکھ کر جلدی سے بولا مذاق کر رہا ہو
بیا کہاں کھوئی ہو امی کب سے تمہیں اوپر سٹیج پر بَلا رہیں ہیں عائشہ بھابھی نے آ کر بیا کو کہا تو وہ ہوش میں آئی – اوپر آئی تو امی نے اُسے جھولے میں اشعر ساتھ بیٹھا دیا تو زاور بھائی نے آ کر بیا کو سینے سے لگایا اور کہا آج میری شہزادی کی منگنی ہے اشعر کے کہنے پر تم سے چھپایا تھااب حیران ہونا بند کرو تو سب مشترکہ قہقہے نے بیا کے حیرت؛ سے کھُلے منہ کو بند کیا
سب کی ہوٹنگ میں دونوں نے ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنائی سفینہ بیگم کے کہنے پر ایک ماہ بعد کی ڈیٹ بھی رکھ دی گئی اور بیا چاہ کر بھی کچھ کول نا سکی کیونکہ سب اتنی جلدی میں ہوا کے بیا کیا اشعر کو بولنے کا موقع نہ ملا
_+_+_+_+_
زوباریہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ اسفند اور مسز ہمدانی ک پیچھے اوپر جائے یا نیچے ہی ان کا انتظار کرے آخرکار اس نے قدم سیڑھیوں کی طرف بڑھائے اور اندازً جس کمرے میں وہ گئے تھے وہاں آگئی
سامنے کا منظر دل دہلانے کے لیے کافی تھا ایک چھ سات سال کا بچہ جس کے بازو اور پاؤں پر پلاسٹر تھا ماتھے پر بھی پٹی بندھی تھی آنکھیں بند کرکے مما مما چلا رہا تھا اور اسفند اور مسز ہمدانی کے سنبھلنے پر بھی نہیں سنبھل رہا تھا
زوباریہ اپنے آپ کو روک نہ سکی اور اسفند کی پاس جا کر بچے کی کرفیو جھکتے ہوئے بولی بیٹا آنکھیں کھولو اور بچہ جو اسفند جیسے مرد سے بھی سنبھل نہیں رہا تھا زوباریہ کی آواز پر پٹ آنکھیں کھول کر دیکھنے لگاتاور جب زوباریہ کو پہچان نہ سکا تو! نا سمجھی سے اسفند کو دیکھنے لگا اسکی مشکل بھی زوباریہ نے آسان کی اوراپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بولی میں آپکی نیو فرینڈ زوباریہ مجھ سے دوستی کروں گے یہلے تو زوباریہ کو گھورتا رہا پھر بولا میں تو ابھی فرینڈشیپ کی نہیں تو میری نیو فرینڈ کیسے ہو گئی آپ
مسز ہمدانی اور اسفند دونوں مطمئن ہو کر بیٹھ گئے
وہ ایسے کہ آپ مجھے اچھے لگے تو میں تو فوراً آپکو دوست بنا لیا اور ا یم شیور آپ بھی میری آفر کو ریجکٹ نہیں کروں گے ہاتھ ابھی بچے کی طرف بڑھا تھا جو کہ ابھی اس نے نہیں تھاما تھا
آپ تو میرا نام بھی نہیں جانتی
بئھی میں نے اپنا نام بتا کر آفر کی آپ بھی اپنا نام بتا کر آفر اسیپٹ کرو
مسز ہمدانی اُٹھ کر چلی گئی اسفند کے لیے بھی یہ سچویشن حیران کن تھی ایک طرف زوباریہ جسے وہ پہلی بار ایسے بولتے دیکھ سن رہا تھا اور دوسری طرف ولی جو جب بھی سوتے میں ڈر کے اُٹھتا تو اتنی جلدی نارمل نہیں ہوتا تھا
ایک شرط پر
ہر شرط قبول پہلے ہاتھ تو ملا لو میرا بازو تھک گیا
ولی نے زوباریہ کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا کہ میرا نام ولی سکندر ہیں
نائس نیم
ولی نے مسکرا کر تعریف قبول کی پہلے شرط سُنا لے
اسفند نے ولی کے پاس بیڈ سے اُٹھتے ہوئے زوباریہ کے لئے جگہ چھوڑی جو کہ اب تک کھڑی تھی اور زوباریہ کے بیڈ پر بیٹھتے ہی خود پاس پڑی کرسی پر بیٹھ گیا
جی بولو
جب تک میرے پلاسٹر نہیں کھولتے آپ روز مجھ سے ملنے آئے گی بعد میں مَیں آ جایا کروں گا
زوباریہ نے اپنے چہرے پر اسفند کی نگاہوں کو محسوس کیا تو جھجک کر بولی میں روز آپ سےفون پر ڈھیر ساری باتیں کیا کروں گی
نہیں نا میں دادو اور پاپا کا چہرہ دیکھ کر سر ہوجاتا ہوں
اوئے بدمعاش ویسے پاس سے ہلنے نہیں دیتے اور اب نئی دوست کیا ملی ہمارے چہرے بھی بور ہو گئے ابھی بتاتا ہوں اسفند ولی کی طرف بڑھا تو وہ اسفند کو انگوٹھا دیکھتے ہوئے زوباریہ کے سینے میں منہ چھپا گیا اور وہ دونوں بھی مسکرا دئیے
مسز ہمدانی کھانے کی ٹرالی لیے اندر آئی سب کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھ کر اس کے دائمی ہونے کی دعا کرنے لگی
ارے امی سُنے اپنے لاڈلے کی باتیں اسفند کی نظر ان پر پڑی تو اُنے بھی گفتگو میں شامل کرنے کو کہا
کیا کہہ رہا میرا شہزادہ اور ٹرالی زوباریہ کے پاس لے آئیں سوری بیٹا ولی کی وجہ سے آپ چائے بھی نہیں پی سکی اور کپ زوباریہ کی طرف بڑھایا اس کے پکڑنے پر اسفند کو بھی دی خود سوپ کا باؤلر لے کر بیڈ پر ولی کے دوسری جانب بیٹھ گئی اور ولی کو لوپ پلانے لگی
زوباریہ چائے پی کر کھڑی ہوئی تو مسز ہمدانی نے کہا ارے بیٹا کھڑی کیوں ہو گئی بیٹھو نہ
بیٹھو نہ بیا ابھی مجھے آپ سے بہت ساری باتیں کرنی ولی نے زوباریہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا
وہ جو مسکرا کر ولی کو دیکھ رہی تھی اُس کے بیا کہنے پر ساکت ہو گئی آنکھوں میں آنسو آ گئے جو اسفند سے چھپ نہ سکے تھی جلد ی سے بولے
ٹھیک ہے مس خان فائل آپ کل لے جائیے گا
اسفند کے بولنے پر اسے احساس ہوا کہ وہ کہاں اور کیوں کھڑی ہے تو آنسو کو اندر ہی اندر روکتے ہوئے ولی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور بولی بیٹا ابھی مجھے جانا ہے کل پھر آؤں گی اور باہر نکل گئی کے ولی پھر ہاتھ پکڑ کے روک نہ لے
اسفند زوباریہ کو چھوڑنے گاڑی تک آیا اور بولا بہت شکریہ مس خان آپکی وجہ سے ولی اتنی جلدی خواب سی کیفیت سے باہر آ گیا زوباریہ نے مشکل سے ہونٹ پھیلا کر سمائل دی اور گاڑی میں بیٹھ گئی اور اسفند زوباریہ کے آنسوؤں کی وجہ سوچتا ہوا اندر بڑھ گیا
_+_+_+_+_
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...