ساجدہ الرشاوی جب فجر کی نماز کے لئے اٹھی تھی تو اسے یقین تھا کہ یہ اس کا دنیا میں آخری دن ہے۔ علی کچھ گھنٹوں بعد اس کے پاس پہنچ گیا۔ دونوں اگلے کام کی تیاری کرنے لگے جس کے لئے یہ عراق کا صحرا پار کر کے اردن کے دارالحکومت عمان پہنچے تھے۔ اگلے چند منٹوں میں دونوں کی جیکٹیں تیار تھیں۔ اتنی طاقتور کہ تباہی پھیلا سکیں لیکن اتنی پتلی کہ کپڑوں کے نیچے نمایاں نہ ہوں۔ ساجدہ نے جیکٹ پہنی۔ اس میں بال بئیرنگ سے بھری جیبیں محسوس کیں۔ تاریں اور سوئچ محسوس کئے۔ جیکٹ کو ایڈجسٹ کیا کہ وہ کاندھوں اور پیٹ پر ٹھیک فٹ آ جائے۔ آخر، خود کش جیکٹ کو بھی آرام دہ ہونا چاہیے۔ علی نے ساجدہ کو ٹرگر کھینچنا اور آپریٹ کرنا ایک بار پھر بتایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رامادی سے تعلق رکھنے والی پینتیس سالہ ساجدہ یہ تفصیلات اردن کی انٹیلیجنس ایجنسی مخبرات کو تفتیش کے دوسرے روز بتا رہی تھی۔ اردن میں سوگ کا سماں تھا۔ اس ملک کی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین حملہ ہوا تھا۔ اکٹھے تین ہوٹلوں کو خود کش حملہ آوروں نے نشانہ بنایا تھا۔ ساٹھ لوگوں کی اس طریقے سے اموات نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ مخبرات کے انسدادِ دہشت گردی ڈویژن کے سینئیر ڈپٹی ابو ہیثم اس جرم کی تفتیش اس خود کش حملہ آور سے کر رہے تھے، جس کی خود کش جیکٹ پھٹنے سے رہ گئی تھی اور وہ بچ گئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حملے کی ذمہ داری فوری قبول کر لی گئی تھی اور دوسرے شواہدات سے بھی تصدیق ہو گئی تھی کہ یہ ابو مصعب الزرقاوی کا کام تھا۔ ساجدہ سے تفتیش اس لئے کی جا رہی تھی کہ کسی اور کا پتا لگ سکے۔ خود کش حملہ آور کبھی بھی کسی اہم شخص سے واقف نہیں ہوتے لیکن شاید اس سے جس نے جعلی پاسپورٹ بنایا ہو یا بم بنانے میں مدد کی ہو۔ کیا اس کے ذریعے کسی مستقبل کے منصوبے کا سراغ مل سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سسکیاں لیتی اس خاتون کی ناخوشگوار زندگی کا خاکہ بننے لگا۔ رشاوی کا تعلق عراق کے سنی قبائل سے تھا۔ دو بھائی زرقاوی کی تحریک کا حصہ بنے تھے لیکن فلوجہ کی جنگ میں مارے گئے تھے۔ ان کا انتقام لینے کی خواہش نے ساجدہ کو یہ قدم لینے پر مائل کیا تھا۔ خاتون کے لئے چیکنگ سے بچنا آسان تھا۔ خود کش حملہ آسان تھا۔ القاعدہ عراق نے ساجدہ کو اپنے پلان میں فوری استعمال کر لیا۔
ساجدہ کا نکاح علی سے پڑھوا دیا گیا۔ دونوں کو جعلی پاسپورٹ دے کر اردن بھیج دیا گیا۔ عیدالفطر سے اگلے روز سڑک کے ذریعے یہ جوڑا اردن میں اپنی امیگریشن کروا کا ملک میں داخل ہو گیا۔ ان کے لئے ایک کرائے پر لئے اپارٹمنٹ کا بندوبست کر دیا گیا تھا۔ کارروائی اس سے چار روز بعد 9 نومبر 2005 کو کرنی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کرائے کی گاڑی لے کر ریڈیسن ہوٹل رات نو بجے سے کچھ پہلے پہنچے۔ ہوٹل کے فلاڈیلفیا ہال میں خوشی کی آوازیں تھیں۔ ساجدہ یہ سب دیکھ کر کچھ کنفیوز ہو گئی۔ یہاں پر تو کوئی امریکی نہیں تھا۔ یہ تو شادی کی تقریب تھی!! ساجدہ نے بچوں والی فیملیاں دیکھیں۔ لڑکیاں اور خواتین جنہوں نے زرق برق لباس زیبِ تن کئے ہوئے تھے۔ ایک طرف خواتین تھیں، دوسری طرف مرد۔ ایک طرف دبکے رقص ہو رہا تھا جو روایتی عرب شادیوں میں ہوا کرتا تھا۔ ساجدہ دیکھتی رہی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
علی مردوں والے حصے میں چلا گیا جبکہ ساجدہ خواتین والے حصے میں۔ اس نے اپنے اوور کوٹ نے نیچے ہاتھ بڑھایا اور دھماکہ کرنے والے سوئچ کو کھینچنا شروع کیا۔ یہ پھٹا کیوں نہیں؟ یہ واضح نہیں ہو سکا۔ کچھ غلط ہو گیا تھا یا پھر نروس ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا۔ اس نے اپنے پارٹنر کو اشارہ کرنا شروع کیا۔ اس کے ناراض اور پریشان پارٹنر نے اسے باہر بھاگنے کا اشارہ کیا۔ اس نے باہر جانے سے پہلے یہ دیکھ لیا تھا کہ علی ایک میز پر چڑھ چکا تھا اور پھر ایک خوفناک دھماکہ ہوا۔
ساجدہ رشاوی بھاگ گئی۔ زخمی اور مرنے والوں کے درمیان سے بھاگتے ہوئے وہ ہوٹل سے باہر آ گئی۔ خود کش جیکٹ پہنی ہوئی تھی اور اوپر سیاہ برقعہ جس پر خون کے دھبے لگ چکے تھے۔
ٹیکسی میں بیٹھتے وقت تک ساجدہ اس سب کی دہشت میں اپنا راستہ بھول چکی تھی۔ کئی راہگیروں نے ایک پریشان عورت کو عراقی لہجے میں پتہ پوچھتے سنا تھا۔ اپنے ایک واقف کے گھر پہنچ کر وہ بستر پر گر گئی۔ اسے کچھ یاد نہیں تھا۔ مخبرات نے اسے وہاں سے ڈھونڈ نکالا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کئی روز میں ان واقعات کو ذہن میں دہراتے ہوئے اس کی کنفیوژن مایوسی میں بدل گئی تھی۔ وہ امریکی جاسوس کہاں تھے جن کو قتل کرنے کے لئے اسے بھیجا گیا تھا؟ “انہوں نے مجھے کہا تھا کہ میں امریکیوں کو ماروں گی۔ میں تو صرف بدلہ لینے آئی تھی”۔
ساجدہ کے ساتھ غلط بیانی کی گئی تھی لیکن ساجدہ نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اسے دھوکہ دیا گیا تھا۔ وہ اس تنظیم کے کام کرنے کے طریقے کو نہیں جانتی تھی لیکن تصور نہیں کر سکتی تھی کہ القاعدہ واقعی ایسا بھی کر سکتی تھی کہ ساجدہ کی جان کو شادی میں آئے بچوں اور ان کی ماوٗں کو مارنے کے لئے قربان کرنے کی پلاننگ کرے۔ ساجدہ نے ابو ہیثم کے سامنے اعتراف کیا۔ “شاید میں اس وقت میں یہ پن کھینچنے کی اہلیت نہیں رکھتی تھی۔ میں ان کو نہیں مار سکتی تھی۔ وہ سب کتنے خوش تھے۔ اور میں ایسے مرنا نہیں چاہتی تھی”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کئی روز تک تفتیش چلتی رہی لیکن ساجدہ رشاوی سے زیادہ مفید معلومات نہیں ملیں۔ اسے قیادت کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا۔ ایک غمزدہ عورت جو القاعدہ کے لئے چارہ بننے والی آسان ہدف تھی جس کو انتقام کے جذبے کے تحت اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اور وہ اپنا کام کرنے میں بھی ناکام رہی تھی۔
ابو ہیثم اس عورت پر ترس بھی نہیں کھا سکتے تھے۔ ریڈیسن کے شادی ہال کے خوفناک مناظر ذہن میں تازہ تھے۔ ابو ہیثم کے لئے اس وقت کے بعد زرقاوی کی تلاش ایک جنون بن گیا۔ مخبرات میں اس ڈپٹی کے اس جنون کے قصے یادگار بن گئے۔ کئی کئی روز تک ابو ہیثم گھر نہیں جاتے تھے۔ دفتر میں سو لیتے، وہیں شاور لے لیتے۔ انسدادِ دہشت گردی ڈویژن میں مترجم سے لے کر فائل کلرک تک ہر کوئی دیر تک کام کرنے میں مصروف تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرقاوی نے انہیں حربوں کے ذریعے عراق میں کامیابی حاصل کی تھی۔ انہی کو اردن میں استعمال کرنے کی کوشش کی تھی کہ ملک میں غصے کو استعمال کیا جا سکے۔ لیکن یہاں پر اس حملے نے اردن کو القاعدہ کے خلاف متحد کر دیا۔
ان دھماکوں کے چند گھنٹوں کے اندر ہی غصے میں بھرے ہزاروں لوگ سڑکوں پر تھے۔ ان کا نعرہ، “جہنم میں جاوٴ، زرقاوی” تھا۔ عمان کی سڑکوں سے مسجد کے میناروں تک ایک غیرمتوقع یکجہتی کے مناظر نظر آ رہے تھے۔ زرقہ میں ابو مصعب الزرقاوی کے بھائی اور رشتہ داروں نے اخبار میں اشتہار شائع کروایا تھا کہ ابومصعب کا کوئی تعلق ان سے نہیں رہا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردن عراق پر امریکہ کے حملے کی تنقید کرتا رہا تھا اور ہمسائے میں ہونے والی دہشت گردی پر خاموش رہا تھا۔ عمان کے کئی مقامات پر زرقاوی کو ہیرو کے طور پر بھی دیکھا جاتا رہا تھا لیکن اب یہ کردار اردن کے لوگوں کے لئے ایک گھناونے مجرم میں بدل گیا تھا۔ انٹرنیٹ پر فورم سے اخبارات کے کالم یا یونیورسٹیوں میں مکالموں میں یہ وہ موڑ تھا جب اردن میں القاعدہ کے کاموں کا دفاع کرنے والے اور اس سے ہمدردی رکھنے والے بھی اس سے پیچھے ہٹ گئے۔ القاعدہ اردن میں کبھی قدم نہ جما پائی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زرقاوی کی عورت” کے نام سے مشہور ساجدہ شاید ساری عمر جیل میں گزار دیتی۔ سزائے موت 2006 میں دی جا چکی تھی لیکن عمل درآمد کی کسی کو جلدی نہیں تھی۔ کبھی کبھار وہ پوچھ لیتی تھی کہ میں گھر کب جاوں گی۔ جیل میں ساجدہ کو برسوں گزر چکے تھے۔ اور پھر ایک روز ۔۔۔۔۔۔ اردن کا ایک ایف 16 طیارہ شام میں بمباری کے مشن میں تباہ ہو گیا۔ اس کے پائلٹ معاذ نے جہاز چھوڑ دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیف وارڈن 3 فروری 2015 کو ساجدہ کو رات کو ملنے گئے۔ یہ بتانے کے لئے کہ آج ان کی زندگی کی آخری رات ہے۔ ساجدہ کو خبر نہ تھی کہ اس کو آزاد کرانے کا مطالبہ کرنے والے کیا کام کر چکے تھے۔ اس مرتبہ انہیں نے لرزہ خیزی میں اپنا ریکارڈ بھی توڑ دیا تھا۔
اس سے پچھلی رات جیل کے چیف وارڈن کو اردن کے شاہ عبداللہ کا براہِ راست غیرمعمولی پیغام آیا تھا۔ ساجدہ صبح کا سورج نہ دیکھ پائے۔ پینتالیس برس کی ہو جانے والی ساجدہ کو فجر سے پہلے پھانسی دے دی گئی۔ اسی روز اسی طرح پھانسی پانے والے ایک اور عراقی سابق افسر زیاد الکربولی تھے۔ زخمی اردن سیاہ جھنڈے اٹھا کر مشرق سے آنے والی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ساتھ لگی تصویر روایتی عرب رقص کی ہے جو دبکے کہلاتا ہے اور عرب شادیوں کی خاص روایت ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...