حمنہ ناول کی جان چھوڑ دو یار آ کر ہماری کچھ مدد کرا دو مناہل نے آٹا گھوندتے ہووے کہا
وہ اور ردا آج کے اسپیشل لنچ کی تیاری کر رہے تھے کیوں کے کھانے پر آج ردا کی خالہ انکا اکلوتا بیٹا اور نرگس نانی تشریف لا رہے تھے
” اف یار تنگ نہ کرو حیا ولید کے ساتھ میرج حال جا رہی ہے مجھے تو یہ بندہ ٹھیک نہیں لگ رہا”
اہ الله کی بندی بس کر دو ہم کیا کہ رہے ہیں اور تم ہمیں کیا سنا رہی ہو بند کرو اپنا یہ ناول اور آ کر بریانی کا مسالہ تیار کرو ”
مناہل نے بڑی بہن ہونے کے ناتے ذرا سا رعب جمایا
“اٹھ رہی ہوں ڈانٹو تو نہیں” حمنہ مونھ بنا کر اٹھ کھڑی ہوئی مگر ناول کو پھر بھی نہیں چھوڑا وہ یوں ہی ہر جگہ ناول ساتھ لے کر گھومتی تھی جوں ہی تھوڑا سا بھی موقع ملتا کھول کر پڑھنے لگ جاتی
————————————————–
اسلام و علیکم مس زویا ”
وہ کلاس کی طرف جا ہی رہی تھی کے سامنے سے اتے پروفیسر طلال نے اسے روک لیا
مجبوراً اسے بھی رکنا پڑا
“وعلیکم اسلام”
کیسی ہیں اپ”
جی ٹھیک ہوں، اگر آپکو کوئی اہم کام نہیں ہے تو معذرت چاہوں گی مجھے کلاس کے لئے دیر ہو رہی ہے اس نے طلال کو دوبارہ مونھ کھولتے دیکھا تو جلدی سے که دیا
طلال مسکرا دیا
” چلیں کوئی بات نہیں اپ پہلے کلاس لے آئیں پھر ہم فرست سے بات کریں گے ”
وہ سر ہلا کر اگے چل دی
ہنہ! فرست میں بات کرتی ہے میری جوتی
اسے یہ شخص اک نمبر کا لفنگا اور دل پھینک سا لگتا تھا
——————————————
آج گھر پر خالہ لوگوں کی دعوت تھی اسی لئے اسے جلدی گھر پہنچنا تھا مگر جب پارکنگ میں آ کر دیکھا تو گاڑی کا اک ٹائر پنکچر تھا
” اف یہ کیا ہو گیا اب” اس نے اک پریشان نظر گاڑی کے ٹائر پر ڈالی اور اک نظر اپنے ہاتھ میں پہنی گھڑی پر جو کے ایک بجا رہی تھی
” اف اب اگر لیٹ ہو گئی تو سب کو لگے گا کے میں خالہ لوگوں سے ملنا ہی نہیں چاہتی تھی ہنہ سب کو لگے نہ لگے اسے ضرور لگے گا کے میں اس سے ڈر رہی ہوں”
اس نے مدد کے لئے ادھر ادھر دیکھا سامنے سے پروفیسر طلال اتے نظر ہے
واہ جی انہی کی تو کمی تھی اس نے مونھ ہی دوسری طرف کر لیا
مگر طلال صاحب اسے دیکھ چکے تھے اسی لئے جھٹ سے اسکے پاس پہنچ گئے
” کیا ہوا مس زویا کوئی پریشانی ”
وہ اس کے سامنے آ ک کر کھڑا ہو گیا مجبوراً زویا کو بھی بتانا پڑا
“ارے اپ پریشان نہ ہوں میں ہوں نہ میں آپکو آپکے گھر ڈراپ کر دیتا ہوں”
نہیں شکریہ میں خود چلی جاؤں گی اس نے لہجے کو ذرا سخت کر کے کہا
اپ تکلف میں مت پڑیے میں نے کہا نہ میں چھوڑ دیتا ہوں”
اف کیا مصیبت ہے یہ تو پیچھے ہی پڑ گیا ہے اس نے بے بسی سے سوچا
” میڈم زویا آنی پرابلم”
زویا نے حیرت سے مڑ کر دیکھا تو سامنے ارحم چہرے پر سنجیدگی لئے کھڑا تھا
اس نے صبح بھی پروفیسر طلال کو زویا سے بات کرتے دیکھا تھا اور اب بھی وہ زویا سے فری ہونے کی کوشش کر رہا تھا اسی لئے وہ خود کو روک نہیں پایا اور اب اس کے سامنے کھڑا تھا اس بات کی پروا کے بغیر کے وہ اسکی مدد قبول کرتی بھی ہے کے نہیں
زویا نے اک نظر مڑ کر پروفیسر طلال کو دیکھا جو غصے سے ارحم کو دیکھ رہے تھے
یہ میرے جاننے والے ہیں میں انہی کے ساتھ چلی جاؤں گی آپکی آفر کا شکریہ
” چلیں اس نے ارحم کی طرف دیکھا جو خود بھی حیران کھڑا تھا
مگر خود پر قابو پا کر اس کے اگے چل پڑا۔۔
اپ کوئی بھی خوش فہمی مت پال لینا میں صرف پروفیسر طلال کے ساتھ نہیں جانا چاہ رہی تھی اسی لئے اپ کی مدد قبول کی” اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی اسے جتانا ضروری سمجھا”
لیکن ارحم نے کوئی بھی جواب دے بغیر خاموشی سے گاڑی سٹارٹ کر دی
” سمجتا کیا ہے خود کو جیسے میں تو بات کرنے کے لئے مر رہی ہوں نا ، ہنہ نہیں کرنی بات تو نہ کرے میری تو جوتی کو بھی پرواہ نہیں”
پورا راستہ یونہی خاموشی سے کٹ گیا دونوں میں سے کسی نے بھی بات کرنے کی کوشش نہیں کی
ارحم نے گاڑی کو زویا کے گھر کے سامنے آ کر بریک لگائی
وہ بغیر کچھ کہے گاڑی سے اتر گئی
مگر پھر خیال انے پر رکی
” اپ اندر نہیں آییں گے ؟
نہیں میں بعد میں امی کو لے کر ہی آؤں گا”
جیسے آپکی مرضی” وہ اندر کی طرف بڑھ گئی
ارحم مسکرا دیا
“شکر ہے اپ پر تو آیی”
———————————
Mukamal novel k liye
Peyar marta nai khamosh ho jata page par
کھانا تو سارا تیار ہو گیا ہے اب چل کر کپڑے تبدیل کر لیتے ہیں” ردا نے دوپٹے کے پلو سے ہاتھ پوھنچتے ہووے کہا”
ہان تم جاؤ میں بس ذرا یہ کسٹرڈ فرج میں رکھ کر اتی ہوں” مناہل نے کسٹرڈ کے ته پر نفاست سے جیلی سجاتے ہووے کہا ”
اچھا ٹھیک ہے ردا اپنے کمرے میں چلی گئی
حمنہ کو ناول پڑھنے کی جلدی تھی اسی لئے وہ ان دونوں سے پہلے ہی اپنا سارا کام جلدی جلدی نپٹا کر جا چکی تھی
وہ بھی کسٹرڈ فرج میں رکھ کر کچن سے باہر نکل ہی رہی تھی کے سامنے سے اتے افہام سے ٹکراتے ٹکراتے بچی
” دیکھ کر نہیں چل سکتی کیا ”
وہ میں تو بس … اس سے اگے اس سے کچھ بولا ہی نہ گیا افہام کی خود پر جمی نظریں اسکا عتماد ڈگمگا رہی تھی
” اچھا اب میں تو میں تو کرنا مت شروع ہو جانا یہ بتاؤ ردا کہاں ہے”
” وہ اپنے کمرے میں ہے گئی ہے آپکو کچھ کام تھا”
ہان اسے کہو چاۓ بنا کر میرے کمرے میں دے جائے وہ که کر واپس جانے ہی لگا تھا کے مناہل کی زبان پھسلی “میں بنا دوں
وہ چہرے پر سنجیدگی مگر آنکھوں میں شرارت لئے پلٹا
” کیا کہا تم نے میں نے سنا نہیں”
وہ چاۓ… چاۓ میں بنا دوں آپکے لئے”
اب اتنے پیار سے پوچھ رہی ہو تو منع تو نہیں کروں گا بنا کر دے جانا “وہ که کر چلا گیا
مگر مناہل پر گھڑوں پانی پڑ گیا
اف یہ کیا سوچ رہے ہوں گے میرے بارے میں کہ میں انکو اپنے ہاتھ سے چاۓ پلانے کے لئے مری جا رہی تھی حد ہے مناہل کبھی تو عقل سے کام لے لئے کرو وہ مجھے اتنا نخرہ دکھاتے ہیں اور میں ان کے سامنے بچھ جاتی ہوں چاۓ بنانے کے ساتھ ساتھ وہ خود کو لعن تان بھی کرتی رہی
——————————————-
امی اپ کو انہیں یوں دعوت پر نہیں بولانا چاہیے تھا اس نے میری بہن کے رشتے سے انکار کر کے ہماری بیزتی کی تھی اور اپ لوگ ہیں کے انکو گھر بولا کر انکی عزت کر رہے ہیں” افہام کی غصیلی آواز نے مناہل کو کمرے کے باہر ہی رکنے پر مجبور کر دیا
“تمیز سے بات کرو افہام مت بھولو کے تم اپنی خالہ اور خالہ زاد کے بارے میں بات کر رہے ہو”
انہیں بھی تو رشتوں کا لحاظ کرنا چاہیے تھا ”
بیٹا شادی بیاہ کے معاملات میں زبردستی نہیں ہوتی”
جو بھی ہے بس مجھے اس شخص کی شکل تک نہیں دیکھنی ”
ٹھیک ہے تو نہ دیکھو یہیں اپنے کمرے میں بیٹھے رہو مگر میں اتنی سی بات کے لئے اپنی بہن کو گھر انے سے نہیں روکنے والی نہ ہی اس سے رشتہ ختم کرنے والی ہوں سمجھے
وہ غصے سے کہتی ہوئی کمرے سے باہر آ گیں مگر مناہل کو کمرے کے باہر پریشان کھڑا دیکھ کر رک گیں
“اب کیا ہو گا چچی اگر انہوں نے غصے میں خالہ لوگوں سے کچھ کہ دیا تو”
تم تو اسے جانتی ہو بیٹا ہمیشہ سے ہی غصے کا تیز رہا ہے مگر دل کا برا نہیں ہے مجھے یقین ہے کے کچھ بھی الٹا سیدھا نہیں کرے گا تم بےفکر ہو جاؤ وہ اسکا چہرہ تھپتھپا کر چلی گیں
مناہل نے بھی کچھ گھبراتے ہووے اسکے کمرے کے دروازے پر دستک دے کر اندر چلی آئی
افہام کھڑکی کے پاس کھڑا باہر لان کی طرف متوجہ تھا
مناہل نے چاۓ میز پر رکھ دی
” وہ مجھے اپ سے کچھ بات کرنی تھی ”
افہام کھڑکی کے پاس سے ہٹ آیا اور صوفے پر آ کر بیٹھ گیا
ہان بولو میں سن رہا ہوں” اس نے چاۓ کا کپ اٹھاتے ہووے کہا ”
کیا آپ خالہ لوگوں کو معاف نہیں کر سکتے” اس کے لہجے میں التجا تھی
نہیں! مگر مقابل کے لہجے میں سختی تھی
مناہل اک پل کو چپ ہو گئی
اس کو چپ کھڑا دیکھ افہام پھر بول پڑا کچھ اور بھی کہنا ہے تمھیں ؟”
میںحائل نے شرمندگی سے نفی میں سر ہلایا
“تو کھڑی کیوں ہو جاؤ “افہام کے غصے سے کہنے پر وہ بس اک شکایتی نظر اس پر ڈال کر وہاں سے پلٹ آئی
———————————————————–
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...