شدید ترین طوفانی بارشوں کا سلسلہ چل رہا تھا ، ہر روز صبح شام بارشوں نے ہر طرف جل تھل کر کے رکھ دیا ہوا تھا، زمینی راستے منقطع ہو گئے ہوئے تھے، وہ لوگ دانے دانے کے محتاج ہو چکے تھے، یہ ہری پور ہزار کے قریب ہی نواحی علاقہ تھا جو شدیدترین بارشوں کی زد میں آچکا تھا، اس گاؤں کے لوگ بھی قریبا چھ سو سے سات سو تک گھر تھے، سب کا ہمیشہ کھیتی باڑی یا ڈھور ڈ۔نگر سے منسلک تھا۔۔۔
اتنے چھوٹے چھوٹے گھروں پہ مشتمل گاؤں ہر سال سیلابی پانی کی نظر ہو جاتا تھا، وہ کچھ وقت کے لیے جگہ چھوڑ دیتے مگر جیسے ہی حالات قابو ہوتے وہ اپنا بوریا بستر اٹھائے واپس آ جاتے، شاید اپنی مٹی سے محبت اسی کا نام ہے، کہ اتنے نقصانات ک باوجود وہ لوگ اپنا گھراور گاؤں نہ۔چھوڑتے، ہر سال کوئی نہ۔کوئی پلی ٹوٹ جاتی اور رات و رات پاک فوج انہیں وہاں سے ڈھورڈنگر سمیت نکال لیتی کچھ دن تو وہ گورنمنٹ کے خیموں میں رہتے پھر واپسی کی راہ لیتے۔۔۔ کچے مکان سیلابی پانی کی نظر ہو جاتے مگر اگلے سال تک پھر چار فٹ کی دیواریں اور جھگیاں پڑ جاتیں،
آج کل بھی سیلاب کا خطرہ تھا، یہ چھ سو لوگوں کے سر پنچ کا گھر تھا، جہاں موسم کا اثر قدرے کم تھا گھر پکی اینٹوں سے ٹی۔آر ۔ کی چھتوں کا بنا ہوا تھا، چار کمرے سامنے برآمدہ اور برآمدے مے گیلریاں بنائی گئی تھیں جو سات فٹ اونچی تھیں، جہاں بیٹیوں کا جہیز سنبھال کر رکھا ہوا تھا، ان گیلریوں کی وجہ سے سامان سیلاب میں بہنے سے بچ جاتا تھا،
آج بھی بارش ہو رہی تھی ، جانے کب جگہ چھوڑنی پڑ جائے، منصور شاہ چارپائی پر بیٹھے پیالی ہاتھ میں لیے گرم گرم چائے کی چسکیاں لے رہے تھے، ساتھ ہی ساتھ برآمدے کے باہر چھاجوں چھاجھ برستے مینہ کو دیکھ رہے تھے، اپنی بیوی رابعہ سے بات کرتے ہوئے بولے ، صامن کی ماں ، قیمتی چیزیں پڑ چھتی پہ چڑھا دیے ، انہوں نے رابعہ بیگم کو دیکھا جو صامن کے ساتھ مل کر چولہے کی صفائی ستھرائی میں مشغول تھیں،
– منصور شاہ کے چار بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں، دو بیٹے ارقم شاہ، ارحم شاہ، بڑے تھے اور جڑواں بھی تھے، پھر بیٹی صامن شاہ اور پھر ایک بیٹا ارصم شاہ پھر بیٹی آمن شاہ تھیں، پھر سب سے چھوٹا بیٹا ارغم شاہ تھے، دونوں بڑے بیٹے پولیس کے اعلی عہدوں پر تعینات تھے اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ پنجاب کے بڑے شہروں میں رہ رہے تھے، ارحم شاہ کے دو بچے تھے، ایک بیٹی فاطمہ شاہ اور ایک بیٹا احمد شاہ اور ارقم شاہ کا ایک بیٹا روحان شاہ تھا جو تیرہ سال کا تھا ، منصور شاہ کا بھرا پورا کنبہ تھا مگر وہ اپنی جگہ چھوڑنے کو تیار نہیں تھے، حالانکہ کئی بار ان کے بیٹوں نے اصرار کیا مگرمنصور شاہ مان کے نا دئیے تھک ہار کر وہ لوگ سال میں گرمیوں سردیوں کی چھٹیوں میں چکر لگا لیتےاور جیسے ہی سیلاب کا خطرہ بڑھتا وہ ترنت ہی امدادی ٹیمیں بھیج دیتے ، یوں ہی وقت کا پہیہ چلتا رہتا۔۔۔
– صامن شاہ ایک انتہائی خوبصورت اور پرکشش لڑکی تھی ، ہلکی براؤن آنکھیں جن پہ لمبی خمدار پلکوں کا سایہ ہر وقت رہتا وہ بہت کم نظر اٹھا کر بات کرتی ، آواز اتنی میٹھی اور دھیمی کہ لگتا کوئل ہولے ہولے بول رہی ہو، تعلیم کا سلسلہ بہت پہلے ہی چھوٹ گیا تھا تو اب گھر میں ماں کے ساتھ کام کاج کرواتی یا گاؤں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی تھی اس کے برعکس آمن شاہ انتہائی خوبصورت اور تیز رفتار لڑکی تھی جس نے ضد کر کے تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا یوں وہ بی ایس سی کر رہی تھی ، اسے ڈاکٹر بننا تھا وہ ارحم شاہ کے ساتھ لاہور میں رہتی تھی ، اور سب سے چھوٹا بیٹا ارغم شاہ ایف ایس سی پری انجنیرنگ کا سٹوڈنٹ تھا۔۔۔۔ وہ ارقم شاہ کے ساتھ اوکاڑہ میں رہ رہا تھا جہاں ساہیوال کا انجنیرنگ کالج نزدیک پڑتا تھا۔۔۔
– یوں گھر میں صرف منصور شاہ، آمن شاہ ،ارصم شاہ اور رابعہ شاہ تھیں، ارصم رابعہ شاہ کے بناء نہیں رہتا تھا سو وہ ایگری کلچر میں ماسٹرز کی ڈگری لے کر گاؤں میں کھیتی باڑی کرتا۔۔۔
– سب بھائیوں میں سے ارصم شاہ کا قد اور ڈیل ڈول اونچا اور منفرد تھا، باقی سب بھی خوبصورتی اور مردانہ وجاہت سے مالا مال تھے مگر ارصم شاہ ان سب سے دو ہاتھ آگے ہی تھا۔۔۔ کانچ جیسی چمکتی آنکھیں ، گندم کے پکے ہوئے خوشے جیسی چمکتی رنگت، بازؤں کی ابھری ہوئی مچھلیاں، اور گھنی مونچھوں تلے گلابی ہونٹ جن پر ہمہ وقت مسکراہٹ رینگتی، کردار کھرا سونا، لگتا تھا کہ انسان کے روپ میں کوئی فرشتہ جس کی امان میں اپنی بہن بیٹی تو باتحفظ تھی ہی، گاؤں کی لڑکیاں بھی ارصم شاہ کے ساتھ شہر امتحانات دینے جانے کو ترجیح دیتی چلتا تو لگتا زمین کو بھی ایسے بیٹے پہ فخر ہو۔۔۔ تھا ہی اتنا سجیلا اور نیک
– آمن شاہ سب کی لاڈلی تھی ، سب بھائیوں کی جان ، جب کہ ارصم شاہ کا تو دن بھی آمن شاہ پہ شروع اسی پہ ختم ہوتا۔۔۔۔ سارا دن نوک جھونک میں گزر جاتا
– جب ایک رات انکا دروازہ زور زور سے بج رہا تھا بارش کی وجہ سے پورا صحن جل تھل تھا
– بارش کی وجہ سے پورا صحن جل تھل ہو رہا تھا ، تبھی سب لوگ کمروں سے نکل آئے،منصور شاہ اور ارصم شاہ ایک کمرے میں اور رابعہ شاہ کے ساتھ آمن شاہ سوتی تھی، طوفانی بارش میں اس وقت کون ہو سکتا؟
رابعہ شاہ نے چادر کی بکل مارتے ہوئے ارصم شاہ کی جانب دیکھا، میں دیکھتا ہوں۔۔۔ وہ کھونٹی پر ٹنگا تولیہ کندھوں پر رکھتا ہوا دروازے کی جانب بڑھا، رکو منصور شاہ نے اسے جاتے دیکھا تو روک لیا، دروازہ اب آہستہ کھٹک رہا تھا، انہوں نے چارپائی کے سرہانے سے پستول نکال کر اسکی جانب بڑھایا، گاؤں میں اکثر ڈاکوؤں کی بربریت کا عام لوگ شکار ہوتے تھے،مال پیسے کی فکر انہیں نہیں تھی مگر گھر میں جوان بیٹی تو تھی، چور صرف سامان نہیں چراتے اس گھر کی عزت بھی چرا کر لے جاتے ہیں ، لوگ سال ہا سال اس گھر کو ایک آنکھ میچ کر بات کرتے تھے، منصور شاہ کو یہ بلکل منظور نہ تھا، اس لئے انہوں نے احتیاطا پستول ہمراہ کر دیا۔۔۔
ارصم شاہ نے جیسے ہی دروازہ کھولا کوئئ وجود دھڑام سے آ کے گرا، وہ کوئئ لڑکا تھا اور بری طرح زخمی تھا، ارصم شاہ نے اسے بازؤں پہ سنبھالا تو منصور شاہ بھی لپک کر اس تک پہنچے اور اس زخمی کو اپنے کندھوں پر ڈالے ارصم شاہ نے برآمدے میں بچھی چارپائی پر ڈال دیا،
وہ چھ فٹ سے نکلتا قد، ستائیس اٹھائیس سال کا جوان تھا، اور آرمی کا تھا جس کے کندھوں پر ستارے چمک رہے تھے ، اور نام کی پٹی پر کیپٹن سلیمان شاہ لکھا ہوا تھا، ارصم شاہ نے رابعہ شاہ کی جانب دیکھا تو انہوں نے اس جوان کو جب غور سے دیکھا جس کے چہرے پر مٹی لگی ہوئی تھی، وہ کیچڑ میں لت پت تھا،
انہوں نے جیسے ہی مٹی سے چہرہ صاف کیا تو منہ سے بے اختیار چیخ نکل گئی وہ انکی بہن سائرہ شاہ کا بیٹا تھا ، جو شاید ان سے ملنے آیا اور کسی حادثے کا شکار ہو گیا تھا، سائرہ شاہ انکی سب سے چھوٹی بہن تھیں، جن کے ساتھ انکا برسوں سے کوئی تعلق نہیں تھا، مگر انہیں اپنے بھانجوں کی پہچان ضرور تھی، سائرہ شاہ کے چھ بیٹے تھے اور ایک بیٹی قراتعلین شاہ تھیں، سائرہ شاہ کی شادی انکے سگے چچا کے گھر ہوئی اور رابعہ شاہ کی ماموں کے گھر، انکا ایک ہی بھائی تھاجو کئی سالوں سے پردیس کاٹ رہا تھا، جسکی کوئی خیر خبر کبھی نہیں آئی تھی۔۔۔
اور اب کئی سالوں بعد سائرہ شاہ کا بڑا بیٹا ان کے گھر آیا تھا جو بری طرح زخمی اور بہت سا خون بہہ جانے کی وجہ سے نڈھال تھا
ارصم ڈاکٹر کو لے کر آ، جلدی جا۔۔۔
وہ اپنا دوپٹہ اسے زخم پر رکھے دبا رہی تھیں، جو تیزی سے سرخ ہوتا جا رہا تھا
ارصم جلدی سے باہر نکل گیا جبکہ رابعہ شاہ۔بے آواز رو رہی تھیں، منصور شاہ کھڑے ہوئے اسے دیکھ رہے تھے، جبکہ آمن شاہ جو چھوٹے سے دل کی مالک تھی اتنا بہتا خون دیکھ کر ہی ٹھنڈی پڑ گئ تھی، جب منصور شاہ نے اسکی جانب دیکھا تو وہ ہولے ہولے کانپ رہی تھی، منصور شاہ نے اپنی نازک سی بیٹی کو اپنے بازو کے حصار میں لیا اور اسکا سر اپنے سینے پر رکھ لیا۔۔۔
ہما را بیٹا ڈر گیا۔۔۔ وہ اسے لیے کمرے میں آگئے، اور اسے چارپائی پر بیٹھا دیا۔۔۔۔ وہ ہولے سے سر تھپک کر باہر نکل گئے۔۔۔
جبکہ آمن شاہ اتنے جوان مرد کو ایسے نڈھال دیکھ کر ہی حوصلہ ہار بیٹھی تھی کہ زندہ بھی تھا کہ نہیں۔۔۔۔
ارصم شاہ نے ڈسپنسری سے ڈاکٹر کو لے آیا تھا جو کہ اسے چیک کرنے کے بعد ارصم شاہ کے ساتھ سلیمان شاہ کو بھی لے گیا،
اب پو پھوٹ رہی تھی آزانیں شروع ہو چکی تھیں مگر بارش کا تسلسل ویسا ہی تھا رابعہ شاہ لحاف لپیٹے پڑی تھیں آمن شاہ وضو کرنے چل دی ، جب اس نے منصور شاہ کے ساتھ ارصم شاہ کو آتے دیکھا، جو کپڑے بدل کر ماں کی پاینتی کی جانب آ بیٹھا تھا، اماں وہ بلکل ٹھیک ہے پریشان نہ ہو، اسے وہاں روک لیا ہے کہ زخمی حالت میں واپس نہیں آ سکتا تھا،
وہ رابعہ شاہ کے پاؤں دبا رہا تھا ساتھ ساتھ تسلی دے رہا تھا
رابعہ شاہ نے ایک لمبی سانس خارج کی
اور کروٹ پرلی طرف موڑ لی، ارصم شاہ ماں کے ساتھ لیپٹ گیا،
میری بہادر اماں پریشان ہو گئی، جبکہ وڈیروں کی بیویاں تو ان سے بھی زیادہ دل گردے والی ہوتی۔۔۔
چل ہٹ پرے۔۔۔ رابعہ شاہ نے اپنا کندھا جھٹکا جس پر وہ تھوڑی ٹکاءے ہوا تھا
جا کر نماز پڑھ ۔۔۔۔ انہوں نے خفگی سے کہا وقت نکلا جا رہا
تب تک آمن شاہ نماز پڑھ کر قرآن کھول کر بیٹھ گئی۔۔۔
ناشتے کے برتن سمیٹتی آمن شاہ نے کچھ آوازیں سنی جیسے کوئی بین کر رہا ہو۔۔۔۔ چینی کی پیالی گری تو چھن سے ٹوٹی وہ باہر کو بھاگی ، جہاں اسکی ماں رابعہ شاہ اونچی اونچی رو رہی تھیں۔۔۔۔اماں کیا ہوا اماں۔۔۔۔ بابا کیوں رو رہی ہیں یہ
اس نے منصور شاہ کو جنھجوڑا۔
ارصم کیا ہوا ہے ۔۔۔ جو سر پکڑے بیٹھا تھا، کیا ہوا ہے بولتے کیوں نہیں ہو۔۔۔وہ پاگل ہو رہی تھی۔
قراۃالعین گھر سے بھاگ گئ ہے۔۔
آمن شاہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی۔۔۔ وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئی۔۔
اگے وہ لوگ کیا کہہ رہے تھے اسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا، اسکا دماغ بند ہو رہا تھا، اور ہر طرف سائیں سائیں کی آواز تھی ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک ساتھ بہت سی آندھیاں آرہی ہوں۔
وہ پیچھے کو اپنے باپ کے قدموں کے پاس گری تھی۔
________
وہ کالی چادر کو خود پہ مزید کس رہی تھی جو پہلے سے ہی اسکی گردن کے گرد ایسے لپیٹی ہوئی تھی جیسے ابھی سانس بند ہو جائے گا،
بب۔۔بھائی ۔۔۔ بھائی صاحب۔۔۔ اس نے پاس سے گزرتے ایک آدمی کو روکا، مم مم۔۔۔ مجھے اس پتے پر جانا ہے، کیا بتا سکتے کس طرف ہے؟؟ بہن جی۔۔۔۔ پہلے تو وہ لال لال آنکھیں دیکھ کر ڈر گئی اور پھر اس بندے کی ایسی آواز جیسے ویرانے میں الو رو رہے ہوں۔۔۔
وہ سامنے محلہ جاؤ وہاں۔۔۔
اس نے سڑک کی دوسری جانب اشارہ کیا درمیان میں بہت بڑی باؤنڈری لائن تھی، جس پر لمبے لمبے سرے لگائے گئے تھے ۔۔۔ اس نے کراسنگ برج کی جانب دیکھا جو وہاں سے ایک میل کے فاصلے پر تھا وہ پہلے ہی ڈری ہوئی اور بھوکی تھی۔۔۔ چل چل کہ مہنگی سی چپل نے بھی پاؤں میں آبلے بنا دیئے تھے، جن پر شدید قسم کی جلن تھی،
اب اتنا فاصلہ شیطان کی آنت جیسا لگا۔۔۔ مگر قدم بڑھا دیئے کہ جانا تو ہے ہی ادھر، وہ پاؤں رکھتی کہیں اور پڑتا کہیں اور تھا، بھوک نے تمام اعضا کو ایک نقطےپر مرکوز کر دیا تھا۔۔
جس نے کبھی بھوک نا دیکھی ہو جس کے آس پاس نعمتوں کے انبار لگے ہوں اس انسان کے لیے بھوک جیسی بلا کو سہنا مشکل ہو جاتا ہے، اب اسکی حالت ایسی تھی کہ سوائے اس ایک کے کسی شئے کی طلب نہ تھی، سوائے ایک بار کھانے کو مل جاتا، وہ سڑک پر ڈولتی سیڑھیاں چڑھنے لگی مگر سارا وزن ریلینگ پر تھا، کہ اسے ایک قدم آگے بڑھانے کی سکت نہیں تھی،
آس پاس سے گزرتے لوگ اسے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کوئی نمونہ ہو، چڑھ تو گئی اب اترنا اس سے بھی مشکل تھا ، مگر پھر سے وہی مجبوری، بھوک کا شکنجہ کستا چلا جا رہا تھا اسے یاد آرہا تھا کہ وہ کتنے دن سے اناج کا ایک دانہ اندر نہیں گیا ۔۔۔۔ شاید تین دن گزر گئے تھے کہ وہ پانی پہ گزارا کر رہی تھی،
جونہی وہ برج سے نیچے اتری ، زور کے چکر نے اسے زمین پر پٹخ دیا، مگر وہ حواس باقی تھے کسی کی بھی مدد لئے بناء وہ پھر سے اٹھی اور سامنے ایک بڑی سی گلی میں داخل ہوئی جس کے دونوں طرف دوکانیں تھیں جانے کیا تھا اندر وہ بند تھیں ، پورا بازار بند تھا، اس نے ادھر ادھر دیکھا اور چلتی چلی گئی، آگے کا تمام راستہ اسے یاد تھا ۔
اور بھی بہت کچھ تھا جو یاد آرہا تھا، مگر پیٹ کی آنتڑیاں سوکھ رہی تھیں، سو وہ ایک دروازے پر دستک دینے لگی ، یہ ایک کچا مکان تھا جو جگہ جگہ سے ٹوٹا ہوا تھا، اس نے زور سے دستک دی، تو اندر سے نکلنے والی عورت نے پہلے تو اسے غور سے دیکھا اور خود سے لیپٹا لیا۔
_________________
ارصم صبح کا ہی گھر سے نکلا ہوا تھا، اسکا رخ ساتھ والے گاؤں کے چوہدری ہاشم کے گھر کا تھا۔ بارش کی وجہ سے کچی زمین نرم پڑ گئی تھی، جو بھی گاڑی، گزرتی بڑے بڑے شگاف ڈالتی جاتی، وہ آج ٹریکٹر پر تھا تبھی زمین کی اس آفت سے محفوظ تھا کہ کیچڑ میں گاڑی بند نہیں پڑی تھی۔۔۔۔
اللہ اللہ کر وہ مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا تھا، اماں اس نے گیٹ پر کھڑی سر پہ سبزیوں کے ٹوکرے کو رکھتی اماں کو آواز دی جس نے اسے اپنا کام روک کر دیکھا، اماں وہ کچھ قدم اور آگے آ گیا،
شیردل یا شیر باز ہیں گھر پہ؟؟۔
میکوں کے پتہ پت، اساں حویلی اندر جانے دی احازت نہ اے۔۔۔۔تساں اندر ونجو۔۔۔۔ اساں کمی لوک آں۔۔۔۔
ارصم نے بڑی سی سرخ حویلی پر نظر دوڑائی، مگر اندر سے باہر آتا جاتا کوئی بھی نہیں نظر آ رہا تھا, وہ سمجھ نہیں سکا کہ اسے واپس جانا چاہئیے یا پھر اندر جا کہ پتہ کرنا چاہئے۔۔۔۔
شیر باز اسکا بیسٹ فرینڈ تھا، زبدگی کے کئی سال وہ ایک ساتھ تھے، سکول کالج یونیورسٹی تک وہ ایک ساتھ تھے، یہاں تک کہ ہر شوق ایک ساتھ پالا تھا،ایک دوسرے میں ان کی جان تھی، وہ کہاں گیا ہو گا، جو نظر ہی نہیں آ رہا۔۔۔
گاؤں کے دوست جتنے بھی گہرے کیوں نہ ہوں اگر دوست گھر نا ہو تو اندر جانے کی اجازت نہیں ہوتی ، سوائے ڈیرے پر جانے کے۔۔۔۔
وہ واپس ٹریکٹر کی جانب آیا اور سٹارٹ کر واپس موڑ دیا، آدھا گھنٹہ وہ کھڑا رہا تھا۔۔۔۔
ارصم کو اسکے ساتھ شہر جانا تھا پر وہ اب گھر پہ ہی نہیں تھا۔۔۔۔
شیر دل ، شیر باز سے بڑا تھا، پورے آٹھ سال بیٹوں کی طرح پالا تھا شیر باز کو اس نے، چوہدری ہشمت خان زمینوں کے ایک جھگڑے میں قتل ہوئے تھے ساتھ والے گاؤں میں انکی دشمنی چلی آرہی تھی، ایک بار زمینوں کے مقدمے میں پیشی پر یہ لوگ مقدمہ جیت گئے مگر جس زمین کا مقدمہ کئی سال لڑا اور کئی جانوں کا نذرانہ دیا وہی اب بنجر اور بیابان پڑی تھی، شیر دل شہر میں رہتا تھا بہت بڑے کاروبار کو چلا رہا تھا، اگر پانچ دس ایکڑ زمین بنجر بھی ہوتی تو اس جیسے کاروباری ٹائیکون کو زرا برابر فرق نہیں پڑتا تھا، اس لئے چوہدری ہشمت کے مرنے کے بعد وہ کبھی کبھار ہی گاؤں آتا۔۔۔۔
زیادہ تر شیر باز ہی گاؤں میں رہتا۔۔۔۔ ان کے اپنے موج مستی تھی، ارصم کے ساتھ وہ سارا دن گزار کر بھی اسے واپسی پر ۔۔
تکلیف ہی ہوتی تھی کہ وہ ارصم شاہ کو اپنی جان سمجھتا تھا، ارصم شاہ نے اسکے بناہ بھی نہیں رہنا سیکھا تھا، وقت نےانہیں دو جسم اور ایک قالب بنا رکھا تھا۔۔ اب جب وہ وہاں نہیں تھا تو وہ اسے ڈھونڈنے ڈیرے پر پہنچ چکا تھا۔
۔۔۔جہاں وہ ٹیوب ویل کھلا چھوڑ جانے خود کہاں تھا
سلیمان شاہ اسی دن واپس جا چکا تھا اصل میں وہ قراۃلعین کو ڈھونڈنے یہاں تک پہنچا تھا، مگر راستے میں ڈاکوؤں کے ہتھے چڑھ گیا تھا جن سے مزاہمت کی وجہ سے اسے گولی کا نشانہ بننا پڑا۔۔۔۔ وہ تو شکر تھا کہ وہ گھر سے کچھ ہی دور تھا، جو اگر دور ہوتا تو بھاگ کر جان کیسے بچاتا۔
_____________
– قراۃالعین کو یہاں آئے ہویے دو دن گزر چکے تھے، مگر وہ جس کمرے میں لا کر بٹھا دیا گیا تھا وہاں سے ہلی بھی نہیں سوائے باتھ روم جانے کہ وہ واپس ادھر ہی پہنچ جاتی یہ دو کمروں پر مشتمل گھر تھا جس میں اسکی دوست اور شوہر اور دوسرے کمرےمیں قراۃالعین تھی ، وہ گھر سے نکل کر اپنی ایک سکول کی دوست کے گھر میں پناہ لیئے ہوئے تھی۔
– چاروں طرف اسکے بابا اور بھائیوں کے پالتو کتے اسے سونگھتے پھر رہے تھے مگر وہ جانتی تھی کہ وہ ادھر کبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔۔۔
– اسکی دوست ساجدہ کا کسی کو نہیں پتہ تھا۔۔۔۔ کیونکہ وہ خود آٹھویں پاس تھی کہ انکے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھانے کا رواج نہیں تھا۔۔۔ ساجدہ کی شادی پہ وہ اسے اس گھر کا پتہ دے کے آئی تھی۔
– آخر اسکی اکلوتی سہیلی تھی
– اس نے ابھی تک ساجدہ کا شوہر نہیں دیکھا تھا نہ ہی وہ سامنے آیا تھا۔۔۔۔ یہ سندھ کا کوئی گوٹھ تھا جہاں پردے کی بہت باقاعدگی کی جاتی تھی ، وہ خود بھی بہت ڈری سہمی ہوئی تھی۔۔
– اس کے ڈر نے اسے حسین سے حسین تر بنا دیا تھا۔۔۔۔ گہری نیلی آنکھوں میں حزن تیرتا ، ہلکا سانولہ سونے جیسا رنگ جس پہ ہونٹوں کی کاٹ ایسی کے کمان کو بھی مات دیتی ہو۔۔۔۔ وہ ہر وقت سیاہ چادر میں خود کو لپیٹ کر رکھتی ۔۔۔۔ ہمہ وقت اسکا دل چڑیا کی طرح کانپتا تھا جس کے پیچھے بہت بڑا شکاری لگا ہو۔۔۔ اور اب اسکے پیچھے بھی تو شکاری لگے تھے جن سے اسے خود کو بچانا تھا۔
ارصم شاہ صبح سے نکلا ہوا تھا شام ہو چکی تھی مگر ابھی تک اسکی واپسی نہیں ہوءی تھی، آمن شاہ جلے پیر کی بلی کی مانند یہاں سے وہاں پھر رہی تھی مگر دروازے پر نظریں ہمہ وقت جمی ہوئی تھیں، وہ شام کا کھانا تک کھا چکے تھے، اتنی دیر تو کبھی نہیں لگی اسےنا ہی اتنا لاپرواہ تھا وہ۔۔
آمن شاہ بیٹے آ جائے گا۔۔۔۔ منصور شاہ نے اسے تسلی دی۔۔۔
نہیں بابا ۔۔
اتنی دیر کبھی کی نہیں نا۔۔۔۔ تو پریشانی ہو رہی ہے۔۔۔
ابھی اسکے منہ میں تھی یہ بات کہ باہر سے ایک ہنگامہ برپا ہو گیا، بھگدڑ مچ گئی تھی۔۔۔۔تبھی منصور شاہ باہر کو لپکے۔۔۔
رابعہ شاہ ہولتی ہوئی ان کے پیچھے گئیں ، تبھی آرمی کی طرف سے انہیں جگہ خالی کرنے کا عندیہ دیا جا رہا تھا۔۔۔۔ کہ بارشوں کے پانی نے گاؤں کے نالے کا بند توڑ دیا تھا جسکی وجہ سے انہیں دس منٹ میں جگہ چھوڑ دینے کو بولا جا رہا تھا۔۔
آمن حلدی کرو،
منصور شاہ کے ہاتھ پاؤں پھول رہے تھے ۔۔
وہ آمن شاہ کو آوازیں دے رہے تھے جو خود تھر تھر کانپ رہی تھی۔۔
رابعہ شاہ نے کافی چیزیں سنبھال لی تھیں پہلے ہی ۔۔۔ اس لئے باقی ماندہ سامان ایک کمرےمیں بند کر وہ وہاں سے نکلنے کی تیاری کر رہے تھے ۔۔۔
جبکہ آمن شاہ کو اپنے بھائی کا انتظار تھا جو ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔
بابا ارصم ابھی واپس نہیں آیا۔۔۔
ہم کیسے جا سکتے یہاں سے۔۔۔۔ بیٹے ارصم جہاں کہیں بھی ہوا ہم تک پہنچ جائے گا تم پریشان مت ہو چلو یہاں سے۔۔۔۔
منصور شاہ نے پلٹ ایک نظر گھر کو دیکھا اور وہاں سے نکل گئے۔
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...