(Last Updated On: )
صبا اکبر آبادی
شبِ غم اور جگمگاتا شہر
ہے اندھیرے پہ روشنی کا قہر
دل میں اُٹھنے لگی ہے درد کی لہر
اس نظر نے پلا دیا کیا زہر
اے زمیں تیری خاکساری سے
کیا بدل جائے گا مزاجِ سپہر
اُس نظر میں سُرور کی موجیں
جیسے بہتی ہوئی شراب کی نہر
ڈر یہ ہے بندگانِ دنیا پر
کہیں نازل نہ ہو خدا کا قہر
کیا کریں اب تصوّر جنت
ہے بہت دلفریب جلوۂ دہر
ایک دیوانے کے نہ ہونے سے
کتنا ویران ہوگیا ہے شہر
دل میں خنجر اُتر گیا اُس کا
اب کہاں رک سکے گی خون کی لہر
گھر سے نکلے تو غم نہیں ہے صباؔ
کس کا ویرانہ اور کیسا شہر