انتظار حسین(لاہور)
(اکتوبر 2000ء میں رائٹرز فورم کینیڈا نے ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔تب انتظار حسین نے اس تقریب میں جو خطبہ د یا تھا وہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ممکن ہے یہ خطاب کہیں اور بھی چھپ چکا ہو۔تاہم فورم کے سیکریٹری کو حال ہی میں اپنے ریکارڈ میں سے یہ خطاب ملا ہے جو انہوں نے اپنے فورم کے ممبرز کو جاری کیا ہے۔بہت سے قارئین کے لئے یہ خطاب نیا ہوگا۔اس لئے یاہو رائٹرز فورم کے شکریہ کے ساتھ یہ خطاب یہاں دیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔حیدر قریشی۔)
سب سے پہلے تو مجھے رائٹرز فورم کے منتظمین کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ انہوں نے مجھ ایسے گرے پڑے لکھنے والے کو یاد کیا اور اس دیارِ غیر میں بلا کر مجھے عزت بخشی کہ میں آپ سے ہم کلام ہوں۔ ورنہ من آنم کہ من دانم ۔ یعنی مجھے خوب پتہ ہے کہ میں کتنے پانی میں ہوں۔
آپ سے کیا چھپاؤں ،سچی بات یہ ہے کہ میں بس ایک کہانیاں لکھنے والا ہوں ۔ اس سے زیادہ اور اس کے سوا کچھ نہیں ہوں۔ یوں سمجھیے کہ میرے حساب میں نہ تو قوم و ملک یا عوام کی کا خدمت کا کوئی کارنامہ ہے نہ اسلامی جذبے کا کوئی قابلِ ذکر مظاہرہ مجھ سے منسوب ہے، نہ مجھے اردو زبان و ادب کی خدمت کا دعویٰ ہے۔ میرے نا مۂ اعمال میں بس یکمشت اچھی بری کہانیا ں ہیں۔ یہی کہانیاں مجھے بخشوائیں تو بخشوائیں، باقی تو میرے پاس بخشش کا کوئی سامان نہیں ہے۔
مگر میں آپ کے سامنے یہ وضاحت کیوں کر رہا ہوں۔ اگر میں میروغالب کے زمانے میں پیدا ہوا ہوتا تو مجھے اس معذرت کی ضرورت مطلق پیش نہ آتی۔ میر اور غالب صرف اور محض شاعر تھے۔ اپنی اسی حیثیت پر انہیں غرّہ تھا۔ ان کے پڑھنے اور سننے والوں کا بھی ان سے بس شاعری ہی کی حد تک تقاضا تھا۔ مگر ہمارے زمانے کے آتے آتے لکھنے والے سے یار و اغیار کے تقاضے بہت بڑھ گئے ہیں۔ صرف اور محض شعر یا افسانہ لکھنے کو کافی نہیں سمجھا جاتا۔ ان کے تقاضوں کے پیشِ نظر لکھنے والوں کو یہ بتانا پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادب کے ذریعہ کون کونسی قومی ، سماجی، اور عوامی خدمات انجام دی ہیں۔
بلکہ ابھی پچھلے دنوں یہ ہوا کہ میرے ایک ہمعصر افسانہ نگار نے جو کل تک ایک انقلابی کی حیثیت سے جانا جاتا تھا اور مجھے رجعت پسندی کے طعنے دیا کرتا تھا اچانک نظامِ محمدی کا نعرہ بلند کیا اور پاکستان کی فلاح کا یہ نسخہ تجویز کرتے کرتے ایک مذہبی پارٹی میں شامل ہو گیا۔ اور یہ واقعہ ایسے وقت میں ہوا جب مجھے اس کی مارکسیت ،طالبان کے اسلام کے مقابلہ میں غنیمت نظر آتی تھی۔ اب میں سخت سٹ پٹایا ہوا ہوں کہ ’ میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہو گیا‘۔
مگر ایک بات سے انکار ممکن نہیں ہے۔ وہ یہ کہ اس زمانے میں ادیبوں کی قدر بہت ہوئی ہے۔ ادیبوں کے ساتھ شامیں منائی جاتی ہیں۔ ان کے اعزاز میں تقریبات ہوتی ہیں، جشن منانے کے اہتمام ہوتے ہیں، سات سمندر پار سے بلاوے آتے ہیں۔ تمغے اور انعامات ملتے ہیں۔ اخباروں میں ان کے بیانات اور تصویریں شایع ہوتی ہیں۔ ٹی وی پر انٹر ویو ہوتے ہیں۔ اور ماس میڈیا نے تو پاکستان میں فروغ پانے کے ساتھ ساتھ ادیبوں کو اتنی اہمیت دی ہے کہ وہ شو بزنس کا حصہ بن چکے ہیں۔ اوروں کی نہیں، آپ بیتی سناتا ہوں۔ ایک بہت اسمارٹ سرو قد لڑکی مجھ سے آکر ملی ۔ کراچی کے ایک فیشن میگزین کا حوالہ دیا اور کہا کہ میں اس کے لیے آپ کا انٹرویو لینے آئی ہوں۔ میں نے اسے سر سے پیر تک دیکھا ، اس کے لب و لہجہ پر غور کیا اور پھر ایک شک کے ساتھ پوچھا ،’ آپ نے اردو میں کن کن لکھنے والوں کو زیادہ شوق سے پڑھا ہے‘۔ بے تکلف بولی ’ میں تو اردو لٹریچر سے زیادہ واقف نہیں ہوں‘۔ ’ تو پھر آپ نے میری کہانیاں بھی نہیں پڑھیں ہوں گی۔ پھر آپ میرا انٹرویو کیسے کریں گی‘۔
کہنے لگی ،’ میں تو کراچی سے آ رہی ہوں۔ میری باس نے مجھے انسٹرکٹ کیا ہے کہ انتظار حسین کاانٹرویو لے کر آؤ۔ تو آپ ہی مجھے گائڈ کریں‘۔ کوئی نوجوان ہوتا تو میرا رویہ شاید مختلف ہوتا۔ بس اسے میری کمزوری سمجھیے کہ میں نے اسے سچ مچ گائڈ کیا۔ بس یوں سمجھو کہ اس نے انٹرویو کم لیا، میں نے انٹرویو زیادہ دیا۔
وہ میگزین بہت اہتمام سے مجھے بھیجا گیا ۔ چکنے کاغذ پر چھپا تھا۔ مختلف زاویوں سے میری رنگین تصویریں انٹرویو کی زینت تھیں۔ میں نے وہ انٹرویو پڑھنا شروع کیا جہاں میں نے کرشن چندر کا حوالہ دیا تھا وہاں کرشن لال لکھا ہوا تھا۔ پھر اس سے آگے مجھے پڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی۔
ابھی پچھلے دنوں ایک اخبار کی طرف سے میرا انٹرویو لیا جارہا تھا۔ فوٹو گرافر کھٹا کھٹ میری تصویریں بناتا رہا۔ میں نے انٹر ویو لینے والے دوست سے کہا ،’آپ کو ایک تصویر شایع کرنی ہے۔ اتنی تصویریں کیوں بنا رہے ہیں‘۔ بولا ’ نہیں جی ، یہ سب تصویریں شایع ہونی ہیں‘۔ میں نے حیرت سے کہا ’ اچھا میری اتنی تصویریں شایع ہوں گی ۔ مگر میرا افسانہ؟‘ اس پر وہ چپ ہو گیا۔ اسے چپ ہونا ہی چاہیے تھا۔
ادیب کی شخصیت تو ماس میڈیا کے کام آسکتی ہے۔ ادب ماس میڈیا کے کام کی چیز نہیں ہے۔ اور کم بخت افسانہ تو ایسی صنف ہے کہ اس کا ماس میڈیا کے ساتھ سمجھوتا ہو ہی نہیں سکتا۔ ویسے شاعری کا بھی کسی حد تک سمجھوتا ہو سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ مشاعرے والی غزل یا مہدی حسن اور اقبال بانو کی گائی ہوئی فیض کی نظموں کی حد تک سمجھوتا ہو سکتا ہے۔ راشد اور میرا جی والی شاعری کی ماس میڈیا میں کہاں کھپت ہو سکتی ہے۔
ادب اپنی قدر دانی کے لیے جس رویہ کا تقاضا کرتا ہے اس سے تو پورا پاکستانی معاشرہ محروم ہے۔ باقی ماس میڈیا کی تواپنی ہی مجبوریا ں ہیں۔ پھر جیسا کہ میں نے عرض کیاکہ ادیب تو شو بزنس کا حصہ بن سکتا ہے، ادب نہیں بن سکتا۔ بس یہی کچھ دیکھ کر مجھے گمان ہونے لگا ہے کہ ہمارا زمانہ ادیب کو پروجیکٹ کر رہا ہے ، اور ادب کو پیچھے دھکیل رہا ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ ہمارے زمانے میں ادیبوں کی قدر تو بہت ہو رہی ہے، مگر ادب کی قدر جاتی رہی۔
میں نے لکھنے والے کی حیثیت سے ایسے زمانے میں ہوش سنبھالا جب ادیب کی قدر دانی واجبی واجبی تھی۔ اخبار نکلتے تھے، مگر ان میں نہ ادیبوں کے انٹر ویو شایع ہوتے تھے، نہ ان کی تصویریں ۔ بس وقتاً فوقتاً کسی شعر کسی افسانے کے مجموعہ پر تبصرہ شایع ہو جاتا تھا۔ یا ہفتہ وار ایڈیشن میں کوئی غزل کوئی نظم شایع ہو جاتی تھی۔ یہ ایسا زمانہ تھا جب پرائڈ آف پرفارمنس نام کی کوئی چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ یہ کہ ادیب کو کوئی ایوارڈ یا تمغہ ملنا چاہیے،اس حسرت سے ادیب ابھی نا آشنا تھے۔ کتابوں کی افتتاحی تقریبیں نہیں ہوا کرتی تھیں۔ جب منٹو صاحب کا مجموعہ ’ سیاہ حاشیے ‘، شایع ہوا تو اس نے بہت ہنگامہ پیدا کیا۔ اس کے خلاف اور حق میں بہت کچھ کہا گیا۔ مگر اس کی کوئی افتتاحی تقریب نہیں ہوئی۔ اور چونکہ کتابوں کی افتتاحی تقریبیں نہیں ہوتی تھیں اس لیے کسی وزیر کسی امیر کو مہمان خصوصی بن کر ادیبوں کے درمیان آنے کا موقع میسّر نہیں آتا تھا۔ نہ یہ بتانے کا موقع ملتا تھا کہ ادیبوں کو کیسا ادب پیدا کرنا چاہیے۔ اس موضوع پر ادیب آپس ہی میں بحثیں اور سر پھٹول کرتے رہتے تھے۔ ترقی پسند تحریک ایک طرف، جدیدیت والے دوسری طرف۔ پھر ایک مورچہ روایت پسندوں کا۔ ان کے بیچ کیسی کیسی بحثیں گرم ہوئیں۔ پاکستان بننے کے بعد عسکری صاحب نے پاکستانی ادب کا سوال کھڑا کر دیا۔ لیجیے ایک نئینظریاتی بحث شروع ہو گئی۔
یہ بحثیں ٹھنڈی ہوئیں تو ادیبوں کو ایک نئے مسئلہ نے آلیا۔پاکستان کی تاریخ کہاں سے شروع ہوتی ہے، موہنجو ڈارو اورہڑپّاسے یا محمد بن قاسم کی آمد سے۔ اس بحث کا زورٹوٹا تو علامتی اور تجریدی افسانے پر بحثیں شروع ہو گئیں۔ ابھی اس بحث سے ہم فارغ نہ ہوئے تھے کہ یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ نثری نظم شاعری بھی ہے یا نہیں۔ لیجیے ایک نئی لڑائی شروع ہو گئی۔
اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِآرزو۔ ادبی تنازعوں کی اس ساری تاریخ کو اب میں ایک نوسٹلجیائی احساس کے ساتھ یاد کرتا ہوں۔ ان کو بھی یاد کرتا ہوں جو مجھے رجعت پسند ٹہرا کر مجھ پر یلغار کرتے تھے۔ اب میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کس سے لڑوں۔ جن سے لڑائی ٹھنی رہتی تھی ان میں سے کچھ اللہ کو پیارے ہو گئے، کچھ مارکسیت سے تائب ہو کر مشرف بہ اسلام ہو گئے اور محب وطن بن گئے۔
ادب میں لڑائیاں تو بہرحال ہوتی رہنی چاہئیں۔ امن و آشتی ہر معاشرے کی ضرورت ہوتی ہے، اور پاکستانی معاشرہ کا تو اس وقت بحران ہی یہ ہے کہ اس سے یہ نعمت چھن گئی ہے۔ مگر ادب کے لیے امن و آشتی کوئی نیک فال نہیں ہے۔ ادب تو بحثوں اور تنازعوں کے بیچ ہی پنپتا اور پروان چڑھتا ہے۔ مگر اب تو یہ لگتا ہے کہ جیسے ادیبوں نے سارے نظریاتی جھگڑوں اور ادبی تنازعات کو کوئی جامع حل تلاش کر لیا ہے۔اگر کوئی وجہ نزاع باقی رہ گئی ہے تو یہ کہ کس ادیب کو انعام ملنا چاہیے تھا اور کس کو نہیں ملنا چاہیے تھا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت پاکستان میں سو سے زیادہ سیاسی پارٹیاں ہیں۔ مگر کوئی سیاسی پارٹی اب کسی نظریہ یا منشور کے حوالے سے نہیں پہچانی جاتی۔ اور مجھے اس خیال سے خوف آتا ہے کہ کہیں پاکستان میں دنیائے ادب کی بھی تو یہی شکل نہیں نکل آئے گی۔
لیجیے کیا بات یاد آئی۔ میر کو رکتے رکتے جنوں ہو گیا ۔ اور پھر یہ صورت پیدا ہوئی کہ
نظر آئی شکل ایک مہتاب میں کمی آئی جس سے خور و خواب میں
اور ایک شاعر کو تو میں نے اپنی ان آنکھوں سے دیکھا کہ رات رات بھر لاہور کی گلیوں میں گھومتا پھرتا تھا۔ چاند کی بہت باتیں کرتا تھا۔ اسے بھی مہتاب میں کوئی شکل نظر آئی تھی۔ یہ تو میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا ۔ مگر ایسے شعر اس کے مہتابی اضطراب کی ضرور غمازی کرتے ہیں
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر چاند کس شہر میں اترا ہوگا
پتہ نہیں یہ کس قسم کا اضطراب تھا۔ شاید اس قسم کا جسے انگریزی شعریات میں Divine Discontent سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ہمارے یہاں میر سے میرا جی تک اور میرا جی سے ناصر کاظمی تک کی روایت میں جا بجا الوہی اضطراب ہی کی لہر نظر آتی ہے۔ اب یہ لہر کہاں گم ہو گئی۔ یہی تو ادب میں جوت جگاتی ہے۔ ورنہ آپ دفتر لکھ ڈالیے ، شاعری میں قافیہ پیمائی کرتے رہیے ، یا نئی شاعری کے نام پر قافیہ شکنی پر اتر آیئے، کیا فرق پڑتا ہے۔ ساری مایا تو اسی الوہی اضطراب کی ہے گر یہ نہیں تو بابا پھر سب کہانیاں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شوق جو سود یا زیاں کے تھے سلسلے وہم اور گماں کے تھے
داستاں گو کی ذات سے ابھرے جتنے کردار داستاں کے تھے
(حیدر قریشی)