آسمان سے آتی چاند کی تیز روشنی اس کے کسی کام کی نہیں تھی سوائے اس کے کہ وہ گلی میں قطار بنائے مکانوں کے بند دروازے گن سکتی، اس کے لیے یہ چاند اپنی کشش کھو چکا تھا۔ یا شاید وہ اپنی کشش چاند کے لیے کھو چکی تھی۔ اس نے گھروں کے بند دروازے گنے۔ ایک۔ دو۔ تین۔ چار۔ اور پانچواں اس کا اپنا دروازہ۔
اس بند دروازے کے پیچھے واقع اکلوتے کمرے میں اس کی بیٹی اپنے شوہر کا دل خوش کرنے میں مگن تھی۔
تم جلدی کر لو ناں۔۔۔ آج سردی بہت ہے اور بوڑھی ماں باہر گلی میں بیٹھی ہے۔۔۔ اس نے تصور میں اپنی بیٹی کی سرگوشی سنی اور مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔
یقیناً وہ یہی کہہ رہی ہو گی۔ اس نے خود سے کہا۔ دنیا میں میرا خیال کرنے والا کوئی بچا ہے تو یہی ایک بیٹی ہے، بیٹے تو سارے شادی کر کے رخصت ہو گئے اور جاتے جاتے اس کا بڑا سا گھر بھی بیچ گئے۔۔۔
اماں تو اتنے بڑے گھر میں کیا کرے گی، تیرے لیے تو ایک کمرا ہی کافی ہے، گھر بیچنے سے ابا کی روح کو کچھ نہیں ہو گا تو ایسے ہی ان کے بارے میں فضول فکرمند ہوتی ہے۔۔۔ لڑکے اسے جھڑک دیتے۔۔۔ آخر کار گھر بک گیا۔۔ بیٹے ایک چھوٹا سا کمرا اس کے لیے چھوڑ گئے۔۔۔۔
آسمان پر چاند چمک رہا تھا اس کے برعکس بڑھیا کی آنکھیں بجھی بجھی تھیں جن میں رومانس کی کوئی ایک جھلک بھی نہیں تھی مگر اندر کمرے میں دو جوان جسم ایک بے حد رومان پرور ماحول میں بے حد گہری گہری سانسیں لے رہے تھے
تمہاری نوکری بہت بری ہے، کئی کئی ہفتے تم گھر نہیں آتے، بچے کتنا یاد کرتے ہیں تمہیں۔۔۔ جوان عورت نے اپنا آپ حوالے کر دینے کے بعد شکووں کی پٹاری کھول لی۔۔
مرد بولا۔ اچھا ہے کہ میں گھر سے دور رہتا ہوں، یہ ایک ہی کمرا ہے جس میں تم اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہو، میرے آنے سے انہیں پریشانی ہوتی ہے، دیکھ لو اتنی سردی میں بھی وہ باہر گلی میں بیٹھنے پر مجبور ہیں۔۔۔
تو کیا ہوا۔ ابھی تھوڑی دیر بعد ہم انہیں اندر بلا لیں گے۔۔۔ عورت نے جواب دیا۔ کیا کریں مجبوری ہے۔۔۔ جب تک قرضہ ادا نہیں ہو جاتا ہمیں اسی طرح گزارا کرنا پڑے گا۔
اس وقت قرضے کی یاد مت دلاؤ۔ مرد نے ناگواری سے کہا اور عورت کو بھینچ لیا۔
آسمان پر چاند اور زمین پر بڑھیا سردی سے تھر تھر کانپنے لگے تھے، آج وہ اپنی گرم شال اوڑھنا بھول گئی تھی، وہ شال کئی برس پہلے اس کا شوہر ایک مہنگی مارکیٹ سے لایا تھا
یہ شال وہ واحد چیز تھی جسے اس کے بوڑھے شوہر نے، , تحفہ,, کہہ کر اسے پیش کیا تھا۔ شاید اس لفظ سے وہ پہلے واقف نہیں تھا اس نے ضرور کسی کو تحفہ دیتے ہوئے دیکھا ہو گا اور تب اس نے سوچا ہو گا کہ وہ بھی اپنی بیوی کو کچھ دے گا۔ پوری زندگی گزر جانے کے بعد صرف ایک تحفہ۔۔ مگر پھر بھی اس تحفے کو پانے کے بعد اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہیں رہا تھا۔ یوں جیسے اس کے جینے کا کوئی مقصد تھا تو وہ اس میں کامیاب ہو چکی تھی۔۔ وہ تحفہ۔۔ ایک اعتراف تھا۔۔۔ ایک دلی اعتراف اس کی خدمات کے عوض۔۔۔ ایک قیمتی انعام تھا۔ لاکھوں کروڑوں کا انعام۔ وہ تحفہ بتا رہا تھا کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہے۔ ان دونوں نے اچھی یا بری جیسی بھی زندگی گزاری تھی مگر بہر حال آخری عمر میں ایک دوسرے سے خوش تھے اور یہ سب سے اچھی بات تھی۔۔
چاند چمک رہا تھا مگر اس کی چاندنی اب بڑھیا کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتی تھی اور شاید بڑھیا بھی اپنی ذات میں بے معنی ہو چکی تھی۔۔
اپنے شوہر کے انتقال کے بعد پتہ نہیں میں کیوں زندہ ہوں۔۔۔ اس نے اداسی سے سوچا پھر اسے سہاگ رات سے اب تک کے سارے واقعات ایک ایک کر کے یاد آنے لگے۔۔۔
کمرے کی دیواریں یخ بستہ ہواؤں کے سامنے سینہ تانے کھڑی تھیں یہی وجہ تھی کہ اندر دو جسم بے لباس ہونے کے باوجود بے پرواہ تھے۔
قرضہ ادا ہوتے ہی ہم کم از کم تین کمروں کا گھر کرائے پر لیں گے۔۔۔ مرد نے مستقبل کے سنہرے خواب دیکھتے ہوئے کہا
کیوں؟ تین کمرے کیوں؟ عورت نے حیرانی سے پوچھا
ایک کمرے میں ہم سوئیں گے دوسرے میں بچے اور تیسرے کمرے میں تمہاری بوڑھی ماں۔۔
کیا تم واقعی ایسا سوچ رہے ہو؟ عورت نے خوش ہوتے ہوئے پوچھا
ہاں۔۔۔ مجھے ترس آتا ہے ان پر۔ اس نے کہا۔ کتنی محنت و مشقت سے انہوں نے اپنی اولاد کو پال پوس کر بڑا کیا مگر آج ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں سوچو اگر ہماری اولاد نے بھی ایسا کیا تو کیا ہو گا۔۔۔۔
اچانک کمرے کا رومانی ماحول تفکرات سے اٹ گیا۔۔ اس کی بیوی نے بے چین ہو کر شوہر کے سینے سے سر اٹھایا اور تب اسے کھونٹی پر ٹنگی ہوئی ماں کی شال نظر آئی۔۔
ہائے اللہ! وہ چونکی۔ یہ کیا۔ اماں شال کے بغیر ہی باہر بیٹھی ہے، وہ بڑبڑائی۔۔۔
اس کے شوہر نے بھی شال کی طرف دیکھا اور جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ماں کو جلدی سے اندر بلاؤ۔ اس نے کپڑے پہنتے ہوئے کہا
تھوڑی دیر بعد دو گھبرائی آنکھوں اور ایک انعام میں ملی شال کے ساتھ عورت نے دروازہ کھولا
ماں اندر آ جاؤ۔۔۔۔ اس نے پکار کر کہا۔ یہ لو اپنی شال۔
بڑھیا نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ آگے بڑھی
ماں چلو۔۔ اس نے کاندھا ہلایا۔ مگر بڑھیا ایک طرف لڑھک گئی۔۔۔۔
وہ مر چکی تھی۔
٭٭٭
جب قانون موجود نہ ہو۔۔۔۔ ایک حیرت انگیز سچا واقعہ
یہ 1 نومبر 1955 کی بات ہے کہ جان گلبرٹ گراہم نامی ایک امریکی شہری کہ جس کا اس کی...