عنبر شمیم(کولکاتا)
’’شاد عارفی-ایک مطالعہ‘‘ ۴۲۴؍صفحات پر مشتمل ایک ادبی دستاویز ہے جس کے مرتب پروفیسر مظفر حنفی ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی اردو کے ایک صاحبِ طرز و منفرد شاعر اور بلند پایہ نقاد ہیں اور ان کی اب تک کم و بیش ۵۰؍کتابیں منظرِ عام پر آچکی ہیں۔ انھوں نے تقریباً ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے اور اردو دنیا میں اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ایک مقام بنایا ہے۔
اس کتاب کی شکل میں شاد عارفی سے متعلق اردو کے ممتاز شعراء ، ادباء اور ناقدینِ ادب کی تحریروں کا ایک حسین اور معنی خیز گلدستہ پیش کیا گیا ہے۔ اس مجموعے کے حصۂ اول میں شاد صاحب کے فن اور شخصیت پر مضامین، نقد پارے اور مشاہیرِ ادب کی تحریروں سے اقتباسات شائع کیے گئے ہیں۔ کتاب کا دوسرا حصہ باقیاتِ شاد عارفی پر مشتمل ہے۔ قبل ازیں ڈاکٹر مظفر حنفی نے ’’کلیاتِ شاد عارفی‘‘ ’’ایک تھا شاعر‘‘ اور شاد عارفی-فن اور شخصیت‘‘ میں اپنے استاد کی شعری و نثری نگارشات یکجا کر کے شائع کی تھیں۔ تقریباً ۷۰؍صفحات پر مشتمل مکتوباتِ شاد کے علاوہ ان کے ۳؍مضامین، ۱۴؍نظمیں، ۷؍گیت، ۶۲؍رباعیات اور ۳۱؍غزلیں شامل ہیں۔ علاوہ ازیں کچھ متفرق اشعار بھی شائع کیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے یہ حصہ ایک دستاویزی حیثیت کا حامل ہوگیا ہے۔
شاد عارفی کی شخصیت اور فن پر مظفر حنفی کا مرتب کردہ مضامین کا پہلا مجموعہ ’’ایک تھا شاعر‘‘ ۱۹۶۷ء میں شائع ہوا تھا جس میں مرتب نے اس بات کا خیال رکھا تھا کہ شاد عارفی مرحوم اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جیسے کہ وہ اصلّا تھے ویسے کے ویسے کتابی شکل میں محفوظ ہو جائیں۔ پیش نظر کتاب ’’شاد عارفی․․․․․․․․ایک مطالعہ‘‘بھی اسی غیر جانبدارانہ اصول کے تحت ترتیب دی گئی ہے جس میں شاد صاحب کی بشری کمزوریوں کو قبول کرنے کے بعد ان کی اصل تصویر کو ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پروفیسر مظفر حنفی نے بجا طور پر اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ: ’’اس مجموعے میں شامل پروفیسر رشید احمد صدیقی، ڈاکٹر سلیم اختر، بلراج کومل اور چند دوسرے اہل قلم کی نگارشات یا شاد عارفی کی بعض تحریروں کو معروضیت کے اسی اصول کی روشنی میں دیکھا جائے کہ یہ بہر طور اس اہم فن کار کی اصل اور سچی تصویر پیش کرنے کی کوشش ہے۔‘‘
شاد عارفی اردو کے ایک صاحبِ طرز اور بے مثل طنز نگار تھے اور ان کا شعری و ادبی سرمایہ اردو زبان و ادب کے لیے ایک متاعِ بے بہا ہے۔ وہ ایک نڈر اور جرات مند شاعر تھے اور اپنے منفرد اندازِ سخن کے باعث اردو کے دیگر شاعروں میں ممتاز حیثیت کے حامل تھے عمیق حنفی کی زبان میں:
’’شاد عارفی رام پور کی روایت پسند مٹی سے برقِ غضبناک بن کر اٹھے اور آسمانِ سخن کے دامن بجلیوں سے بھر گئے۔ میں نے جب اردو شاعری کا مطالعہ سنجیدگی اور سوجھ بوجھ کے ساتھ شروع کیا تو یگانہ اور شاد عارفی نے مجھے اردو شاعری بالخصوص غزل کی شاعری میں جدت، بغاوت، تجربے اور ندرتِ ادا کے امکانات کا قائل کیا اور وہ غزل جو کوٹھوں ، خانقاہوں، درباروں اور بازاروں کی رونق تھی پہلی بار گھریلو مگر سوشل، حاضر دماغ، ذی فہم، ذی علم، ذہین اور باشعور خاتون نظر آئی۔‘‘
اس کتاب میں شامل بیشتر مضامین ان مشاہیر شعراء و ادباء کی نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر مرقوم ہوئے ہیں جن کی ادبی و تنقیدی حیثیتوں کی پوری اردو دنیا معترف ہے۔ حفیظ جالندھری، ضیا احمد بدایونی، میراجی، فرمان فتح پوری، اختر انصاری، بلراج کومل، آل احمد سرور، پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر محمد احسن فاروقی، ڈاکٹر خلیل الرحمان اعظمی وغیرہ کے مضامین شاد صاحب کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ بعض تحریریں جن کا نکتۂ نظر معروضی ہے ان میں بھی جہاں شاد صاحب کے خیالات سے اختلافات کے گوشے نکالے گئے ہیں وہیں ان کی علمیت اور شاعرانہ عظمت کا اعتراف بھی کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر شمس الرحمان فاروقی نے لکھا ہے: ’’شاد عارفی بہرحال ایک عہد ساز شاعر تھے۔ ان کے بعد آنے والے ہر شاعر اور علی الخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتسابِ فیض کیا ہے۔ زمانے نے ان کی خاطر خواہ قدرنہ کی۔‘‘
فاروقی آگے لکھتے ہیں:-
’’اردو شاعر کی یہ بدنصیبی ہے کہ جب تک وہ کسی سیاسی یا تہذیبی ادارہ سے منسلک نہ ہو، اس کی قدر شناسی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ شاد صاحب کو دونوں طرح کی محرومیاں ملیں۔ نہ گھر کے فارغ البال اور خوش و خرم اور نہ ادبی دنیا میں باقاعدہ اور حسبِ مرتبہ قدرومنزلت لیکن مجھے محسوس ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو ان کی شاعری میں یہ دم خم، یہ تیور اور یہ اکھڑپن نہ ہوتا۔‘‘
زیرِ نظر کتاب میں شامل شاد صاحب کے مضامین بھی دعوت فکر دیتے ہیں۔ خصوصاً ’’روایت اور انفرادی صلاحیت‘‘ ایک غور طلب مضمون ہے اور اس سے شاد صاحب کے منفرد نکتۂ نظر کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔ مکاتیب کا حصہ کافی وقیع ہے۔ بعض ایسے خطوط بے حد معلومات افروز ہیں جن میں ادبی و نظریاتی مسائل سے متعلق بحث کی گئی ہے۔
شاد عارفی نے نہایت کس مپرسی کے عالم میں زندگی گزاری اور انھیں حسبِ مرتبہ قدرومنزلت بھی نہیں ملی، اس کے باوجود یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ ایک خوش قسمت شاعر تھے جنھیں مظفر حنفی جیسا شاگرد مل گیا۔ غالب کے عہد میں غالب کو بھی حسبِ مرتبہ قدرومنزلت نہیں ملی تھی جس کے وہ حقدار تھے مگر حالیؔ نے ’’یادگارِ غالب‘‘ لکھ کر غالب کو امر کردیا۔ اس طرح پروفیسر مظفر حنفی لائقِ ستائش ہیں کہ انھوں نے حالی کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔